اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-11-30

ایک مصیبت کادھکّہ ،قانون ورثہ، حرمت شراب ،کفار کی غداری اوردودردناک واقعات

سیرت خاتم النّبیینﷺ

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

جنگ اُحد، شوال3ہجری مطابق مارچ624ء

جنگ بدرکے نتیجے میں جو ماتم عظیم مکہ میں برپا ہوا تھا اس کا ذکر جنگ بدر کے حالات میں کیا جا چکا ہے۔سرداران قریش نے قسمیں کھائی تھیں کہ جب تک مقتولین بدرکا انتقام نہ لے لیں گے اس وقت تک چین نہ لیں گے۔ان کے اس جذبۂ انتقام کومدینہ کے بدعہد یہود کی خفیہ اشتعال انگیزیوں نے اور بھی زیادہ بھڑکا دیا تھا۔چنانچہ بدر کے بعد قریش مکہ نے دوسرے قبائل کو مسلمانوں کے خلاف بہت سخت اکسانا شروع کردیا اورخود بھی برابر اس تاک میں رہے کہ جب بھی موقع ملے مسلمانوں پر حملہ کرکے انہیں کچل ڈالیں۔بنوسلیم اوربنو غطفان کا مدینہ پر حملہ آور ہونے کی غرض سے بار بار جمع ہونا جس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے زیادہ تر قریش مکہ ہی کی اشتعال انگیزیوں کا نتیجہ تھا۔غزوہ سویق بھی جس میں ابوسفیان نے مدینہ پرشب خون مارنے کی تجویز کی تھی اسی زنجیر کی ایک کڑی تھی اورچونکہ خدا کے فضل سے اس غزوہ میں قریش کو ذلت کامنہ دیکھنا پڑا تھا،اس لئے ان کا جوش انتقام اوربھی زیادہ ہوگیا تھا اورگو اس وقت انہوں نے عرب کے سامنے اپنی عزت رکھنے کیلئے یہ کہہ دیا تھا کہ ہماری قسم پوری ہوگئی ہے،لیکن ان کے دل اس بات کو محسوس کرتے تھے کہ غزوہ سویق نے ان کے ماتھے پرذلت کاایک اوردھبہ لگادیا تھا۔ لہٰذا اس کے بعد انہوں نے آگے سے بھی زیادہ جوش وخروش کے ساتھ جنگ کی تیاری شروع کی۔چنانچہ غزوہ اُحد جس کا ہم اب ذکر کرنے لگے ہیں اسی تیاری کا نتیجہ تھا۔
جس تجارتی قافلہ کا ذکر جنگ بدر کے حالات میں گزر چکاہے اسکے منافع کاروپیہ جس کی مالیت پچاس ہزار دینار تھی۔ رئوسائے مکہ کے فیصلہ کے مطابق ابھی تک دارالندوہ میں مسلمانوں کے خلاف حملہ کرنے کی تیاری کے واسطے محفوظ پڑا تھا۔ اب اس روپے کو نکالا گیا اوربڑے زورشور سے جنگ کی تیاری شروع ہوئی۔مسلمانوں کواس تیاری کاعلم بھی نہ ہوتا اورلشکر کفار مسلمانوں کے دروازوں پرپہنچ جاتا،مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیدار مغزی نے تمام ضروری احتیاطیں اختیار کررکھی تھیں۔ یعنی آپؐ نے اپنے چچا عباس بن عبد المطلب کوجو دل میں آپؐ کے ساتھ تھے مکہ میں ٹھہرے رہنے کی تاکید کررکھی تھی اوروہ قریش کی حرکات وسکنات سے آپؐ کو اطلاع دیتے رہتے تھے۔ چنانچہ عباس بن عبدالمطلب نے اس موقع پر بھی قبیلہ بنوغفار کے ایک تیزروسوار کو بڑے انعام کا وعدہ دے کر مدینہ کی طرف روانہ کیا اور ایک خط کے ذریعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوقریش کے اس ارادے سے اطلاع دی اوراس قاصد کوسخت تاکید کی کہ تین دن کے اندر اندر آپ کو یہ خط پہنچا دے۔ جب یہ قاصد مدینہ پہنچا تواتفاق سے اس وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ کے حوالی قبا میں تشریف لے گئے ہوئے تھے۔چنانچہ یہ قاصد آپؐکے پیچھے وہیں قبا میں پہنچااور آپؐکے سامنے یہ بندخط پیش کردیا۔آپؐنے فوراًاپنے کاتب خاص اُبَیٔ بن کعب انصاری کویہ خط دیا اور فرمایا کہ اسے پڑھ کر سنائو کہ کیا لکھا ہے اُبَیٔ نے خط پڑھ کر سنایا تواس میں یہ وحشت ناک خبردرج تھی کہ قریش کاایک جرار لشکر مکہ سے آرہاہے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خط سن کر ابی بن کعب کوتاکید فرمائی کہ اس کے مضمون سے کسی کو اطلاع نہ ہو اورپھر آپؐنے مدینہ میں واپس تشریف لا کر اپنے دوصحابیوں کولشکر قریش کی خبر رسانی کیلئے مکہ کے راستہ کی طرف روانہ فرمادیا۔