اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-01-18

جنگ اُحد، شوال3ہجری مطابق مارچ624ء(بقیہ حصہ)

سیرت خاتم النّبیینﷺ

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

اب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی میدان میں اُتر آئے ہوئے تھے اور شہداء کی نعشوں کی دیکھ بھال شروع تھی۔جو نظارہ اس وقت مسلمانوں کے سامنے تھا وہ خون کے آنسو رلانے والا تھا۔ستّر مسلمان خاک وخون میں لتھڑے ہوئے میدان میں پڑے تھےاور عرب کی وحشیانہ رسم مُثلہ کا مہیب نظّارہ پیش کر رہے تھے ۔ ان مقتولین میں صرف چھ مہاجر تھے اور باقی سب انصار سے تعلق رکھتے تھے۔ قریش کے مقتولوں کی تعداد تیئس تھی۔جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے چچا اور رضاعی بھائی حمزہ بن عبدالمطلب کی نعش کے پاس پہنچے تو بے خود سے ہو کر رہ گئے کیونکہ ظالم ہند زوجہ ابوسفیان نے اُن کی نعش کو بری طرح بگاڑا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر تک تو آپؐخاموشی سے کھڑے رہے اور آپؐکے چہرہ سے غم وغصّہ کے آثار نمایاں تھے۔ ایک لمحہ کیلئے آپؐکی طبیعت اس طرف بھی مائل ہوئی کہ مکّہ کے ان وحشی درندوں کے ساتھ جب تک انہی کا سا سلوک نہ کیا جائے گا وہ غالبًا ہوش میں نہیں آئیں گے مگر آپؐاس خیال سے رُک گئے اور صبر کیا بلکہ اس کے بعد آپؐنے مُثلہ کی رسم کو اسلام میں ہمیشہ کیلئے ممنوع قرار دیدیا اور فرمایا دشمن خواہ کچھ کرے تم اس قسم کے وحشیانہ طریق سے بہر حال باز رہو اور نیکی اور احسان کا طریق اختیار کرو ۔آپؐ کی پھوپھی صفیہ بنت عبدالمطلب اپنے بھائی حمزہ سے بہت محبت رکھتی تھیں ۔وہ بھی مسلمانوں کی ہزیمت کی خبرسُن کر مدینہ سے نکل آئیں تھیں ۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُن کے صاحبزادے زبیر ابن العوام سے فرمایا کہ اپنی والدہ کو ماموں کی نعش نہ دکھانا مگر بہن کی محبت کب چین لینے دیتی تھی ۔انھوں نے اصرار کے ساتھ کہا کہ مجھے حمزہ کی نعش دکھادو۔مَیں وعدہ کرتی ہوں کہ صبر کروں گی اور کوئی جزع فزع کا کلمہ مُنہ سے نہیں نکالوں گی؛چنانچہ وہ گئیں اور بھائی کی نعش دیکھ کر اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُونَ پڑھتی ہوئی خاموش ہو گئیں۔قریش نے دُوسرے صحابہ کی نعشوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا تھا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن جحش کی نعش کو بھی بُری طرح بگاڑا گیا تھا ۔جُوں جُوں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ایک نعش سے ہٹ کر دُوسری نعش کی طرف جاتے تھے آپؐکے چہرہ پر غم واَلَم کے آثار زیادہ ہوتے جاتے تھے۔غالباً اسی موقع پر آپؐنے فرمایا کہ کوئی جا کر دیکھے کہ سعد بن الربیع رئیسِ انصار کا کیا حال ہے آیا وہ زندہ ہیں یا شہید ہو گئے؟ کیونکہ میں نے لڑائی کے وقت دیکھاتھا کہ وہ دشمن کے نیزوں میں بری طرح گھرے ہوئے تھے۔ آپؐکے فرمانے پر ایک انصاری صحابی ابیّ بن کعب گئے اورمیدان میں ادھر ادھر سعد کو تلاش کیا مگر کچھ پتہ نہ چلا۔آخر انہوں نے اونچی اونچی آوازیں دینی شروع کیں اور سعد کا نام لے لے کر پکارا مگر پھربھی کوئی سراغ نہ ملا۔مایوس ہوکر وہ واپس جانے کو تھے کہ انہیں خیال آیا کہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کانام لے کر توپکاروںشاید اس طرح پتہ چل جاوے۔ چنانچہ انہوں نے بلند آواز سے پکار کرکہا۔سعد بن ربیع کہاں ہیں مجھے رسول اللہ نے ان کی طرف بھیجا ہے۔اس آواز نے سعد کے نیم مردہ جسم میں ایک بجلی کی لہر دوڑا دی اورانہوں نے چونک کر مگر نہایت دھیمی آواز میں جواب دیا۔’’کون ہے میں یہاں ہوں۔‘‘ابیّ بن کعب نے غورسے دیکھا تو تھوڑے فاصلہ پر مقتولین کے ایک ڈھیر میں سعد کو پایا جواس وقت نزع کی حالت میں جان توڑ رہے تھے۔ابیّ بن کعب نے ان سے کہا کہ مجھے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس لئے بھیجا ہے کہ میں تمہاری حالت سے آپؐ کو اطلاع دوں۔سعد نے جواب دیا کہ رسول اللہ سے میرا سلام عرض کرنا اورکہنا کہ خدا کے رسولوں کوجو ان کے متبعین کی قربانی اوراخلاص کی وجہ سے ثواب ملا کرتا ہے خدا آپؐ کووہ ثواب سارے نبیوں سے بڑھ چڑھکر عطافرمائےاورآپؐکی آنکھوں کوٹھنڈاکرےاورمیرے بھائی مسلمانوں کوبھی میرا سلام پہنچانا اور میری قوم سے کہنا کہ اگرتم میں زندگی کادم ہوتے ہوئے رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف پہنچ گئی تو خدا کے سامنے تمہارا کوئی عذر نہیں ہوگا۔یہ کہہ کر سعد نے جان دے دی۔
اُحد کے شہداء میں ایک صاحب مصعب بن عمیر تھے۔یہ وہ سب سے پہلے مہاجر تھے جو مدینہ میں اسلام کے مبلغ بن کر آئے تھے۔زمانہ جاہلیت میں مصعب مکہ کے نوجوانوں میں سب سے زیادہ خوش پوش اوربانکے سمجھے جاتے تھے اوربڑے نازونعمت میں رہتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد انکی حالت بالکل بدل گئی۔ چنانچہ روایت آتی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ان کے بدن پرایک کپڑا دیکھا جس پر کئی پیوند لگے ہوئے تھے۔آپؐکوان کا وہ پہلازمانہ یاد آگیا تو آپ ؐچشم پرآب ہوگئے۔اُحد میں جب مصعب شہید ہوئے تو ان کے پاس اتنا کپڑا بھی نہیں تھا کہ جس سے ان کے بدن کو چھپایا جاسکتا۔ پائوں ڈھانکتے تھے توسرننگا ہوجاتا تھا اورسرڈھانکتے تھے توپائوں کھل جاتے تھے۔چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم سے سرکوکپڑے سے ڈھانک کر پائوں کو گھاس سے چھپادیاگیا۔
نعشوں کی دیکھ بھال کے بعد تکفین و تدفین کاکام شروع ہوا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جوکپڑے شہداء کے بدن پرہیں وہ اسی طرح رہنے دیئے جائیں اورشہداء کو غسل بھی نہ دیا جاوے۔البتہ کسی کے پاس کفن کیلئے زائد کپڑا ہوتو وہ پہنے ہوئے کپڑوں کے اوپر لپیٹ دیا جاوے۔نماز جنازہ بھی اس وقت ادا نہیں کی گئی۔چنانچہ بغیر غسل دیئے اوربغیر نمازجنازہ اداکئے شہداء کودفنا دیا گیا۔