اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-01-25

جنگ احد کے نتائج ، اسلامی قانون ورثہ، شراب کی حرمت

سیرت خاتم النّبیینﷺ

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

جنگ اُحد کے نتائج

مستقل نتائج کے لحاظ سے تو جنگ اُحد کوکوئی خاص اہمیت حاصل نہیں اوربدر کے مقابل میں یہ جنگ کوئی حیثیت نہیں رکھتی،لیکن وقتی طورپر ضرور اس جنگ نے مسلمانوں کوبعض لحاظ سے نقصان پہنچایا۔اول ان کے ستر آدمی اس جنگ میں شہید ہوئے جن میں سے بعض اکابر صحابہ میں سے تھے اور زخمیوں کی تعداد توبہت زیادہ تھی۔دوسرے مدینہ کے یہود اورمنافقین جو جنگ بدر کے نتیجہ میں کچھ مرعوب ہوگئے تھے اب کچھ دلیر ہوگئےبلکہ عبداللہ بن ابیّ اوراس کے ساتھیوں نے تو کھلم کھلا تمسخر اڑایا اورطعنے دیئے۔ تیسرے قریش مکہ کو بہت جرأت ہوگئی اورانہوں نے اپنے دل میں یہ سمجھ لیا کہ ہم نے نہ صرف بدر کا بدلہ اتار لیا ہے بلکہ آئندہ بھی جب کبھی جتھا بناکرحملہ کریں گے مسلمانوں کوزیر کرسکیں گے۔چوتھے عام قبائل عرب نے بھی اُحد کے بعد زیادہ جرأت سے سراٹھانا شروع کردیا۔ مگر باوجود ان نقصانات کے یہ ایک بین حقیقت ہے کہ جو نقصان قریش کو جنگ بدر نے پہنچایا تھاجنگ اُحد کی فتح اسکی تلافی نہیں کرسکتی تھی۔ جنگ بدر میں مکہ کے تمام وہ رئوساء جودرحقیقت قریش کی قومی زندگی کی روح تھے ہلاک ہوگئے تھے اورجیسا کہ قرآن شریف بیان کرتا ہے اس قوم کی صحیح معنوں میں جڑ کاٹ دی گئی تھی اوریہ سب کچھ ایک ایسی قوم کے ہاتھوں ہوا تھا جو ظاہری سامان کے لحاظ سے ان کے مقابلہ میں بالکل حقیر تھی۔اسکے مقابلہ میں بے شک مسلمانوں کو اُحد کے میدان میں نقصان پہنچا،لیکن وہ اس نقصان کے مقابلہ میں بالکل حقیر اورعارضی تھا جو بدر میں قریش کو پہنچا تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جواسلامی سوسائٹی کے مرکزی نقطہ تھے اور جوقریش کی معاندانہ کارروائیوں کا اصل نشانہ تھے خدا کے فضل سے زندہ موجود تھے۔اسکے علاوہ اکابر صحابہ بھی سوائے ایک دو کے سب کے سب سلامت تھے اورپھر مسلمانوں کی یہ ہزیمت ایسی فوج کے مقابلہ میں تھی جوان سے تعداد میں کئی گنے زیادہ اورسامان حرب میں کئی گنے مضبوط تھی۔پس مسلمانوں کیلئے بدر کی عظیم الشان فتح کے مقابلہ میں اُحد کی ہزیمت ایک معمولی چیز تھی اوریہ نقصان بھی مسلمانوں کیلئے ایک لحاظ سے بہت مفید ثابت ہوا کیونکہ ان پر یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہوگئی کہ رسول اللہ کے منشاء اورہدایت کے خلاف قدم زن ہونا کبھی بھی موجب فلاح اوربہبودی نہیں ہوسکتا۔آنحضرت ﷺ نے مدینہ میں ٹھہرنے کی رائے دی اوراسکی تائید میں اپنا ایک خواب بھی سنایا مگر انہوں نے باہر نکل کر لڑنے پراصرار کیا۔آنحضرتﷺ نے انہیں اُحد کے ایک درہ میں متعین فرمایا اورانتہائی تاکید فرمائی کہ خواہ کچھ ہوجاوے اس جگہ کو نہ چھوڑنا مگروہ غنیمت کے خیال سے اس جگہ کو چھوڑ کر نیچے اتر آئے اورگو یہ عملی کمزوری ایک محدود طبقہ کی طرف سے ظاہر ہوئی تھی مگر چونکہ انسانی تمدن سب کو ایک لڑی میں پروکر رکھتا ہے اس لئے اس کمزوری کے نتیجہ میں نقصان سب نے اٹھایا جیسا کہ اگر کوئی فائدہ ہوتا تو وہ بھی سب اٹھاتے۔پس اُحد کی ہزیمت اگرایک لحاظ سے موجب تکلیف تھی تودوسری جہت سے وہ مسلمانوں کیلئے ایک مفید سبق بھی بن گئی اورتکلیف ہونے کے لحاظ سے بھی مسلمان اس سیلاب عظیم کی طرح جوکسی جگہ رک کر اورٹھوکر کھا کر تیز ہوجاتا ہے،نہایت سرعت کے ساتھ اپنی منزل مقصود کی طرف بڑھتے چلے گئے۔قرآن شریف میں جنگ اُحد کا ذکر زیادہ تر سورۃ آل عمران میں آتا ہے جہاں اس جنگ کے حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے اور مسلمانوں کوآئندہ کیلئے بعض اصولی ہدایتیں دی گئی ہیں۔

