اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-11-23

 حفصہؓ بنت عمرؓکی شادی شعبان3ہجری اور ولادت امام حسنؓرمضان 3ہجری

سیرت خاتم النّبیینﷺ

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

حفصہؓ بنت عمرؓکی شادی شعبان3ہجری

حضرت عمر ؓبن خطاب کی ایک صاحبزادی تھیں جن کا نام حفصہ تھا۔وہ خنیس بن حذافہ کے عقد میں تھیںجوایک مخلص صحابی تھے اورجنگ بدر میںشریک ہوئے تھے۔بدر کے بعد مدینہ واپس آنے پر خنیس بیمارہوگئے اوراس بیماری سے جانبر نہ ہوسکے۔ان کی وفات کے کچھ عرصہ بعد حضرت عمرؓکو حفصہ کے نکاح ثانی کافکر دامن گیر ہوا۔اس وقت حفصہ کی عمر بیس سال سے اوپرتھی۔حضرت عمرؓ نے اپنی فطرتی سادگی میںخود عثمان بن عفان سے مل کر ان سے ذکر کیا کہ میری لڑکی حفصہ اب بیوہ ہے، آپ اگرپسند کریں تو اسکے ساتھ شادی کرلیں،مگر حضرت عثمان نے ٹال دیا۔ اسکے بعد حضرت عمرؓنے حضرت ابوبکرؓ سے ذکر کیا،لیکن حضرت ابوبکرؓ نے بھی خاموشی اختیار کی اورکوئی جواب نہیںدیا۔اس پر حضرت عمرؓ کو بہت ملال ہوا اورانہوں نے اسی ملال کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر آپؐسے ساری سرگزشت عرض کردی۔آپؐنے فرمایا: عمر! کچھ فکر نہ کرو۔خدا کو منظور ہوا تو حفصہ کوعثمان وابوبکر کی نسبت بہتر خاوند مل جائے گا اورعثمان کو حفصہ کی نسبت بہتر بیوی ملے گی۔یہ آپؐنے اس لئے فرمایا کہ آپؐحفصہ کے ساتھ شادی کر لینے اور اپنی لڑکی ام کلثوم کوحضرت عثمان کے ساتھ بیاہ کردینے کاارادہ کرچکے تھے جس سے حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان دونوں کواطلاع تھی اوراسی لئے انہوں نے حضرت عمر کی تجویز کوٹال دیا تھا۔ اسکے کچھ عرصہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان سے اپنی صاحبزادی ام کلثوم کی شادی فرمادی جس کا اوپر ذکر گزر چکا ہے اوراس کے بعد آپؐنے خود اپنی طرف سے حضرت عمر کو حفصہ کیلئے پیغام بھیجا۔حضرت عمرؓکو اس سے بڑھ کراورکیا چاہئے تھا۔انہوں نے نہایت خوشی سے اس رشتہ کو قبول کیا۔ اورشعبان3ہجری میں حضرت حفصہ ؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آکر حرم نبویؐ میں داخل ہوگئیں۔ جب یہ رشتہ ہوگیا تو حضرت ابوبکر نے حضرت عمر سے کہا کہ شاید آپ کے دل میں میری طرف سے کوئی ملال ہو۔بات یہ ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے سے اطلاع تھی،لیکن میں آپؐکی اجازت کے بغیر آپؐکے راز کو ظاہر نہیں کرسکتا تھا۔ہاں اگر آپؐ کا یہ ارادہ نہ ہوتا تومیں بڑی خوشی سے حفصہ سے شادی کرلیتا۔
حفصہ کے نکاح میں ایک تو یہ خاص مصلحت تھی کہ وہ حضرت عمر کی صاحبزادی تھیں جوگویا حضرت ابوبکرؓ کے بعد تمام صحابہ میں افضل ترین سمجھے جاتے تھے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقربین خاص میں سے تھے۔پس آپس کے تعلقات کو زیادہ مضبوط کرنے اور حضرت عمراورحفصہ کے اس صدمہ کی تلافی کرنے کے واسطے جوخنیس بن حذافہ کی بے وقت موت سے ان کو پہنچا تھاآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب سمجھا کہ حفصہ سے خود شادی فرمالیں اوردوسری عام مصلحت یہ مدّنظر تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جتنی زیادہ بیویاں ہوں گی اتناہی عورتوں میں جو بنی نوع انسان کانصف حصہ بلکہ بعض جہات سے نصف بہتر حصہ ہیں دعوت وتبلیغ اورتعلیم کاکام زیادہ وسیع پیمانے پر اورزیادہ آسانی اورزیادہ خوبی کے ساتھ ہوسکے گا۔
