اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-02-01

بنو اسد کی شرارت اور سریہ ابو سلمہ محرم4 ہجری،بنولحیان کی شرارت اورسفیان کاقتل محرم4ہجری،کفار کی غدّاری اورواقعہ رجیع صفر4ہجری

سیرت خاتم النّبیینﷺ

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 بنو اسد کی شرارت اور سریہ ابو سلمہ محرم4 ہجری

جنگ اُحد میں جو ہزیمت مسلمانوں کو پہنچی اس نے قبائل عرب کو مسلمانوں کے خلاف سراٹھانے پرآگے سے بھی زیادہ دلیرکردیا۔چنانچہ ابھی جنگ اُحد پر زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا اورصحابہ ابھی اپنے زخموں کے علاج سے بھی پوری طرح فارغ نہ ہوئے تھے کہ محرم4ہجری میں اچانک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کومدینہ میں یہ اطلاع پہنچی کہ قبیلہ اسد کا رئیس طلیحہ بن خویلد اوراسکا بھائی سلمہ بن خویلد اپنے علاقہ کے لوگوں کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کرنے کیلئے آمادہ کررہے ہیں۔ اس خبر کے ملتے ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو اپنے ملک کے حالات کے ماتحت اس قسم کی خبروں کے خطرات کوخوب سمجھتے تھے فوراًڈیڑھ سوصحابیوںکا ایک تیز رودستہ تیار کر کے اس پر ابوسلمہ بن عبدالاسد کوامیر مقرر فرمایا اورانہیں تاکید کی کہ یلغار کرتے ہوئے پہنچیں اورپیشتر اسکے کہ بنواسد اپنی عداوت کوعملی جامہ پہنا سکیں انہیں منتشر کردیں۔چنانچہ ابوسلمہ نے تیزی مگرخاموشی کے ساتھ بڑھتے ہوئے وسط عرب کے مقام قطن میں بنو اسد کوجالیا،لیکن کوئی لڑائی نہیں ہوئی بلکہ بنو اسد کے لوگ مسلمانوں کودیکھتے ہی ادھرادھر منتشر ہوگئے اورابوسلمہ چنددن کی غیرحاضری کے بعد مدینہ میں واپس پہنچ گئے۔اس سفر کی غیر معمولی مشقت سے ابوسلمہ کاوہ زخم جوانہیں اُحد میں آیاتھا اور اب بظاہرمندمل ہوچکا تھا پھر خراب ہوگیا اورباوجود علاج معالجہ کے بگڑتا ہی گیا اور بالآخر اسی بیماری میں اس مخلص اورپرانے صحابی نے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی بھی تھے وفات پائی۔ بنو اسد کارئیس طلیحہ جس کا ذکراوپر کیا گیا ہے بعد میں مسلمان ہوگیا،لیکن پھر مرتد ہوگیا بلکہ نبوت کا جھوٹا مدعی بن کرفتنہ وفساد کاموجب بنا مگر بالآخر شکست کھاکر عرب سے بھاگ گیا اورپھر کچھ عرصہ کے بعد دوبارہ تائب ہوا اورآخر کئی اسلامی جنگوں میں حصہ لے کر اسلام پروفات پاگیا۔

