اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-12-07

جنگ اُحد، شوال3ہجری مطابق مارچ624ء

سیرت خاتم النّبیینﷺ

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

(بقیہ حصہ)

دوسرے دن یعنی15؍شوال3؍ہجری مطابق31 مارچ 624ء بروز ہفتہ سحری کے وقت لشکر اسلامی آگے بڑھا اورراستے میں نماز اداکرتے ہوئے صبح ہوتے ہی اُحد کے دامن میں پہنچ گیا۔ اس موقع پربدباطن عبداللہ بن ابیّ بن سلول رئیس المنافقین نے غداری کی اوراپنے تین سو ساتھیوں کے ساتھ مسلمانوں کے لشکر سے ہٹ کریہ کہتا ہوا مدینہ کی طرف واپس لوٹ گیا کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے میری بات نہیں مانی اورناتجربہ کارنوجوانوں کے کہنے میں آکر باہرنکل آئے ہیں،اس لئے میں ان کے ساتھ ہوکر نہیں لڑسکتا۔بعض لوگوں نے بطور خود اسے سمجھایا بھی کہ یہ غداری ٹھیک نہیں ہے،مگر اس نے ایک نہ سنی اوریہی کہتا گیا کہ یہ کوئی لڑائی ہوتی تومیں بھی شامل ہوتامگر یہ کوئی لڑائی نہیں ہے بلکہ خود ہلاکت کے منہ میں جانا ہے۔ اب اسلامی لشکر کی تعدادصرف سات سونفوس پر مشتمل تھی جو کفار کے تین ہزار سپاہیوں کے مقابلہ میں ایک چہارم سے بھی کم تھی اور سواری اورسامان حرب کے لحاظ سے بھی اسلامی لشکر قریش کے مقابلہ میں بالکل کمزور اورحقیر تھا۔کیونکہ مسلمانوں کی فوج میں صرف ایک سوزرہ پوش اورفقط دو گھوڑے تھے۔ اسکے بالمقابل کفار کے لشکر میں سات سوزرہ پوش اور دو سو گھوڑے اورتین ہزار اونٹ تھے۔اس کمزوری کی حالت میں جسے مسلمان خوب محسوس کرتے تھے عبداللہ بن ابیّ کے تین سو آدمی کی غداری نے بعض کمزوردل مسلمانوں میں ایک بے چینی اور اضطراب کی حالت پیدا کردی تھی اور ان میں سے بعض متزلزل ہونے لگ گئے۔چنانچہ جیسا کہ قرآن شریف میں بھی اشارہ کیا گیا ہے اسی گھبراہٹ اوراضطراب کی حالت میں مسلمانوں کے دو قبائل بنوحارثہ اوربنوسلمہ نے مدینہ کی طرف واپس لوٹ جانے کاارادہ بھی کرلیا،مگر چونکہ دل میں نور ایمان موجود تھاپھرسنبھل گئے اورظاہری اسباب کے لحاظ سے موت کو سامنے دیکھتے ہوئے بھی اپنے آقا کے پہلو کونہ چھوڑا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خدا کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے آگے بڑھے اوراُحد کے دامن میں ڈیرہ ڈال دیا۔ ایسے طریق پرکہ اُحد کی پہاڑی مسلمانوں کے پیچھے کی طرف آگئی اورمدینہ گویا سامنے رہا اوراس طرح آپؐنے لشکر کا عقب محفوظ کرلیا۔عقب کی پہاڑی میں ایک درہ تھاجہاں سے حملہ ہوسکتا تھا۔اس کی حفاظت کا آپؐ نے یہ انتظام فرمایا کہ عبداللہ بن جبیر کی سرداری میں پچاس تیرانداز صحابی وہاں متعین فرمادیئے اوران کو تاکید فرمائی کہ خواہ کچھ ہوجاوے وہ اس جگہ کونہ چھوڑیں اوردشمن پرتیر برساتے جائیں۔ آپؐکو اس درہ کی حفاظت کا اس قدر خیال تھا کہ آپؐ نے عبداللہ بن جبیر سے بہ تکرار فرمایا کہ دیکھو یہ درہ کسی صورت میں خالی نہ رہے۔ حتّٰی کہ اگر تم دیکھو کہ ہمیں فتح ہوگئی ہے اوردشمن پسپا ہوکر بھاگ نکلا ہے،تو پھر بھی تم اس جگہ کو نہ چھوڑنا اوراگر تم دیکھو کہ مسلمانوں کوشکست ہوگئی ہے اوردشمن ہم پر غالب آگیا ہے توپھر بھی تم اس جگہ سے نہ ہٹنا۔ حتّٰی کہ ایک رو۱یت میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ’’اگر تم دیکھو کہ پرندے ہمارا گوشت نوچ رہے ہیں تو پھر بھی تم یہاں سے نہ ہٹنا حتّٰی کہ تمہیں یہاں سے ہٹ آنے کاحکم جاوے۔ اس طرح اپنے عقب کو پوری طرح مضبوط کرکے آپؐنے لشکر اسلامی کی صف بندی کی اورمختلف دستوں کے جداجدا امیر مقرر فرمائے۔ اس موقع پرآپؐکو ایہ اطلاع دی گئی کہ لشکرقریش کاجھنڈا طلحہ کے ہاتھ میں ہے۔طلحہ اس خاندان سے تعلق رکھتا تھاجوقریش کے مورث اعلیٰ قصی بن کلاب کے قائم کردہ انتظام کے ماتحت جنگوں میں قریش کی علمبرداری کا حق رکھتا تھا۔یہ معلوم کرکے آپؐ نے فرمایا۔’’ہم قومی وفاداری دکھانے کے زیادہ حق دار ہیںچنانچہ آپ نے حضرت علی سے مہاجرین کا جھنڈا لے کر مصعب بن عمیر کے سپرد فرمادیا جو اسی خاندان کے ایک فرد تھے جس سے طلحہ تعلق رکھتا تھا۔
دوسری طرف قریش کے لشکر میں بھی صف آرائی ہوچکی تھی۔ابو سفیان امیرالعسکر تھا۔میمنہ پر خالدبن ولید کمانڈر تھا۔اور میسرہ پرعکرمہ بن ابوجہل تھا۔تیر انداز عبد اللہ بن ربیعہ کی کمان میںتھے۔ عورتیں لشکر کے پیچھے دفیں بجابجا کر اوراشعار گاگاکر مردوں کوجوش دلاتی تھیں۔
سب سے پہلے لشکر قریش سے ابوعامر اوراسکے ساتھی آگے بڑھے۔اس شخص کاذکر اوپر گزر چکا ہے کہ یہ قبیلہ اوس میں سے تھا اورمدینہ کا رہنے والا تھا اور راہب کے نام سے مشہور تھا۔جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو اسکے کچھ عرصہ بعد یہ شخص بغض وحسد سے بھرگیا اوراپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مکہ چلا گیا اورقریش مکہ کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف اکساتا رہا۔چنانچہ اب جنگ احد میںوہ قریش کاحمایتی بن کر مسلمانوں کے خلاف شریک جنگ ہوا۔اوریہ ایک عجیب بات ہے کہ ابوعامر کابیٹا حنظلہ ایک نہایت مخلص مسلمان تھا اوراس جنگ کے موقع پر اسلامی لشکر میں شامل تھا اورنہایت جانبازی کے ساتھ لڑتا ہوا شہید ہوا۔ابو عامرچونکہ قبیلہ اوس کے ذی اثر لوگوں میںسے تھا۔اس لئے اسے یہ پختہ امید تھی کہ اب جو میں اتنے عرصہ کی جدائی کے بعد مدینہ والوں کے سامنے ہوں گا تو وہ میری محبت میںفوراًمحمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو چھوڑ کر میرے ساتھ آملیں گے ۔اسی امید میں ابوعامر اپنے ساتھیوں کوہمراہ لے کر سب سے پہلے آگے بڑھا اوربلند آواز سے پکار کرکہنے لگا۔’’اے قبیلہ اوس کے لوگو!میںابو عامرہوں۔‘‘ انصار نے یک زبان ہوکرکہا۔ ’’دورہوجااے فاسق!تیری آنکھ ٹھنڈی نہ ہو۔‘‘ اور ساتھ ہی پتھروں کی ایک ایسی باڑماری کہ ابو عامر اور اسکے ساتھی بدحواس ہوکر پیچھے کی طرف بھاگ گئے۔ اس نظارہ کو دیکھ کر قریش کاعلمبردار طلحہ بڑے جوش کی حالت میںآگے بڑھا اوربڑے متکبرانہ لہجہ میں مبارز طلبی کی۔ حضرت علی آگے بڑھے اوردوچار ہاتھ میں طلحہ کوکاٹ کررکھ دیا۔اسکے بعد طلحہ کابھائی عثمان آگے آیااورادھر سے اس کے مقابل پرحضرت حمزہ نکلے اور جاتے ہی اسے مارگرایا۔کفار نے یہ نظارہ دیکھا تو غضب میں آکر عام دھاوا کردیا۔