اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-11-16

قتل کعب بن اشرف جمادی الآخرۃ3ہجری

کیا جنگ میں جھوٹ بولنا اوردھوکا دینا جائز ہے

سیرت خاتم النّبیینﷺ

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

قتل کعب بن اشرف جمادی الآخرۃ3ہجری(بقیہ حصہ)

دوسرا سوال قتل کے طریق سے تعلق رکھتا ہے۔سو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ عرب میں اس وقت کوئی باقاعدہ سلطنت نہ تھی،بلکہ ہرشخص اورہرقبیلہ آزاداورخود مختار تھا۔ایسی صورت میں وہ کون سی عدالت تھی جہاں کعب کے خلاف مقدمہ دائر کرکے باقاعدہ قتل کا حکم حاصل کیا جاتا؟کیا یہود کے پاس اسکی شکایت کی جاتی جن کا وہ سردار تھا اورجو خود مسلمانوں کے خلاف غداری کرچکے تھے اور آئے دن فتنے کھڑے کرتے رہتے تھے؟کیا مکہ کے قریش کے سامنے مقدمہ پیش کیا جاتا جو مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے؟کیا قبائل سلیم وغطفان سے دادرسی چاہی جاتی جو گزشتہ چند ماہ میں تین چار دفعہ مدینہ پر چھاپہ مارنے کی تیاری کرچکے تھے؟اس وقت کی عرب کی حالت پر غورکرو اور پھر سوچو کہ مسلمانوں کیلئے سوائے اسکے وہ کون سا راستہ کھلا تھا کہ جب ایک شخص کی اشتعال انگیزی اورتحریک جنگ اور فتنہ پردازی اورسازش قتل کی وجہ سے اسکی زندگی کو اپنے لئے اورملک کے امن کیلئے خطرناک پاتے توخود حفاظتی کے خیال سے موقع پاکر اسے خود قتل کردیتے کیونکہ یہ بہت بہتر ہے کہ ایک شریر اور مفسد آدمی قتل ہوجاوے بجائے اسکے کہ بہت سے پرامن شہریوں کی جان خطرے میں پڑے اورملک کا امن برباد ہو۔پھرجیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ اس معاہدہ کی روسے جو ہجرت کے بعد مسلمانوں اوریہود کے درمیان ہوا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوایک معمولی شہری کی حیثیت حاصل نہ تھی،بلکہ آپؐ اس جمہوری سلطنت کے صدر قرار پائے تھے جومدینہ میں قائم ہوئی تھی اورآپؐ کویہ اختیار دیا گیا تھا کہ جملہ تنازعات اورامور سیاسی میںجوفیصلہ مناسب خیال کریں صادر فرمائیں۔ پس اگر آپؐنے ملک کے امن کے مفاد میں کعب کی فتنہ پردازی کی وجہ سے اسے واجب القتل قرار دیا تو آج تیرہ سو سال گزرنے پر جبکہ اس زمانہ کے بہت سے تفصیلی حالات بھی ہمارے سامنے موجود نہیں ہیں کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ آپؐکے فیصلہ پر عدالت اپیل بن کر بیٹھے۔خصوصاً جبکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ خود یہود نے کعب کی اس سزا کو اس کے جرموں کی روشنی میں واجبی سمجھ کر خاموشی اختیار کی اوراس پر اعتراض نہیں کیا اوراگریہ اعتراض کیا جاوے کہ ایسا کیوں نہیں کیا گیا کہ قتل کا حکم دینے سے پہلے یہود کو بلا کران کو کعب کے یہ جرم سنائے جاتے اورحجت پوری کرنے کے بعد اسکے قتل کا باقاعدہ اوربرملا طور پر حکم دیا جاتا، تواسکا جواب اوپر گزر چکا ہے کہ اس وقت حالات ایسے نازک ہورہے تھے کہ ایسا طریق اختیار کرنے سے بین الاقوام پیچیدگیوں کے بڑھنے کا سخت خطرہ تھااورکوئی تعجب نہ تھا کہ مدینہ میں ایک خطرناک سلسلہ کشت وخون اورخانہ جنگی کا شروع ہوجاتا۔پس ان کاموں کی طرح جو جلد اورخاموشی کے ساتھ ہی کر گزرنے سے فائدہ مند ہوتے ہیںآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امن عامہ کے خیال سے یہی مناسب سمجھا کہ خاموشی کے ساتھ کعب کی سزا کا حکم جاری کردیا جاوے مگر اس میں قطعاً کسی قسم کے دھوکے کا دخل نہ تھااورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ منشاء تھا کہ یہ سزا ہمیشہ کیلئے بصیغہ راز رہے کیونکہ جونہی یہود کا وفد دوسرے دن صبح آپؐکی خدمت میں حاضر ہوا آپؐنے فوراًبلاتوقف انہیں ساری سرگزشت سنا دی اور اس فعل کی پوری پوری ذمہ داری اپنے اوپر لے کر یہ ثابت کر دیا کہ اس میں کوئی دھوکے وغیرہ کا سوال نہیں ہے اور یہودیوں کو یہ بات واضح طورپربتادی کہ فلاں فلاں خطرناک جرموں کی بنا پر کعب کے متعلق یہ سزا تجویز کی گئی تھی جو میرے حکم سے جاری کی گئی ہے۔ اس وفدنے آپؐکے اس بیان کی معقولیت کوتسلیم کیا اورکعب کے جرموں کو اسکی سزا کاکافی اورجائز باعث یقین کرتے ہوئے خاموش ہوگئے۔
