اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-11-02

قتل کعب بن اشرف جمادی الآخرۃ3ہجری

سیرت خاتم النّبیینﷺ

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

بدر کی جنگ نے جس طرح مدینہ کے یہودیوں کی دلی عداوت کوظاہر کردیا تھا اس کا ذکر غزوہ بنوقینقاع کے بیان میں گزرچکا ہے،مگر افسوس ہے کہ بنو قینقاع کی جلاوطنی بھی دوسرے یہودیوں کو اصلاح کی طرف مائل نہ کرسکی اور وہ اپنی شرارتوں اورفتنہ پردازیوں میں ترقی کرتے گئے۔ چنانچہ کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ کعب گومذہباً یہودی تھا لیکن دراصل یہودی النسل نہ تھا،بلکہ عرب تھا۔اس کا باپ اشرف بنونبہان کاایک ہوشیار اورچلتا پرزہ آدمی تھا جس نے مدینہ میں آکر بنو نضیر کے ساتھ تعلقات پیدا کئے اوران کا حلیف بن گیا اوربالآخر اس نے اتنا اقتدار اوررسوخ پیداکرلیا کہ قبیلہ بنونضیرکے رئیس اعظم ابورافع بن ابی الحقیق نے اپنی لڑکی اسے رشتہ میں دے دی۔ اسی لڑکی کے بطن سے کعب پیداہواجس نے بڑے ہوکر اپنے باپ سے بھی بڑھ کر رتبہ حاصل کیا۔ حتّٰی کہ بالآخر اسے یہ حیثیت حاصل ہوگئی کہ تمام عرب کے یہودی اسے گویا اپنا سردار سمجھنے لگ گئے۔کعب ایک وجہیہ اورشکیل شخص ہونے کے علاوہ ایک قادر الکلام شاعراورایک نہایت دولتمندآدمی تھا اورہمیشہ اپنی قوم کے علماء اوردوسرے ذی اثر لوگوں کواپنی مالی فیاضی سے اپنے ہاتھ کے نیچے رکھتا تھا،مگراخلاقی نقطۂ نگاہ سے وہ ایک نہایت گندے اخلاق کا آدمی تھا اورخفیہ چالوں اور ریشہ دوانیوں کے فن میں اسے کمال حاصل تھا۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ہجرت کر کے تشریف لائے توکعب بن اشرف نے دوسرے یہودیوں کے ساتھ مل کر اس معاہدہ میں شرکت کی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور یہود کے درمیان باہمی دوستی اورامن وامان اورمشترکہ دفاع کے متعلق تحریر کیا گیا تھا۔مگراندر ہی اندر کعب کے دل میں بغض وعداوت کی آگ سلگنے لگ گئی اور اس نے خفیہ چالوں اورمخفی ساز باز سے اسلام اور بانیٔ اسلام کی مخالفت شروع کردی۔چنانچہ لکھا ہے کہ کعب ہرسال یہودی علماء ومشائخ کو بہت سی خیرات دیا کرتا تھا،لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد یہ لوگ اپنے سالانہ وظائف لینے کیلئے اسکے پاس گئے تواس نے باتوں باتوں میں ان کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاذکر شروع کردیا اوران سے آپ کے متعلق مذہبی کتب کی بنا پر رائے دریافت کی۔انہوں نے کہا کہ بظاہر تو یہ وہی نبی معلوم ہوتا ہے جسکا ہمیں وعدہ دیا گیا تھا۔کعب اس جواب پر بہت بگڑا اوران کو سخت سست کہہ کر وہاں سے رخصت کر دیا۔اورجو خیرات انہیںدیا کرتا وہ نہ دی۔ یہودی علماء کی جب روزی بند ہوئی توکچھ عرصہ کے بعد پھر کعب کے پاس گئے اورکہا کہ ہمیں علامات کے سمجھنے میں غلطی لگ گئی تھی ہم نے دوبارہ غورکیاہے دراصل محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہ نبی نہیں ہے جس کا وعدہ دیا گیا تھا۔اس جواب سے کعب کامطلب حل ہوگیا اوراس نے خوش ہوکر ان کو سالانہ خیرات دے دی۔ خیر یہ تو ایک مذہبی مخالفت تھی جوگوناگوارصورت میں اختیار کی گئی،لیکن چنداں قابل اعتراض نہیں ہوسکتی تھی اورنہ اس بنا پرکعب کوزیرالزام سمجھا جاسکتا تھا،مگر اسکے بعد کعب کی مخالفت زیادہ خطرناک صورت اختیار کرتی ہے اوربالآخر جنگ بدر کے بعد تواس نے ایسا رویہ اختیار کیا جو سخت مفسدانہ اورفتنہ انگیز تھا۔اورجس کے نتیجہ میں مسلمانوں کیلئے نہایت خطرناک حالات پیدا ہوگئے۔