تعدّدازدواج کے مسئلہ کے متعلق اصولی بحث ہم حضرت عائشہ کی شادی کے بیان میں کرچکے ہیں۔ اس جگہ اسکے اعادہ کی ضرورت نہیں لیکن اس قدر ذکر اس جگہ بے موقع نہ ہوگا کہ جو پابندیاں تعدّدازدواج کے متعلق اسلام عائد کرتا ہے اورجن پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود عملاً کاربند تھے ان کے ماتحت ایک سے زیادہ بیویوں کے ساتھ شادی کرنا ہرگز عیش وعشرت کاذریعہ نہیں بن سکتا بلکہ حق یہ ہے کہ ان شرائط کے ماتحت تعدّدازدواج ایک بہت بڑی قربانی ہے جومرد اورعورت دونوں کو اپنے ذاتی یاخاندانی یاقومی یاملکی یادینی مصالح کے ماتحت اختیار کرنی پڑتی ہے اوراس قربانی کو اختیار کرنے والا شخص خانگی عیش وعشرت اور خانگی راحت وخوشی سے اس شخص کی نسبت بہت زیادہ دور ہوتا ہے جس کے مال اورجس کی توجہ اورجسکے وقت اورجس کی ظاہری محبت کی مالک صرف ایک عورت ہوتی ہے۔پھر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ جو شخص عیش وعشرت کے خیال سے زیادہ شادیاں کرتا ہے،وہ لازماً اپنی بیویوں کی خوراک اورپوشش اوررہائش وغیرہ کا خاص خیال رکھتا ہے اوران کیلئے ہرطرح کا سامان عیش وعشرت مہیا کرتا ہے۔مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بالکل اس کے خلاف نظارہ نظرآتا ہے ۔دور نہ جائو قرآن ہی کو کھول کر دیکھو کہ جو مسلّم طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوانح میں صحیح ترین صحیفہ ہے کہ ایک موقع پر جبکہ باہر سے اموال کی آمد آمد شروع ہوگئی تھی اورصحابہ کسی قدر خوشحال ہورہے تھے آپؐکی بیویوں نے آپؐسے عرض کیا کہ اب اس فراخی سے کچھ حصہ ہمیں بھی ملنا چاہئے اوراب تک جوتنگی کے دن کاٹے ہیں اس کا کچھ ازالہ ہونا چاہئے تواس پرآپ نے فرمایا:
اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَہَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا۝ وَاِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللہَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِيْمًا۝
یعنی’’اگر تم دنیا کی زندگی اوراس کے مال ومتاع کوپسند کرتی ہوتو آئو میں تمہیں دنیا کے اموال دے دیتا ہوں،مگر اس صورت میں تم میری بیویاں نہیں رہ سکتیں(کیونکہ میں اپنی زندگی کودنیا کے اموال کی آلائش سے پاک رکھنا چاہتا ہوں)اوراگر میری بیویاں رہنا چاہتی ہو تو محض خدا کی خاطر اورمیرے منصب رسالت کی خاطر اورآخرت کی خاطر میرے ساتھ رہو۔ اس صورت میں تم کو خدا کی طرف سے وہ عظیم الشان اجر ملے گا جونیکوکاروں کیلئے مقدر ہے۔‘‘
آپؐکے اس فرمان کو سن کر سب ازواج نے بالاتفاق عرض کیا کہ ہمیں خدا اوراس کا رسول بس ہیں۔ دنیا کے اموال درکار نہیں۔ کیا اس زبردست تاریخی شہادت کے ہوتے ہوئے یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاتعدّد ازدواج نعوذباللہ عیش وعشرت کاذریعہ تھا؟یقینا یقینا ہرنئی بیوی جوآپؐ کے گھر آتی تھی وہ آپؐکی خانگی تنگی کو زیادہ کرنے والی ہوتی تھی اوریہ آپؐکی عظیم الشان قربانی کی روح تھی جسکی وجہ سے آپؐنے اپنے دین اوراپنی قوم اور اپنے ملک کی خاطر ان تنگیوں کوخوشی کے ساتھ برداشت کیا اوراپنی زندگی کے امن اورقرار کوبرباد کرکے ایک بالکل درویشانہ اورمسافرانہ زندگی اختیار کی۔