اسلامی قانون ورثہ

جنگ اُحد کے بیان میں سعد بن الربیع کی شہادت کا ذکر گزرچکا ہے۔سعدؓایک متمول آدمی تھے اوراپنے قبیلہ میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ان کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی صرف دو لڑکیاں تھیں اوربیوی تھی۔چونکہ ابھی تک آنحضرت ﷺ پر تقسیم ورثہ کے متعلق کوئی جدید احکام نازل نہیں ہوئے تھے اورصحابہ میں قدیم دستور عرب کے مطابق ورثہ تقسیم ہوتا تھا۔یعنی متوفی کی نرینہ اولاد نہ ہونے کی صورت میں اسکے جدی اقرباء جائیداد پر قابض ہوجاتے تھے اوربیوہ اورلڑکیاں یونہی خالی ہاتھ رہ جاتی تھیں۔اس لئے سعد بن الربیع کی شہادت پر ان کے بھائی نے سارے ترکہ پرقبضہ کرلیا اوران کی بیوہ اور لڑکیاں بالکل بے سہارا رہ گئیں۔اس تکلیف سے پریشان ہوکر سعد کی بیوہ اپنی دونوں لڑکیوں کو ساتھ لے کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ساری سرگزشت سنا کر اپنی پریشانی کاذکر کیا۔آنحضرت ﷺکی فطرت صحیحہ کواس درد کے قصہ نے ایک ٹھیس لگائی مگر چونکہ ابھی تک اس معاملہ میں خدا کی طرف سے آپؐپر کوئی احکام نازل نہیں ہوئے تھے آپؐنے فرمایاتم انتظار کرو پھرجو احکام خدا کی طرف سے نازل ہوں گے ان کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔چنانچہ آپؐنے اس بارہ میں توجہ فرمائی اورابھی زیادہ وقت نہیںگزرا تھا کہ آپؐپرورثہ کے معاملہ میں بعض وہ آیات نازل ہوئیں جوقرآن شریف کی سورۃ النساء میں بیان ہوئی ہیں۔اس پر آپؐنے سعدؓ کے بھائی کو بلایا اوراس سے فرمایا کہ سعدؓکے ترکہ میں سے دو ثلث ان کی لڑکیوں اورایک ثمن اپنی بھاوج کے سپرد کردو اورجو باقی بچے وہ خود لے لو اور اس وقت سے تقسیم ورثہ کے متعلق جدید احکام کی ابتداء قائم ہوگئی جس کی رو سے بیوی اپنے صاحب اولادخاوند کے ترکہ میں آٹھویں حصہ کی اوربے اولاد خاوند کے ترکہ میں چہارم حصہ کی اورلڑکی اپنے باپ کے ترکہ میں اپنے بھائی کے حصہ کی نسبت نصف حصہ کی اوراگر بھائی نہ ہوتو سارے ترکہ میں سے حالات کے اختلاف کے ساتھ دو ثلث یانصف کی اورماں اپنے صاحب اولاد لڑکے کے ترکہ میں چھٹے حصہ کی۔اوربے اولاد لڑکے کے ترکہ میں تیسرے حصہ کی حق دارقرار دی گئی اوراسی طرح دوسرے ورثاء کے حصے مقرر ہوگئے۔ اورعورت کا وہ فطری حق جو اس سے چھینا جاچکا تھا اسے واپس مل گیا۔
