اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-02-09

عرب میں جنگ کاطریق

اسلامی آداب جہاد

عرب میں جنگ کاطریق
کفار اورمسلمانوں کی لڑائیوں کواچھی طرح سمجھنے کیلئے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ عرب میں جنگوں کاطریق دورنگ رکھتا تھا،جسے انگریزی میں فیوڈ(FEUD )کہتے ہیں۔یعنی جب کسی وجہ سے عرب کے دو قبائل میں جنگ چھڑتی تھی تو پھرجب تک ان میں باقاعدہ صلح نہ ہوجاتی تھی وہ ہمیشہ جنگ کی حالت میں سمجھے جاتے تھے اورموقع پاکر وقفہ وقفہ سے آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ حتّٰی کہ بعض اوقات یہ جنگیں بڑے بڑے لمبے عرصہ تک جاری رہتی تھیں۔ چنانچہ جنگ بسوس جس کا ذکر کتاب کے حصہ اول میں گزر چکا ہے اسی طرح وقفہ وقفہ سے چالیس سال تک جاری رہی تھی اور تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ بعض جنگیں سو سو سال تک بھی جاری رہیں۔ مگر مسلسل لڑتے رہنے کاعرب میں دستور نہیں تھاجس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اول توچونکہ قبیلہ کا ہر شخص سپاہی ہوتا تھااورکوئی باقاعدہ الگ فوج نہیں ہوتی تھی اس لئے قبائل عرب اپنی جنگوں کو مسلسل طورپر جاری نہیں رکھ سکتے تھے اوراپنے دوسرے کاروبار کی وجہ سے اس بات پر مجبور تھے کہ وقفہ دے کر لڑائی کریں۔ دوسرے چونکہ جنگ میں ہرشخص اپنا اپنا خرچ خود برداشت کرتا تھااوراس غرض کیلئے عموماًکوئی قومی خزانہ نہیں ہوتا تھااس لئے یہ انفرادی مالی بوجھ بھی عربوں کو مجبور کرتا تھا کہ دم لے لے کر میدان میں آئیں۔اس غیر مسلسل جنگ کو جاری رکھنے کیلئے بعض اوقات یہ طریق بھی اختیار کیا جاتا تھا کہ جب ایک لڑائی ہوتی تھی تواسی میں آئندہ کیلئے وعدہ ہوجاتا تھا کہ اب فلاں وقت فلاں جگہ پھر ملیں گے اوراس طرح یہ سلسلہ چلتا چلا جاتا تھا۔چنانچہ احد کے موقع پر ابوسفیان نے اسی قسم کا وعدہ مسلمانوں سے کیا تھاجس کے نتیجہ میں غزوہ بدرالموعدہ وقوع میں آیا۔الغرض عربوں میں مسلسل لڑتے رہنے کا طریق نہیں تھابلکہ وہ وقفہ ڈال ڈال کر لڑتے تھے اوردرمیانی وقفوں کولڑائی کی تیاری اوراپنے دوسرے کاروبار میں صرف کرتے تھے اوران کی یہ ساری لڑائیاں ایک ہی زنجیر کی مختلف کڑیاں ہوتی تھیں۔یہ ایک بڑا عجیب نکتہ ہے جسے نظر انداز کردینے کی وجہ سے بعض مؤرخین نے ٹھوکر کھائی ہے۔کیونکہ انہوں نے قریش اور مسلمانوں کی باہمی لڑائیوں میں سے ہر لڑائی کیلئے الگ الگ وجوہات تلاش کرنی چاہی ہیں۔حالانکہ حق یہ ہے کہ جب قریش اورمسلمانوں کے درمیان ایک دفعہ جنگ شروع ہوگیا تو پھراس وقت تک کہ ایک باقاعدہ معاہدہ کے ذریعہ سے ان کے درمیان صلح نہیں ہوگئی۔یعنی صلح حدیبیہ تک جو ہجرت کے چھٹے سال ہوئی یہ دونوں قومیں حالت جنگ میں تھیں اوراس عرصہ میں ان کے درمیان جتنی بھی لڑائیاں ہوئیں وہ اسی جنگ کے مختلف کارنامے تھے اوران کیلئے الگ الگ وجوہات تلاش کرنا سخت غلطی ہے۔ہاں بعض اوقات بے شک ایسا ہوا ہے کہ کسی درمیانی لڑائی کیلئے کوئی الگ تحریکی باعث بھی پیدا ہوگیا ہے،لیکن اصل سبب وہی مستقل پہلا جھگڑا رہا ہے۔
