اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-01-19

جہاد کے متعلق بعض دوسری قرآنی آیات


اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی بعض دوسری آیات بھی درج کردی جاویں جو وقتاًفوقتاًجہاد بالسیف کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل ہوئیں کیونکہ ان سے ابتدائی اسلامی جنگوں کے حالات پر ایک ایسی روشنی پڑتی ہے جوکسی دوسری جگہ میسر نہیں آسکتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 


وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ ۝ وَاقْتُلُوْھُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ وَاَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ حَيْثُ اَخْرَجُوْكُمْ وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ۝۰ۚ وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْہِ۝۰ۚ فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ۝۰ۭ كَذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ ۝ فَاِنِ انْــتَہَوْا فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلہِ۝۰ۭ فَاِنِ انْتَہَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَي الظّٰلِـمِيْنَ۝

 

اے مسلمانو!لڑو اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جو تم سے لڑتے ہیںمگر دیکھنا زیادتی نہ کرنا کیونکہ زیادتی کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا۔اورلڑو ان کفار سے جو تم سے لڑتے ہیں جہاں بھی ان کا اورتمہارا سامنا ہو۔اورنکالو ان کو اس جگہ سے جہاں سے وہ تمہیں نکالیں۔یعنی جہاں بھی وہ تمہارے اثر کو بزور مٹانا چاہیں تم ان کا مقابلہ کرو۔اوربیشک وہ فتنہ جس کے یہ لوگ مرتکب ہورہے ہیں وہ قتل سے بھی سخت تر ہے مگر ہاں لڑائی مت کرو حرم کے علاقہ میں لیکن اگر یہ کفار خود تم سے حرم میں لڑائی کی ابتداء کریں توپھر بے شک تم بھی ان کا مقابلہ کرو۔کیونکہ ناشکرگزاروں کی یہی سزا ہے اوراگر کفار اس سے باز آجائیں تو جانو کہ اللہ بھی غفورورحیم ہے اوراے مسلمانو!تم لڑو ان کفار سے اس وقت تک کہ ملک میں فتنہ نہ رہے اوردین خدا ہی کیلئے ہوجاوے۔یعنی دین کے معاملہ میں سوائے خدا کے اور کسی کاخوف نہ رہے اورہر شخص آزادی سے اپنی ضمیر کے مطابق جودین پسند کرے وہ رکھ سکے اوراگر یہ کفار جنگ سے باز آجائیں توتم بھی فوراًرک جائو۔کیونکہ کسی کو جنگ کشی کا حق نہیں ہے مگر صرف ظالموں کے خلاف۔‘‘
یہ آیت بھی اپنے معانی میں نہایت واضح ہے اوراس سے صاف طورپر پتہ لگتا ہے کہ مسلمانوں کو جہاد کاحکم صرف ان لوگوں کے خلاف دیا گیا تھا جوان سے دین کے معاملہ میں جنگ کرتے تھے اور ان کو تلوار کے زور سے ان کے دین سے پھیرنا چاہتے تھے اورنیز یہ کہ مسلمانوں کویہ بھی حکم تھا کہ اگر یہ کفار جنگ سے باز آجائیں تو تمہیں بھی چاہئے کہ فوراًرک جائواوراس آیت میں جنگ کی حکمت بھی بیان کی گئی ہے اوروہ یہ کہ ملک میں فتنہ نہ رہے اور مذہبی آزادی قائم ہوجاوے۔

 

پھرفرماتا ہے:

 

وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۝۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ

 

’’اوراگر یہ کفار صلح کی طرف مائل ہوں تو اے نبی تمہیں چاہئے کہ تم بھی صلح کی طرف جھک جائو اور اللہ پر توکل کرو۔بے شک اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘

 


پھرفرماتاہے

 

وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْہُ حَتّٰي يَسْمَعَ كَلٰمَ اللہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہٗ

 