اس موقع پریہ نوٹ کرنا غیر ضروری نہ ہوگا کہ آنحضرت ﷺ کی تعلیم کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپؐ نے طبقۂ نسواں کے تمام جائز اورواجبی حقوق کی پوری پوری حفاظت فرمائی ہےبلکہ حق یہ ہے کہ دنیا کی تاریخ میں آپؐسے پہلے یاآپؐ کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں گزرا جس نے عورت کے حقوق کی ایسی حفاظت کی ہو جیسی آپؐنے کی ہے۔چنانچہ ورثہ میں،بیاہ شادی میں، خاوند بیوی کے تعلقات میں،طلاق وخلع میں،اپنی ذاتی جائیداد پیدا کرنے کے حق میں،اپنی ذاتی جائیداد کے استعمال کرنے کے حق میں،تعلیم کے حقوق میں،بچوں کی ولایت وتربیت کے حقوق میں،قومی اور ملکی معاملات میں حصہ لینے کے حق میں،شخصی آزادی کے معاملہ میں،دینی حقوق اورذمہ داریوں میں۔الغرض دین ودنیا کے ہر اس میدان میں جس میں عورت قدم رکھ سکتی ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے تمام واجبی حقوق کوتسلیم کیا ہے اوراس کے حقوق کی حفاظت کواپنی امت کیلئے ایک مقدس امانت اورفرض کے طور پر قرار دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عرب کی عورت آپؐکی بعثت کواپنے لئے ایک نجات کاپیغام سمجھتی تھی۔مجھے اپنے رستہ سے ہٹنا پڑتا ہے ورنہ میں بتاتا کہ عورت کے معاملہ میں آپؐ کی تعلیم حقیقتاً اس اعلیٰ مقام پر قائم ہے جس تک دنیا کا کوئی مذہب اورکوئی تمدن نہیں پہنچا اوریقینا آپؐ کایہ پیارا قول ایک گہری صداقت پرمبنی ہے کہ حُبِّبَ اِلَیَّ مِنْ دُنْیَاکُمُ النِّسَاءُ وَالطِّیْبُ وَجُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلوٰۃِ یعنی’’دنیا کی چیزوں میں سے میری فطرت کو جن چیزوں کی محبت کا خمیر دیا گیا ہے وہ عورت اورخوشبو ہیں مگر میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز یعنی عبادت الہٰی میں رکھی گئی ہے۔

