اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-12-14

جنگ اُحد، شوال3ہجری مطابق مارچ624ء(بقیہ حصہ)

سیرت خاتم النّبیینﷺ

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

جب عبداللہ بن جبیر کے ساتھیوں نے دیکھا کہ اب تو فتح ہوچکی ہے توانہوں نے اپنے امیر عبداللہ سے کہا کہ اب توفتح ہوچکی ہے اورمسلمان غنیمت کامال جمع کررہے ہیں آپ ہم کو اجازت دیں کہ ہم بھی لشکر کے ساتھ جاکر شامل ہوجائیں۔عبداللہ نے انہیں روکا اور آنحضرت ﷺ کی تاکیدی ہدایت یاد دلائی، مگروہ فتح کی خوشی میں غافل ہورہے تھے اسلئے وہ باز نہ آئے اوریہ کہتے ہوئے نیچے اترگئے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کاصرف یہ مطلب تھا کہ جب تک کہ پورا اطمینان نہ ہولے درہ خالی نہ چھوڑا جاوے اوراب چونکہ فتح ہو چکی ہے اس لئے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور سوائے عبداللہ بن جبیر اوران کے پانچ سات ساتھیوں کے درہ کی حفاظت کیلئے کوئی نہ رہا۔ خالد بن ولید کی تیزآنکھ نے دور سے درہ کی طرف دیکھا تومیدان صاف پایا جس پر اس نے اپنے سواروں کوجلدی جلدی جمع کر کے فوراًدرّہ کارخ کیا اور اسکے پیچھے پیچھے عکرمہ بن ابوجہل بھی رہے سہے دستہ کو ساتھ لے کر تیزی کے ساتھ وہاں پہنچا اوریہ دونوں دستے عبداللہ بن جبیر اوران کے چند ساتھیوں کوایک آن کی آن میں شہید کرکے اسلامی لشکر کے عقب میں اچانک حملہ آور ہوگئے۔ مسلمان جو فتح کے اطمینان میں غافل اورمنتشر ہورہے تھے اس بلائے ناگہانی سے گھبرا گئے۔مگرپھر بھی سنبھلے اورپلٹ کرکفار کے حملہ کوروکناچاہا اس وقت کسی چالاک معاند نے یہ آواز دی کہ اے مسلمانو!دوسری طرف سے بھی کفار کادھاوا ہوگیا ہے۔ مسلمانوں نے سراسیمہ ہوکر پھر پلٹا کھایا اورگھبراہٹ میں بے دیکھے سمجھے اپنے آدمیوں پرہی تلوار چلانی شروع کردی۔ دوسری طرف مکہ کی ایک بہادر عورت عمرۃ بنت علقمہ نے جب یہ نظارہ دیکھا تو جھٹ آگے بڑھ کر قریش کا عَلَم جوابھی تک خاک میں پڑا تھا اٹھا کربلند کردیا جسے دیکھتے ہی قریش کامنتشر لشکر پھر جمع ہوگیا۔ اوراس طرح مسلمان حقیقتاً چاروں طرف سے دشمن کے نرغہ میںگھرگئے اور اسلامی فوج میں ایک خطرناک کھلبلی کی صورت پیداہوگئی۔ آنحضرت ﷺنے جو ایک بلند جگہ پرکھڑے ہوئے یہ سب نظارہ دیکھ رہے تھے مسلمانوں کوآواز پرآواز دی،مگر اس شورشرابے میں آپ کی آواز دب دب کررہ جاتی تھی۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ یہ سب کچھ اتنے قلیل عرصہ میں ہوگیا کہ اکثرمسلمان بالکل بدحواس ہوگئے۔حتّٰی کہ اس بدحواسی میں بعض مسلمان ایک دوسرے پر وارکرنے لگ گئے اوراپنے پرائے میں امتیاز نہ رہا۔ چنانچہ خود مسلمانوں کے ہاتھ سے بعض مسلمان زخمی ہوگئے اورحذیفہ کے والد یمان کوتو مسلمانوں نے غلطی سے شہید ہی کردیا۔ حذیفہ اس وقت قریب ہی تھے وہ چلاتے رہ گئے کہ اے مسلمانو!یہ میرے والد ہیں مگراس وقت کون سنتا تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بعد میں مسلمانوں کی طرف سے یمان کاخون بہا اداکرنا چاہا مگر حذیفہ نے لینے سے انکار کردیا اورکہا کہ میں اپنے باپ کا خون مسلمانوں کو معاف کرتا ہوں۔
حضرت حمزہ جوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حقیقی چچاہونے کے علاوہ آپؐکے رضاعی بھائی بھی تھے۔ نہایت بہادری کے ساتھ لڑ رہے تھے اورجدھر جاتے تھے ان کے سامنے قریش کی صفیں پھٹ پھٹ جاتی تھیں مگر دشمن بھی ان کی تاک میں تھا اورجبیربن مطعم اپنے ایک حبشی غلام وحشی نامی کو خاص طورپر آزادی کاوعدہ دے کر اپنے ساتھ لایا تھا کہ جس طرح بھی ہو حمزہ کوجنہوں نے جبیر کے چچا طعیمہ بن عدی کو بدر کے موقع پر تلوار کی گھاٹ اتارا تھا قتل کرکے اسکے انتقام کوپورا کرے۔ چنانچہ وحشی ایک جگہ پر چھپ کر ان کی تاک میں بیٹھ گیا اورجب حمزہ کسی شخص پر حملہ کرتے ہوئے وہاں سے گزرے تواس نے خوب تاک کر ان کی ناف کے نیچے اپنا چھوٹا سانیزہ مارا جو لگتے ہی بدن کے پار ہوگیا۔ حمزہ لڑکھڑاتے ہوئے گرے مگرپھر ہمت کرکے اٹھے اورایک جست کرکے وحشی کی طرف بڑھنا چاہا مگر پھرلڑکھڑا کرگرے اورجان دے دی اوراس طرح اسلامی لشکر کاایک مضبوط بازو ٹوٹ گیا۔آنحضرت ﷺ کوجب حمزہ کے قتل کی اطلاع ملی تو آپؐکوسخت صدمہ ہوا اور روایت آتی ہے کہ غزوہ طائف کے بعد جب حمزہ کا قاتل آنحضرت ﷺ کے سامنے آیا توآپؐنے اسے معاف تو فرما دیا۔مگرحمزہ کی محبت کااحترام کرتے ہوئے فرمایا کہ وحشی میرے سامنے نہ آیا کرے۔اس وقت وحشی نے اپنے دل میں یہ عہد کیا کہ جس ہاتھ سے میں نے رسول خدا کے چچا کوقتل کیا ہے۔جب تک اسی ہاتھ سے کسی بڑے دشمن اسلام کوتہ تیغ نہ کرلوں گا چین نہ لوں گا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر کے عہد خلافت میں اس نے جنگ یمامہ میں نبوت کے جھوٹے مدعی مسیلمہ کذاب کوقتل کرکے اپنے عہد کو پورا کیا۔اس گھمسان کے موقع پر وہ مسلمان عورتیں بھی جو اس غزوہ میں ساتھ تھیں پوری تندہی اورجانفشانی سے اپنے کام میں مصروف تھیں اور ادھر ادھر بھاگ کرصحابہ کوپانی پلانے اورزخمیوں کی خبرگیری کرنے اوراسی قسم کی دوسری خدمات سرانجام دے رہی تھیں۔ان خواتین میں حضرت عائشہ اور ام سلیم اورام سلیط کے اسماء صحابہ کوپانی لالا کرپلانے کی خدمت کی ضمن میں خاص طورپر مذکور ہوئے ہیں۔
