اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-10-19

غزوہ بنوقینقاع اواخر2ہجری

سیرت خاتم النّبیینﷺ

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

یہ بتایا جاچکا ہے کہ جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ میں تشریف لائے تھے اس وقت مدینہ میں یہود کے تین قبائل آباد تھے۔ان کے نام بنوقینقاع، بنونضیر اوربنوقریظہ تھے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں آتے ہی ان قبائل کے ساتھ امن وامان کے معاہدے کرلئے اورآپس میں صلح اورامن کے ساتھ رہنے کی بنیاد ڈالی۔معاہدہ کی رو سے فریقین اس بات کے ذمہ دار تھے کہ مدینہ میں امن وامان قائم رکھیں اوراگر کوئی بیرونی دشمن مدینہ پر حملہ آور ہوتو سب مل کر اس کا مقابلہ کریں۔شروع شروع میں تو یہود اس معاہدہ کے پابند رہے اورکم ازکم ظاہری طورپرانہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کوئی جھگڑا پیدا نہیں کیا۔لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان مدینہ میں زیادہ اقتدار حاصل کرتے جاتے ہیں توان کے تیور بدلنے شروع ہوئے اور انہوں نے مسلمانوں کی اس بڑھتی ہوئی طاقت کوروکنے کاتہیہ کرلیا اوراس غرض کیلئے انہوں نے ہرقسم کی جائز وناجائز تدابیر اختیار کرنی شروع کیں۔حتّٰی کہ انہوں اس بات کی کوشش سے بھی دریغ نہیں کیا کہ مسلمانوں کے اندر پھوٹ پیدا کرکے خانہ جنگی شروع کرادیں۔چنانچہ روایت آتی ہے کہ ایک موقع پر قبیلہ اوس اورخزرج کے بہت سے لوگ اکٹھے بیٹھے ہوئے باہم محبت واتفاق سے باتیں کررہے تھے کہ بعض فتنہ پرداز یہود نے اس مجلس میں پہنچ کر جنگِ بُعاث کا تذکرہ شروع کردیا۔یہ وہ خطرناک جنگ تھی جوان دوقبائل کے درمیان ہجرت سے چند سال قبل ہوئی تھی اورجس میں اوس اور خزرج کے بہت سے لوگ ایک دوسرے کے ہاتھ سے مارے گئے تھے۔اس جنگ کا ذکر آتے ہی بعض جوشیلے لوگوں کے دلوں میں پرانی یاد تازہ ہوگئی اورگزشتہ عداوت کے منظر آنکھوں کے سامنے پھرگئے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ باہم نوک جھونک اورطعن وتشنیع سے گزر کر نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اسی مجلس میں مسلمانوں کے اندر تلوار کھچ گئی۔مگرخیر گزری کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبروقت اس کی اطلاع مل گئی اور آپؐمہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ فوراًموقع پرتشریف لے آئے اورفریقین کو سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیااورپھر ملامت بھی فرمائی کہ تم میرے ہوتے ہوئے جاہلیت کاطریق اختیار کرتے ہو اورخدا کی اس نعمت کی قدر نہیں کرتے کہ اس نے اسلام کے ذریعہ تمہیں بھائی بھائی بنادیا ہے۔انصار پر آپؐکی اس نصیحت کاایسا اثر ہوا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اوروہ اپنی اس حرکت سے تائب ہوکر ایک دوسرے سے بغلگیر ہوگئے۔