غالباًاسی موقع پر آپ نے مسلمانوں کی تعدادو طاقت معلوم کرنے کیلئے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ مدینہ کی تمام مسلمان آبادی کی مردم شماری کی جاوے۔ چنانچہ مردم شماری کی گئی تو معلوم ہوا کہ اس وقت تک کل پندرہ سو مسلمان متنفس ہیں۔اس وقت کے حالات کے ماتحت اسی تعداد کوبہت بڑی تعداد سمجھا گیا۔ چنانچہ بعض صحابہ نے تو اس وقت خوشی کے جوش میں یہاں تک کہہ دیا کہ کیا اب بھی جبکہ ہماری تعداد ڈیڑھ ہزار تک پہنچ گئی ہے ہمیں کسی کاڈر ہوسکتا ہے؟مگرانہی میں سے ایک صحابی کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہم پرایسے ایسے سخت وقت آئے کہ بعض اوقات ہمیں نماز بھی چھپ چھپ کرادا کرنی پڑتی تھی۔ ایک موقع پراس سے پہلے بھی آپؐ نے مسلمانوں کی مردم شماری کروائی تھی تواس وقت چھ اور سات سو کے درمیان تعداد نکلی تھی۔
غالباً رمضان3 ہجری کے آخر یاشوال کے شروع میں قریش کالشکر مکہ سے نکلا۔لشکر میں دوسرے قبائل عرب کے بہت سے بہادر بھی شامل تھے۔ ابو سفیان سردار لشکر تھا۔ لشکر کی تعداد تین ہزارتھی جس میں سات سوزرہ پوش سپاہی شامل تھے۔سواری کا سامان بھی کافی تھا۔ یعنی دوسوگھوڑے اورتین ہزار اونٹ تھے اورسامان حرب بھی کافی وشافی مقدار میں تھا۔ عورتیں بھی ساتھ تھیں جن میں ہند زوجہ ابوسفیان اور عکرمہ بن ابوجہل،صفوان بن امیہ،خالد بن ولید اورعمرو ابن العاص کی بیویاں اور مصعب بن عمیرصحابی کی مشرکہ ماں خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔ یہ عورتیں عرب کی قدیم رسم کے مطابق گانے بجانے کاسامان اپنے ساتھ لائی تھیں تاکہ اشتعال انگیز اشعار گاکر اور دفیں بجا کر اپنے مردوں کو جوش دلاتی رہیں۔
قریش کا یہ لشکر دس گیارہ دن کے سفر کے بعد مدینہ کے پاس پہنچا اورچکر کاٹ کر مدینہ کے شمال کی طرف احد کی پہاڑی کے پاس ٹھہرگیا۔اس جگہ کے قریب ہی عریض کاسرسبز میدان تھا جہاں مدینہ کے مویشی چرا کرتے تھے اورکچھ کھیتی باڑی بھی ہوتی تھی۔قریش نے سب سے پہلے اس چراگاہ پر حملہ کرکے اس میں من مانی غارت مچائی۔ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کواپنے مخبروں سے لشکر قریش کے قریب آجانے کی اطلاع موصول ہوئی توآپؐنے اپنے ایک صحابی حباب بن منذر کو روانہ فرمایا کہ وہ جاکر دشمن کی تعداد اورطاقت کا پتہ لائیں اورآپؐنے انہیں تاکید فرمائی کہ اگر دشمن کی طاقت زیادہ ہو اور مسلمانوں کیلئے خطرہ کی صورت ہو توواپس آکر مجلس میں اس کا ذکر نہ کریں بلکہ علیحدگی میں اطلاع دیں تاکہ اس سے کسی قسم کی بددلی نہ پھیلے۔ حباب خفیہ خفیہ گئے اورنہایت ہوشیاری سے تھوڑی دیر میں ہی واپس آکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے سارے حالات عرض کردیئے۔یہ جمعرات کا دن تھا اوراب لشکر قریش کی آمد کی خبر مدینہ میں پھیل چکی تھی اورعریض پر جو اِن کا حملہ ہوا تھا اس کی اطلاع بھی عام ہوچکی تھی اور گوعامتہ الناس کولشکر کفار کے تفصیلی حالات کا علم نہیں دیاگیا تھا،مگر پھر بھی یہ رات مدینہ میں سخت خوف اورخطرہ کی حالت میں گزری ۔خاص خاص صحابہ نے ساری رات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مکان کے اردگرد پہرہ دیا۔ صبح جمعہ کادن تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں کوجمع کرکے ان سے قریش کے اس حملہ کے متعلق مشورہ مانگا کہ آیا مدینہ میں ہی ٹھہرا جاوے یاباہر نکل کر مقابلہ کیا جاوے۔ اس مشورہ میں عبداللہ بن ابی بن سلول بھی شریک تھا جو دراصل تو منافق تھا،مگر بدر کے بعد بظاہر مسلمان ہوچکا تھا اوریہ پہلا موقع تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے مشورہ میں شرکت کی دعوت دی۔مشورہ سے قبل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قریش کے حملے اوران کے خونی ارادوں کاذکر فرمایا اورفرمایا کہ ’’آج رات میں نے خواب میں ایک گائے دیکھی ہے اورنیز میں نے دیکھا کہ میری تلوار کاسرا ٹوٹ گیا ہے۔اورپھر میں نے دیکھا کہ وہ گائے ذبح کی جارہی ہے اورمیں نے دیکھا کہ میں نے اپنا ہاتھ ایک مضبوط اور محفوظ زرہ کے اندر ڈالا ہے۔اورایک روایت میں یہ بھی مذکور ہوا ہے کہ آپؐنے فرمایا کہ ’’میں نے دیکھا ہے کہ ایک مینڈھا ہے جس کی پیٹھ پر میں سوارہوں۔صحابہ نے دریافت کیا یارسول اللہ!آپؐنے اس خواب کی کیا تعبیر فرمائی ہے؟ آپؐنے فرمایا’’گائے کے ذبح ہونے سے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرے صحابہ میں سے بعض کاشہید ہونا مراد ہے اورمیری تلوار کے کنارے کے ٹوٹنے سے میرے عزیزوں میں سے کسی کی شہادت کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے۔ یا شاید خود مجھے اس مہم میں کوئی تکلیف پہنچے۔ اورزرہ کے اندر ہاتھ ڈالنے سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس حملہ کے مقابلہ کیلئے ہمارا مدینہ کے اندر ٹھہرنا زیادہ مناسب ہے۔اور مینڈھے پرسوار ہونے والے خواب کی آپؐنے یہ تاویل فرمائی کہ اس سے کفار کے لشکر کاسردار یعنی علمبردار مراد ہے جو انشاء اللہ مسلمانوں کے ہاتھ سے مارا جائے گا۔ اسکے بعد آپؐنے صحابہ سے مشورہ طلب فرمایا کہ موجودہ صورت میں کیا کرنا چاہئے۔بعض اکابر صحابہ نے حالات کے اونچ نیچ کو سوچ کراورشاید کسی قدر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خواب سے بھی متاثر ہوکریہ رائے دی کہ مدینہ میں ہی ٹھہر کر مقابلہ کرنا مناسب ہے یہی رائے عبداللہ بن ابی بن سلول رئیس المنافقین نے دی اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی اسی رائے کوپسند فرمایا اورکہا کہ بہتر یہی معلوم ہوتاہے کہ ہم مدینہ کے اندر رہ کر ان کامقابلہ کریں،لیکن اکثر صحابہ نے خصوصاًان نوجوانوں نے جو بدر کی جنگ میں شامل نہیں ہوئے تھے اوراپنی شہادت سے خدمت دین کا موقع حاصل کرنے کیلئے بے تاب ہورہے تھے بڑے اصرار کے ساتھ عرض کیا کہ شہر سے باہر نکل کرکھلے میدان میں مقابلہ کرنا چاہئے۔ ان لوگوں نے اس قدر اصرار کے ساتھ اپنی رائے کوپیش کیا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کے جوش کو دیکھ کران کی بات مان لی اورفیصلہ فرمایا کہ ہم کھلے میدان میں نکل کر کفار کامقابلہ کریں گے اورپھر جمعہ کی نماز کے بعد آپؐنے مسلمانوں میں عام تحریک فرمائی کہ وہ جہاد فی سبیل اللہ کی غرض سے اس غزوہ میں شامل ہوکر ثواب حاصل کریں۔ اسکے بعد آپؐاندرون خانہ تشریف لے گئے جہاں حضرت ابوبکرؓاورحضرت عمرؓکی مدد سے آپؐنے عمامہ باندھا اورلباس پہنا اورپھر ہتھیار لگا کر اللہ کانام لیتے ہوئے باہر تشریف لے آئے۔لیکن اتنے عرصہ میں حضرت سعدبن معاذ رئیس قبیلہ اوس اور دوسرے اکابر صحابہ کے سمجھانے سے نوجوان پارٹی کواپنی غلطی محسوس ہونے لگی تھی کہ رسول خدا کی رائے کے مقابلہ میں اپنی رائے پراصرار نہیں کرنا چاہئے تھا اوراب اکثر ان میں سے پشیمانی کی طرف مائل تھے۔