اسکے ساتھ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بعض اوقات عرب کے جنگوں میں یہ بھی ہوتا تھا (اوردراصل یہ بات تو آج کل کے جنگوں میں بھی پائی جاتی ہے)کہ جنگ کرنے والے قبائل کے ساتھ دوسرے قبائل بھی اپنے اپنے قومی مصالح کے ماتحت جنگ میں شامل ہوجاتے تھے مثلاًاگر الف اورب میں جنگ شروع ہوئی توعلاوہ اسکے الف کے حلیف الف کے ساتھ شامل ہوجاتے تھے اورب کے حلیف ب کے ساتھ۔ایسا بھی ہوتا تھا کہ دوران جنگ میں کوئی قبیلہ کسی وجہ سے الف کے ساتھ مل جاتا تھا اورکوئی دوسرا قبیلہ ب کے ساتھ ہوجاتا تھا اوراس طرح جنگ کادائرہ وسیع ہوتا چلاجاتا تھا۔قریباًقریباًیہی صورت اسلامی جنگوں میں پیش آئی۔یعنی ابتدائً مسلمانوں کوقریش مکہ کی طرف سے جنگ کاالٹی میٹم ملا جسے بالآخر انہوں نے مجبور ہوکر قبول کیا،لیکن بعد میں آہستہ آہستہ بہت سے دوسرے قبائل بھی اس جنگ کی لپیٹ میں آتے گئے۔مثلاً قریش مکہ نے کسی دوسرے قبیلہ کو مسلمانوں کے خلاف اپنے ساتھ گانٹھ لیا تو مسلمانوں کی اسکے ساتھ بھی جنگ چھڑ گئی یاقریش کے نمونہ کودیکھ کر کسی دوسرے قبیلہ نے خود بخود مسلمانوں کے خلاف جارحانہ کارروائی شروع کردی تواس سے بھی جنگ کاآغاز ہوگیا یا قریش کی ساز باز سے کسی حلیف قوم نے مسلمانوں سے دغا بازی کی تو اس طرح اسکے ساتھ بھی مسلمانوں کی لڑائی ہوگئی۔وغیر ذالک۔ الغرض جب جنگ کی آگ ایک دفعہ مشتعل ہوگئی تو اس کا دائرہ وسیع ہوتا چلاگیا۔ حتیٰ کہ ایک تھوڑے عرصہ میں ہی عرب کی سرزمین کے بیشتر حصہ سے اس آگ کے شعلے بلند ہونے لگ گئے۔
اسلامی جنگوں کے اقسام
ابتدائی اسلامی جنگوں کے متعلق پوری بصیرت حاصل کرنے کیلئے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ جیسا کہ مندرجہ بالاقرآنی آیات اوردیگر تاریخی روایات میںبھی اشارے کئے گئے ہیں یہ اسلامی جنگیں سب ایک قسم کی نہ تھیں بلکہ مختلف قسم کے اسباب کے ماتحت وقوع میں آئی تھیں مثلاًبعض لڑائیاں دفاع اورخود حفاظتی کی غرض سے تھیں یعنی ان میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کامنشاء یہ تھا کہ اسلام اورمسلمانوں کوکفار کے مظالم اورتباہی سے بچایا جاوے۔ بعض قیام امن کیلئے تھیںیعنی ان کا مقصد ملک میں فتنہ کودور کرنااورامن کوقائم کرنا تھا۔بعض مذہبی آزادی کے قائم کرنے کی غرض سے تھیں۔بعض تعزیری رنگ رکھتی تھیںیعنی ان کی غرض وغایت کسی قوم یاقبیلہ یاگروہ کوان کے کسی خطرناک جرم یاظلم وستم یادغابازی کی سزا دینا تھی۔ بعض سیاسی تھیں یعنی ان کا مقصد کسی معاہد قبیلہ کی اعانت یا اس قسم کاکوئی اورسیاسی تقاضا تھا اوربعض ایسی بھی تھیںجن میںان اغراض ومقاصد میںسے ایک سے زیادہ اغراض مدّنظر تھیں مثلاًوہ دفاعی بھی تھیں اورتعزیری بھی یاسیاسی بھی تھیں اور قیام امن کی غرض بھی رکھتی تھیں۔وغیرذالک۔یہ ایک بڑا ضروری علم ہے جس کے نہ جاننے کی وجہ سے بعض مؤرخین نے ساری لڑائیوں کوایک ہی غرض کے ماتحت لانے کی کوشش کی ہے اور پھر ٹھوکر کھائی ہے۔اس جگہ یہ ذکر کردینا بھی ضروری ہے کہ اوپر کی بحث میں ہم نے عام طورپر صرف دفاع اور خود حفاظتی کی غرض کاذکر کیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جہاد کی ابتداء زیادہ تراسی غرض کے ماتحت ہوئی تھی جیسا کہ ابتدائی قرآنی آیت سے ظاہر ہے اورباقی اغراض بعد میں آہستہ آہستہ حالات کے ماتحت پیدا ہوتی گئیں۔
