اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-01-11

جنگ اُحد، شوال3ہجری مطابق مارچ624ء(بقیہ حصہ)

سیرت خاتم النّبیینﷺ

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

جوصحابہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے گرد جمع تھے انہوں نے جو جان نثاریاں دکھائیں تاریخ ان کی نظیرلانے سے عاجز ہے۔یہ لوگ پروانوں کی طرح آپؐ کے ارد گرد گھومتے تھے اورآپؐ کی خاطراپنی جان پرکھیل رہے تھے۔جووار بھی پڑتا تھا صحابہ اپنے اوپر لیتے تھے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوبچاتے تھے اورساتھ ہی دشمن پربھی وارکرتے جاتے تھے۔حضرت علیؓ اورزبیرؓنے بے تحاشا دشمن پر حملے کئے اوران کی صفوں کو دھکیل دھکیل دیا۔ ابوطلحہ انصاری نے تیر چلاتے چلاتے تین کمانیں توڑیں اوردشمن کے تیروں کے مقابل پرسینہ سپرہوکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بدن کواپنی ڈھال سے چھپایا۔ سعد بن وقاص کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خود تیرپکڑاتے جاتے تھے اورسعدؓیہ تیر دشمن پربے تحاشا چلاتے جاتے تھے۔ ایک دفعہ آپؐنے سعدؓسے فرمایا’’تم پر میرے ماں باپ قربان ہوںبرابر تیرچلاتے جائو۔‘‘ سعدؓاپنی آخری عمر تک آپؐکے ان الفاظ کونہایت فخر کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے۔ابودجانہؓنے بڑی دیرتک آپؐکے جسم کو اپنے جسم سے چھپائے رکھا اورجو تیریاپتھر آتا تھا اسے اپنے جسم پرلیتے تھے۔حتّٰی کہ ان کا بدن تیروں سے چھلنی ہوگیا،مگر انہوں نے اُف تک نہیں کی تاایسا نہ ہوکہ ان کے بدن میں حرکت پیدا ہونے سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے جسم کاکوئی حصہ ننگا ہوجاوے اورآپؐکوکوئی تیرآلگے۔ طلحہؓ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوبچانے کیلئے کئی وار اپنے بدن پرلئے اوراسی کوشش میں انکا ہاتھ شل ہوکر ہمیشہ کیلئے بیکار ہوگیا۔ مگریہ چند گنتی کے جاں نثار اس سیلاب عظیم کے سامنے کب تک ٹھہر سکتے تھے جو ہرلحظہ مہیب موجوں کی طرح چاروں طرف سے بڑھتا چلاآتا تھا۔ دشمن کے ہرحملہ کی ہرلہر مسلمانوں کوکہیں کاکہیں بہا کرلے جاتی تھی مگرجب ذرا زورتھمتاتھا مسلمان بیچارے لڑتے بھڑتے پھراپنے محبوب آقا کے گرد جمع ہوجاتے تھے۔ بعض اوقات توایسا خطرناک حملہ ہوتا تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم عملاً اکیلے رہ جاتے تھے۔چنانچہ ایک وقت ایسا آیا کہ آپؐکے اردگرد صرف بارہ آدمی رہ گئے اور ایک وقت ایسا تھا کہ آپؐکے ساتھ صرف دوآدمی ہی رہ گئے۔ ان جان نثاروں میں حضرت ابوبکرؓ،علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓ، سعدؓ بن وقاص، ابودجانہؓ انصاری، سعدؓ بن معاذ اور طلحہؓ انصاری کے نام خاص طورپر مذکور ہوئے ہیں۔ایک وقت جب قریش کے حملہ کی ایک غیر معمولی لہر اٹھی توآپؐنے فرمایا ’’کون ہے جو اس وقت اپنی جان خدا کے رستے میں نثار کردے؟