’’اوراگر کوئی مشرک تمہاری پناہ میں داخل ہوکر تمہارے پاس تحقیق دین کیلئے آنا چاہے تو اسے آنے دو اورپھر اپنی حفاظت میںاسے اسکی امن کی جگہ میں واپس پہنچا دو۔‘‘

 


پھرفرماتا ہے:

 

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يُہَاجِرُوْا مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَايَتِہِمْ مِّنْ شَيْءٍ حَتّٰي يُہَاجِرُوْا۝۰ۚ وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰي قَوْمٍؚبَيْنَكُمْ وَبَيْنَہُمْ مِّيْثَاقٌ۝۰ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ

 

’’اوروہ لوگ جوایمان تو لے آئے ہیں مگر انہوں نے ہجرت نہیں کی۔یعنی وہ تمہارے مصائب میں تمہارا ہاتھ نہیں بٹاتے وہ تمہاری سیاسی دوستی کے حقدار نہیں ہیں۔البتہ اگروہ کسی دینی معاملہ میں تم سے مددمانگیں توتمہارا فرض ہے کہ تم ان کو مدد دو،لیکن ان کفار کے خلاف تمہیں مدد دینے کی اجازت نہیں ہے جن کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہو، اور اے مومنو! ہوشیارہوکہ خداتعالیٰ تمہارے اعمال کودیکھ رہا ہے۔‘‘

 


وَاَوْفُوْا بِالْعَہْدِ۝۰ۚ اِنَّ الْعَہْدَ كَانَ مَسْــــُٔـوْلًا

 

’’اور پوراکرو اپنے عہد کو کیونکہ یقینا تمہیں اپنے عہد کے متعلق خدا کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا۔‘‘
پھرفرماتا ہے:

 

لَا يَنْہٰىكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْہِمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ۝ اِنَّمَا يَنْہٰىكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِيْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَاَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ وَظٰہَرُوْا عَلٰٓي اِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ۝۰ۚ وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝’’

 

نہیں منع کرتا اللہ تم کو ان لوگوں سے جنہوں نے تمہارے ساتھ دین کے معاملہ میں لڑائی نہیں کی اور نہ انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا یہ کہ تم ان سے مہربانی کاسلوک کرواور ان سے عدل اوراحسان سے پیش آئو۔بیشک اللہ تعالیٰ عدل اور احسان کرنے والوں کوپسند کرتا ہے۔ سوائے اسکے نہیں کہ اللہ تعالیٰ منع کرتا ہے تم کو کہ دوست بنائو ان لوگوں کو جنہوں نے تمہارے خلاف دین کے معاملہ میں لڑائی کی اور تمہارے گھروں سے تمہیں نکالا یا تمہارے نکالے جانے میں اعانت کی۔ اورجو کوئی دوستی لگائے گا ایسے دشمنوں کے ساتھ تو ایسے لوگ ظالموں میں سے سمجھے جائیں گے۔‘‘

 


پھرفرمایا:

 

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلہِ شُہَدَاۗءَ بِالْقِسْطِ۝۰ۡوَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا۝۰ۭ اِعْدِلُوْا۝۰ۣ ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۝۰ۡوَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ

 

’’اے مومنو!چاہئے کہ تم دنیا میں خدا کے لئے عدل وانصاف کوقائم کرو اور چاہئے کہ ہرگز نہ آمادہ کرے تم کو کسی قوم کی دشمنی اس بات پرکہ تم اس کے ساتھ انصاف کے ساتھ پیش نہ آئو۔بلکہ تمہیں چاہئے کہ دشمن کے ساتھ بھی عدل وانصاف کامعاملہ کرو کیونکہ عدل وانصاف کرنا تقویٰ کاتقاضا ہے۔پس تم متقی بنو اوریاد رکھو کہ اللہ تمہارے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے۔‘‘
(سیرت خاتم النّبیین صفحہ 306، مطبوعہ قادیان 2011)