دراصل بدر سے پہلے کعب یہ سمجھتا تھا کہ مسلمانوں کایہ جوش ایمان ایک عارضی چیزہے اورآہستہ آہستہ یہ سب لوگ خود بخود منتشر ہوکراپنے آبائی مذہب کی طرف لوٹ جائیں گے،لیکن جب بدر کے موقع پر مسلمانوں کوایک غیر معمولی فتح نصیب ہوئی اوررئوساء قریش اکثر مارے گئے تواس نے سمجھ لیا کہ اب یہ نیا دین یونہی مٹتا نظر نہیں آتا ۔چنانچہ بدر کے بعد اس نے اپنی پوری کوشش اسلام کے مٹانے اورتباہ وبرباد کرنے میں صرف کردینے کا تہیہ کرلیا۔اسکے دلی بغض وحسد کاسب سے پہلا اظہار اس موقع پرہوا جبکہ بدر کی فتح کی خبر مدینہ میں پہنچی۔اس خبر کو سن کر کعب نے علی رئوس الاشہادیہ کہا کہ یہ خبر بالکل جھوٹی معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کوقریش کے ایسے بڑے لشکر پر فتح حاصل ہواور مکہ کے اتنے نامور رئیس خاک میں مل جائیں اوراگر یہ خبر سچ ہے توپھراس زندگی سے مرنا بہتر ہے۔جب اس خبر کی تصدیق ہوگئی اور کعب کو یہ یقین ہوگیا کہ واقعی بدر کی فتح نے اسلام کووہ استحکام دے دیا ہے جس کا اسے وہم وگمان بھی نہ تھا تووہ غیض وغضب سے بھر گیااورفوراًسفر کی تیاری کرکے اس نے مکہ کی راہ لی اوروہاں جاکر اپنی چرب زبانی اورشعر گوئی کے زور سے قریش کے دلوں کی سلگتی ہوئی آگ کو شعلہ بارکر دیا اوران کے دل میں مسلمانوں کے خون کی نہ بجھنے والی پیاس پیدا کردی اوران کے سینے جذباتِ انتقام وعداوت سے بھردیئے۔ اورجب کعب کی اشتعال انگیزی سے ان کے احساسات میں ایک اتنہائی درجہ کی بجلی پیدا ہوگئی تواس نے ان کو خانہ کعبہ کے صحن میں لے جاکر اورکعبہ کے پردے ان کے ہاتھوں میںدے دے کر ان سے قسمیں لیں کہ جب تک اسلام اوربانی ٔاسلام کو صفحۂ دنیا سے ملیا میٹ نہ کردیں گے،اس وقت تک چین نہ لیں گے۔ مکہ میں یہ آتش فشاں فضاپیدا کرکے اس بدبخت نے دوسرے قبائل عرب کا رخ کیا اورقوم بقوم پھرکر مسلمانوں کے خلاف لوگوں کوبھڑکایا اورپھر مدینہ میں واپس آکر مسلمان خواتین پرتشبیب کہی۔یعنی اپنے جوش دلانے والے اشعار میں نہایت گندے اورفحش طریق پر مسلمان خواتین کاذکر کیا۔ حتّٰی کہ خاندان نبوت کی مستورات کوبھی اپنے ان اوباشانہ اشعار کانشانہ بنانے سے دریغ نہیںکیااورملک میں ان اشعار کاچرچا کروایااوربالآخر اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش کی اور آپؐکوکسی دعوت وغیرہ کے بہانے سے اپنے مکان پربلاکر چندنوجوان یہودیوں سے آپ کو قتل کروانے کا منصوبہ باندھا۔مگر خدا کے فضل سے وقت پر اطلاع ہوگئی اوراسکی یہ سازش کامیاب نہیں ہوئی۔
جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی اورکعب کے خلاف عہدشکنی،بغاوت،تحریک جنگ،فتنہ پردازی، فحش گوئی اور سازش قتل کے الزامات پایۂ ثبوت کوپہنچ گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس بین الاقوام معاہدہ کی رو سے جو آپؐکے مدینہ میں تشریف لانے کے بعد اہالیان مدینہ میں ہوا تھا مدینہ کی جمہوری سلطنت کے صدراورحاکم اعلیٰ تھے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ کعب بن اشرف اپنی کاروائیوں کی وجہ سے واجب القتل ہے اوراپنے بعض صحابیوں کوارشاد فرمایا کہ اسے قتل کردیا جاوے لیکن چونکہ اس وقت کعب کی فتنہ انگیزیوں کی وجہ سے مدینہ کی فضاء ایسی ہورہی تھی کہ اگر اس کے خلاف باضابطہ طورپر اعلان کرکے اسے قتل کیا جاتا تومدینہ میں ایک خطرناک خانہ جنگی شروع ہو جانے کااحتمال تھا ۔جس میں نہ معلوم کتنا کشت وخون ہوتا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہرممکن اور جائز قربانی کرکے بین الاقوام کشت وخون کو روکنا چاہتے تھے۔