مسلمان بھی تکبیر کے نعرے لگاتے ہوئے آگے بڑھے اور دونوںفوجیں آپس میں گتھم گتھا ہوگئیں غالباً اسی موقع پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی تلوار ہاتھ میں لے کر فرمایا۔’’کون ہے جو اسے لے کر اسکا حق ادا کرے۔‘‘بہت سے صحابہ نے اس فخر کی خواہش میں اپنے ہاتھ پھیلائے۔ جن میں حضرت عمراورزبیرؓبلکہ بعض روایات کی رو سے حضرت ابوبکر وحضرت علی بھی شامل تھے۔ مگرآپؐنے اپنا ہاتھ روکے رکھا اوریہی فرماتے گئے۔’’کوئی ہے جو اسکا حق ادا کرے؟‘‘آخر ابودجانہ انصاری نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور عرض کیا۔ ’’یارسول اللہ! مجھے عنایت فرمایئے۔‘‘ آپؐنے یہ تلوار انہیں دے دی اورابو دجانہ اسے ہاتھ میں لے کر تَبَخْتُرکی چال سے اکڑتے ہوئے کفار کی طرف آگے بڑھے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا خدا کو یہ چال بہت ناپسند ہے ،مگر ایسے موقع پر ناپسند نہیں۔ زبیر جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تلوار لینے کے سب سے زیادہ خواہش مند تھے اورقرب رشتہ کی وجہ سے اپنا حق بھی زیادہ سمجھتے تھے دل ہی دل میں پیچ وتاب کھانے لگے کہ کیا وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے یہ تلوار نہیں دی اورابودجانہ کو دے دی اوراپنی اس پریشانی کو دور کرنے کیلئے انہوں نے دل میں عہد کیا کہ میں اس میدان میں ابودجانہ کے ساتھ ساتھ رہوں گا اوردیکھوں گا کہ وہ اس تلوار کے ساتھ کیا کرتا ہے۔چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ابودجانہ نے اپنے سر پر ایک سرخ کپڑا باندھا اوراس تلوار کو لے کر حمد کے گیت گنگناتا ہوا مشرکین کی صفوں میں گھس گیا اورمیں نے دیکھا کہ جدھر جاتا تھا گویا موت بکھیرتا جاتا تھااورمیں نے کسی آدمی کو نہیں دیکھا جو اس کے سامنے آیا ہو اور پھر وہ بچا ہو۔ حتّٰی کہ وہ لشکر قریش میں سے اپنا راستہ کاٹتا ہوالشکر کے دوسرے کنارے نکل گیا جہاں قریش کی عورتیں کھڑی تھیں۔ہند زوجہ ابوسفیان جوبڑے زورشور سے اپنے مردوں کو جوش دلارہی تھی اس کے سامنے آئی اورابو دجانہ نے اپنی تلوار اسکے اوپر اٹھائی جس پر ہند نے بڑے زور سے چیخ ماری اوراپنے مردوں کوامداد کیلئے بلایامگر کوئی شخص اس کی مدد کو نہ آیا،لیکن میں نے دیکھا کہ ابودجانہ نے خود بخود ہی اپنی تلوار نیچی کرلی اوروہاں سے ہٹ آیا۔زبیر روایت کرتے ہیں کہ اس موقع پر میں نے ابودجانہ سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے کہ پہلے تم نے تلوار اٹھائی اورپھر نیچی کرلی۔اس نے کہامیرا دل اس بات پر تیار نہیں ہواکہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تلوار ایک عورت پرچلائوں اورعورت بھی وہ جس کے ساتھ اس وقت کوئی مرد محافظ نہیں۔زبیر کہتے ہیںمیں نے اس وقت سمجھا کہ واقعی جو حق رسول اللہ کی تلوار کاابودجانہ نے اداکیا ہے وہ شاید میں نہ کرسکتا اورمیرے دل کی خلش دورہوگئی۔
الغرض قریش کے علمبردار کے مارے جانے کے بعد دونوں فوجیں آپس میں گتھم گتھا ہوگئیں اور سخت گھمسان کا رن پڑا اورایک عرصہ تک دونوں طرف سے قتل وخون کا سلسلہ جاری رہا۔آخر آہستہ آہستہ اسلامی لشکر کے سامنے قریش کی فوج کے پائوں اکھڑنے شروع ہوئے۔چنانچہ مشہور انگریز مؤرخ سرولیم میورلکھتے ہیں:
’’مسلمانوں کے خطرناک حملوں کے سامنے مکی لشکر کے پائوں اکھڑنے لگ گئے۔ قریش کے رسالے نے کئی دفعہ یہ کوشش کی کہ اسلامی فوج کے بائیں طرف عقب سے ہوکر حملہ کریں۔مگر ہردفعہ ان کو ان پچاس تیراندازوں کے تیر کھا کر پیچھے ہٹنا پڑا جو محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) نے وہاں خاص طور پر متعین کئے ہوئے تھے۔ مسلمانوں کی طرف سے اُحد کے میدان میں بھی وہی شجاعت ومردانگی اور موت وخطر سے وہی بے پروائی دکھائی گئی جوبدر کے موقع پرانہوں نے دکھائی تھی۔مکہ کے لشکر کی صفیں پھٹ پھٹ جاتی تھیں۔جب اپنی خود کے ساتھ سرخ رومال باندھے ابودجانہ ان پر حملہ کرتا تھا اوراس تلوار کے ساتھ جو اسے محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) نے دی تھی چاروں طرف گویا موت بکھیرتا جاتا تھا۔حمزہ اپنے سر پر شترمرغ کے پروں کی کلغی لہراتا ہواہرجگہ نمایاں نظر آتا تھا۔علی اپنے لمبے اورسفید پھریرے کے ساتھ اورزبیر اپنی شوخ رنگ کی چمکتی ہوئی زرد پگڑی کے ساتھ بہادران اِلْیَڈ کی طرح جہاں بھی جاتے تھے دشمن کے واسطے موت وپریشانی کاپیغام اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔یہ وہ نظارے ہیںجہاں بعد کی اسلامی فتوحات کے ہیرو تربیت پذیرہوئے۔‘‘
غرض لڑائی ہوئی اوربہت سخت ہوئی اورکافی وقت تک غلبہ کاپہلو مشکوک رہا۔لیکن آخر خدا کے فضل سے قریش کے پائوں اکھڑنے لگے اوران کے لشکر میں بدنظمی اورابتری کے آثار ظاہر ہونے لگے۔قریش کے علمبردار ایک ایک کرکے مارے گئے اور ان میںسے قریباً نوشخصوں نے باری باری اپنے قومی جھنڈے کواپنے ہاتھ میں لیا۔مگر سارے کے سارے باری باری مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہوئے۔ آخر طلحہ کے ایک حبشی غلام صواب نامی نے دلیری کے ساتھ بڑھ کر علم اپنے ہاتھ میں لے لیا،مگر اس پر بھی ایک مسلمان نے آگے بڑھ کروار کیا اورایک ہی ضرب میں اسکے دونوں ہاتھ کاٹ کر قریش کاجھنڈا خاک پرگرادیا، لیکن صواب کی بہادری اورجوش کابھی یہ عالم تھا کہ وہ بھی اس کے ساتھ ہی زمین پرگرا اورجھنڈے کواپنی چھاتی کے ساتھ لگاکراسے پھربلند کرنے کی کوشش کی۔ مگر اس مسلمان نے جو جھنڈے کے سرنگوں ہونے کی قدروقیمت کو جانتاتھا اوپرسے تلوار چلاکر صواب کو وہیں ڈھیرکردیا۔اس کے بعد پھرقریش میں سے کسی شخص کو یہ جرأت اورہمت نہیں ہوئی کہ اپنے عَلم کو اٹھائے۔ ادھرمسلمانوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاحکم پاکر تکبیر کانعرہ لگاتے ہوئے پھر زور سے حملہ کیا اوردشمن کی رہی سہی صفوں کوچیرتے اور منتشر کرتے ہوئے لشکر کے دوسرے پار قریش کی عورتوں تک پہنچ گئے اورمکہ کے لشکر میں سخت بھاگڑ پڑگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے میدان قریباً صاف ہوگیا۔حتّٰی کہ مسلمانوں کیلئے ایسی قابل اطمینان صورت حال پیدا ہوگئی کہ وہ مال غنیمت کے جمع کرنے میں مصروف ہوگئے۔

(باقی آئندہ)

(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ487 مطبوعہ قادیان2011)
…٭…٭…٭…