اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-01-26

جہاد بالسیف کے متعلق بعض اصولی روایات

یہ قرآن شریف کا بیان گزرا ہے اورگوقرآن کے بیان کے بعد کسی اور بیان کی حاجت نہیں رہتی، لیکن اس خیال سے کہ کسی شخص کویہ شبہ نہ گزرے کہ شاید عام تاریخی روایات قرآن کے مخالف ہوں اس جگہ بعض روایات بھی درج کردینی مناسب ہیں جن سے اسلام کی ابتدائی لڑائیوں پرایک اصولی روشنی پڑتی ہے۔سوروایت آتی ہے کہ آنحضرت ﷺ صحابہ سے فرمایا کرتے تھے کہ:
یٰاَیُّھَا النَّاسُ لَا تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ الْعَدُوِّ وَاسْئَلُوا اللّٰہَ الْعَافِیَۃَ فَاِذَا لَقِیْتُمُوْھُمْ فَاصْبِرُوْا ’’اے مسلمانو!تمہیں چاہئے کہ دشمن کے مقابلہ کی خواہش نہ کیا کرو اورخدا سے امن وعافیت کے خواہاں رہو اوراگر تمہاری خواہش کے بغیر حالات کی مجبوری سے کسی دشمن کے ساتھ تمہارا مقابلہ ہوجائے توپھر ثابت قدمی دکھائو۔‘‘
اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ باوجود اسکے کہ کفار کی طرف سے اعلان جنگ ہوچکا تھا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی ان کا چیلنج قبول کرلیا تھا اورجنگ کاآغاز ہوچکا تھا پھر بھی مسلمانوں کویہی حکم تھا کہ وہ اس جنگ کے جزوی مقابلوں میں بھی لڑائی کی خواہش نہ کیا کریں۔ہاں البتہ اگردشمن سے مقابلہ ہوجاوے توپھر جم کر لڑیں۔
پھرروایت آتی ہے کہ:سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ یُقَاتِلُ شُجَاعَۃً وَیُقَاتِلُ حَمِیَّۃً وَیُقَاتِلُ رِیَاءً اَیُّ ذٰلِکَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ قَالَ مَنْ قَاتَلَ لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا فَھُوَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ ’’یعنی آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ ایک شخص ہے کہ وہ اپنی بہادری کے اظہار کیلئے جنگ کرتا ہے اورایک شخص ہے کہ وہ خاندانی یاقومی غیرت کی وجہ سے لڑتا ہے اورایک شخص ہے کہ وہ لوگوں کو دکھانے کیلئے لڑائی کرتا ہے۔ان میں سے کون سا شخص فی سبیل اللہ لڑنے والا سمجھا جاسکتا ہے۔آپؐنے فرمایاکوئی بھی نہیں بلکہ خداکے رستے میں وہ شخص لڑنے والا سمجھا جائے گا جو اس لئے لڑتا ہے کہ جو کوشش کفار کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے دین کومغلوب کرنے کی جاری ہے اسکا قلع قمع ہواورخدا کا دین کفار کی ان کوششوں کے مقابل پر غالب آجاوے۔‘‘