جیسا کہ اوپر بتایا جاچکاہے یہ وقت مسلمانوں کے واسطے سخت پریشانی کاوقت تھا۔قریش کے لشکر نے قریباً چاروں طرف گھیرا ڈال رکھا تھا اوراپنے پے درپے حملوں سے ہرآن دباتا چلاآتا تھا۔ اس پر بھی مسلمان شاید تھوڑی دیربعد سنبھل جاتے مگرغضب یہ ہوا کہ قریش کے ایک بہادرسپاہی عبداللہ بن قمۂ نے مسلمانوں کے علمبردار مصعب بن عمیر پر حملہ کیا اور اپنی تلوار کے وار سے انکا دایاں ہاتھ کاٹ گرایا۔مصعب نے فوراًدوسرے ہاتھ میں جھنڈا تھام لیا اورابن قمۂ کے مقابلہ کیلئے آگے بڑھے۔مگراس نے دوسرے وار میں ان کا دوسرا ہاتھ بھی قلم کردیا۔اس پر مصعب نے اپنے دونوں کٹے ہوئے ہاتھوں کوجوڑ کر گرتے ہوئے اسلامی جھنڈے کوسنبھالنے کی کوشش کی اوراسے چھاتی سے چمٹالیا۔جس پر ابن قمۂ نے ان پر تیسرا وار کیااوراب کی دفعہ مصعب شہید ہوکر گرگئے۔ جھنڈا تو کسی دوسرے مسلمان نے فوراًآگے بڑھ کر تھام لیا۔ مگر چونکہ مصعب کاڈیل ڈول آنحضرت ﷺسے ملتا تھا ابن قمۂ نے سمجھاکہ میں نے محمد (ﷺ) کومار لیا ہے۔ یایہ بھی ممکن ہے کہ اسکی طرف سے یہ تجویز محض شرارت اوردھوکا دہی کے خیال سے ہو۔بہرحال اس نے مصعب کے شہید ہوکر گرنے پرشور مچادیا کہ میں نے محمد (ﷺ) کومار لیا ہے۔ اس خبر سے مسلمانوں کے رہے سہے اوسان بھی جاتے رہےاوران کی جمعیت بالکل منتشر ہوگئی اوربہت سے صحابی سراسمیہ ہو کر میدان سے بھاگ نکلے۔
اس وقت مسلمان تین حصوں میں منقسم تھے۔ ایک گروہ وہ تھا جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر میدان سے بھاگ گیا تھا ،مگر یہ گروہ سب سے تھوڑا تھا۔ ان لوگوں میں حضرت عثمان بن عفان بھی شامل تھے۔ مگرجیسا کہ قرآن شریف میں ذکر آتا ہے اس وقت کے خاص حالات اوران لوگوں کے دلی ایمان اوراخلاص کومدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا۔ ان لوگوں میں سے بعض مدینہ تک جاپہنچے اوراس طرح مدینہ میں بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خیالی شہادت اورلشکر اسلام کی ہزیمت کی خبر پہنچ گئی جس سے تمام شہر میں ایک کہرام مچ گیا اور مسلمان مرد،عورتیں بچے بوڑھے نہایت سراسیمگی کی حالت میں شہر سے باہر نکل آئے اوراحد کی طرف روانہ ہوگئےاوربعض توجلد جلد دوڑتے ہوئے میدان جنگ میں پہنچے اوراللہ کانام لے کر دشمن کی صفوں میں گھس گئے۔ دوسرے گروہ میں وہ لوگ تھے جوبھاگے تونہیں تھے،مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر یاتو ہمت ہار بیٹھے تھے اوریااب لڑنے کوبیکار سمجھتے تھے اوراس لئے میدان سے ایک طرف ہٹ کرسرنگوں ہوکر بیٹھ گئے تھے۔ تیسرا گروہ وہ تھا جوبرابر لڑ رہا تھا۔ ان میںسے کچھ تو وہ لوگ تھے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اردگرد جمع تھے اوربے نظیر جان نثاری کے جوہر دکھا رہے تھے اوراکثر وہ تھے جومیدان جنگ میں منتشر طورپر لڑ رہے تھے۔ ان لوگوں اورنیز گروہ ثانی کے لوگوں کوجوں جوں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زندہ موجود ہونے کاپتہ لگتا جاتا تھا یہ لوگ دیوانوں کی طرح لڑتے بھڑتے آپؐکے اردگرد جمع ہوتے جاتے تھے۔