اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-05-04

جنگ بدر

سیرت خاتم النّبیینﷺ
(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

جنگ بدر(بقیہ )

اس مشورہ کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تیزی کے ساتھ بدر کی طرف بڑھنے شروع ہوئے اورجب آپ ؐبدر کے قریب پہنچے توکسی خیال کے ماتحت جسکا ذکر روایات میں نہیں ہے آپؐحضرت ابوبکرؓ صدیق کو اپنے پیچھے سوارکرکے اسلامی لشکر سے کچھ آگے نکل گئے۔ اس وقت آپؐکو ایک بوڑھا بدوی ملاجس سے آپ کو باتوں باتوں میں یہ معلوم ہوا کہ اس وقت قریش کا لشکر بدر کے بالکل پاس پہنچا ہوا ہے۔آپؐیہ خبر سن کر واپس تشریف لے آئے اورحضرت علی اورزبیر بن العوام اور سعد بن وقاص وغیرہ کودریافت حالات کیلئے آگے روانہ فرمایا۔جب یہ لوگ بدر کی وادی میں گئے تو اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ مکہ کے چند لوگ ایک چشمہ سے پانی بھررہے ہیں۔ان صحابیوں نے اس جماعت پرحملہ کرکے ان میں سے ایک حبشی غلام کو پکڑ لیا اور اسے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔ اس وقت آپؐ نماز میں مصروف تھے۔صحابہ نے یہ دیکھ کر کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تو نمازمیں مصروف ہیں،خود اس غلام سے پوچھنا شروع کیا کہ ابو سفیان کا قافلہ کہاں ہے۔ یہ حبشی غلام چونکہ لشکر کے ہمراہ آیا تھا اورقافلہ سے بے خبر تھا اس نے جواب میں کہا کہ ابو سفیان کا تو مجھے علم نہیں ہے،البتہ ابوالحکم یعنی ابو جہل اورعتبہ اورشیبہ اورامیہ وغیرہ اس وادی کے دوسرے کنارے ڈیرہ ڈالے پڑے ہیں۔ صحابہ نے جن کا میلان قافلہ کی طرف زیادہ تھا سمجھا کہ وہ جھوٹ بولتا ہے اوردیدہ دانستہ قافلہ کی خبر کو چھپانا چاہتا ہے۔ جس پر بعض لوگوں نے اسے کچھ زدوکوب کیا،لیکن جب وہ اسے مارتے تھے تووہ ڈر کے مارے کہہ دیتا تھا کہ اچھا میں بتاتا ہوں اورجب اسے چھوڑ دیتے تھے تو پھر وہی پہلا جواب دیتا تھا کہ مجھے ابوسفیان کا توکوئی علم نہیں ہے البتہ ابوجہل وغیرہ یہ پاس ہی موجود ہیں۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے نماز میں یہ باتیں سنیں تو آپؐنے جلدی سے نماز سے فارغ ہوکر صحابہ کو مارنے سے روکا اور فرمایا۔’’جب وہ سچی بات بتاتا ہے تو تم اسے مارتے ہو اورجھوٹ کہنے لگتا ہے تو چھوڑ دیتے ہو۔‘‘ پھرآپؐنے خود نرمی کے ساتھ اس سے دریافت فرمایا کہ لشکر اس وقت کہاں ہے۔اس نے جواب دیا اس سامنے والے ٹیلے کے پیچھے ہے۔ آپؐنے پوچھاکہ لشکر میں کتنے آدمی ہیں۔اس نے جواب دیاکہ بہت ہیں مگر پوری پوری تعداد مجھے معلوم نہیں ہے۔ آپؐنے فرمایااچھا یہ بتائوکہ ان کیلئے ہر روز کتنے اونٹ ذبح ہوتے ہیں۔