عَنْ بَرِیْدَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِذَا لَقِیْتَ عَدُوَّکَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ فَادْعُھُمْ اِلٰی ثَلٰثِ خِلَالٍ فَاِنْ اَجَابُوْکَ فَاقْبِلْ مِنْھُمْ وَکَفَّ عَنْھُمْ اُدْعُھُمْ اِلٰی الْاِسْلَامِ فَاِنْ اَجَابُوْکَ فَاقْبِلْ مِنْھُمْ وَکَفَّ عَنْھُمْ ثُمَّ ادْعُھُمْ اِلَی التَّحُوُلِ مِنْ دَارِھِمْ اِلٰی دَارِالْمُھَاجِرِیْنَ وَاخْبِرْھُمْ اَنَّھُمْ اِنْ فَعَلُوْا ذَالِکَ فَلَھُمْ مَالِلْمُھَاجِرِیْنَ وَعَلَیْھِمْ مَاعَلَیْھِمْ فَاِنْ اَبَوا اَنْ یَتَحَوَّلُوْا مِنْھَا فَاخْبِرْھُمْ اَنَّھُمْ یَکُوْنُوْنَ کَاَعْرَابِ الْمُسْلِمِیْنَ یَجْرِیْ عَلَیْھِمْ حُکْمُ اللّٰہِ تَعَالٰی الَّذِیْ یَجْرِیْ عَلٰی الْمُوْمِنِیْنَ وَلَا یَکُوْنُ لَھُمْ فِی الْغَنِیْمَۃِ وَالْفَیئِ شَیٌٔ اِلَّا اَنْ یُجَاھِدُوْا مَعَ الْمُسْلِمِیْنَ وَاِنْ ھُمْ اَبَوْا فَسَلْھُمُ الْجِزْیَۃَ فَاِنْ ھُمْ اَجَابُوْکَ فَاقْبِلْ مِنْھُمْ وَکَفَّ عَنْھُمْ فَاِنْ اَبَوْا فَاسْتَعِنْ بِاللّٰہِ وَقَاتِلْھُمْ۔
’’یعنی بریدۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیںکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جب کوئی فوجی دستہ روانہ کرتے تھے تواس کے امیر کویہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ جب تم اپنے دشمنوں کے سامنے ہو یعنی اس قوم سے تمہاری مٹھ بھیڑ ہو جاوے جن سے تمہاری لڑائی چھڑی ہوئی ہے تو لڑائی شروع کرنے سے پہلے انہیں تین باتوں کی دعوت دیا کرو۔اگران تینوں میں سے وہ کوئی ایک بھی مان لیں تو پھران سے مت لڑو۔سب سے پہلے انہیں اسلام کی دعوت دو۔اگر وہ مان لیں توان کے اسلام کو قبول کرو اوران سے اپنا ہاتھ کھینچ لو۔ پھر اسکے بعد تم ان کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی تحریک کرواوران سے کہو کہ اگر وہ ہجرت کریں گے توان کو مہاجرین کے حقوق دئے جائیںگے اور مہاجرین والی ذمہ داری بھی ان پر ہوگی۔ اگر وہ ہجرت پر رضامند نہ ہوں تو پھر ان سے کہہ دو کہ وہ اسلام میں تو داخل ہوجائیں گے لیکن مہاجرین کے حقوق ان کونہیں ملیں گے کیونکہ وہ صرف جہاد فی سبیل اللہ سے حاصل ہوتے ہیں۔اوراگر وہ تمہاری دعوت اسلام کوہی رد کردیں توپھر ان سے کہو کہ ٹیکس دینا قبول کرکے اسلامی حکومت کے ماتحت آجائو۔اگروہ یہ صورت مان لیں تو پھربھی ان سے لڑائی مت کرو،لیکن اگر وہ انکار کریں تو پھر خدا کانام لے کر ان سے لڑو۔‘‘
پھرروایت آتی ہے کہ: عَنِ الْحَارِثِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ بَعَثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَرْیَۃٍ فَلَمَّا بَلَغْنَا الْمَغَارَ اِسْتَحْثَثْتُ فَرَسِیْ فَسَبِقْتُ اَصْحَابِیْ فَتَلَقَّانِیْ اَھْلُ الْحَیِّ بِالرَّنِیْنَ فَقُلْتُ لَھُمْ قُوْلُوْا لَآاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ فَقَالُوْھَا فَلاَ مَنِیْ اَصْحَابِیْ فَقَالُوْا حَرَّمْتَنَا الْغَنِیْمَۃَ فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَخْبَرُوْہُ بِالَّذِیْ صَنَعْتُ فَدَعَانِیْ فَحَسَنَ لِیْ مَا صَنَعْتُ ثُمَّ قَالَ لِیْ اَمَا اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَدْکَتَبَ لَکَ بِکُلِّ اِنْسَانٍ مِنْھُمْ کَذَا وَکَذَا مِنَ الْاَجْرِ وَقَالَ اَمَا اِنِّی سَاَکْتُبُ لَکَ الْوِصَائَۃَ بَعْدِیْ فَفَعَلَ وَخَتَمَ عَلَیْہِ وَدَفَعَہٗ اِلَیَّ۔ ’’یعنی حارث بن مسلم بن حارث اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں ایک سریہ میںبھیجا۔جب ہم منزل مقصود پرپہنچے تو میں نے اپنے گھوڑے کوایڑ لگا کراپنے آپ کو ساتھیوں سے آگے کرلیا۔جب قبیلہ کے لوگ مجھے ملے تووہ اچانک حملہ کی وجہ سے ڈر کر عاجزی کرنے لگ گئے۔جس پر میں نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور وہ مسلمان ہوگئے۔اس پر میرے بعض کمزور ساتھیوں نے مجھے ملامت کی کہ تم نے ہمیں غنیمت سے محروم کردیا ہے۔پھر جب ہم آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس آئے تو لوگوں نے اس واقعہ کی آپؐکو اطلاع دی۔ آپؐنے مجھے بلایا اورمیرے فعل کی تعریف کی اورفرمایا کہ تم نے بہت ہی اچھا کام کیا ہے اورپھر کہا کہ خدا نے تمہارے لئے اس قبیلہ کے ہر آدمی کے بدلنے میں اتنا اجرمقرر کیا ہے اور جوشِ مسرت میںفرمایا کہ آئو میں تمہیں ایک پروانہ خوشنودی لکھ دیتا ہوں تاکہ ہمیشہ کیلئے میری یہ خوشنودی تمہارے پاس رہے۔ چنانچہ آپؐنے مجھے ایک پروانہ لکھ دیا اوراس پر اپنی مہر ثبت فرمائی۔‘‘
پھرروایت آتی ہے کہ:عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ رَجُلٍ مِنَ الْاَنْصَارِ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ فَاَصَابَ النَّاسُ حَاجَۃً شَدِیْدَۃً وَجَھْدًا فَاَصَابُوْا غَنَمًا فَانْتَھَبُوْھَا فَاِنَّ قُدُوْرُنَا لَتُغْلِیْ اِذْجَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَمْشِیْ بِاِکْفَائِ الْقُدُوْرِ بِقَوْسِہٖ ثُمَّ جَعَلَ یَرْمِلُ اللَّحْمَ بِالتُّرَابِ ثُمَّ قَالَ اِنَّ النَّھْبَۃَ لَیْسَتْ بِاَحَلَّ مِنَ الْمَیْتَۃِ۔ یعنی’’ عاصم بن کلیب اپنے باپ سے روایت کرتے تھے کہ ایک انصاری صحابی بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے توایک موقع پر لوگوں کو خطرناک بھوک لگی اوروہ سخت مصیبت میں مبتلا ہوگئے اور(ان کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا)جس پر انہوں نے ایک بکریوں کے گلہ میں سے چند بکریاں پکڑ لیں اورانہیں ذبح کرکے پکانا شروع کردیا۔ہماری ہنڈیاں اس گوشت سے ابل رہی تھیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اوپر سے تشریف لے آئے اورآپؐنے آتے ہی اپنی کمان سے ہماری ہنڈیوں کوالٹ دیااورغصہ میںگوشت کے ٹکڑوں کومٹی میں مسلنے لگ گئے اور فرمایا کہ لوٹ کا مال مردار سے بہتر نہیں ہے۔‘‘
یہ ان لوگوں کا قصہ ہے جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ نعوذ باللہ ان کو لوٹ مار کی تعلیم دی جاتی تھی۔ میںسمجھتا ہوں کہ اگر آج کسی یورپین فوج کواس طرح کی حالت پیش آئے کہ ان کے پاس زادراہ ختم ہوگیا ہواورفوجی لوگ بھوک سے تڑپ رہے ہوں توکسی چرتے ہوئے گلہ کی بکریوں پرقبضہ کرلینا تو معمولی بات ہے وہ نہ معلوم کیا کچھ جائز قرار دے لیں۔