نولحیان کی شرارت اورسفیان کاقتل محرم4ہجری

قریش کی اشتعال انگیزی اوراُحد میں مسلمانوں کی وقتی ہزیمت اب نہایت سرعت کے ساتھ اپنے خطرناک نتائج ظاہر کررہی تھی۔چنانچہ انہی ایام میں جن میں بنواسد نے مدینہ پرچھاپہ مارنے کی تیاری کی تھی،آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کواطلاع ملی کہ قبیلہ بنولحیان کے لوگ اپنے سردار سفیان بن خالد کی انگیخت پراپنے وطن عرنہ میں جو مکہ سے قریب ایک مقام تھا ایک بہت بڑا لشکر جمع کر رہے ہیں اوران کا ارادہ مدینہ پرحملہ آور ہونے کا ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو نہایت موقع شناس اورمختلف قبائل عرب کی حالت اوران کے رئوساء کی طاقت واثر سے خوب واقف تھے اس خبر کے موصول ہوتے ہی سمجھ لیا کہ یہ ساری شرارت اورفتنہ انگیزی بنولحیان کے رئیس سفیان بن خالد کی ہے اوراگراسکا وجوددرمیان میں نہ رہے تو بنولحیان مدینہ پرحملہ آور ہونے کی جرأت نہیں کرسکتے اوریہ بھی آپ جانتے تھے کہ سفیان کے بغیر اس قبیلہ میں فی الحال کوئی ایسا صاحب اثر شخص نہیں ہے جو اس قسم کی تحریک کا لیڈر بن سکے۔لہٰذا یہ خیال کرتے ہوئے کہ اگر بنولحیان کے خلاف کوئی فوجی دستہ روانہ کیا گیا توغریب مسلمانوں کے واسطے موجب تکلیف ہونے کے علاوہ ممکن ہے کہ یہ طریق ملک میں زیادہ کشت وخون کادروازہ کھول دے،آپؐنے یہ تجویز فرمائی کہ کوئی ایک شخص چلاجائے اورموقع پاکر اس فتنہ کے بانی مبانی اوراس شرارت کی جڑ سفیان بن خالد کوقتل کر دے۔چنانچہ آپؐنے اس غرض سے عبداللہ بن انیس انصاری کوروانہ فرمایا اورچونکہ عبداللہ نے کبھی سفیان کودیکھا نہیں تھا اس لئے آپؐنے خودان کو سفیان کاسارا حلیہ وغیرہ سمجھادیا اورآخر میں فرمایا کہ ہوشیار رہنا،سفیان ایک مجسم شیطان ہے۔چنانچہ عبداللہ بن انیس نہایت ہوشیاری کے ساتھ بنو لحیان کے کیمپ میں پہنچے(جو واقعی مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری میں بڑی سرگرمی سے مصروف تھے)اوررات کے وقت موقع پاکر سفیان کا خاتمہ کر دیا۔ بنولحیان کواس کاعلم ہوا تو انہوں نے عبداللہ کاتعاقب کیا مگر وہ چھپتے چھپاتے ہوئے بچ کرنکل آئے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے جب عبداللہ بن انیس آئے تو آپؐنے انکی شکل دیکھتے ہی پہچان لیا کہ وہ کامیاب ہوکرآئے ہیں۔ چنانچہ آپؐنے انہیں دیکھتے ہی فرمایا اَفْلَحَ الْوَجْہُیہ چہرہ توبامراد نظرآتا ہے۔عبداللہ نے عرض کیا اورکیا خوب عرض کیا ’’اَفْلَحَ وَجْھُکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ‘‘یارسول اللہ سب کامیابی آپؐکی ہے۔‘‘ اس وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کاعصا عبداللہ کوبطور انعام کے عطا فرمایا اورفرمایا’’یہ عصا تمہیں جنت میں ٹیک لگانے کاکام دے گا۔‘‘عبداللہ نے یہ مبارک عصا نہایت محبت واخلاص کے ساتھ اپنے پاس رکھا اورمرتے ہوئے وصیت کی کہ اسے ان کے ساتھ دفن کردیا وے۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس خوشی سے جسکا اظہار آپؐ نے عبد اللہ کی بامراد واپسی پر فرمایا اوراس انعام سے جوا نہیں غیر معمولی طور پر عطافرمایاپتہ لگتا ہے کہ آپؐسفیان بن خالد کی فتنہ انگیزی کونہایت خطرناک خیال فرماتے تھے اوراسکے قتل کو امن عامہ کیلئے ایک موجب رحمت سمجھتے تھے۔