‘‘ایک انصاری کے کانوں میں یہ آواز پڑی تو وہ اورچھ اورانصاری صحابی دیوانہ وارآگے بڑھے اوران میں سے ایک ایک نے آپؐکے اردگرد لڑتے ہوئے جان دے دی۔ اس پارٹی کے رئیس زیاد بن سکن تھے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس دھاوے کے بعد حکم دیا کہ زیادؓ کواٹھا کر میرے پاس لائو۔لوگ اٹھا کر لائے اورانہیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے ڈال دیا۔اس وقت زیادؓ میں کچھ کچھ جان تھی،مگروہ دم توڑ رہے تھے۔اس حالت میں انہوں نے بڑی کوشش کے ساتھ اپنا سر اٹھایا اوراپنا منہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قدموں پررکھ دیا اوراسی حالت میں جان دے دی۔ ایک مسلمان خاتون جس کا نام اُمّ عمارہ تھا تلوارہاتھ میں لے کر مارتی کاٹتی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس پہنچی۔ اس وقت عبد اللہ بن قمئۃ آپؐپروار کرنے کیلئے آگے بڑھ رہا تھا۔ مسلمان خاتون نے جھٹ آگے بڑھ کروہ واراپنے اوپر لے لیا اورپھرتلوار تول کراس پراپنا وار کیا،مگر وہ ایک دوہری زرہ پہنے ہوئے مرد تھا۔اور یہ ایک کمزور عورت۔اس لئے وارکاری نہ پڑا۔ اور ابن قمئۃ درّاتا ہوا اورمسلمانوں کی صفوں کوچیرتا ہوا آگے آیا اورصحابہ کے روکتے روکتے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گیا اورپہنچتے ہی اس زوراوربے دردی کے ساتھ آپؐکے چہرہ مبارک پر وار کیا کہ صحابہ کے دل دہل گئے۔جاں نثار طلحہ نے لپک کراپنے ننگے ہاتھ پر لیا ،مگر ابن قمئۃکی تلوار ان کے ہاتھ کو قلم کرتی ہوئی آپ کے پہلو پر پڑی۔زخم توخدا کے فضل سے نہ آیا کیونکہ آپؐنے اوپر تلے دوزرہیں پہنی ہوئی تھیں اوروار کازور بھی طلحہ کی جاں نثاری سے کم ہوچکا تھا،مگر اس صدمہ سے آپ چکرکھا کرنیچے گرے اورابن قمئۃ نے پھر خوشی کانعرہ لگایا کہ میں نے محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کومار لیا ہے۔
ابن قمئۃ توآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پروار کرکے خوشی کانعرہ لگاتا ہوا پیچھے ہٹ گیا اور اپنے زعم میں یہ سمجھا کہ میں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو مار لیا ہے ،مگر جونہی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم گرے حضرت علی اورطلحہ نے فوراًآپؐکواوپر اٹھا لیااوریہ معلوم کرکے مسلمانوں کے پژمردہ چہرے خوشی سے تمتمااٹھے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم زندہ سلامت ہیں۔ اب آہستہ آہستہ لڑائی کازور بھی کم ہونا شروع ہوگیا۔کیونکہ ایک توکفار اس اطمینان کی وجہ سے کچھ ڈھیلے پڑگئے تھے کہ محمد رسول اللہ شہید ہوچکے ہیں اوراس لئے انہوںنے لڑائی کی طرف سے توجہ ہٹاکر کچھ تواپنے مقتولین کی دیکھ بھال اورکچھ مسلمان شہیدوں کی لاشوں کی بے حرمتی کرنے کی طرف پھیرلی تھی۔اور دوسری طرف مسلمان بھی اکثر منتشر ہوچکے تھے۔