اورعموماًایک ایک کپڑے میں دو دوصحابیوں کواکٹھا کفنا کرایک ہی قبر میں اکٹھا دفن کردیا گیا۔ جس صحابی کو قرآن شریف زیادہ آتا تھا اسے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد کے ماتحت لحد میں اتارتے ہوئے مقدم رکھا جاتا تھا۔گواس وقت نماز جنازہ ادا نہیں کی گئی ،لیکن بعد میں زما نہ وفات کے قریب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خاص طورپرشہداء اُحد پر جنازہ کی نماز ادا کی اور بڑے درددل سے ان کیلئے دعا فرمائی آپؐاُحد کے شہداء کوخاص محبت اوراحترام سے دیکھتے تھے۔ایک دفعہ آپؐ اُحد کے شہداء کی قبروں کے پاس سے گزرے توفرمایا’’یہ وہ لوگ ہیں جن کے ایمان کا میں شاہد ہوں۔‘‘حضرت ابوبکرؓنے عرض کیا یارسول اللہ!کیا ہم ان کے بھائی نہیں ہیں؟کیا ہم نے انہیں کی طرح اسلام قبول نہیں کیا؟کیا ہم نے انہی کی طرح خدا کے رستے میں جہاد نہیں کیا؟ آپؐ نے فرمایا’’ہاں!لیکن مجھے کیا معلوم ہے کہ میرے بعد تم کیا کیا کام کرو گے۔‘‘ اس پر حضرت ابوبکرؓ روپڑے اوربہت روئے اورعرض کیا۔یارسول اللہ!کیا ہم آپؐ کے بعد زندہ رہ سکیں گے۔ صحابہ بھی اُحد کے شہداء کی بڑی عزت کرتے تھے اوراُحد کی یاد کو ایک مقدس چیز کے طورپر اپنے دلوں میں تازہ رکھتے تھے۔چنانچہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعدحضرت عبدالرحمن بن عوف کے سامنے افطاری کاکھانا آیاجوغالباًکسی قدر پرتکلّف تھا۔ اس پر اُنہیں اُحد کا زمانہ یادآگیا جب مسلمانوں کے پاس اپنے شہداء کو کفنا نے کیلئے کپڑا تک نہیں تھا اوروہ ان کے بدنوں کوچھپانے کیلئے گھاس کاٹ کاٹ کران پر لپیٹتے تھے اوراس یاد نے عبدالرحمن بن عوف کوایسا بے چین کردیا کہ وہ بے تاب ہوکر رونے لگ گئے اور کھانا چھوڑکر اٹھ کھڑے ہوئے حالانکہ وہ روزے سے تھے۔
سارے انتظامات سے فارغ ہوکرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم شام کے قریب مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ راستہ میں عقیدت کیش دوردور تک آگے آئے ہوئے تھے۔ایک انصاری عورت سخت گھبراہٹ کی حالت میں گھر سے نکل کراُحد کے راستہ پرآرہی تھی کہ راستہ میں اسے وہ صحابی ملے جو اُحد سے واپس آرہے تھے اورجن میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی تھے۔ صحابہ نے اسے اطلاع دی کہ تمہارا باپ اوربھائی اور خاوند سب اُحد میں شہید ہوئے۔مخلص خاتون جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خیریت سننے کیلئے بے تاب ہورہی تھی بے چین ہوکر بولی مجھے یہ بتائو کہ رسول اللہ کا کیا حال ہے؟انہوں نے کہا رسول اللہ توخدا کے فضل سے بخیریت ہیں اور یہ تشریف لارہے ہیں۔ جب اس کی نظر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پرپڑی تو بے اختیار ہوکر بولی۔کُلُّ مُصِیْبَۃٍ بَعْدَکَ جَلَلُ۔ ’’اگر آپؐزندہ ہیں توپھر سب مصیبتیںہیچ ہیں۔ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ میں پہنچے اورانصار کے گھروں کے پاس سے گزرے توگھرگھر سے رونے چلانے کی آواز آتی تھی اورعورتیں عرب کی قدیم رسم کے مطابق نوحہ کررہی تھیں۔