اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-10-26

جنت البقیع اوراس کا پہلامدفون،غزوہ ذی امرمحرم یاصفر3ھ،

تزویج اُمّ کلثوم ربیع الاول2ہجری،غزوہ بحران ربیع الاول3ہجری ،سریہ زیدبن حارثہ بطرف قردہ جمادی الآخرۃ3ہجری

سیرت خاتم النّبیینﷺ

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

جنت البقیع اوراس کا پہلامدفون

اسی سال کے آخر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کیلئے مدینہ میں ایک مقبرہ تجویز فرما یاجسے جنت البقیع کہتے تھے اسکے بعد صحابہ عموماً اسی مقبرہ میں دفن ہوتے تھے۔سب سے پہلے صحابی جو اس مقبرہ میں دفن ہوئے تھے وہ عثمان بن مظعون تھے۔ عثمان بہت ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے اورنہایت نیک اورعابد اورصوفی منش آدمی تھے۔مسلمان ہونے کے بعد ایک دفعہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضور مجھے اجازت مرحمت فرمائیں تومیں چاہتا ہوں کہ بالکل تارک الدنیا ہوکراوربیوی بچوںسے علیحدگی اختیار کرکے اپنی زندگی خالصتہً عبادت الٰہی کیلئے وقف کردوں، مگر آپؐنے اس کی اجازت نہیںدی بلکہ جولوگ ترک دنیا تواختیار نہیںکرتے تھے ،لیکن روزہ اورنماز کی اس قدر کثرت کرتے تھے کہ اس سے ان کے متعلقین کے حقوق پراثر پڑتا تھا،ان کے متعلق بھی آپؐنے فرمایا کہ تمہیں چاہئے کہ خدا کاحق خدا کو دو۔بیوی بچوں کا حق بیوی بچوں کودو۔ مہمان کا حق مہمان کو دواوراپنے نفس کا حق نفس کودو کیونکہ یہ سب حقوق خدا کے مقررکردہ ہیں اوران کی ادائیگی عبادت میں داخل ہے۔الغرض آپؐنے عثمان بن مظعون کوترک دنیا کی اجازت نہیں دی۔اوراسلام میں تبتل اوررہبانیت کوناجائز قرار دے کر اپنی امت کیلئے افراط وتفریط کے درمیان ایک میانہ روی کا راستہ قائم کردیا۔عثمان بن مظعون کی وفات کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبہت صدمہ ہوا اورروایت آتی ہے کہ وفات کے بعد آپؐنے ان کی پیشانی پر بوسہ دیا اوراس وقت آپؐکی آنکھیں پرنم تھیں۔ ان کے دفنائے جانے کے بعد آپؐنے ان کی قبر کے سرہانے ایک پتھر بطورعلامت کے نصب کرادیا اور پھرآپؐکبھی کبھی جنت البقیع میں جاکر ان کیلئے دعافرمایا کرتے تھے۔عثمان پہلے مہاجر تھے جومدینہ میںفوت ہوئے۔