آپؐکے پیش کردہ مسئلہ تعدّدازدواج میں ایک حکمت یہ بھی تھی کہ اس سے وہ علائق کمزور ہو جائیںجو دنیا میں انسان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ظاہر ہے کہ دنیا میں انسان کے بہت سے تعلقات ہیں جن کو اسے نبھانا پڑتا ہے۔مثلاًوالدین ہیں ،بھائی بہن ہیں، بیوی ہے،اولاد ہے،دوست ہیں،ہمسائے ہیں وغیرہ ذالک اوران سارے علائق میں سے جذباتی رنگ میں سب سے زیادہ گرم جوشی اورحدّت حس کا رشتہ بیوی کارشتہ ہے۔مرد کی محبت اپنی بیوی سے بعض اوقات ایسی صورت اختیار کرلیتی ہے جسے عرف عام میں عشق کے نام سے موسوم کرتے ہیں اوربعض اوقات جذبات کی تیزی اس عشق کوایک گونہ جنون کی حدتک بھی پہنچا دیتی ہے اورپھر ایسی حالت میں انسان سوائے اس عشق کے مظاہرے میں زندگی گزارنے کے اورکسی کام کا نہیں رہتا۔حالانکہ یہ مسلّم ہے کہ دنیا کی زندگی کے بہترین کام وہ ہیں جوانفرادی زندگی کے ساتھ نہیں بلکہ اجتماعی اورقومی زندگی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ۔پس چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انسان کے اندران فرائض کے پورا کرنے کیلئے بہترین قابلیت پیدا کرنا چاہتے تھے جوبنی نوع انسان کی اجتماعی زندگی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اس لئے آپؐنے بعض حالات میں خاص شرائط کے ماتحت تعدّدازدواج کی اجازت دے کر مرد اورعورت کے اس رشتے کو ایسی صورت دے دی ہے کہ اسکے اندر محویت کا عالم نہ پیدا ہوسکے۔اوراس اصل کے ماتحت آپؐکا تعدّد ازدواج پرعمل کرنا علائق خانگی کوکمزور کرنے کی غرض سے تھا نہ کہ انہیں مضبوط کرنے کے واسطے۔چنانچہ آپؐکاوہ جواب جو آپؐنے اپنی بیویوں کوان کی طرف سے مال کا مطالبہ ہونے پر دیا اس پر شاہد ہے اوراس سے پتہ لگتا ہے کہ آپؐنہ صرف خود اپنی توجہ کوخدا کیلئے اوراپنے منصب رسالت کیلئے وقف رکھنا چاہتے تھے بلکہ اپنی بیویوں کے متعلق بھی آپ کے دل میں یہی خواہش تھی کہ ان کا آپ کے ساتھ تعلق محض خدا کیلئے اورآپ کے منصب رسالت کیلئے اورآخرت کیلئے ہو۔ الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تعدّد ازدواج دینی اورقومی اورملکی مفاد کے ماتحت تھا اوران حالات میں یقینا یہ ایک شخصی مفاد کی بہت بڑی قربانی تھی جو آپ نے اختیار کی کیونکہ آپ نے اپنی خانگی زندگی میں ایک سخت درجہ تلخی اورتنگی پیدا کرکے اپنے ان فرائض کے انجام دینے کیلئے آسانی پیدا کی جو ایک شارع اوردینی مصلح اورلیڈر کی حیثیت میں آپ پرعائد ہوتے تھے اوراس لئے آپ کایہ فعل ہر اس شخص کے شکریہ کا مستحق ہے جو جنگل کے وحشی جانوروں کی طرح صرف اپنی جسمانی خواہشات اورشخصی اورانفرادی مفاد کا خیال نہیں رکھتا بلکہ اخلاقی اورروحانی اورقومی اوراجتماعی زندگی کی اصلاح اورترقی کواپنا نصب العین بناتا ہے۔
حضرت حفصہؓکی عمرشادی کے وقت قریباً اکیس سال تھی اوربوجہ اسکے کہ حضرت عائشہؓ کے بعد وہ صحابہ میں سے ایک افضل ترین شخص کی صاحبزادی تھیں۔ ازواج مطہرات میں ان کا ایک خاص درجہ سمجھا جاتا ہے اورحضرت عائشہؓ کے ساتھ بھی ان کا بہت جوڑ تھا اورسوائے کبھی کبھار کی کش مکش کے جوایسے رشتہ میں ہوجایا کرتی ہے،وہ دونوں آپس میں بہت محبت کے ساتھ رہتی تھیں۔ حضرت حفصہؓلکھنا پڑھنا جانتی تھیں۔ چنانچہ حدیث میں ایک روایت آتی ہے کہ انہوں نے ایک صحابی عورت شفاء بنت عبداللہ سے لکھنا سیکھا تھا۔ ان کی وفات45ہجری میں ہوئی جبکہ ان کی عمر کم وبیش تریسٹھ سال کی تھی۔