پھر روایت آتی ہے کہ: عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَجُلاً قَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ رَجُلٌ یُرِیْدُالجِھَادَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَھُوَ یَبْتَغِیْ عَرَضًا مِنَ الدُّنْیَا فَقَالَ لَااَجْرَلَہٗ فَاَعَارَلَہٗ ثَلاَ ثًا کُلُّ ذَالِکَ یَقُوْلُ لَااَجْرَلَہٗ۔ ’’یعنی ابوہرہرہؓروایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آنحضرت ﷺکی خدمت میں عرض کیا کہ یارسول اللہ ایک شخص ہے کہ اسکی اصل نیت توجہاد فی سبیل اللہ کی ہے،لیکن ساتھ ہی اسے یہ بھی خیال آجاتا ہے کہ جنگ میں کچھ مال ومتاع بھی مل رہے گا تواس میں کوئی حرج تونہیں ہے۔ آپؐنے فرمایا۔ایسے شخص کیلئے ہرگز کوئی ثواب نہیں ہے۔اس شخص نے حیران ہوکر تین دفعہ اپنا سوال دوہرایا۔مگر ہر دفعہ آپؐ نے یہی جواب دیا کہ اس کیلئے ہرگز کوئی ثواب نہیں۔‘‘
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاد کرنے والے کی نیت خالصۃً دینی ہونی چاہئے اوراگر حفاظت دین کے علاوہ کوئی ذراساخیال بھی اسکے دل میں پیدا ہوتو وہ ثواب سے محروم ہوجاتا ہے اور غنیمت اوردنیوی مال ومتاع کی امید رکھنا مجاہد کے لئے قطعی حرام ہے۔
پھر روایت آتی ہے کہ: مَامِنْ غَازِیَۃٍ تَغْزُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیُصِیْبُوْنَ غَنِیْمَۃً اِلاَّ تَعَجَّلُوْا ثُلَثَی اَجْرِھِمْ مِنَ الْاٰخِرَۃِ وَیَبْقٰی لَھُمُ الثُّلُثُ وَاِنْ لَمْ یُصِیْبُوْا غَنِیْمَۃً تَمَّ لَھُمْ اَجْرُھُمْ۔ یعنی’’ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جومجاہدین خدا کی راہ میں لڑنے کیلئے نکلتے ہیں اوران کو لڑائی میں غنیمت کامال ہاتھ آجاتا ہے توان کا دوتہائی ثواب آخرت کاکم ہوجائے گا اورصرف ایک تہائی ثواب ملے گا۔لیکن اگر انہیں کوئی غنیمت ہاتھ نہ آئے توان کو پورا پوراثواب ملے گا۔‘‘
یہ حدیث گزشتہ حدیث کی نسبت زیادہ واضح ہے کیونکہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی لڑائی میں خالصۃًجہاد فی سبیل اللہ کی نیت سے شامل ہوتا ہے اوراس میں کوئی ملونی دنیا کی نہیں ہوتی اورپھر اسے بغیرخیال اورامیدکے غنیمت کامال بھی مل جاتا ہے توپھر بھی چونکہ اسے دنیا کے اموال سے حصہ مل گیا ہے اس لئے اسکا آخرت کا اجرکم ہوجائے گا۔لیکن جو شخص خالص جہادکی نیت سے نکلتا ہے اوراسے غنیمت کامال مطلقاًنہیں ملتا وہ پورے پورے ثواب کاحق دار ہوگا۔