اسلامی آداب جہاد
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مغازی کابیان شروع کرنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ مختصر طور پر وہ آداب بھی بیان کردئے جائیں جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم عموماً جہاد میںملحوظ رکھتے تھے اورجن کی صحابہ کوتاکید کی جاتی تھی۔یہ آداب عموماًصحاح ستہ کی کتب الجہاد والیسرو المغازی سے ماخوذ ہیں۔اوراس لئے میںنے صرف ان باتوں کاحوالہ درج کیا ہے جویاتو بہت اہم ہیں اور یانسبتاً کم معروف ہیں اورباقی کے حوالے کی ضرورت نہیںسمجھی۔ سوجاننا چاہئے کہ:
(1)آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے سفروں کو حتّی الوسع جمعرات کے دن شروع کرنا پسند فرماتے تھے اورگھر سے عموماًصبح کے وقت نکلتے تھے۔
(2)روانگی سے قبل دعاکرنا آپؐکی سنت تھی۔
(3)دشمن کی حرکات وسکنات کاعلم حاصل کرنے کیلئے آپؐخبررسانی کاپختہ انتظام رکھتے تھے اور عام طورپر خبررسانوں کویہ ہدایت ہوتی تھی کہ جب کوئی خبر لائیں تو عام مجلس میں اسکا ذکر نہ کریںاوراگرکوئی تشویشناک خبر ہوتی تھی توآپؐپھرخود بھی اسکا عام اظہار نہیں فرماتے تھے۔ البتہ خاص خاص صحابہ کواس کی اطلاع دے دیتے تھے۔
(4)جب آپؐکسی جنگی غرض سے نکلتے تھے تو آپؐ کایہ عام طریق تھاکہ اپنی منزل مقصودکاعلم نہیں دیتے تھے اوربعض اوقات ایسا بھی کرتے تھے کہ اگر مثلاًجنوب کی طرف جانا ہوتا تھاتوچند میل شمال کی طرف جاکر پھر چکر کاٹ کرجنوب کی طرف گھوم جاتے تھے۔
(5)آپؐکی عادت تھی کہ شہر سے تھوڑی دورنکل کر فوج کاجائزہ لیا کرتے تھے اورسب انتظام ٹھیک ٹھاک کرنے کے بعد آگے روانہ ہوتے تھے۔
(6)جب کوئی اہم مہم پیش آتی تھی توآپؐاس کیلئے صحابہؓ میں تحریک فرماتے تھے پھرجو لوگ اس کیلئے تیار ہوتے تھے وہ اپنا اپنا سامان جنگ اورسواری وغیرہ کا انتظام خود کرتے تھے۔البتہ کسی ذی ثروت صحابی کو مقدرت ہوتی تھی تووہ دوسروں کی امداد بھی کردیتاتھااور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم عموماًاس قسم کی امداد کی تحریک فرمایا کرتے تھے اوربعض اوقات جب گنجائش ہوتی تھی توخود بھی امداد فرماتے تھے۔
(7)چھوٹے بچے یعنی پندرہ سال سے کم عمر کے بچے عموماًجنگ میںساتھ نہیں لئے جاتے تھے اور جو بچے اس شوق میںساتھ ہولیتے تھے انہیں جائزہ کے وقت جوعموماًشہر سے باہرنکل کرلیا جاتا تھاواپس کردیا جاتا تھا۔
(8)جنگ میں عموماًچند ایک عورتیں بھی ساتھ جاتی تھیں جوکھانے پینے کا انتظام کرنے کے علاوہ تیمارداری اور زخمیوں کی مرہم پٹی کاکام بھی کرتی تھیں اورلڑائی کے وقت فوجیوں کوپانی بھی لاکر دیتی تھیں۔بعض خاص خاص موقعوں پر مسلمان عورتوں نے کفار کے خلاف تلوار بھی چلائی ہے۔
(9)آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کایہ طریق تھا کہ سفر میں اپنی ازواج میں سے کسی ایک کویا ایک سے زیادہ کوجیسا کہ موقع ہواپنے ساتھ رکھتے تھے اوراس کیلئے آپؐ قرعہ ڈالا کرتے تھے اور جسکا نام قرعہ میں نکلتا تھااسے ساتھ لے جاتے تھے۔