شراب کی حرمت

یہ بیان گزرچکا ہے کہ عرب میں شراب کثرت کے ساتھ پی جاتی تھی بلکہ شراب نوشی عربوں کے قومی اخلاق کاایک حصہ بن چکی تھی اورکوئی مجلس شراب کے بغیر مکمل نہیں سمجھی جاتی تھی،بلکہ خاص فیشن کے لوگوں میں شراب نوشی کیلئے خاص خاص اوقات مقرر تھے جب وہ مجلسیں جماجما کر بدمستیاں کرتے تھے۔گوآنحضرت ﷺنے اپنی فطری سعادت کے ماتحت خود کبھی شراب نہیں پی اورنبوت سے قبل بھی اس بدعادت سے ہمیشہ مجتنب رہے اوربعض صحابہ بھی ابتداء سے ہی تارک شراب تھے ،لیکن چونکہ اس وقت تک مذہبی طورپر شراب حرام نہیں ہوئی تھی اس لئے صحابہ میں بہت سے لوگ شراب پیتے تھے اوربعض اوقات شراب نوشی کے بدنتائج بھی صحابہ میں رونما ہو جاتے تھے۔ چنانچہ حدیث میں روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ حضرت حمزہؓنے شراب کے نشہ میں حضرت علیؓ کے اونٹ ذبح کردیئے اورجب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم انہیں سمجھانے کیلئے گئے توانہوں نے آپؐکو بھی نہیں پہچانا اورآپؐسے بے اعتنائی کی۔ اسی طرح روایت آتی ہے کہ ایک دعوت میں ایک صحابی نے کسی قدر زیادہ شراب پی لی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب اسکے بعد وہ نماز پڑھانے کیلئے اہل مجلس کے امام بنے توقرأت میں اصل آیت کی بجائے کچھ کا کچھ پڑھ گئے۔ اس قسم کے واقعات کی وجہ سے بعض صحابہ جن میں حضرت عمرؓکانام خاص طورپر مذکور ہوا ہے، اپنی جگہ پیچ وتاب کھاتے تھے کہ شراب نوشی کے متعلق کوئی قطعی فیصلہ ہونا چاہئے،لیکن گو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خود اس عادت کو بہت مکروہ اورضرررساں سمجھتے تھے مگر چونکہ ابھی تک اس بارہ میں کوئی خدائی حکم نازل نہیں ہوا تھا ،اس لئے آپؐ عملاًکچھ نہیں کرسکتے تھے۔
بالآخر غزوہ احد کے بعد3ہجری کے آخر یا4ہجری کے شروع میں خدائی وحی نازل ہوئی اور شراب نوشی اسلام میں قطعی طورپر حرام قرار دے دی گئی۔ اس حُرمت کے حکم کوصحابہ کرام نے جس انشراح اوررضا کے ساتھ قبول کیا وہ اس روحانی اثر کی ایک بہت دلچسپ مثال ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پاک صحبت نے ان کے دلوں میں پیدا کیا تھا۔ حدیث میں انس بن مالک سے ایک روایت آتی ہے کہ جب شراب کی حرمت کاحکم نازل ہوا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسکا اعلان فرمایا اورپھرآپؐنے ایک صحابی سے ارشاد فرمایا کہ وہ مدینہ کی گلی کوچوں میں چکر لگا کر اس کی منادی کردیں۔انسؓ کہتے ہیں کہ اس وقت میں ایک مکان میں ابوطلحہ انصاری اوربعض دوسرے صحابیوں کوشراب پلارہا تھا۔ہم نے اس منادی کی آواز سنی توابوطلحہ نے مجھ سے کہا کہ دیکھو یہ شخص کیا منادی کررہا ہے۔میں نے پتہ لیا تو معلوم ہوا کہ شراب حرام کردی گئی ہے۔جب میں نے واپس آکر اہل مجلس کو اسکی اطلاع دی تواسے سنتے ہی ابوطلحہ نے مجھ سے کہا،اٹھو اورشراب کے مٹکے زمین پر بہادو۔ انسؓ کہتے ہیں کہ اس دن مدینہ کی گلیوں میں شراب بہتی ہوئی نظر آتی تھی اوراسی باب کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس شخص کی منادی سن کر کسی نے یہ نہیں کہا کہ پہلے تحقیق توکرلو کہ یہ شخص سچ کہہ رہا ہے یا جھوٹ بلکہ فوراً سب نے اپنے ہاتھ کھینچ لئے اورشراب نوشی سے دفعۃً رک گئے۔