کفار کی غدّاری اورواقعہ رجیع صفر4ہجری

یہ دن مسلمانوں کیلئے سخت خطرہ کے دن تھے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوچاروں طرف سے متوحش خبریں آرہی تھیں،لیکن سب سے زیادہ خطرہ آپ کو قریش مکہ کی طرف سے تھا جو جنگ اُحد کی وجہ سے بہت دلیر اور شوخ ہورہے تھے اس خطرہ کو محسوس کرکے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ماہ صفر4ہجری میں اپنے دس صحابیوں کی ایک پارٹی تیار کی اوران پر عاصم بن ثابت کوامیر مقرر فرمایا اوران کویہ حکم دیا کہ وہ خفیہ خفیہ مکہ کے قریب جاکر قریش کے حالات دریافت کریں اوران کی کارروائیوں اور ارادوں سے آپؐ کواطلاع دیں لیکن ابھی یہ پارٹی روانہ نہیں ہوئی تھی کہ قبائل عضل اورقارۃ کے چند لوگ آپؐ کی خدمت میں حاضرہوئے اورعرض کیا کہ ہمارے قبائل میں بہت سے آدمی اسلام کی طرف مائل ہیں آپؐچندآدمی ہمارے ساتھ روانہ فرمائیں جو ہمیں مسلمان بنائیں اوراسلام کی تعلیم دیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ان کی یہ خواہش معلوم کرکے خوش ہوئے اور وہی پارٹی جوخبررسانی کیلئے تیار کی گئی تھی ان کے ساتھ روانہ فرمادی لیکن دراصل جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا یہ لوگ جھوٹے تھے اوربنولحیان کی انگیخت پر مدینہ میں آئے تھے جنہوں نے اپنے رئیس سفیان بن خالد کے قتل کابدلہ لینے کیلئے یہ چال چلی تھی کہ اس بہانہ سے مسلمان مدینہ سے نکلیں تو ان پر حملہ کردیا جاوے اور بنو لحیان نے اس خدمت کے معاوضہ میں عضل اورقارہ کے لوگوں کیلئے بہت سے اونٹ انعام کے طور پر مقرر کئے تھے۔ جب عضل اورقارۃ کے یہ غدار لوگ عسفان اورمکہ کے درمیان پہنچے تو انہوں نے بنو لحیان کوخفیہ خفیہ اطلاع بھجوادی کہ مسلمان ہمارے ساتھ آرہے ہیںتم آجائو۔جس پر قبیلہ بنو لحیان کے دوسو نوجوان جن میں سے ایک سو تیر انداز تھے مسلمانوں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اور مقام رجیع میں ان کو آدبایا۔ دس آدمی دوسوسپاہیوں کاکیا مقابلہ کرسکتے تھے، لیکن مسلمانوں کو ہتھیار ڈالنے کی تعلیم نہیں دی گئی تھی۔فوراً یہ صحابی ایک قریب کے ٹیلہ پر چڑھ کرمقابلہ کے واسطے تیار ہوگئے۔کفار نے جن کے نزدیک دھوکا دینا کوئی معیوب فعل نہیں تھا ان کو آواز دی کہ تم پہاڑی پرسے نیچے اترآئو ہم تم سے پختہ عہد کرتے ہیں کہ تمہیں قتل نہیں کریں گے۔عاصم نے جواب دیا کہ’’ہمیں تمہارے عہدوپیمان کاکوئی اعتبار نہیں ہے ہم تمہاری اس ذمہ داری پر نہیں اترسکتے۔‘‘اورپھر آسمان کی طرف منہ اٹھا کرکہا۔ ’’اے خدا!توہماری حالت کو دیکھ رہا ہے۔ اپنے رسول کوہماری اس حالت سے اطلاع پہنچا دے۔‘‘غرض عاصم اوراسکے ساتھیوں نے مقابلہ کیا بالآخر لڑتے لڑتے شہید ہوئے۔