ولادت امام حسنؓرمضان 3ہجری

2ہجری کے واقعات میں حضرت علی ؓاور حضرت فاطمہؓ کے نکاح کاذکر گزر چکا ہے۔ ان کے ہاں رمضان3ہجری میں یعنی نکاح کے قریباًدس ماہ بعد ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن ؓرکھا۔یہ وہی حسنؓ ہیں جو بعد میں مسلمانوں میں امام حسن علیہ الرحمتہ کے نام سے ملقب ہوئے۔ حسنؓ اپنی شکل وصورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ملتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طرح اپنی اولاد حضرت فاطمہ سے بہت محبت تھی اسی طرح حضرت فاطمہ کی اولاد سے بھی آپؐکوخاص محبت تھی۔ کئی دفعہ فرماتے تھے خدایا مجھے ان بچوں سے محبت ہے تو بھی ان سے محبت کراوران سے محبت کرنے والوں سے محبت کر۔کئی دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ آپؐنماز میں ہوتے تو حسنؓآپؐسے لپٹ جاتے۔رکوع میں ہوتے تو آپؐکی ٹانگوں میں سے راستہ بنا کرنکل جاتے۔ بعض اوقات جب صحابہ انہیں روکتے توآپؐصحابہ کومنع فرمادیتے کہ روکو نہیں۔دراصل چونکہ ان کا لپٹنا آپؐکی توجہ کومنتشر نہیں کرتا تھا،اس لئے آپ ان کی معصوم محبت کے طفلانہ مظاہرہ میں مزاحم نہیں ہونا چاہتے تھے۔امام حسنؓکے متعلق ایک دفعہ آپؐنے فرمایا کہ میرا یہ بچہ سید یعنی سردار ہے اورایک وقت آئے گا کہ خدا اسکے ذریعہ سے مسلمانوں کے دوگرہوں میں صلح کرائے گا۔چنانچہ اپنے وقت پر یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔

(باقی آئندہ)

(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ477 تا 481،مطبوعہ قادیان2011)
…٭…٭…٭…