اس نے کہا کہ دس ہوتے ہیں۔آپؐنے صحابہ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایاکہ ایک ہزارآدمی معلوم ہوتے ہیں۔ اور حقیقۃً وہ اتنے ہی تھے۔ پھرآپؐنے اس غلام سے پوچھا کہ رئوساء قریش میں سے کون کون لوگ ہیں۔اس نے کہا۔ عتبہ، شیبہ،ابوجہل،ابوالبختری،عقبہ بن ابی معیط،حکیم بن حزام، نضربن حارث، امیہ بن خلف،سہیل بن عمرو،نوفل بن خویلد،طعیمہ بن عدی،زمعہ بن اسود وغیرہ وغیرہ سب ساتھ ہیں۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ سے مخاطب ہوکر فرمایا ھٰذَا مَکَّۃَ قَدْ اَلْقَتْ اِلَیْکُمْ اَفْلَا ذَکَبِدِھَا یعنی’’لومکہ نے تمہارے سامنے اپنے جگر گوشے نکال کرڈال دئیے ہیں۔‘‘ یہ نہایت دانشمندانہ اورحکیمانہ الفاظ تھے جوآپؐکی زبان مبارک سے بے ساختہ طورپر نکلے کیونکہ بجائے اسکے کہ قریش کے اتنے نامور رئوساء کاذکر آنے سے کمزور طبیعت مسلمان بے دل ہوتے ان الفاظ نے ان کی قوت متخیلہ کو اس طرف مائل کردیاکہ گویا ان سردارانِ قریش کوتو خدا نے مسلمانوں کا شکار بننے کیلئے بھیجا ہے۔
جس جگہ اسلامی لشکر نے ڈیرہ ڈالا تھا وہ کوئی ایسی اچھی جگہ نہ تھی ۔اس پر حباب بن منذر نے آپؐسے دریافت کیا کہ آیا خدائی الہام کے ماتحت آپؐنے یہ جگہ پسند کی ہے یا محض فوجی تدبیر کے طور پر اسے اختیار کیا ہے؟آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اس بارہ میں کوئی خدائی حکم نہیں ہے ،تم کوئی مشورہ دینا چاہتے ہو توبتائو؟ حباب نے عرض کیاتو پھر میرے خیال میں یہ جگہ اچھی نہیں ہے۔بہتر ہوگا کہ آگے بڑھ کر قریش سے قریب ترین چشمہ پرقبضہ کرلیا جاوے۔میں اس چشمہ کو جانتا ہوں۔اسکا پانی اچھا ہے اورعموماًہوتا بھی کافی ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس تجویز کو پسند فرمایا اورچونکہ ابھی تک قریش ٹیلہ کے پرے ڈیرہ ڈالے پڑے تھے اور یہ چشمہ خالی تھا، مسلمان آگے بڑھ کر اس چشمہ پر قابض ہوگئے لیکن جیسا کہ قرآن شریف میں اشارہ پایا جاتا ہے اس وقت اس چشمہ میں بھی پانی زیادہ نہیں تھا اورمسلمانوں کوپانی کی قلت محسوس ہوتی تھی ۔پھر یہ بھی تھا کہ وادی کے جس طرف مسلمان تھے وہ ایسی اچھی نہ تھی کیونکہ اس طرف ریت بہت تھی جس کی وجہ سے پائوں اچھی طرح جمتے نہیں تھے۔
جگہ کے انتخاب کے بعد سعد بن معاذ رئیس اوس کی تجویز سے صحابہ نے میدان کے ایک حصہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے واسطے ایک سائبان ساتیار کردیا اور سعد نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سواری سائبان کے پاس باندھ کر عرض کیا کہ’’یارسول اللہ! آپؐاس سائبان میں تشریف رکھیںاورہم اللہ کا نام لے کر دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں۔