جب قریش ذرا پیچھے ہٹ گئے اورجو مسلمان میدان میں موجود تھے وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوپہچان کرآپؐکے اردگرد جمع ہوگئے تو آپؐنے اپنے ان صحابہ کی جمعیت میں آہستہ آہستہ پہاڑ کے اوپرچڑھ کرایک محفوظ درہ میں پہنچ گئے۔ راستہ میں مکہ کے ایک رئیس ابی بن خلف کی نظر آپ پر پڑی اور وہ بغض وعداوت میں اندھا ہوکر یہ الفاظ پکارتا ہو آپؐ کی طرف بھاگا کہ لَانَجَوْتُ اِنْ نَجَا۔’’اگر محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) بچ کر نکل گیا تو گویامیں تو نہ بچا۔‘‘صحابہ نے اسے روکنا چاہا مگرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اسے چھوڑ دو اورمیرے قریب آنے دو۔اورجب وہ آپؐپرحملہ کرنے کے خیال سے آپؐکے قریب پہنچا توآپؐ نے ایک نیزہ لے کر اس پرایک وار کیا جس سے وہ چکر کھا کر زمین پرگرا اور پھراٹھ کرچیختا چلاتا ہوا واپس بھاگ گیا اور گو بظاہر زخم زیادہ نہیں تھا مگرمکہ پہنچنے سے پہلے وہ پیوند خاک ہوگیا۔ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم درہ میں پہنچ گئے توقریش کے ایک دستے نے خالد بن ولید کی کمان میں پہاڑ پرچڑھ کر حملہ کرنا چاہا،لیکن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت عمرؓنے چند مہاجرین کوساتھ لے کر اس کا مقابلہ کیا اور اسے پسپا کردیا۔
درہ میں پہنچ کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت علی کی مدد سے اپنے زخم دھوئے اور جودوکڑیاں آپؐ کے رخسار میں چبھ کر رہ گئی تھیں وہ ابوعبیدہ بن الجراح نے بڑی مشکل سے اپنے دانتوں کے ساتھ کھینچ کھینچ کر باہر نکالیں حتّٰی کہ اس کوشش میں ان کے دودانت بھی ٹوٹ گئے۔اس وقت آپؐکے زخموں سے بہت خون بہہ رہا تھا۔اورآپؐاس خون کو دیکھ کر حسرت کے ساتھ فرماتے تھے۔کَیْفَ یَفْلَحُ قَوْمٌ خَضَبُوْا وَجْہَ نَبِیِّھِمْ بِالدَّمِ وَھُوَیَدْعُوْھُمْ اِلٰی رَبِّھِمْ۔ کس طرح نجات پائے گی وہ قوم جس نے اپنے نبی کے منہ کو اس کے خون سے رنگ دیا۔اس جرم میں کہ وہ انہیں خدا کی طرف بلاتا ہے۔‘‘ اسکے بعد آپؐ تھوڑی دیر کیلئے خاموش ہوگئے اورپھرفرمایا اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِقَوْمِیْ فَاِنَّہُمْ لَایَعْلَمُوْنَ یعنی ’’اے میرے اللہ!تومیری قوم کومعاف کر دےکیونکہ ان سے یہ قصور جہالت اورلاعلمی میں ہوا ہے۔‘‘ روایت آتی ہے کہ اسی موقع پر یہ قرآنی آیت نازل ہوئی کہ لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِشَیْئٌ۔یعنی عذاب وعفو کامعاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اس سے تمہیں کوئی سروکار نہیں خدا جسے چاہے گا معاف کرے گااورجسے چاہے گا عذاب دے گا۔ فاطمۃ الزہراؓ جوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق وحشتناک خبریں سن کر مدینہ سے نکل آئی تھیں وہ بھی تھوڑی دیر کے بعد اُحد میں پہنچ گئیں اورآتے ہی آپؐکے زخموں کودھونا شروع کردیا،مگر خون کسی طرح بند ہونے میں ہی نہیں آتا تھا۔آخر حضرت فاطمہؓ نے چٹائی کاایک ٹکڑا جلا کر اس کی خاک آپؐ کے زخم پرباندھی تب جاکر کہیں خون تھما۔ دوسری خواتین نے بھی اس موقع پرزخمی صحابیوں کی خدمت کرکے ثواب حاصل کیا۔