باقی رہا یہ اعتراض کہ اس موقع پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو اور فریب کی اجازت دی سو یہ بالکل غلط ہے اورصحیح روایات اس کی مکذب ہیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعاً اورغلط بیانی کی اجازت نہیںدی بلکہ صحیح بخاری کی روایت کے بموجب جواصح الروایات ہے جب محمد بن مسلمہ نے آپؐسے یہ دریافت کیا کہ کعب کو خاموشی کے ساتھ قتل کرنے کیلئے توکوئی بات کہنی پڑے گی توآپ نے ان عظیم الشان فوائد کو ملحوظ رکھتے ہوئے جو خاموش سزا کے محرک تھے جو اب میں صرف اس قدر فرمایا کہ’’ہاں‘‘ اوراس سے زیادہ اس موقع پر آپؐکی طرف سے یامحمد بن مسلمہ کی طرف سے قطعاًکوئی تشریح یاتوضیح نہیں ہوئی اورظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاصرف یہ مطلب تھا کہ محمد بن مسلمہ اوران کے ساتھی جو کعب کے مکان پر جاکر اسے باہر نکال کرلائیں گے تواس موقع پرانہیں لازماً کوئی ایسی بات کہنی ہوگی جس کے نتیجہ میں کعب رضامندی اورخاموشی کے ساتھ گھر سے نکل کران کے ساتھ آجاوے اوراس میں ہرگز کوئی قباحت نہیں ہے۔ آخر جنگ کے دوران میں جاسوس وغیرہ جواپنے فرائض ادٖکرتے ہیں توان کو بھی اسی قسم کی باتیں کہنی ہی پڑتی ہے جس پر کبھی کسی عقل مند کو اعتراض نہیں ہوا۔پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کادامن توبہرحال پاک ہے۔باقی رہا محمد بن مسلمہ وغیرہ کا معاملہ جنہوں نے وہاں جاکر عملاًاس قسم کی باتیں کیں۔سوان کی گفتگو میں بھی درحقیقت کوئی بات خلاف اخلاق نہیں ہے۔انہوں نے حقیقتاً کوئی غلط بیانی نہیں کی۔البتہ اپنے مشن کی غرض وغایت کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ ذومعنیین الفاظ ضرورکہے مگر ان کے بغیر چارہ نہیں تھا اورحالات جنگ میں ایک اچھی اورنیک غرض کے ماتحت سادہ اورصاف گوئی کے طریق سے اس قدرخفی انحراف ہرگز کسی عقل مند دیانت دارشخص کے نزدیک قابل اعتراض نہیں ہوسکتا۔بلکہ حق یہ ہے کہ محمد بن مسلمہ اوران کے ساتھیوں کی یہ گفتگو اس نیک اثر کی ایک بہت عمدہ اوردلچسپ دلیل ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نے آپؐکے صحابہ پرپیدا کیا تھا۔عرب کے لوگوں کی اسلام سے قبل کیا حالت تھی؟کیا اس میں کوئی شک ہے کہ وہ ہرقسم کے گندوں میں مبتلا تھے اور دھوکہ فریب توگویا ان کی فطرت کاحصہ بن چکا تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قلیل صحبت نے ان کے قلوب پراس قدر گہرااثر پیدا کیا کہ بولنا تودرکنار رہا وہ ایک نہایت اچھی اورنیک غرض کے ماتحت بھی سادہ اورصاف گوئی کے طریق سے ذرا بھر بھی ادھرادھر نہیں ہونا چاہتے تھے۔چنانچہ اس خطرناک موقع پربھی جو کعب بن اشرف کی شرانگیزی نے پیداکردیا تھاان کو صاف گوئی کے راستے سے ایک نہایت خفی انحراف کرنے کیلئے بھی اپنے آقا کی اجازت کی ضرورت محسوس ہوئی۔ان کے اس نمونے کے مقابلہ میں اگر یہ دیکھا جاوے کہ آج کل دنیا میں ہر قوم وملت میں اس ے اصول کے ماتحت کہ ایک نیک غرض کیلئے ہرکام کرنا جائز ہے کیاکچھ ظلم ڈھایا جاتا اورکیسے مظالم اوراکاذیب روارکھے جاتے ہیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پاک اورمعجزہ نمااثر کی دل سے تعریف نکلتی ہے جو آپ کی تربیت نے عرب کے جاہل اوروحشی لوگوں میں ایسے قلیل عرصہ میں پیدا کیا۔