اگر خدا نے ہمیں فتح دی تو یہی ہماری آرزو ہے،لیکن اگرخدانخواستہ معاملہ دگرگوں ہوا توآپؐاپنی سواری پرسوار ہوکر جس طرح بھی ہو مدینہ پہنچ جائیں۔ وہاں ہمارے ایسے بھائی بند موجود ہیں جو محبت واخلاص میں ہم سے کم نہیں ہیں۔ لیکن چونکہ ان کو یہ خیال نہیں تھا کہ اس مہم میں جنگ پیش آجائے گی اس لئے وہ ہمارے ساتھ نہیں آئے ورنہ ہرگز پیچھے نہ رہتے لیکن جب انہیں حالات کاعلم ہوگا ،تووہ آپؐکی حفاظت میں جان تک لڑا دینے سے دریغ نہیں کریں گے۔‘‘ یہ سعد کا جوشِ اخلاص تھا جو ہر حالت میں قابلِ تعریف ہے، ورنہ بھلا خدا کا رسول اورمیدان سے بھاگے۔چنانچہ حنین کے میدان میں بارہ ہزار فوج نے پیٹھ دکھائی،مگر یہ مرکز توحید اپنی جگہ سے متزلزل نہیں ہوا۔بہرحال سائبان تیار کیا گیا اور سعداور بعض دوسرے انصار اس کے گرد پہرہ دینے کیلئے کھڑے ہوگئے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر نے اسی سائبان میں رات بسر کی۔اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے رات بھر خدا کے حضور گریہ وزاری سے دعائیں کیں اورلکھا ہے کہ سارے لشکر میں صرف آپؐہی تھے جو رات بھر جاگے ،باقی سب لوگ باری باری اپنی نیند سولئےاورچونکہ نیند کا آنا بھی ایک اطمینان کی علامت سمجھا جاتا ہے ،اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا قرآن شریف میں ذکر کیا ہے۔ پھر خدا کامزید فضل یہ ہوا کہ کچھ بارش بھی ہوگئی جس سے مسلمانوں کویہ موقع مل گیا کہ حوض بنابناکر پانی جمع کرلیںاور یہ بھی فائدہ ہوگیا کہ ریت جم گئی اورپائوں زمین میں دھسنے سے رک گئے۔دوسری طرف قریش والی جگہ میں کیچڑ کی سی صورت ہوگئی اوراس طرف کاپانی بھی کچھ گدلا ہوکر میلا ہوگیا۔اس واقعہ کابھی قرآن شریف نے ذکر کیا ہے۔
اب رمضان2ہجری کی سترہ تاریخ اور جمعہ کا دن تھااورعیسوی حساب سے 14؍ مارچ623ء تھی۔ صبح اٹھ کر سب سے پہلے نماز ادا کی گئی اور پرستارانِ احدیت کھلے میدان میں خدائے واحد کے حضور سربسجود ہوئے۔ اسکے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جہاد پرایک خطبہ فرمایااور پھر جب ذرا روشنی ہوئی تو آپؐنے ایک تیر کے اشارہ سے مسلمانوں کی صفوں کودرست کرنا شروع کیا۔ ایک صحابی سوادؓ نامی صف سے کچھ آگے نکلا کھڑا تھا آپؐ نے اسے تیر کے اشارہ سے پیچھے ہٹنے کو کہا،مگر اتفاق سے آپؐکے تیر کی لکڑی اس کے سینہ پر جا لگی۔اس نے جرأت کے انداز سے عرض کیا۔’’ یارسول اللہ!آپؐکوخدا نے حق وانصاف کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے۔مگرآپؐنے مجھے ناحق تیر مارا ہے واللہ میں تو اس کا بدلہ لوں گا۔