جب جنگ بدر ہوچکی اوراللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مسلمانوں کو باوجود ان کی قلت اور بے سروسامانی کے قریش کے ایک بڑے جرارلشکر پرنمایاں فتح دی اورمکہ کے بڑے بڑے عمائد خاک میں مل گئے تومدینہ کے یہودیوں کی آتش حسدبھڑک اٹھی اورانہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کھلم کھلا نوک جھونک شروع کردی اورمجلسوں میں برملا طورپرکہنا شروع کیا کہ قریش کے لشکر کوشکست دینا کون سی بڑی بات تھی ہمارے ساتھ محمد (ﷺ) کامقابلہ ہو تو ہم بتادیں کہ کس طرح لڑا کرتے ہیں۔حتّٰی کہ ایک مجلس میں انہوںنے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر اسی قسم کے الفاظ کہے۔چنانچہ روایت آتی ہے کہ جنگ بدر کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے توآپؐنے ایک دن یہودیوں کوجمع کرکے ان کو نصیحت فرمائی اوراپنا دعویٰ پیش کرکے اسلام کی طرف دعوت دی۔آپؐ کی اس پرامن اورہمدردانہ تقریر کارئوسائے یہود نے ان الفاظ میں جواب دیا کہ ’’اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تم شاید چند قریش کوقتل کرکے مغرور ہوگئے ہو وہ لوگ لڑائی کے فن سے ناواقف تھے۔اگرہمارے ساتھ تمہارا مقابلہ ہو تو تمہیں پتہ لگ جاوے کہ لڑنے والے ایسے ہوتے ہیں۔یہود نے صرف عام دھمکی پرہی اکتفا نہیں کی بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قتل کے بھی منصوبے شروع کر دیئے تھے کیونکہ روایت آتی ہے کہ جب ان دنوں میں طلحہ بن براء جوایک مخلص صحابی تھے فوت ہونے لگے توانہوں نے وصیت کی کہ اگر میں رات کو مروں تونماز جنازہ کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواطلاع نہ دی جاوے تا ایسا نہ ہو کہ میری وجہ سے آپ پر یہود کی طرف سے کوئی حادثہ گزرجاوے۔الغرض جنگ بدر کے بعد یہود نے کھلم کھلا شرارت شروع کردی اورچونکہ مدینہ کے یہود میں بنوقینقاع سب میں زیادہ طاقتور اوربہادر تھے اس لئے سب سے پہلے انہی کی طرف سے عہد شکنی شروع ہوئی۔چنانچہ مؤرخین لکھتے ہیں کہ اِنَّ بَنِیْ قَیْنِقَاعَ کَانُوْا اَوَّلَ یَہُوْدٍ نَقَضُوامَابَیْنَھُمْ وَبَیْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ۔فَلَمَّا کَانَتْ وَقْعَۃُ بَدْرٍ اَظْھَرُوا الْبَغْیَ وَالْحَسَدَ وَنَبَذُوا الْعَھْدَ۔یعنی مدینہ کے یہودیوں میں سب سے پہلے بنو قینقاع نے اس معاہدہ کو توڑا جوان کے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ہوا تھا اوربدر کے بعد انہوں نے بہت سرکشی شروع کردی اوربرملاطورپر بغض وحسد کااظہار کیا اورعہدوپیمان کوتوڑ دیا۔
مگرباوجود اس قسم کی باتوں کے مسلمانوں نے اپنے آقا کی ہدایت کے ماتحت ہرطرح سے صبر سے کام لیا اور اپنی طرف سے کوئی پیش دستی نہیں ہونے دی،بلکہ حدیث میں آتا ہے کہ اس معاہدہ کے بعد جویہود کے ساتھ ہوا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاص طورپر یہود کی دلداری کاخیال رکھتے تھے۔چنانچہ ایک دفعہ ایک مسلمان اورایک یہودی میں کچھ اختلاف ہوگیا ۔یہودی نے حضرت موسٰی کی تمام انبیاء پر فضیلت بیان کی۔صحابی کواس پر غصہ آیااوراس نے یہودی کے ساتھ کچھ سختی کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو افضل الرسل بیان کیا۔جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی توآپؐناراض ہوئے اور اس صحابی کو ملامت فرمائی اورکہا کہ’’تمہارا یہ کام نہیں کہ تم خدا کے رسولوں کی ایک دوسرے پر فضیلت بیان کرتے پھرو۔‘‘اورپھر آپؐنے موسٰی کی ایک جزوی فضیلت بیان کر کے یہودی کی دلداری فرمائی۔مگرباوجود اس دلدارانہ سلوک کے یہودی اپنی شرارت میں ترقی کرتے گئے اوربالآخر خود یہود کی طرف سے ہی جنگ کاباعث پیدا ہوا اوران کی قلبی عداوت ان کے سینوں میں سما نہ سکی اوریہ اس طرح پرہوا کہ ایک مسلمان خاتون بازار میں ایک یہودی کی دکان پرکچھ سوداخریدنے کیلئے گئی۔بعض شریریہودیوں نے جو اس وقت اس دکان پر بیٹھے ہوئے تھے اسے نہایت اوباشانہ طریق پر چھیڑا اورخود دوکاندار نے یہ شرارت کی کہ اس عورت کہ تہہ بندکے نچلے کونے کو اسکی بے خبری کی حالت میں کسی کانٹے وغیرہ سے اس کی پیٹھ کے کپڑے سے ٹانک دیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ عورت ان کے اوباشانہ طریق کو دیکھ کر وہاں سے اٹھ کرلوٹنے لگی تو وہ ننگی ہوگئی۔ اس پر اس یہودی دوکاندار اوراس کے ساتھیوں نے زور سے ایک قہقہہ لگایا اورہنسنے لگ گئے۔مسلمان خاتون نے شرم کے مارے ایک چیخ ماری اورمدد چاہی۔اتفاق سے ایک مسلمان اس وقت قریب موجود تھا۔وہ لپک کر موقع پر پہنچا اورباہم لڑائی میں یہودی دوکاندار مارا گیا۔جس پر چاروں طرف سے اس مسلمان پر تلواریں برس پڑیں اوروہ غیور مسلمان وہیں پر ڈھیر ہوگیا۔ مسلمانوں کو اس واقعہ کا علم ہوا تو غیرت قومی سے ان کی آنکھوں میں خون اترآیا اوردوسری طرف یہودی جو اس واقعہ کو لڑائی کا بہانہ بنانا چاہتے تھے ہجوم کرکے اکٹھے ہوگئے اورایک بلوہ کی صورت پیدا ہوگئی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواطلاع ہوئی توآپؐنے رئوسائے بنوقینقاع کوجمع کر کے کہا کہ یہ طریق اچھا نہیں،تم ان شرارتوں سے بازآجائو اورخدا سے ڈرو۔انہوںنے بجائے اسکے کہ اظہار افسوس وندامت کرتے اورمعافی کے طالب بنتے سامنے سے نہایت متمردانہ جواب دیئے اور پھر وہی دھمکی دہرائی کہ بدر کی فتح پرغرور نہ کرو،جب ہم سے مقابلہ ہوگا تو پتہ لگ جائے گا کہ لڑنے والے ایسے ہوتے ہیں۔ناچارآپؐ صحابہ کی ایک جمعیت کو ساتھ لے کر بنو قینقاع کے قلعوں کی طرف روانہ ہوگئے۔اب یہ آخری موقع تھا کہ وہ اپنے افعال پرپشیمان ہوتے،مگر وہ سامنے سے جنگ پرآمادہ تھے۔الغرض جنگ کا اعلان ہوگیا اوراسلام اوریہودیت کی طاقتیں ایک دوسرے کے مقابل پرنکل آئیں۔ اس زمانہ کے دستور کے مطابق جنگ کا ایک طریق یہ بھی ہوتا تھا کہ اپنے قلعوں میں محفوظ ہوکر بیٹھ جاتے تھے اورفریق مخالف قلعوں کامحاصرہ کرلیتا تھا اورموقع موقع پرگاہے گاہے ایک دوسرے کے خلاف حملے ہوتے رہتے تھے ۔حتّٰی کہ یاتو محاصرہ کرنے والی فوج قلعہ پر قبضہ کرنے سے مایوس ہوکر محاصرہ اٹھالیتی تھی اوریہ محصورین کی فتح سمجھی جاتی تھی اوریا محصورین مقابلہ کی تاب نہ لا کر قلعہ کادروازہ کھول کراپنے آپ کو فاتحین کے سپرد کردیتے تھے اس موقع پر بھی بنوقینقاع نے یہی طریق اختیار کیااوراپنے قلعوں میں بندہوکر بیٹھ گئے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کیااورپندرہ دن تک برابر محاصرہ جاری رہا۔