غزوہ ذی امرمحرم یاصفر3ھ

غزوہ قرقرۃ الکدر کے بیان میں یہ ذکر گزرچکا ہے کہ کس طرح قریش کی انگیخت پر نجد کے قبائل سلیم وغطفان نے مسلمانوں کے خلاف جارحانہ طریق اختیار کرکے اسلام اوربانیٔ اسلام کوتباہ وبرباد کردینے کاتہیہ کرلیا تھا۔ابھی اس واقعہ پرکوئی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ بنوغطفان کے بعض قبائل یعنی بنوثعلبہ اوربنومحارب کے لوگ اپنے ایک نامورجنگجو دعثوربن حارث کی تحریک پرپھر مدینہ پر اچانک حملہ کردینے کی نیت سے نجد کے ایک مقام ذی امر میں جمع ہونے شروع ہوئے لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دشمنوں کی حرکات و سکنات کاباقاعدہ علم رکھتے تھے آپؐکوان کے اس خونی ارادے کی بروقت اطلاع ہوگئی اور آپؐایک بیدارمغزجرنیل کی طرح پیش بندی کے طورپر ساڑھے چار سوصحابیوں کی جمعیت کواپنے ساتھ لے کر محرم3ھ کے آخر یاصفر کے شروع میںمدینہ سے نکلے اور تیزی کے ساتھ کوچ کرتے ہوئے ذی امر کے قریب پہنچ گئے۔ دشمن کو آپؐکی آمد کی اطلاع ہوئی تواس نے جھٹ پٹ آس پاس کی پہاڑیوں پر چڑھ کراپنے آپ کو محفوظ کرلیااور مسلمان ذی امر میں پہنچے تو میدان خالی تھا۔البتہ بنوثعلبہ کاایک بدوی جس کا نام جبار تھا صحابہ کے قابو میں آگیا۔جسے قید کرکے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے حالات دریافت کئے تو معلوم ہوا کہ بنوثعلبہ اوربنو محارب کے سارے لوگ پہاڑیوں میں محفوظ ہوگئے ہیں اور وہ کھلے میدان میں مسلمانوں کے سامنے نہیں آئیں گے۔ ناچار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوواپسی کا حکم دینا پڑا، مگراس غزوہ کااتنا فائدہ ضرورہوگیا کہ اس وقت جوخطرہ بنوغطفان کی طرف سے پیدا ہوا تھاوہ وقتی طور پر ٹل گیا۔ جبار جومسلمانوں کے ہاتھ میں قید ہوا تھاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ سے بخوشی مسلمان ہوگیا اورآپؐنے اس کی تربیت کاکام بلالؓ کے سپرد فرمایا اورتین دن کے قیام کے بعد آپؐمدینہ کی طرف واپس تشریف لے آئے۔
بعض تاریخی روایات کی رو سے اسی غزوہ میں وہ مشہور واقعہ پیش آیا جس میں ایک بدوی سردار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواکیلا اورغافل پاکر آپ پرتلوار کے ساتھ حملہ کیا تھا۔مگر پھر خود مرعوب ہوکر اس کے ہاتھ سے تلوار گرگئی لیکن حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ یہ واقعہ بشرطیکہ وہ دو دفعہ نہیں ہواغزوہ ذات الرقاع میں پیش آیا تھا جو بروایت صحیح 7ہجری میں ہوا تھا۔

تزویج اُمّ کلثوم ربیع الاول2ہجری

رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زوجہ حضرت عثمانؓبن عفان کا ذکر اوپر گزرچکا ہے۔ ان کی وفات کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری لڑکی ام کلثوم کی شادی جو حضرت فاطمہ سے بڑی مگر رقیہ سے چھوٹی تھیں حضرت عثمانؓسے کردی۔اسی وجہ سے حضرت عثمانؓ کو ذو النورین دونوروں والا کہتے ہیں۔ام کلثوم کی یہ دوسری شادی تھی کیونکہ وہ اوران کی بہن رقیہ شروع میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابولہب کے دو لڑکوں سے بیاہی گئی تھیں۔مگر قبل اسکے کہ ان کا رخصتانہ ہوتا مذہبی مخالفت کی بنا پر یہ رشتہ منقطع ہوگیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے حضرت عثمانؓسے رقیہ کی شادی کی اوررقیہ کی وفات کے بعدام کلثوم کی شادی کردی۔مگر افسوس ہے کہ ان دونوں صاحبزادیوں کی نسل کاسلسلہ نہیں چلاکیونکہ ام کلثوم کے تو کوئی بچہ ہواہی نہیں اور رقیہ کا صاحبزادہ عبداللہ چھ سال کاہوکر وفات پاگیا۔ ام کلثوم کانکاح ریبع الاول2ہجری میں ہوا تھا۔