‘‘صحابہ انگشت بدنداں تھے کہ سواد کوکیا ہوگیا ہے ،مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے نہایت شفقت سے فرمایا کہ اچھا سواد تم بھی مجھے تیر مارلو‘‘اورآپؐنے اپنے سینہ سے کپڑا اٹھادیا۔ سواد نے فرطِ محبت سے آگے بڑھ کرآپؐکاسینہ چوم لیا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ ’’سواد یہ تمہیں کیا سوجھی۔‘‘اس نے رقت بھری آواز میں عرض کیا۔’’یارسول اللہ!دشمن سامنے ہے کچھ خبر نہیں کہ یہاں سے بچ کر جانا ملتا ہے یا نہیں ۔میں نے چاہا کہ شہادت سے پہلے آپؐکے جسم مبارک سے اپنا جسم چھوجائوں۔‘‘ غالباً اسی وقت کے قریب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حذیفہ بن یمان اورابوجَبَل حاضرہوئے اور عرض کیاہم ابھی ابھی مکہ سے آرہے ہیں۔ جب ہم وہاں سے نکلے تھے تو قریش نے ہم کو روک دیا تھا اورپھر یہ عہد لے کر چھوڑا تھاکہ ہم آپؐکے ساتھ ہوکر ان کے خلاف جنگ نہیں کریں گے۔گویہ عہد قابلِ ایفاء نہیں تھا کیونکہ جبراًلیا گیا تھامگرآپؐنے فرمایا’’توپھر تم جائو اور اپنے عہد کو پوراکرو۔ہم اللہ ہی سے مدد چاہتے ہیں اوراسی کی نصرت پر ہمارابھروسہ ہے۔‘‘
ابھی آپ صفوں کی درستی میں ہی مصروف تھے کہ قریش کے لشکر میں حرکت پیدا ہوئی اورلشکر کفار میدان قتال کی طرف بڑھنا شروع ہوا۔یہ وہ موقع تھا جبکہ کفار کو مسلمان اصلی تعداد سے کم نظر آتے تھے۔ اس لئے وہ جرأت کے ساتھ بڑھتے آئے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں دور سے دیکھا تو فرمایا ’’اے میرے مولا!یہ لوگ تکبروغرور سے بھرے ہوئے تیرے دین کے مٹانے کیلئے آئے ہیں تو اپنے وعدہ کے مطابق اپنے دین کی نصرت فرما۔‘‘اسی اثناء میں قریش کے چند آدمی مسلمانوں کے چشمہ کی طرف بڑھے۔صحابہ نے روکنا چاہا مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع فرمایا اورحکم دیا کہ ان کو پانی پی لینے دیا جاوے۔چنانچہ انہوں نے امن کے ساتھ پانی پیااوراپنے لشکر کوواپس لوٹ گئے۔ دشمن کے ساتھ اس عدل واحسان کامعاملہ کرنا عرب کے ضابطۂ اخلاق میں مفقود تھا اوریہ اسلام کی ایک خصوصیت ہے کہ اس نے خود حفاظتی قواعد کی رعایت رکھتے ہوئے دشمن سے بھی نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔
اب فوجیں بالکل ایک دوسرے کے سامنے تھیں۔ مگر قدرت الٰہی کاعجیب تماشہ ہے کہ اس وقت لشکروں کے کھڑے ہونے کی ترتیب ایسی تھی کہ اسلامی لشکر قریش کو اصلی تعداد سے زیادہ بلکہ دوگنا نظرآتا تھا۔ جس کی وجہ سے کفار مرعوب ہوئے جاتے تھے اوردوسری طرف قریش کالشکر مسلمانوں کو ان کی اصلی تعداد سے کم نظر آتا تھا۔ جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے دل بڑھے ہوئے تھے۔ قریش کی یہ کوشش تھی کہ کسی طرح اسلامی لشکر کی تعداد کا صحیح اندازہ پتہ لگ جاوے تاکہ وہ چھوٹے ہوئے دلوں کو سہارا دے سکیں۔اس کیلئے رئوساء قریش نے عمیر بن وہب کو بھیجا کہ اسلامی لشکر کے چاروں طرف گھوڑا دوڑا کردیکھے کہ اس کی تعداد کتنی ہے اورآیا ان کے پیچھے کوئی کمک تو مخفی نہیں؟ چنانچہ عمیر نے گھوڑے پر سوار ہوکر مسلمانوں کا ایک چکر کاٹا،مگر اسے مسلمانوں کی شکل وصورت سے ایسا جلال اورعزم اور موت سے ایسی بے پروائی نظر آئی کہ وہ سخت مرعوب ہوکر لوٹا اور قریش سے مخاطب ہو کر کہنے لگا مَا رَأَیْتُ شَیْئًا وَلٰکِنِّی قَدْ رَأَیْتُ یَامَعْشَرَ الْقُرَیْشِ اَلبَلَایَا تَحْمِلُ الْمَنَایَانَوَاضِحُ یَثْرَبَ تَحْمِلُ الْمَوْتَ النَّاقِعَ یعنی’’مجھے کوئی مخفی کمک وغیرہ تو نظر نہیں آئی، لیکن اے معشرقریش!میں نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں کے لشکر میں گویا اونٹنیوں کے کجاوں نے اپنے اوپر آدمیوں کونہیں بلکہ موتوں کواٹھایا ہوا ہے اوریثرب کی سانڈنیوں پرگویا ہلاکتیں سوار ہیں۔‘‘قریش نے جب یہ بات سنی توان میں ایک بے چینی سی پیدا ہوگئی۔سراقہ جوان کا ضامن بن کر آیا تھا کچھ ایسا مرعوب ہواکہ الٹے پائوں بھاگ گیا۔اورجب لوگوں نے اسے روکا تو کہنے لگااِنِّیْٓ اَرٰی مَالَاتَرَوْنَ ’’مجھے جو کچھ نظر آرہا ہے وہ تم نہیں دیکھتے۔‘‘حکیم بن حزام نے عمیرکی رائے سنی تو گھبرایاہوا عتبہ بن ربیعہ کے پاس آیا اورکہنے لگا۔اے عتبہ!تم محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) سے آخر عمروحضرمی کا بدلہ ہی چاہتے ہو۔ وہ تمہارا حلیف تھاکیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ تم اسکی طرف سے خون بہاادا کردو اور قریش کو لے کر واپس لوٹ جائو اس میں ہمیشہ کیلئے تمہاری نیک نامی رہے گی۔‘‘عتبہ کوجو خود گھبرایا ہوا تھا اورکیا چاہئے تھا جھٹ بولا۔’’ہاں ہاں میں راضی ہوں اورپھر حکیم! دیکھو تو یہ مسلمان اور ہم آخر آپس میں رشتہ دار ہی تو ہیں۔کیا یہ اچھا لگتا ہے کہ بھائی بھائی پرتلوار اٹھائے اورباپ بیٹے پر۔تم ایسا کرو کہ ابھی ابوالحکم (یعنی ابوجہل)کے پاس جائو اوراسکے سامنے یہ تجویز پیش کرو۔‘‘ اورادھر عتبہ نے خود اونٹ پر سوار ہوکر اپنی طرف سے لوگوں کو سمجھانا شروع کردیا کہ’’رشتہ داروں میں لڑائی ٹھیک نہیں ہے۔ہمیںواپس لوٹ جانا چاہئے اور محمدکو اسکے حال پر چھوڑ دینا چاہئے کہ وہ دوسرے قبائل عرب کے ساتھ نپٹتا رہے جو نتیجہ ہوگا دیکھا جائے گا۔اورپھر تم دیکھو کہ ان مسلمانوں کے ساتھ لڑنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے۔کیونکہ خواہ تم مجھے بزدل کہو حالانکہ میں بزدل نہیں ہوں اِنّی اَریٰ قَوْمًا مُسْتَمِیْتِیْنَ۔