بالآخر جب بنوقینقاع کاسارا زوراورغرور ٹوٹ گیا توانہوں نے اس شرط پر اپنے قلعوں کے دروازے کھول دیئے کہ ان کے اموال مسلمانوں کے ہوجائیں گے،مگر ان کی جانوں اوران کے اہل وعیال پرمسلمانوں کاکوئی حق نہیں ہوگا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شرط کو منظور فرمالیا کیونکہ گوموسوی شریعت کی رو سے یہ سب لوگ واجب القتل تھےاورمعاہدہ کی رو سے ان لوگوں پر موسوی شریعت کافیصلہ ہی جاری ہونا چاہئے تھا۔مگر اس قوم کایہ پہلا جرم تھا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحیم وکریم طبیعت انتہائی سزا کی طرف جوایک آخری علاج ہوتا ہے ابتدائی قدم پر مائل نہیں ہوسکتی تھی،لیکن دوسری طرف ایسے بدعہد اورمعاندقبیلہ کامدینہ میں رہنا بھی ایک مارآستین کے پالنے سے کم نہ تھا۔خصوصاً جب اوس اورخزرج کاایک منافق گروہ پہلے سے مدینہ میں موجود تھا اوربیرونی جانب سے بھی تمام عرب کی مخالفت نے مسلمانوں کاناک میں دم کررکھا تھا،ایسے حالات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی فیصلہ ہوسکتا تھاکہ بنو قینقاع مدینہ سے چلے جائیں۔یہ سزاان کے جرم کے مقابل میں اورنیزاس زمانہ کے حالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک بہت نرم سزا تھی اوردراصل اس میں صرف خود حفاظتی کاپہلو بھی مدنظر تھا۔ورنہ عرب کی خانہ بدوش اقوام کے نزدیک نقل مکانی کوئی بڑی بات نہ تھی۔خصوصاً جبکہ کسی قبیلہ کی جائیدادیں زمینوں اورباغات کی صورت میں نہ ہوںجیسا کہ بنو قینقاع کی نہیں تھیں۔اورپھر سارے کے سارے قبیلہ کو بڑے امن وامان کے ساتھ ایک جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ جاکر آباد ہونے کا موقع مل جاوے۔چنانچہ بنو قینقاع بڑے اطمینان کے ساتھ مدینہ چھوڑ کرشام کی طرف چلے گئے۔ان کی روانگی کے متعلق ضروری اہتمام اورنگرانی وغیرہ کاکام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابی عبادۃ بن صامت کے سپرد فرمایا تھا جوان کے حلفاء میں سے تھے۔چنانچہ عبادۃ بن صامت چند منزل تک بنوقینقاع کے ساتھ گئے اورپھرانہیں حفاظت کے ساتھ آگے روانہ کرکے واپس لوٹ آئے۔مال غنیمت جومسلمانوں کے ہاتھ آیا وہ صرف آلات حرب اورآلات پیشہ زرگری پرمشتمل تھا۔
بنوقینقاع کے متعلق بعض روایتوں میں ذکر آتا ہے کہ جب ان لوگوں نے اپنے قلعوں کے دروازے کھول کر اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کردیا توان کی بدعہدی اور بغاوت اورشرارتوں کی وجہ سے آپؐ کاارادہ ان کے جنگجو مردوں کو قتل کرادینے کا تھا،مگرعبداللہ بن ابیّ بن سلول رئیس منافقین کی سفارش پرآپؐنے یہ ارادہ ترک کردیا،لیکن محققین نے ان روایات کو صحیح تسلیم نہیں کیاکیونکہ جب دوسری روایات میں یہ صریحاً مذکور ہے کہ بنو قینقاع نے اس شرط پر دروازے کھولے تھے کہ ان کی اوران کے اہل وعیال کی جان بخشی کی جائے گی تویہ ہرگز نہیں ہوسکتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس شرط کو قبول کرلینے کے بعد دوسرا طریق اختیار فرماتے۔ البتہ بنوقینقاع کی طرف سے جان بخشی کی شرط کاپیش ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ خود ہی سمجھتے تھے کہ ان کی اصل سزاقتل ہی ہے،مگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رحم کے طالب تھے اور یہ وعدہ لینے کے بعد اپنے قلعے کادروزاہ کھولنا چاہتے تھے کہ ان کو قتل کی سزا نہیں دی جاوے گی،لیکن گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رحیم النفسی سے انہیں معاف کردیا تھا،مگر معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کی نظر میں یہ لوگ اپنی بداعمالی اورجرائم کی وجہ سے اب دنیا کے پردے پرزندہ چھوڑے جانے کے قابل نہیں تھے۔چنانچہ روایت آتی ہے کہ جس جگہ یہ لوگ جلاوطن ہوکر گئے تھے وہاںانہیں ابھی ایک سال کا عرصہ بھی نہ گزرا تھاکہ ان میں کوئی ایسی بیماری وغیرہ پڑی کہ سارے کا سارا قبیلہ اس کا شکار ہوکر پیوندخاک ہوگیا۔
غزوہ بنوقینقاع کی تاریخ کے متعلق کسی قدر اختلاف ہے۔واقدی اورابن سعد نے شوال2 ہجری بیان کی ہے اورمتاخرین نے زیادہ تراسی کی اتباع کی ہے،لیکن ابن اسحاق اورابن ہشام نے اسے غزوہ سویق کے بعدرکھا ہے جو مسلمہ طورپر ماہ ذی الحجہ2 ہجری کے شروع میں ہوا تھا اورحدیث کی ایک روایت میں بھی یہ اشارہ ملتاہے کہ غزوہ بنوقینقاع حضرت فاطمہؓ کے رخصتانہ کے بعد ہوا تھا کیونکہ اس روایت میں یہ بیان کیا گیاہے کہ حضرت علیؓ نے اپنے ولیمہ کی دعوت کاخرچ مہیا کرنے کیلئے یہ تجویز کی تھی کہ بنوقینقاع کے ایک یہودی زرگرکوساتھ لے کر جنگل میں جائیں اوروہاں سے اذخر گھاس لاکر مدینہ کے زرگروں کے پاس فروخت کریں۔جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہؓ کے رخصتانہ کے وقت جو عام مؤرخین کے نزدیک ذوالحجہ 2ہجری میں ہوا تھا ابھی تک بنوقینقاع مدینہ میں ہی تھے۔ ان وجوہات کی بنا پرمیں نے غزوہ بنوقینقاع کوغزوہ سویق اورحضرت فاطمہؓکے رخصتانہ کے بعد اواخر2ہجری میں رکھا ہے۔واللہ اعلم۔
اس موقع پریہ ذکر بھی خالی ازفائدہ نہ ہوگا کہ غزوہ بنوقینقاع کا سبب بیان کرتے ہوئے مسٹر مارگولیس نے اپنی طرف سے ایک عجیب وغریب بات بناکرلکھی ہے جس کا قطعاًکسی روایت میں اشارہ تک نہیںآتا۔بخاری میں ایک روایت آتی ہے کہ حضرت حمزہؓنے شراب کے نشہ میں(اس وقت تک ابھی شراب حرام نہیں ہوئی تھی) حضرت علیؓکے دو اونٹ مار دئیے تھے جوانہیں جنگ بدر کی غنیمت میں حاصل ہوئے تھے۔اس منفرد واقعہ کوبغیر کسی قسم کی تاریخی سند کے غزوہ بنوقینقاع کے ساتھ جوڑ کر مسٹرمارگولیس رقمطراز ہیںکہ آنحضرت ﷺ نے قبیلہ بنوقینقاع پراس غرض سے چڑھائی کی تھی کہ تا اسکی غنیمت سے حضرت علیؓ کے اس نقصان کی تلافی کریں۔تاریخ نویسی میں یہ جرأت غالباًاپنی مثال آپ ہی ہے اورپھر لطف یہ ہے کہ مسٹرمارگولیس اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ میں نے یہ بات اپنی طرف سے قیاس کرکے زائد کی ہے۔
’’چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد‘‘ (باقی آئندہ)

(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ 457تا 462،مطبوعہ قادیان2011)