اِدھر مسلمان اپنی مرہم پٹی میںمصروف تھے تو اُدھر دوسری طرف یعنی نیچے میدان جنگ میں مکہ کے قریش مسلمان شہیدوں کی نعشوں کی نہایت بے دردانہ طور پربے حرمتی کررہے تھے۔مثلہ کی وحشیانہ رسم پوری وحشت کے ساتھ اداکی گئی اورمسلمان شہیدوں کی نعشوں کے ساتھ مکہ کے خونخوار درندوں نے جو کچھ بھی ان کے دل میں آیا وہ کیا۔قریش کی عورتوں نے مسلمانوں کے ناک کان کاٹ کران کے ہار پروئے اورپہنے۔ ابوسفیان کی بیوی ہند حضرت حمزہؓ کاجگر نکال کر چبا گئی۔ غرض بقول سرولیم میور’’مسلمانوں کی نعشوں کے ساتھ قریش نے نہایت وحشیانہ سلوک کیا۔‘‘ اور مکہ کے رئوساء دیر تک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نعش میدان میں تلاش کرتے رہے اور اس نظارے کے شوق میں ان کی آنکھیں ترس گئیں مگر جوچیزکہ نہ پانی تھی نہ پائی۔اس تلاش سے مایوس ہوکر ابوسفیان اپنے چند ساتھیوں کوساتھ لے کر اس درہ کی طرف بڑھا جہاں مسلمان جمع تھے اور اسکے قریب کھڑے ہوکر پکار کر بولا۔’’مسلمانو!کیا تم میں محمدہے؟‘‘ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکوئی جواب نہ دے۔ چنانچہ سب صحابہ خاموش رہے۔پھر اس نے ابوبکر وعمر کاپوچھا، مگر اس پر بھی آپ کے ارشاد کے ماتحت کسی نے جواب نہ دیا۔جس پر اس نے بلند آواز سے فخر کے لہجہ میں کہا کہ یہ سب لوگ مارے گئے ہیں کیونکہ اگروہ زندہ ہوتے تو جواب دیتے۔اس وقت حضرت عمر سے نہ رہا گیا اوروہ بے اختیار ہوکر بولے۔اے عدواللہ توجھوٹ کہتا ہے ہم سب زندہ ہیں اور خدا ہمارے ہاتھوں سے تمہیں ذلیل کرے گا۔ ابوسفیان نے حضرت عمر کی آواز پہچان کر کہا ’’عمر! سچ سچ بتائو کیا محمدزندہ ہے؟‘‘حضرت عمرؓنے کہا۔’’ہاں ہاں!خدا کے فضل سے وہ زندہ ہیں اورتمہاری یہ باتیں سن رہے ہیں۔‘‘ابوسفیان نے کسی قدر دھیمی آواز میں کہا۔توپھر ابن قمئۃ نے جھوٹ کہا ہے کیونکہ میں تمہیں اس سے زیادہ سچاسمجھتا ہوں۔ اسکے بعد ابوسفیان نے نہایت بلند آواز سے پکار کرکہا اُعْلُ ھُبَلْ یعنی ’’اے ہبل تیری بلندی ہو۔‘‘’’صحابہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد کاخیال کرکے خاموش رہے، مگرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جواپنے نام پر تو خاموش رہنے کا حکم دیتے تھے اب خداتعالیٰ کے مقابلہ میں بت کانام آنے پربے تاب ہوگئے اور فرمایا’’تم جواب کیوں نہیں دیتے؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا’’یارسول اللہ!کیا جواب دیں۔‘‘آپؐ نے فرمایا کہو اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلّ یعنی’’بلندی اوربزرگی صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔‘‘ابوسفیان نے کہا لَنَاالْعُزّٰی وَلَا عُزّیٰ لَکُمْ۔’’ہمارے ساتھ عزی ہے۔ اور تمہارے ساتھ عزی نہیں ہے۔‘‘ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہو اَللّٰہُ مَوْلٰنَا وَلَا مَوْلٰی لَکُمْ۔عزّٰی کیا چیز ہے۔ ’’ہمارے ساتھ اللہ ہمارا مددگار ہے اور تمہارے ساتھ کوئی مدد گار نہیں۔‘‘اسکے بعد ابوسفیان نے کہا۔’’لڑائی ایک ڈول کی طرح ہوتی ہے جو کبھی چڑھتا اورکبھی گرتا ہے۔پس یہ دن بدر کے دن کا بدلہ سمجھو اورتم میدان جنگ میں ایسی لاشیں پائو گے جن کے ساتھ مثلہ کیا گیا ہے۔میں نے اسکا حکم نہیں دیا،مگرجب مجھے اسکا علم ہوا تو مجھے اپنے آدمیوں کا یہ فعل کچھ برا بھی نہیں لگا۔‘‘ اورہمارے اورتمہارے درمیان آئندہ سال انہی ایام میں بدر کے مقام میں پھر جنگ کا وعدہ رہا۔ایک صحابی نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہدایت کے ماتحت جواب دیا کہ ۔’’بہت اچھا۔یہ وعدہ رہا۔‘‘
یہ کہہ کرابوسفیان اپنے ساتھیوں کو لے کر نیچے اترگیا اورپھر جلد ہی لشکر قریش نے مکہ کی راہ لی۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ باوجود اس کے کہ قریش کواس موقع پر مسلمانوں کے خلاف غلبہ حاصل ہوا تھا اورظاہری اسباب کے لحاظ سے وہ اگر چاہتے تواپنی اس فتح سے فائدہ اٹھا سکتے تھے اورمدینہ پرحملہ آور ہونے کا راستہ توبہرحال ان کیلئے کھلا تھا،مگر خدائی تصرف کچھ ایسا ہوا کہ قریش کے دل باوجود اس فتح کے اندر ہی اندر مرعوب تھے اورانہوں نے اسی غلبہ کوغنیمت جانتے ہوئے جو احد کے میدان میں ان کوحاصل ہوا تھا مکہ کو جلدی جلدی لوٹ جانا ہی مناسب سمجھا،مگر بایں ہمہ آنحضرت ﷺ نے مزید احتیاط کے خیال سے فوراًستر صحابہ کی ایک جماعت جس میں حضرت ابوبکرؓ اورحضرت زبیرؓبھی شامل تھے تیار کرکے لشکر قریش کے پیچھے روانہ کردی۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔ عام مؤرخین یوں بیان کرتے ہیں کہ آپؐ نے حضرت علیؓیابعض روایات کی رو سے سعد بن وقاص کو قریش کے پیچھے بھجوایا اوران سے فرمایا کہ اس بات کاپتہ لائو کہ لشکر قریش مدینہ پر حملہ کرنے کی نیت تو نہیں رکھتا اور آپؐنے ان سے فرمایااگرقریش اونٹوں پر سوار ہوں اور گھوڑوں کو خالی چلا رہے ہوں تو سمجھناکہ وہ مکہ کی طرف واپس جارہے ہیں مدینہ پرحملہ آور ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے اوراگر وہ گھوڑوںپرسوار ہوں تو سمجھنا ان کی نیت بخیر نہیں اور آپ ؐنے ان کوتاکید فرمائی کہ اگر قریش کالشکر مدینہ کا رخ کرے تو فوراًآپؐ کواطلاع دی جاوے اورآپؐنے بڑے جوش کی حالت میں فرمایا کہ اگر قریش نے اس وقت مدینہ پرحملہ کیا تو خدا کی قسم ہم ان کا مقابلہ کرکے انہیں اس حملہ کامزا چکھا دیں گے۔چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے آدمی آپؐکے ارشاد کے ماتحت گئے اوربہت جلد یہ خبر لے کر واپس آگئے کہ قریش کا لشکر مکہ کی طرف جارہا ہے۔

(باقی آئندہ)

(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ495تا500،مطبوعہ قادیان2011)

…٭…٭…٭…