اس وقت جنگ کی حالت یہ تھی کہ قریش کالشکر گویا سمندر کی مہیب لہروں کی طرح چاروں طرف سے بڑھا چلاآتا تھااور میدان جنگ میں ہرطرف سے تیر اورپتھروں کی بارش ہورہی تھی۔ جان نثاروں نے اس خطرہ کی حالت کو دیکھ کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارد گرد گھیراڈال کر آپؐکے جسم مبارک کواپنے بدنوں سے چھپا لیا،مگر پھربھی جب کبھی حملہ کی رَواٹھتی تھی تو یہ چند گنتی کے آدمی ادھر ادھر دھکیل دئے جاتے تھے اور ایسی حالت میں بعض اوقات آنحضرت ﷺ قریباً اکیلے رہ جاتے تھے۔ کسی ایسے ہی موقع پر حضرت سعدبن ابی وقاص کے مشرک بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا ایک پتھر آپؐکے چہرہ مبارک پرلگا۔جس سے آپؐکا ایک دانت ٹوٹ گیا اور ہونٹ بھی زخمی ہوا۔ ابھی زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ ایک اورپتھر جوعبداللہ بن شہاب نے پھینکا تھااس نے آپؐکی پیشانی کو زخمی کیا اور تھوڑی دیر کے بعد تیسرا پتھر جو ابن قمۂ نے پھینکا تھا آپؐکے رخسار مبارک پر آکرلگا جس سے آپؐکے مغفر (خود) کی دوکڑیاں آپؐکے رخسار میں چبھ کررہ گئیں۔ سعد بن ابی وقاص کواپنے بھائی عتبہ کے اس فعل پراس قدر غصہ تھا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ مجھے کبھی کسی دشمن کے قتل کیلئے اتنا جوش نہیں آیا جتنا مجھے اُحد کے دن عتبہ کے قتل کاجوش تھا۔
اس وقت نہایت خطرناک لڑائی ہورہی تھی اور مسلمانوں کے واسطے ایک سخت ابتلاء اورامتحان کا وقت تھا اورجیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے آنحضرتﷺ کی شہادت کی خبر سن کر بہت سے صحابہ ہمت ہار چکے تھے اورہتھیار پھینک کرمیدان سے ایک طرف ہوگئے تھے ۔انہی میں حضرت عمرؓبھی تھے۔چنانچہ یہ لوگ اسی طرح میدان جنگ کے ایک طرف بیٹھے تھے کہ اوپر سے ایک صحابی انس بن نضرانصاری آگئے اوران کو دیکھ کر کہنے لگے۔’’تم لوگ یہاں کیا کرتے ہو؟‘‘ انہوں نے جواب دیا۔’’رسول اللہ ؐنے شہادت پائی۔ اب لڑنے سے کیا حاصل ہے؟‘‘انس نے کہا۔ یہی تو لڑنے کا وقت ہے تاجوموت رسول اللہ نے پائی وہ ہمیں بھی نصیب ہواورپھرآپؐکے بعد زندگی کا بھی کیا لطف ہے؟اور پھر ان کے سامنے سعد بن معاذ آئے تو انہوںنے کہا۔’’سعد مجھے تواس پہاڑی سے جنت کی خوشبو آرہی ہے۔‘‘یہ کہہ کر انس دشمن کی صفوں میں گھس گئے اورلڑتے لڑتے شہید ہوئے۔ جنگ کے بعد دیکھا گیا توان کے بدن پراسّی سے زیادہ زخم تھے۔اورکوئی پہچان نہ سکتا تھا کہ یہ کس کی لاش ہے۔آخر ان کی بہن نے ان کی انگلی دیکھ کر شناخت کیا۔ (باقی آئندہ)

(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ491تا495 مطبوعہ قادیان2011)