آپؐنے یہ ہدایت فرمائی کہ کعب کوبرملاطورپر قتل نہ کیا جاوے بلکہ چند لوگ خاموشی کے ساتھ کوئی مناسب موقع نکال کر اسے قتل کر دیںاوریہ ڈیوٹی آپؐنے قبیلہ اوس کے ایک مخلص صحابی محمد بن مسلمہ کے سپرد فرمائی اورانہیں تاکید فرمائی کہ جو طریق بھی اختیار کریں قبیلہ اوس کے رئیس سعد بن معاذ کے مشورہ سے کریں۔ محمد بن مسلمہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ خاموشی کے ساتھ قتل کرنے کیلئے توکوئی بات کہنی ہوگی۔یعنی کوئی عذر وغیرہ بنانا پڑے گاجس کی مدد سے کعب کو اس کے گھر سے نکال کرکسی محفوظ جگہ میں قتل کیا جا سکے۔آپؐنے ان عظیم الشان اثرات کا لحاظ رکھتے ہوئے جواس موقع پر ایک خاموش سزا کے طریق کوچھوڑنے سے پیدا ہوسکتے تھے فرمایا ’’اچھا‘‘ چنانچہ محمد بن مسلمہ نے سعد بن معاذ کے مشورہ سے ابونائلہ اوردوتین اورصحابیوں کواپنے ساتھ لیا اورکعب کے مکان پر پہنچے اورکعب کواسکے اندرون خانہ سے بلاکر کہا کہ’’ہمارے صاحب یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے صدقہ مانگتے ہیں اورہم تنگ حال ہیں۔کیاتم مہربانی کرکے ہمیں کچھ قرض دے سکتے ہو؟یہ بات سن کر کعب خوشی سے کود پڑا اورکہنے لگا۔واللہ ابھی کیا ہے،وہ دن دور نہیںجب تم اس شخص سے بیزار ہوکر اسے چھوڑ دوگے۔محمد نے جواب دیا ’’خیر ہم تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اختیار کرچکے ہیں اور اب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس سلسلہ کا انجام کیا ہوتا ہے۔مگر تم یہ بتائو کہ قرض دوگے یا نہیں؟کعب نے کہا ’’ہاں! مگر کوئی چیز رہن رکھو۔‘‘محمد نے پوچھا کیا چیز؟اس بدبخت نے جواب دیا۔’’اپنی عورتیں رہن رکھ دو۔‘‘محمد نے غصہ کو دبا کرکہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تمہارے جیسے آدمی کے پاس ہم اپنی عورتیں رہن رکھ دیں۔اس نے کہا اچھا توپھر بیٹے سہی۔محمد نے جواب دیا کہ یہ بھی ناممکن ہے۔ہم سارے عرب کا طعن اپنے سر پر نہیں لے سکتے،البتہ اگرتم مہربانی کرو توہم اپنے ہتھیار رہن رکھ دیتے ہیں۔کعب راضی ہوگیا اورمحمد بن مسلمہ اوران کے ساتھی رات کو آنے کا وعدہ دے کر واپس چلے آئے۔جب رات ہوئی تو یہ پارٹی ہتھیار وغیرہ ساتھ لے کر (کیونکہ اب وہ برملا طورپر ہتھیار اپنے ساتھ لے جاسکتے تھے)کعب کے مکان پر پہنچے اوراسے اسکے گھر سے نکال کر باتیں کرتے کرتے ایک طرف کولے آئے۔تھوڑی دیر بعد چلتے چلتے محمد بن مسلمہ یاان کے کسی ساتھی نے کسی بہانے سے کعب کے سر پر ہاتھ ڈالا اور نہایت پھرتی کے ساتھ اسکے بالوں کو مضبوطی سے قابو کرکے اپنے ساتھیوں کو آوازدی’’مارو‘‘صحابہ نے جو پہلے سے تیار اور ہتھیار بند تھے فوراًتلواریں چلادیں۔ اور بالآخر کعب قتل ہوکر گرااورمحمد بن مسلمہ اوران کے ساتھی وہاںسے رخصت ہوکر جلدی جلدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے اورآپؐکو اس قتل کی اطلاع دی۔
جب کعب کے قتل کی خبر مشہور ہوئی تو شہر میں ایک سنسنی پھیل گئی اوریہودی لوگ سخت جوش میں آگئے اوردوسرے دن صبح کے وقت یہودیوں کاایک وفد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ ہمارا سردار کعب بن اشرف اس اس طرح قتل کردیا گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی باتیں سن کر فرمایا کہ کیا تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ کعب کس کس جرم کا مرتکب ہوا ہے اورپھرآپؐنے اجمالاًان کو کعب کی عہد شکنی اور تحریک جنگ اورفتنہ انگیزی اورفحش گوئی اورسازش قتل وغیرہ کی کارروائیاں یاد دلائیں جس پر یہ لوگ ڈر کر خاموش ہوگئے۔ اسکے بعد آنحضرتﷺ نے ان سے فرمایا کہ تمہیں چاہئے کہ کم از کم آئندہ کیلئے ہی امن اورتعاون کے ساتھ رہو اور عداوت اورفتنہ وفساد کابیج نہ بوئو۔چنانچہ یہود کی رضامندی کے ساتھ آئندہ کیلئے ایک نیا معاہدہ لکھا گیا اوریہود نے مسلمانوں کے ساتھ امن وامان کے ساتھ رہنے اورفتنہ وفساد کے طریقوں سے بچنے کا ازسرنو وعدہ کیااوریہ عہدنامہ حضرت علی کی سپردگی میں دے دیا گیا اورتاریخ میںکسی جگہ مذکور نہیںکہ اسکے بعد یہودیوں نے کبھی کعب بن اشرف کے قتل کا ذکر کرکے مسلمانوں پرالزام قائم کیا ہوکیونکہ ان کے دل محسوس کرتے تھے کہ کعب اپنی مستحق سزا کو پہنچا ہے۔
کعب بن اشرف کے قتل پر بعض مغربی مؤرخین نے بڑی خامہ فرسائی کی ہے اوراس واقعہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن پرایک بدنما دھبے کے طورپرظاہر کرکے اعتراضات جمائے ہیں،لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اوّل آیا یہ قتل فی ذاتہٖ ایک جائز فعل تھا یانہیں؟ دوسرے آیا جو طریق اس قتل کے واسطے اختیار کیا گیا وہ جائز تھا یا نہیں؟ امراوّل کے متعلق تو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ کعب بن اشرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باقاعدہ امن وامان کا معاہدہ کر چکاتھااورمسلمانوں کے خلاف کارروائی کرنا تو درکنار رہا اس نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ وہ ہربیرونی دشمن کے خلاف مسلمانوں کی امداد کرے گااورمسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے گا۔اس نے اس معاہدہ کی رو سے یہ بھی تسلیم کیاتھا کہ جو رنگ مدینہ میں جمہوری سلطنت کاقائم کیا گیا ہے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صدرہوں گے اورہرقسم کے تنازعات وغیرہ میں آپؐکا فیصلہ سب کیلئے واجب القبول ہوگا۔چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ اسی معاہدہ کے ماتحت یہودی لوگ اپنے مقدمات وغیرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے تھے اور آپؐ ان میں احکام جاری فرماتے تھے۔چنانچہ آپؐنے ایک زنا کے مقدمہ میں ایک یہودی مرد اوریہودی عورت کو تورات کے حکم کے مطابق رجم کی سزادی تھی۔اب اگران حالات کے ہوتے ہوئے کعب نے تمام عہدوپیمان کو بالائے طاق رکھ کر مسلمانوں سے بلکہ حق یہ ہے کہ حکومت وقت سے غداری کی اورمدینہ میں فتنہ وفساد کا بیج بویا اورملک میں جنگ کی آگ مشتعل کرنے کی کوشش کی اورمسلمانوں کے خلاف قبائل عرب کو خطرناک طورپر ابھارااورمسلمانوں کی عورتوں پراپنے جوش دلانے والے اشعار میں تشبیب کہی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے منصوبے کئےاوریہ سب کچھ ایسی حالت میں کیا کہ مسلمان پہلے سے ہی چاروں طرف سے مصائب میں گھِرے ہوئے تھے اورعرب کے خونخوار درندے ان کے خون کی پیاس میں مجنون ہورہے تھے اورصحابہ کی ایسی حالت تھی کہ نہ دن آرام میں گزرتا تھا اورنہ رات اوردشمن کے حملہ کے خطرہ میں ان کی نیند تک حرام ہورہی تھی۔توکیا ان حالات میں کعب کا جُرم بلکہ بہت سے جُرموں کا مجموعہ ایسا نہ تھا کہ اسکے خلاف کوئی تعزیری قدم اٹھایا جاتا؟اورپھر کیا قتل سے کم کوئی اورسزا تھی جو یہود کی اس فتنہ پردازی کے سلسلہ کوروک سکتی؟ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی غیر متعصب شخص کعب کے قتل کوایک غیر منصفانہ فعل سمجھ سکتا ہے۔کیا آج کل مہذب کہلانے والے ممالک میں بغاوت اورعہد شکنی اوراشتعال جنگ اورسازش قتل کے جرموں میں مجرم کوقتل کی سزا نہیں دی جاتی؟

(باقی آئندہ)

(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ 466تا 471،مطبوعہ قادیان2011)