غزوہ بحران ربیع الاول3ہجری

بنو سلیم اوربنو غطفان کے دوحملوں کی تیاری کا ذکر اوپرگزر چکا ہے اوریہ بھی بتایا جاچکا ہے کہ کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فوری اوربروقت تدبیر نے خدا کے فضل سے اس وقت مسلمانوں کوان خونخوار قبائل کے شر سے محفوظ رکھا تھا۔مگر جسکے دل میں عداوت کی آگ سلگ رہی ہووہ نچلا کس طرح بیٹھ سکتا تھا۔ابھی غزوہ ذی امر پرزیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا یعنی اواخرربیع الاول3ھ میںآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کویہ وحشتناک اطلاع موصول ہوئی کہ بنوسلیم پھرموضع بحران میں مدینہ پر اچانک حملہ کرنے کی غرض سے بہت بڑی تعداد میں جمع ہورہے ہیںاوریہ کہ ان کے ساتھ قریش کابھی ایک جتھہ ہے۔ناچار آپؐپھر صحابہ کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر مدینہ سے نکلے، لیکن حسب عادت عرب کے یہ وحشی درندے جواپنے شکار پراچانک اور غفلت کی حالت میں حملہ کرنے کا موقع چاہتے تھے آپؐکی آمد آمد کی خبر پاکرادھر ادھرمنتشر ہوگئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کچھ عرصہ قیام کرکے واپس تشریف لے آئے۔
بنوسلیم اوربنوغطفان کااس طرح باربار مدینہ پرحملہ کرنے کے ارادے سے جمع ہونا صاف ظاہر کررہا ہے کہ صحرائے عرب کے یہ وحشی اورجنگجو قبائل اسلام کے سخت جانی دشمن تھے اوردن رات اس فکر میں رہتے تھے کہ کوئی موقع ملے تو مسلمانوں کوتباہ وبرباد کردیں۔ ذرا مسلمانوں کی اس وقت کی نازک حالت کااندازہ لگائو کہ ان پر اس زمانہ میںکیسے دن گزر رہے تھے۔ایک طرف مکہ کے قریش تھے جن کو اسلام کی عداوت اورجنگ بدر کی انتقامی روح نے اندھا کررکھا تھا اورانہوں نے خانہ کعبہ کے پردوں کے ساتھ لپٹ لپٹ کر قسمیں کھائی ہوئی تھیں کہ جب تک مسلمانوں کو ملیا میٹ نہ کریں گے چین نہیں لیںگے۔ دوسری طرف صحرائے عرب کے یہ خونخوار درندے تھے جن کو قریش کی انگیخت اور اسلام کی دشمنی نے مسلمانوں کے خون کی پیاس سے بے چین کررکھا تھا۔چنانچہ دیکھو کہ بدر کے بعد چندماہ کے اندر اندر آپؐکو کتنی دفعہ بذات خود ان وحشی قبائل عرب کے خونی ارادوں سے اپنے آپ کو محفوظ کرنے کیلئے سفر کرنا پڑا اور جیسا کہ سرولیم میور نے تصریح کی ہے یہ دن بھی بہت سخت گرمیوں کے دن تھے اورگرمی بھی عرب کے صحرا کی گرمی تھی۔اگرخدا کی خاص نصرت شامل حال نہ ہوتی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیدار مغزی مسلمانوں کوہر وقت ہوشیار اور چوکس نہ رکھتی اورآپؐدشمن کی جمعیت کو چھاپہ مارنے سے قبل ہی منتشر کردینے کی تدابیر اختیار نہ کرتے تو ان دنوںمیں مسلمانوں کی تباہی وبربادی میں کوئی شک نہیں تھااوریہ صرف بیرونی خطرات تھے۔باقی اندرونی خطرات بھی کسی طرح کم نہ تھے۔خود مدینہ کے اندر مسلمانوں سے ملے جلے رہنے والے منافقین موجود تھے جن کو مارآستین کہنا یقینا کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ان کے علاوہ غداراورخفیہ سازشوں کے عادی یہودی لوگ تھے جن کی عداوت کی گہرائی اور وسعت انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔اللہ اللہ ان ابتدائی مسلمانوں کیلئے یہ کیسی مصیبت کے دن تھے!!خود ان کی زبان سے سنئے۔ابیّ بن کعب ایک مشہور صحابی روایت کرتے ہیں۔
کَانُوْالَایُبِیْتُوْنَ اِلَّافِی السِّلَاحِ وَلَایُصْبِحُوْنَ اِلَّا فِیْہِ وَکَانُوْا یَقُوْلُوْنَ اَلَا تَرَوْنَ اَنَّانَعِیْشُ حَتّٰی نَبِیْتُ اٰمِنِیْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَانَخَافُ اِلَّااللّٰہَ
یعنی’’ اس زمانہ میں صحابہ کایہ حال تھا کہ وہ ڈر کے مارے راتوں کوہتھیار لگا لگا کر سوتے تھے اور دن کو بھی ہروقت مسلح رہتے تھے کہ کہیں ان پر کوئی اچانک حملہ نہ ہوجاوے اوروہ ایک دوسرے سے کہا کرتے تھے کہ دیکھئے ہم اس وقت تک زندہ بھی رہتے ہیں یا نہیں کہ جب ہم امن واطمینان کی زندگی گزاریں گے اورخدا کے سوا ہمیں کسی کا ڈر نہیں ہوگا۔‘‘
ان الفاظ میں کس مصیبت اورکس بے کسی کااظہار ہے اورامن اوراطمینان کی زندگی کی کتنی تڑپ مخفی ہے۔اس کااندازہ ہرانصاف پسند شخص خود کرسکتا ہے۔