کیا جنگ میں جھوٹ بولنا اوردھوکا دینا جائز ہے

بعض روایتوں میں یہ مذکور ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اَلْحَرْبُ خُدْعَۃٌ یعنی’’جنگ توایک دھوکا ہے۔‘‘ اوراس سے نتیجہ یہ نکالاجاتا ہے کہ نعوذباللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جنگ میں دھوکے کی اجازت تھی۔حالانکہ اول تو اَلْحَرْبُ خُدْعَۃٌکے یہ معنی نہیں ہیں کہ جنگ میں دھوکا کرنا جائز ہے بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ’’جنگ خود ایک دھوکا ہے۔‘‘یعنی جنگ کے نتیجہ کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کیا ہوگا۔یعنی جنگ کے نتیجہ پر اتنی مختلف باتیں اثرڈالتی ہیں کہ خواہ کیسے ہی حالات ہوں نہیںکہہ سکتے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا اوران معنوں کی تصدیق اس بات سے ہوتی ہے کہ حدیث میں یہ روایت دوطرح سے مروی ہوئی ہے۔ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااَلْحَرْبُ خُدْعَۃٌ یعنی’’جنگ ایک دھوکا ہے۔‘‘ اوردوسری روایت میں یہ ہے کہ سَمَّی الْحَرْبُ خُدْعَۃٌ ’’یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کانام دھوکا رکھا تھا‘‘اوردونوں کے ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ کامنشاء یہ نہیں تھا کہ جنگ میں دھوکا کرنا جائز ہے بلکہ یہ تھا کہ جنگ خود ایک دھوکا دینے والی چیز ہے،لیکن اگرضرور اسکے یہی معنی کئے جائیں کہ جنگ میں دھوکا جائز ہے توپھر بھی یقینا اس جگہ دھوکے سے جنگی تدبیر اورحیلہ مراد ہے جھوٹ اورفریب ہرگز مراد نہیں ہے کیونکہ اس جگہ خُدْعَۃٌکے معنے دائو پیچ اورتدبیر جنگ کے ہیں جھوٹ اور فریب کے نہیں ہیں۔پس مطلب یہ ہے کہ جنگ میں اپنے دشمن کوکسی حیلہ اورتدبیر سے غافل کرکے قابو میں لے آنا یا مغلوب کرلینا منع نہیں ہے اور اس قسم کے دائو پیچ کی صورتیں مختلف ہوسکتی ہیں۔ مثلاً صحیح روایات سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مہم میںنکلتے تھے توعموماًاپنا منزل مقصود ظاہر نہیں فرماتے تھے اوربعض اوقات ایسا بھی کرتے تھے کہ جانا تو جنوب کی طرف ہوتا تھا،مگر شروع شروع میں شمال کی طرف رخ کرکے روانہ ہو جاتے تھے اورپھر چکر کاٹ کر جنوب کی طرف گھوم جاتے تھے یاجب کبھی کوئی شخص پوچھتا تھا کہ کدھر سے آئے ہو توبجائے مدینہ کا نام لینے کے قریب یادور کے پڑائو کانام لے دیتے تھے یا اسی قسم کی کوئی اورجائز جنگی تدبیر اختیار فرماتے تھے یا جیسا کہ قرآن شریف میں اشارہ کیا گیا ہے صحابہ بعض اوقات ایسا کرتے تھے کہ دشمن کو غافل کرنے کیلئے میدان جنگ سے پیچھے ہٹنا شروع کردیتے تھے اورجب دشمن غافل ہوجاتا تھا اوراس کی صفوں میں ابتری پیدا ہوجاتی تھی توپھر اچانک حملہ کردیتے تھے