جب سات صحابہ مارے گئے اورصرف خبیب بن عدی اورزید بن دثنہ اورایک اور صحابی باقی رہ گئے توکفار نے جن کی اصل خواہش ان لوگوں کوزندہ پکڑنے کی تھی پھرآواز دے کر کہا کہ اب بھی نیچے اتر آئو۔ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچائیں گے۔اب کی دفعہ یہ سادہ لوح مسلمان ان کے پھندے میں آکر نیچے آتر آئے،مگرنیچے اترتے ہی کفار نے ان کواپنی تیر کمانوں کی تندیوں سے جکڑ کرباندھ لیا۔اوراس پر خبیب اور زید کے ساتھی سے جن کا نام تاریخ میں عبداللہ بن طارق مذکور ہواہے صبر نہ ہوسکا اورانہوں نے پکار کر کہا۔’’یہ تمہاری پہلی بدعہدی ہے۔‘‘اورنہ معلوم تم آگے چل کر کیا کرو گے اورعبداللہ نے ان کے ساتھ چلنے سے انکار کردیا۔جس پر کفار تھوڑی دور تک تو عبداللہ کوگھسیٹتے ہوئے اور زدوکوب کرتے ہوئے لے گئے اورپھرانہیں قتل کرکے وہیں پھینک دیا اور چونکہ اب ان کا انتقام پوراہوچکا تھا۔وہ قریش کو خوش کرنے کیلئے نیز روپے کی لالچ سے خبیب اورزید کو ساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوگئے اوروہاں پہنچ کر انہیں قریش کے ہاتھ فروخت کردیا۔چنانچہ خبیب کوتو حارث بن عامر بن نوفل کے لڑکوں نے خرید لیاکیونکہ خبیب نے بدر کی جنگ میں حارث کو قتل کیا تھا اورزید کو صفوان بن امیہ نے خریدلیا۔
ابھی یہ دونوں صحابی قریش کے پاس غلامی کی حالت میں قید تھے کہ ایک دن خبیب نے حارث کی ایک لڑکی سے اپنی ضرورت کیلئے ایک استرا مانگا اوراس نے دے دیا۔جب یہ استرا خبیب کے ہاتھ میں تھا تو بنت حارث کا ایک خوردسالہ بچہ کھیلتاہواخبیب کے پاس آگیا اور خبیب نے اسے اپنی ران پر بٹھالیا۔ماں نے جب دیکھا کہ خبیب کے ہاتھ میں استرا ہے اورران پراسکا بچہ بیٹھا ہے تو وہ کانپ اٹھی اور اسکے چہرہ کا رنگ فق ہوگیا۔خبیب نے اسے دیکھا تو اسکے خوف کو سمجھتے ہوئے کہا ’’کیا تم یہ خیال کرتی ہو کہ میں اس بچے کو قتل کردوں گا؟یہ خیال نہ کرو۔میں انشاء اللہ ایسا نہیں کروں گا۔’’ماں کا کملایا ہوا چہرہ خبیب کے ان الفاظ سے شگفتہ ہوگیا۔یہ عورت خبیب کے اعلیٰ اخلاق سے اس قدرمتاثر تھی کہ وہ بعد میں ہمیشہ کہا کرتی کہ’’ میںنے خبیب کاسااچھا قیدی کوئی نہیں دیکھا۔‘‘ وہ یہ بھی کہا کرتی تھی کہ ’’میں نے ایک دفعہ خبیب کے ہاتھ میں ایک انگور کا خوشہ دیکھا تھا جس سے وہ انگور کے دانے توڑ توڑ کرکھاتا تھا۔ حالانکہ ان دنوں میں مکہ میں انگوروں کانام ونشان نہیں تھا اورخبیب آہنی زنجیروں میں جکڑا ہواتھا۔وہ کہتی تھی کہ میں سمجھتی ہوں کہ یہ خدائی رزق تھا جو خبیب کے پاس آتا تھا۔
مگر رئوسائے قریش کی قلبی عداوت کے سامنے رحم وانصاف کاجذبہ خارج از سوال تھا۔چنانچہ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ بنو الحارث کے لوگ اوردوسرے رئوساء قریش خبیب کو قتل کرنے اوراسکے قتل پر جشن منانے کیلئے اسے ایک کھلے میدان میں لے گئے۔خبیب نے شہادت کی بو پائی تو قریش سے الحاح کے ساتھ کہا کہ مرنے سے پہلے مجھے دورکعت نماز پڑھ لینے دو۔قریش نے جو غالباًاسلامی نماز کے منظر کو بھی اس تماشہ کاحصہ بنانا چاہتے تھے اجازت دے دی اورخبیب نے بڑی توجہ اورحضور قلب کے ساتھ دورکعت نماز ادا کی اورپھر نماز سے فارغ ہوکر قریش سے کہا کہ’’میرا دل چاہتا تھا کہ میں اپنی نماز کواور لمبا کروں،لیکن پھرمجھے یہ خیال آیا کہ کہیں تم لوگ یہ نہ سمجھو کہ میں موت کو پیچھے ڈالنے کیلئے نماز کو لمبا کر رہا ہوں۔‘‘اورپھر خبیب یہ اشعار پڑھتے ہوئے آگے جھک گئے۔