شراب نوشی کی سی عادت کواورعادت بھی وہ جو گویا عرب کی گُھٹی میں تھی یکلخت ترک کردینا اور ترک بھی ایسی حالت میں کرنا کہ شراب کادَور عملاً چل رہا ہو اورپینے والے اسکے نشہ میں متوالے ہو رہے ہوں ضبط نفس کی ایک ایسی شاندار مثال ہے جس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ گوجیسا کہ بخاری کی بعض روایات میں اشارہ پایا جاتا ہے شراب کی قطعی حرمت کا حکم غزوہ اُحدکے بعد نازل ہوا۔مگر اس سے پہلے بھی بعض قرآنی آیات اس مضمون کی نازل ہوچکی تھیں جن میں شراب کی برائی بیان کی گئی تھی۔چنانچہ روایت آتی ہے کہ سب سے پہلے جو آیت شراب کے بارے میں نازل ہوئی وہ یہ تھی کہ بے شک شراب میں بعض فوائد ہیں مگر اسکے نقصانات اس کے فوائد پرغالب ہیں۔ اس پر حضرت عمرؓنے جنہیں شراب کے خلاف غالباًسارے صحابہ میں سے زیادہ جوش تھا دعا کی کہ اے خدا!ہمیں شراب کے معاملہ میں کوئی زیادہ کھلا کھلا حکم عطا کر،جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اے مومنو!جب تم نشہ کی حالت میں ہوتو نماز میں شامل نہ ہوا کرو۔اس پر حضرت عمرؓنے پھر یہی دعا کی کہ خدایا کوئی قطعی حکم نازل فرما۔جس پر بالآخر یہ آیت اتری کہ ’’اے مسلمانو!شراب اورجوا ناپاک اورضرررساں افعال ہیں جن سے شیطان تمہارے اندر عداوت اوردشمنی پیدا کرناچاہتا اوران کے ذریعہ تمہیں خدا کے ذکر اورنماز سے غافل کرتا ہے پس تم ان چیزوںسے مجتنب رہو۔جب یہ آیت اتری تومسلمانوں کی تسلی ہوگئی اوروہ شراب کوقطعی طور پر حرام سمجھ کراس سے باز آگئے بلکہ اس کے بعد انہیں شراب سے ایسی دوری پیدا ہوگئی کہ جو مسلمان ایسی حالت میں غزوہ اُحد میں شہید ہوئے تھے کہ انہوں نے شراب پی ہوئی تھی انہیں ان شہداء کے متعلق بے چینی پیدا ہونے لگی کہ ان کا کیا حشر ہوگا ،جس پریہ آیت نازل ہوئی کہ حرمت سے پہلے پہلے لوگوں نے جو کچھ کھایا پیا ہے اس کی وجہ سے ان پر کوئی ملامت نہیں۔ الغرض 3ہجری کے آخر یا4ہجری کے شروع میںمگر بہرحال غزوہ اُحد کے بعد شراب نوشی اسلام میں قطعی طورپر حرام ہوگئی اور شراب کی تعریف میں ہر وہ چیز شامل قرار دی گئی جو نشہ پیدا کرتی اورانسان کی عقل پرپردہ ڈال دیتی ہےاوراس طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس چیز کی جڑ پرتبر رکھ دیا جو صحیح طورپر بدیوں کی ماں کہلاتی ہے۔
اس جگہ ہمیں اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ ازروئے عقل شراب نوشی کیسی ہے۔ قرآن نے خود اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ شراب میں بعض فوائد بھی ہیں ،مگر یہ کہ اسکے نقصانات اس کے فوائدسے زیادہ ہیں اوراصولی طورپر انسانی عقل اس مسئلہ پر اس سے زیادہ روشنی نہیں ڈال سکتی۔ اوریہ ایک خوشی کامقام ہے کہ ہزاروں سالوں کے تلخ تجربات کے بعد آج دنیا اسی حقیقت کی طرف آرہی ہے جواسلام نے آج سے ساڑھے تیرہ سوسال پہلے آشکار اکی تھی اور ہرملک میں شراب نوشی کے سدباب کیلئے سوسائیٹیاںبن رہی ہیں بلکہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں تو شراب کے خلاف ایک قانون بھی نافذ ہوچکا ہے جس کی تقلید میں بعض دوسرے ممالک میں بھی تحریک شروع ہے۔

(باقی آئندہ)

(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ506تا 511،مطبوعہ قادیان2011)
…٭…٭…٭…