آپؐنے یہ نظارہ دیکھا تو مسلمانوں کی تکلیف کا خیال کرکے آپؐکی آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ پھرآپؐنے ان کو تسلی دینے کے خیال سے فرمایا لٰکِنْ حَمْزَۃُ فَلَا بَوَا کِیَ لَہٗ یعنی ہمارے چچا اور رضاعی بھائی حمزہ بھی شہید ہوئے ہیں مگر کسی عورت نے اس طرح انکا ماتم نہیں کیا۔‘‘رئوساء انصار سمجھے کہ آپؐ شاید اس حسرت کا اظہار فرمارہے ہیں کہ اس غریب الوطنی کی حالت میں حمزہ کوکوئی رونے والا نہیں۔وہ فوراًاپنی عورتوں کے پاس گئے اورکہا کہ بس اپنے مردوں پررونا بند کرواورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مکان پرجاکر حمزہ کاماتم کرو (اللہ اللہ!اس غلط فہمی میں بھی کیا جذبۂ اخلاص مخفی تھا) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے مکان پرماتم کاشورسنا تو پوچھا یہ کیسا شور ہے؟عرض کیاگیا انصار کی عورتیں حمزہ کا نوحہ کرتی ہیں۔ آپؐ نے ان کی محبت کی قدر کرتے ہوئے ان کے واسطے دعائے خیر فرمائی لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ اس طرح نوحہ کرنا اسلام میں منع ہے اورآئندہ کیلئے نوحہ کی رسم یعنی بین کرنا یاپیٹنا یابال نوچنا وغیر ذالک اسلام میں ممنوع قراردے دی گئی۔ ایک نوجوان صحابی آپؐکے سامنے آئے اورآپؐ نے دیکھا کہ ان کا چہرہ اپنے باپ کی شہادت پرمغموم ہے۔ فرمایا جابر کیا میں تمہیں ایک خوشی کی خبر سنائوں؟جابر نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ! آپؐنے فرمایاجب تمہارے والد شہید ہوکر اللہ کے حضور پیش ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے بے حجاب ہوکر کلام فرمایا اورفرمایا کہ جو مانگنا چاہتے ہو مانگو۔تمہارے باپ نے عرض کیا،اے میرے اللہ!تیری کسی نعمت کی کمی نہیں ہے ،لیکن خواہش ہے کہ پھردنیا میں جائوں اورتیرے دین کے رستہ میں پھرجان دوں۔خدا نے فرمایا ہم تمہاری اس خواہش کو بھی ضرور پورا کردیتے لیکن ہم یہ عہد کرچکے ہیں کہ اَنَّھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ یعنی ’’کوئی مردہ پھر زندہ ہوکر اس دنیا میں نہیں آسکتا۔‘‘جابر کے والد نے کہا تو پھر میرے بھائیوں کو میری اطلاع دے دی جاوے تاکہ ان کی جہاد کی رغبت ترقی کرے۔ اس پر یہ آیت اتری کہ جو لوگ خدا کے رستے میں شہید ہوتے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھا کرو کیونکہ وہ زندہ ہیں اوراپنے خدا کے پاس خوشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔حضرت سعد بن معاذ رئیس قبیلہ اوس نے اپنی بوڑھی والدہ کوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔آپؐنے ان سے ان کے لڑکے عمرو بن معاذ کی شہادت پراظہارہمدردی کیا۔ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ جب آپؐسلامت ہیں تو ہمیں کیا غم ہے۔‘‘

(باقی آئندہ)

(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ500تا504،مطبوعہ قادیان2011)

…٭…٭…٭…