وَمَا اَنْ اُبَالِیْ حِیْنَ اُقْتَلُ مُسْلِمًا
عَلٰی اَیِّ شِقٍّ کَانَ لِلّٰہِ مَصْرَعِیْ
وَذَالِکَ فِیْ ذَاتِ الْاِ لٰہِ وَاِنْ یَشَاء
یُبَارِکْ عَلٰی اَوْصَالِ شَلْوٍ مُمَزَّعِ

یعنی’’جبکہ میں اسلام کی راہ میں اورمسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جارہا ہوں تو مجھے یہ پروا نہیں ہے کہ میں کس پہلو پرقتل ہوکر گروں۔یہ سب کچھ خدا کیلئے ہے اوراگر میرا خدا چاہے گا تو میرے جسم کے پارہ پارہ ٹکڑوں پر برکات نازل فرمائے گا۔‘‘غالباً ابھی خبیب کی زبان پران اشعار کے آخری الفاظ گونج ہی رہے تھے کہ عقبہ بن حارث نے آگے بڑھ کر وار کیا اور یہ عاشق رسول ؐخاک پر تھا۔ دوسری روایت میں یہ ہے کہ قریش نے خبیب کوایک درخت کی شاخ سے لٹکا دیا تھا اورپھر نیزوں کی چوکیں دے دے کر قتل کیا۔اس مجمع میں ایک شخص سعید بن عامر بھی شریک تھا۔یہ شخص بعد میں مسلمان ہوگیااورحضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت تک اسکا یہ حال تھا کہ جب کبھی اسے خبیب کاواقعہ یاد آتا تھا تو اس پر غشی کی حالت طاری ہوجاتی تھی۔
دوسری طرف صفوان بن امیہ اپنے قیدی زید بن دثنہ کوساتھ لے کر حرم سے باہر گیا۔رئوساء قریش کا ایک مجمع ساتھ تھا۔باہر پہنچ کرصفوان نے اپنے غلام نسطاس کو حکم دیا کہ زید کو قتل کردو۔ نسطاس نے آگے بڑھ کر تلوار اٹھائی۔ اس وقت ابوسفیان بن حرب رئیس مکہ نے جو تماشائیوں میں موجود تھا آگے بڑھ کر زید سے کہا۔’’سچ کہو کیا تمہارا دل یہ نہیں چاہتا کہ اس وقت تمہاری جگہ ہمارے ہاتھوں میں محمدہوتا جسے ہم قتل کرتے اورتم بچ جاتے اوراپنے اہل وعیال میں خوشی کے دن گزارتے؟‘‘زید کی آنکھوں میں خون اترآیا اوروہ غصہ میں بولے۔’’ابوسفیان تم یہ کیا کہتے ہو۔خدا کی قسم میں تو یہ بھی نہیں پسند کرتا کہ میرے بچنے کے عوض رسول اللہ کے پائوں میں ایک کانٹا تک چبھے۔‘‘ ابوسفیان بے اختیار ہوکر بولا۔ ’’واللہ میں نے کسی شخص کو کسی شخص کے ساتھ ایسی محبت کرتے نہیں دیکھا جیسی کہ اصحاب محمدکو محمدسے ہے۔‘‘اس کے بعد نسطاس نے زید کو شہید کردیا۔