اوریہ ساری صورتیں اس خُدْعَۃٌ کی ہیں جسے حالات جنگ میں جائز قرار دیا گیا ہے اور اب بھی جائز سمجھا جاتا ہے،لیکن یہ کہ جھوٹ اور غداری وغیرہ سے کام لیا جاوے اس سے اسلام نہایت سختی کے ساتھ منع کرتا ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عموماً فرمایا کرتے تھے کہ’’اسلام میں خدا کے ساتھ شرک کرنے اوروالدین کے حقوق تلف کرنے کے بعد تیسرے نمبر پر جھوٹ بولنے کا گناہ سب سے بڑا ہے۔‘‘ نیز فرماتے تھے کہ ایمان اوربزدلی ایک جگہ جمع ہوسکتے ہیں،ایمان اور بخل ایک جگہ جمع ہوسکتے ہیں مگر ایمان اورجھوٹ کبھی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ اوردھوکے اورغداری کے متعلق فرماتے تھے کہ جو شخص غداری کرتا ہے وہ قیامت کے دن خدا کے سخت عتاب کے نیچے ہوگا۔ الغرض جنگ میں جس قسم کے خُدْعَۃٌ کی اجازت دی گئی ہے وہ حقیقی دھوکا یا جھوٹ نہیں ہے بلکہ اس سے وہ جنگی تدابیر مراد ہیں جوجنگ میںدشمن کو غافل کرنے یا اسے مغلوب کرنے کیلئے اختیار کی جاتی ہیں اورجوبعض صورتوں میں ظاہری طورپر جھوٹ اوردھوکے کے مشابہ توسمجھی جاسکتی ہیں مگروہ حقیقتاً جھوٹ نہیں ہوتیں۔چنانچہ مندرجہ ذیل حدیث ہمارے اس خیال کی مصدق ہے۔
عَنْ اُمِّ کُلْثُوْمَ بِنْتِ عَقَبَۃَ بْنِ اَبِیْ مُعِیْطٍ قَالَتْ لَمْ اَسْمَعِ النَّبِیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یُرَخِّصُ فِیْ شَیْ ئٍ مِمَّا یَقُوْلُ النَّاسُ کِذْبٌ اِلاَّفِیْ ثَلَاثٍ اَلْحَرْبِ وَالْاِ صْلاَحِ بَیْنَ النَّاسِ وَحَدِیْثِ الرَّجُلِ امْرَاتَہٗ وَحَدِیْثِ الْمَرْأَۃِ زَوْجَھَا
یعنی’’ام کلثوم بنت عقبہ روایت کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف تین موقعوں کیلئے ایسی باتوں کی اجازت دیتے سنا جو حقیقتاً توجھوٹ نہیںہوتیںمگر عام لوگ انہیں غلطی سے جھوٹ سمجھ سکتے ہیں۔اوّل جنگ ۔دوم لڑے ہوئے لوگوں کے درمیان صلح کرانے کا موقع اورسوم جبکہ مرد اپنی عورت سے یا عورت اپنے مرد سے کوئی ایسی بات کرے جس میں ایک دوسرے کو راضی اورخوش کرنا مقصود ہو ۔‘‘
یہ حدیث اس بات میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں چھوڑتی کہ جس قسم کے خُدْعَۃٌ کی جنگ میں اجازت دی گئی ہے ،اس سے جھوٹ اوردھوکا مراد نہیں ہے بلکہ وہ باتیں مراد ہیں جو بعض اوقات جنگی تدابیر کے طور پر اختیار کرنی ضروری ہوتی ہیں اورجو ہر قوم اورہرمذہب میں جائز سمجھی گئی ہیں۔