سریہ زیدبن حارثہ بطرف قردہ جمادی الآخرۃ3ہجری

بنو سلیم اوربنو غطفان کے حملوں سے کچھ فرصت ملی تو مسلمانوں کو ایک اورخطرہ کے سدباب کیلئے وطن سے نکلنا پڑا۔اب تک قریش اپنی شمالی تجارت کیلئے عموماًحجاز کے ساحلی راستے سے شام کی طرف جاتے تھے لیکن اب انہوں نے یہ راستہ ترک کردیاکیونکہ جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے اس علاقہ کے قبائل مسلمانوں کے حلیف بن چکے تھے اورقریش کیلئے شرارت کا موقع کم تھا بلکہ ایسے حالات میں وہ اس ساحلی راستے کو خود اپنے لئے موجب خطرہ سمجھتے تھے۔ بہرحال اب انہوں نے اس راستے کو ترک کرکے نجدی راستہ اختیار کرلیا جو عراق کوجاتا تھااورجس کے آس پاس قریش کے حلیف اورمسلمانوں کے جانی دشمن قبائل سلیم وغطفان آباد تھے۔ چنانچہ جمادی الآخرۃ کے مہینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کویہ اطلاع موصول ہوئی کہ قریش مکہ کاایک تجارتی قافلہ نجدی راستہ سے گزرنے والا ہے۔ظاہر ہے کہ اگرقریش کے قافلوں کاساحلی راستے سے گزرنا مسلمانوں کیلئے موجب خطرہ تھا تونجدی راستے سے ان کا گزرنا ویسا ہی بلکہ اس سے بڑھ کر اندیشہ ناک تھاکیونکہ برخلاف ساحلی راستے کے اس راستے پرقریش کے حلیف آباد تھے جوقریش ہی کی طرح مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے اورجن کے ساتھ مل کر قریش بڑی آسانی کے ساتھ مدینہ پر خفیہ چھاپہ مار سکتے یاکوئی شرارت کرسکتے تھے اورپھر قریش کوکمزور کرنے اورانہیں صلح جوئی کی طرف مائل کرنے کی غرض کے ماتحت بھی ضروری تھا کہ اس راستہ پربھی ان کے قافلوں کی روک تھام کی جاوے۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خبر کے ملتے ہی اپنے آزادکردہ غلام زیدبن حارثہ کی سرداری میں اپنے اصحاب کاایک دستہ روانہ فرمادیا۔
قریش کے اس تجارتی قافلے میں ابو سفیان بن حرب اورصفوان بن امیہ جیسے رئوساء بھی موجود تھے۔زید نے نہایت چستی اورہوشیاری سے اپنے فرض کوادا کیا اورنجد کے مقام قردہ میں ان دشمنان اسلام کوجادبایا۔اس اچانک حملہ سے گھبرا کر قریش کے لوگ قافلہ کے اموال وامتعہ کوچھوڑ کربھاگ گئے اورزید بن حارثہ اوران کے ساتھی ایک کثیر مال غنیمت کے ساتھ مدینہ میںبانیل ومرام واپس آگئے۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ قریش کے اس قافلہ کا راہبر ایک فرات نامی شخص تھاجومسلمانوں کے ہاتھ قید ہوااور مسلمان ہونے پر رہا کردیا گیالیکن دوسری روایتوں سے پتہ لگتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف مشرکین کا جاسوس تھا،مگر بعد میں مسلمان ہوکرمدینہ میں ہجرت کرکے آگیا۔

(باقی آئندہ)

(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ 462تا466،مطبوعہ قادیان2011)