اسی واقعہ رجیع کی ضمن میں یہ روایت بھی آتی ہے کہ جب قریش مکہ کو یہ اطلاع ملی کہ جولوگ بنولحیان کے ہاتھ سے رجیع میں شہید ہوئے تھے ان میں عاصم بن ثابت بھی تھےتو چونکہ عاصم نے بدر کے موقع پرقریش کے ایک بڑے رئیس کوقتل کیا تھا ،اس لئے انہوں نے رجیع کی طرف خاص آدمی روانہ کئے اوران آدمیوں کوتاکید کی کہ عاصم کاسریا جسم کاکوئی عضو کاٹ کر اپنے ساتھ لائیں تاکہ انہیں تسلی ہو اوران کا جذبۂ انتقام تسکین پائے۔ایک اورروایت میں آتا ہے کہ جس شخص کوعاصم نے قتل کیا تھا اس کی ماں نے یہ نذر مانی تھی کہ وہ اپنے بیٹے کے قاتل کی کھوپڑی میں شراب ڈال کر پئے گی لیکن خدا ئی تصرف ایسا ہوا کہ یہ لوگ وہاں پہنچے توکیا دیکھتے ہیں کہ زنبوروں اورشہد کی نرمکھیوں کے جھنڈ کے جھنڈ عاصم کی لاش پر ڈیرہ ڈالے بیٹھے ہیں اورکسی طرح وہاں سے اٹھنے میں نہیں آتے۔ ان لوگوں نے بڑی کوشش کی کہ یہ زنبور اورمکھیاں وہاںسے اڑ جائیں مگر کوئی کوشش کامیاب نہ ہوئی۔ آخرمجبور ہوکر یہ لوگ خائب وخاسر واپس لوٹ گئے۔ اسکے بعد جلد ہی بارش کاایک طوفان آیا اور عاصم کی لاش کووہاں سے بہا کر کہیں کا کہیں لے گیا۔لکھا ہے کہ عاصم نے مسلمان ہونے پر یہ عہد کیا تھا کہ آئندہ وہ ہرقسم کی مشرکانہ چیز سے قطعی پرہیز کریں گے حتّٰی کہ مشرک کے ساتھ چھوئیں گے بھی نہیں۔ حضرت عمرؓکوجب ان کی شہادت اوراس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو کہنے لگے۔ ’’خدا بھی اپنے بندوں کے جذبات کی کتنی پاسداری فرماتا ہے موت کے بعد بھی اس نے عاصم کے عہد کوپورا کروایا اورمشرکین کے مس سے انہیں محفوظ رکھا۔
واقعہ رجیع کی خبر سے جو صدمہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپؐکے اصحاب کوپہنچ سکتا تھا وہ ظاہر ہے مگر پیشتر اس کے کہ یہ المناک خبرمدینہ میں پہنچتی ایک اور خطرناک واقعہ پیش آگیا۔ اس لئے قبل اسکے کہ ہم واقعہ رجیع کے متعلق کوئی تبصرہ کریں اس واقعہ کابیان کردینا ضروری ہے کیونکہ یہ دونوں واقعات ایک ہی نوعیت کے تھے اوران کی اطلاع بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوایک ہی وقت میں موصول ہوئی تھی۔ (باقی آئندہ)

(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ511تا 517،مطبوعہ قادیان2011)