گویا جہاں گزشتہ حدیث صحابہ کے دل میں دنیا کے اموال سے محض عدم رغبت پیدا کرتی تھی وہاں یہ حدیث دوری اور ایک قسم کی نفرت پیدا کرتی ہے اوراس تعلیم کے ہوتے ہوئے ایک سچا مسلمان نہ صرف یہ کہ غنیمت وغیرہ کاخیال تک دل میں نہیں لائے گا بلکہ غنیمت کے مواقع سے بھی حتی الوسع پرہیزکرے گا اور اس کی یہی خواہش اورکوشش ہوگی کہ جس طرح بھی ہو غنیمت اسے نہ ملے تاکہ جہاد کے ثواب میں کمی نہ آئے۔چنانچہ کمزور لوگوں کوالگ رکھ کر جسکا وجود کم وبیش ہرقوم میں پایا جاتا ہے مگر جو یقینا صحابہ کی جماعت میںدنیا کی ہر قوم سے کمتر تعداد میںتھے صحابہ اس حقیقت کوخوب سمجھتے تھے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔چنانچہ ابودائود کی روایت میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح مسلم بن حارث نے ایک دشمن قبیلہ پر حملہ کرکے غنیمت حاصل کرنے کی بجائے اسلام کی تحریک کرکے مسلمان بنالیا اورخود غنیمت سے محروم ہوگیا اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے فعل کی بہت تعریف فرمائی اوراسے اپنی طرف سے ایک پروانہ خوشنودی عطا فرمایا۔
پھرابودائود ہی کی روایت ہے کہ جب ایک دفعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ایک غزوہ میں مدینہ سے نکلنے لگے توایک بوڑھے انصاری نے ایک غریب صحابی واثلہ بن اسقع کواپنی طرف سے سواری وغیرہ کاانتظام کردیا۔ جہاد کے بعدواثلہ بن اسقع،کعب بن عجرۃکے پاس آئے اورکہا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ یہ اونٹنیاں غنیمت میں دی ہیں تم اپنا حصہ لے لو۔کعب نے کہا۔بھتیجے!خدا تمہیں یہ مال مبارک کرے۔میری نیت غنیمت کی نہ تھی بلکہ ثواب کی تھی اورحصہ لینے سے انکار کردیا۔
پھرنسائی میں ایک روایت آتی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پرایک اعرابی ایمان لایا اور ایک غزوہ میں ساتھ ہولیا۔جب کچھ مال غنیمت ملاتوآپ نے اس کا حصہ بھی نکالا۔اسے معلوم ہوا تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یارسول اللہ!آپؐنے میراحصہ نکالا ہے۔ خدا کی قسم میں تو اس خیال سے مسلمان نہیں ہوا تھا ۔میری تو یہ نیت تھی کہ مجھے خدا کی راہ میں(حلق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)اس جگہ تیرلگے اورمیں جنت میں جائوں۔ آپؐنے فرمایا:اگریہ شخص سچی خواہش کا اظہار کرتا ہے توخدااسے پورا کرے گا۔تھوڑی دیربعد لڑائی ہوئی تو وہ شخص وہیں حلق میں تیرکھا کر شہیدہوا۔جب صحابہؓ اسے آپؐکے سامنے اٹھا کرلائے توآپؐنے پوچھا کیا یہ وہی ہے۔صحابہ نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ۔آپؐنے فرمایا! ’’خدا نے اسکی آرزو کوپوراکردیا۔‘‘پھرآپؐ نے اسکے کفن کیلئے اپنا جبہ عطا کیا اوراس کیلئے خاص طورپر دعا فرمائی۔
افسوس۔صدافسوس! ان شہادتوں کے ہوتے ہوئے بعض لوگ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپؐکے صحابہ پر یہ الزام لگاتے ہوئے خدا کا خوف نہیں کرتے کہ ان لڑائیوں میں ان کی غرض لوٹ ماراوردنیا کمانا تھی۔
(باقی آئندہ)
(سیرت خاتم النّبیینؐ،صفحہ309تا313،مطبوعہ قادیان2011)
…٭…٭…٭…