یعنی’’مجھے تو یہ لوگ موت کے خریدار نظر آتے ہیں۔‘‘آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دور سے عتبہ کو دیکھا تو فرمایا’’اگر لشکرکفارمیں سے کسی میں شرافت ہے تو اس سرخ اونٹ کے سوار میں ضرورہے۔اگر یہ لوگ اسکی بات مان لیں توان کیلئے اچھا ہو۔‘‘لیکن جب حکیم بن حزام ابوجہل کے پاس آیا اوراس سے یہ تجویزبیان کی تو وہ فرعونِ امت بھلا ایسی باتوں میں کب آنے والا تھا چھٹتے ہی بولا۔’’اچھا اچھا اب عتبہ کواپنے سامنے اپنے رشتہ دار نظر آنے لگے ہیں۔‘‘اور پھر اس نے عمروحضرمی کے بھائی عامر حضرمی کوبلاکر کہا’’تم نے سنا تمہارا حلیف عتبہ کیا کہتا ہے اوروہ بھی اس وقت جبکہ تمہارے بھائی کا بدلہ گویا ہاتھ میں آیا ہوا ہے۔‘‘عامر کی آنکھوں میں خون اتر آیا اوراس نے عرب کے قدیم دستور کے مطابق اپنے کپڑے پھاڑ کر اور ننگا ہوکر چلانا شروع کیا ’’واعمراہ واعمراہ‘‘ہائے افسوس!میرا بھائی بغیر انتقام کے رہا جاتا ہے۔ہائے افسوس! میرا بھائی بغیر انتقام کے رہا جاتا ہے!!اس صحرائی آواز نے لشکر قریش کے سینوں میں عداوت کے شعلے بلند کردیئے اور جنگ کی بھٹی اپنے پورے زورسے دہکنے لگ گئی۔‘‘
ابوجہل کے طعنے نے عتبہ کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی۔اس غصہ میں بھرا ہوا وہ اپنے بھائی شیبہ اوراپنے لڑکے ولید کوساتھ لے کر لشکر کفار سے آگے بڑھا اور عرب کے قدیم دستور کے مطابق انفرادی لڑائی کیلئے مبارزطلبی کی۔چند انصاران کے مقابلہ کیلئے آگے بڑھنے لگے۔مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو روک دیااور فرمایا۔ ’’حمزہ تم اٹھو،علی تم اٹھو،عبیدہ تم اٹھو!‘‘یہ تینوں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نہایت قریبی رشتہ دار تھے اور آپؐ چاہتے تھے کہ خطرہ کی جگہ پر سب سے پہلے آپؐکے عزیزواقارب آگے بڑھیں۔ دوسری طرف عتبہ وغیرہ نے بھی انصار کو دیکھ کر آوازدی کہ ’’ان لوگوں کو ہم کیا جانتے ہیں۔ہماری ٹکر کے ہمارے سامنے آئیں۔‘‘چنانچہ حمزہ اور علی اور عبیدہ آگے بڑھے۔عرب کے دستور کے مطابق پہلے روشناسی ہوئی۔پھرعبیدۃ بن مطلب ولید کے مقابل ہوگئے اور حمزہ عتبہ کے اورعلی شیبہ کے۔حمزہ اورعلی نے تو ایک دو واروں میں ہی اپنے حریفوں کو خاک میں ملادیا، لیکن عبیدۃ اورولید میں دو چار اچھی ضربیں ہوئیں۔ اوربالآخر دونوںایک دوسرے کے ہاتھ سے کاری زخم کھاکرگرے۔جس پر حمزہ اورعلی نے جلدی سے آگے بڑھ کر ولید کا تو خاتمہ کردیا اور عبیدۃ کواٹھا کر اپنے کیمپ میں لے آئے۔مگر عبیدہ اس صدمہ سے جانبر نہ ہوسکے اور بدر سے واپسی پر راستہ میں انتقال کیا۔
(سیرت خاتم النّبیین صفحہ 355تا 360 مطبوعہ قادیان2011)