کعب بن اشرف کاواقعہ ذکرکرنے کے بعد ابن ہشام نے یہ روایت نقل کی ہے کہ کعب کے قتل کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ اب جس یہودی پرتم قابو پائو اسے قتل کردو۔ چنانچہ ایک صحابی محیصہ نامی نے ایک یہودی پر حملہ کرکے اسے قتل کردیا تھا اوریہی روایت ابو دائود نے نقل کی ہے اوردونوں روایتوں کا منبع ابن اسحاق ہے۔علم روایت کی رو سے یہ روایت کمزور اورناقابل اعتماد ہے کیونکہ ابن ہشام نے تو اسے بغیر کسی قسم کی سند کے لکھا ہے اور ابودائودنے جوسند دی ہے وہ کمزور اورناقص ہے۔اس سند میں ابن اسحاق یہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ واقعہ زید بن ثابت کے ایک آزاد کردہ غلام سے سنا تھا اوراس نامعلوم الاسم غلام نے محیصہ کی ایک نامعلوم الاسم لڑکی سے سنا تھااوراس لڑکی نے اپنے باپ سے سنا تھا…الخ۔ اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس قسم کی روایت جس کے دوراوی بالکل نامعلوم الاسم اورمجہول الحال ہوں ہرگز قابل قبول نہیں ہوسکتی اوردرایت کے لحاظ سے بھی غور کیا جاوے تویہ قصہ درست ثابت نہیںہوتا،کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاعام طریق عمل اس بات کوقطعی طورپر جھٹلاتا ہے کہ آپؐنے اس قسم کا عام حکم دیا ہو۔ علاوہ ازیں اگرکوئی عام حکم ہوتا تویقینا اس کے نتیجہ میں کئی قتل واقع ہوجاتے مگرروایت میں صرف ایک قتل کا ذکر ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی عام حکم نہیں تھا اورپھر جب صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ دوسرے دن ہی یہود کے ساتھ نیا معاہدہ ہوگیا تھا تو اس صورت میں یہ ہرگز قبول نہیں کیا جاسکتا کہ اس معاہدہ کے ہوتے ہوئے اس قسم کا حکم دیا گیا ہواوراگر اس قسم کا کوئی واقعہ ہوتا تو یہودی لوگ اسکے متعلق ضرورواویلا کرتے،مگر کسی تاریخی روایت سے ظاہر نہیں ہوتا کہ یہود کی طرف سے کبھی کوئی اس قسم کی شکایت کی گئی ہو۔پس روایت اوردرایت دونوں طرح سے یہ قصہ غلط ثابت ہوتا ہے اوراگر اس میں کچھ حقیقت سمجھی جاسکتی ہے تو صرف اس قدر کہ جب کعب بن اشرف کے قتل کے بعد مدینہ میںایک شور پیدا ہوا اوریہودی لوگ جوش میں آگئے تواس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کی طرف سے خطرہ محسوس کرکے صحابہ سے یہ فرمایا ہوگا کہ جس یہودی کی طرف سے تمہیں خطرہ ہو اورتم پرحملہ کرے تم اسے دفاع میں قتل کرسکتے ہو،مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہ حالت صرف چند گھنٹے رہی تھی کیونکہ دوسرے دن ہی یہود کے ساتھ ازسرنو معاہدہ ہوکر امن وامان کی صورت پیدا ہوگئی تھی۔واللہ اعلم
کعب بن اشرف کے قتل کی تاریخ کے متعلق کسی قدر اختلاف ہے۔ابن سعد نے اسے ربیع الاول 3ہجری میں بیان کیا ہے ،لیکن ابن ہشام نے اسے سریہ زید بن حارثہ کے بعد رکھا ہے جو مسلّم طورپر جمادی الآخرۃ میں واقع ہوا تھا۔میں نے اس جگہ ابن ہشام کی ترتیب ملحوظ رکھی ہے۔

(باقی آئندہ)

(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ472 تا 477،مطبوعہ قادیان2011)