جب ان لوگوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوہتھیار لگائے اوردوہری زرہ اورخود وغیرہ پہنے ہوئے تشریف لاتے دیکھا توان کی ندامت اوربھی زیادہ ہوگئی اورانہوں نے قریباًیک زبان ہو کر عرض کیا کہ یارسول اللہ ہم سے غلطی ہوئی کہ ہم نے آپؐکی رائے کے مقابلہ میں اپنی رائے پر اصرار کیا۔آپؐ جس طرح مناسب خیال فرماتے ہیں اسی طرح کارروائی فرمائیں۔انشاء اللہ اسی میں برکت ہوگی۔آپؐنے فرمایا’’خدا کے نبی کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ ہتھیار لگاکرپھر اسے اتار دے قبل اس کے کہ خدا کوئی فیصلہ کرے۔پس اب اللہ کا نام لے کر چلو اوراگرتم نے صبر سے کام لیا تو یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہارے ساتھ ہوگی۔اسکے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے لشکر اسلامی کے تین جھنڈے تیار کروائے۔ قبیلہ اوس کا جھنڈا اسیدبن الحضیرکے سپرد کیا گیا اورقبیلہ خزرج کا جھنڈا حباب بن منذر کے ہاتھ میں دیا گیا اور مہاجرین کاجھنڈا حضرت علی کودیا گیااور پھر مدینہ میں عبداللہ بن ام مکتوم کوامام الصلوٰۃ مقرر کرکے آپؐصحابہ کی ایک بڑی جماعت کے ہمراہ نماز عصر کے بعد مدینہ سے نکلے۔قبیلہ اوس اورخزرج کے رئوساء سعد بن معاذ اورسعد بن عبادۃ آپ کی سواری کے سامنے آہستہ آہستہ دوڑتے جاتے تھے اورباقی صحابہ آپؐکے دائیں اوربائیں اورپیچھے چل رہے تھے۔ اُحدکا پہاڑ مدینہ کے شمال کی طرف قریباً تین میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔اسکے نصف میں پہنچ کر اس مقام میں جسے شیخین کہتے ہیں آپؐنے قیام فرمایا اورلشکر اسلامی کاجائز لئے جانے کا حکم دیا۔کم عمر بچے جو جہاد کے شوق میں ساتھ آگئے تھے واپس کئے گئے۔ چنانچہ عبداللہ بن عمر،اسامہ بن زید،ابوسعید خدری وغیرہ سب واپس کئے گئے۔رافع بن خدیج انہیں بچوں کے ہم عمر تھے مگرتیراندازی میں اچھی مہارت رکھتے تھے۔ ان کی اس خوبی کی وجہ سے ان کے والد نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں ان کی سفارش کی کہ ان کو شریک جہاد ہونے کی اجازت دی جاوے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے رافع کی طرف نظر اٹھاکردیکھا تو وہ سپاہیوں کی طرح خوب تن کرکھڑے ہوگئے تاکہ چست اورلمبے نظرآئیں۔چنانچہ ان کا یہ دائو چل گیا اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو ساتھ چلنے کی اجازت مرحمت فرمادی۔اس پر ایک اوربچہ سمرۃ بن جندب نامی جسے واپسی کا حکم مل چکا تھا اپنے باپ کے پاس گیا اورکہا کہ اگررافع کولیا گیا ہے تو مجھے بھی اجازت ملنی چاہئےکیونکہ میں رافع سے مضبوط ہوں اور اسے کشتی میں گرا لیتا ہوں۔باپ کو بیٹے کے اس اخلاص پر بہت خوشی ہوئی اوروہ اسے ساتھ لے کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اوراپنے بیٹے کی خواہش بیان کی۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا اچھارافع اورسمرۃ کی کشتی کروائو،تاکہ معلوم ہوکہ کون زیادہ مضبوط ہے۔ چنانچہ مقابلہ ہوا اور واقع میں سمرۃ نے پل بھر میں رافع کواٹھا کردے مارا۔ جس پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے سمرۃ کو بھی ساتھ چلنے کی اجازت مرحمت فرمائی اوراس معصوم بچے کا دل خوش ہو گیا۔ اب چونکہ شام ہوچکی تھی اس لئے بلال نے اذان کہی اورسب صحابہ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کی اورپھررات کے واسطے مسلمانوں نے یہیں ڈیرے ڈال دیئے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے رات کے پہرے کیلئے محمد بن مسلمہ کومنتظم مقررفرمایا جنہوں نے پچاس صحابہ کی جماعت کے ساتھ رات بھر لشکر اسلامی کے اردگرد چکر لگاتے ہوئے پہرہ دیا۔                                                            (باقی آئندہ)

(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ482 تا 487،مطبوعہ قادیان2011)

…٭…٭…٭…