(10)جنگ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کایہ عام طریق تھا کہ جب کبھی آپ کو کسی دشمن قبیلہ کے متعلق یہ اطلاع ملتی تھی کہ وہ مسلمانوں کے خلاف حملہ کرنے کی تیاری کررہا ہے توآپؐپیش دستی کرکے اسکے حملہ کوروکنے کی کوشش فرماتے تھے اورایسا نہیں کرتے تھے کہ دشمن کو پوری طرح تیاری کرلینے کاموقع دیں اور اسکے حملہ کاانتظار کرتے رہیں اورجب وہ عملاًحملہ کردے توپھراسکا مقابلہ کریں۔نیز آپؐکی یہ کوشش ہوتی تھی کہ اسلامی لشکر دشمن تک اچانک پہنچ جائے اوراسے اطلاع نہ ہو۔ ان تدابیر سے آپؐنے مسلمانوں کوبہت سے مصائب سے بچا لیا۔
(11)جب آپؐکوئی فوجی دستہ روانہ فرماتے تھے توانہیں چلتے ہوئے یہ نصیحت فرماتے تھے کہ جب تم دشمن کے سامنے ہوتو اسے تین باتوں کی طرف دعوت دو۔اوراگر ان باتوں میں سے وہ کوئی ایک بات بھی مان لے تواسے قبول کرلواورلڑائی سے رُک جائو۔سب سے پہلے اسے اسلام کی دعوت دو اگروہ لوگ مسلمان ہونا پسند کریں تو پھر انہیں ہجرت کرنے کی تحریک کرو۔ اگروہ ہجرت کرنا قبول نہ کریں، توان سے کہو کہ اچھاتم مسلمان رہواوراپنے گھروں میں ٹھہرو،لیکن اگروہ مسلمان ہونا ہی پسند نہ کریں توپھر ان سے کہو کہ اپنے مذہب پررہو،لیکن مسلمانوں کی عداوت اوران سے جنگ کرنا چھوڑدواوراسلامی حکومت کے ماتحت آجائو۔ اگر وہ لوگ یہ بھی نہ مانیں توپھر اس کے بعد تمہیں ان سے لڑنے کی اجازت ہے۔
(12)نیز جب آپ کوئی فوجی دستہ روانہ فرماتے تھے تواسے نصیحت فرماتے تھے کہ اُغْزُوْا بِسْمِ اللّٰہِ وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلاَ تُغْلُوْا وَلَا تُغْدِرُوْا وَلَا تُمَثِّلُوْا وَلَا تَقْتُلُوْا وَلِیْداً وَلَااِمْرَأۃً وَلَا تَقْتُلُوْا اَصْحَابَ الصَّوَامِعِ وَلَا تَقْتُلُوْا شَیْخًا فَانِیًا وَلَاطِفْلاً وَلَا صَغِیْراً وَلَا اِمْرَأۃً وَاصْلِحُوْا وَاحْسِنُوا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔یعنی اے مسلمانو!نکلو اللہ کانام لے کر اورجہاد کروحفاظت دین کی نیت سے۔مگر خبردارمال غنیمت میں بددیانتی نہ کرنا اورنہ کسی قوم سے دھوکہ کرنا۔اورنہ دشمنوں کے مقتولوں کامُثلہ کرنا اور نہ بچوں اور عورتوں اورمذہبی عبادت گاہوں کے لوگوں کو قتل کرنااورنہ بہت بوڑھوں کوقتل کرنا اور ملک میں اصلاح کرنااورلوگوں کے ساتھ احسان کامعاملہ کرناکیونکہ تحقیق خدا تعالیٰ احسان کرنے والوں کوپسند کرتا ہے۔‘‘ اور حضرت ابوبکرؓ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ جب کسی فوج کوروانہ فرماتے تھے تو اسکے امیر کویہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ اَلَّذِیْنَ زَعَمُوْا اَنَّھُمْ حَبَسُوْا اَنْفُسَھُمْ لِلہِ فَذَرْھُمْ وَمَا زَعَمُوْا اَنَّھُمْ حَبَسُوْا اَنْفُسَھُمْ لَہٗوَلَا تَقْطَعُنَّ شَجَراً مُثْمِراً وَلَا تَخْرِبُنَّ عَامِراً یعنی وہ لوگ جنہوں نے اپنے خیال میں اپنے آپ کو خدا کی عبادت کیلئے وقف کررکھا ہے ان کو کچھ نہ کہنا اوراسی طرح جس چیز کو وہ مقدس سمجھتے ہوں اسے بھی کچھ نہ کہنا اورپھل داردرخت کونہ کاٹنا اورنہ کسی آبادی کوویران کرنا۔‘‘
یہ یاد رکھنا چاہئے کہ عرب میں یہ دستور تھا کہ بعض اوقات لڑائی میں دشمن کے بچوں اوربوڑھوں اورعورتوں کو قتل کردیتے تھے اوربعض اوقات نہایت بے رحمی کے ساتھ دشمن کے مقتولوں کے ہاتھ پائوں اور ناک کان وغیرہ کاٹ ڈالتے تھے جسے مُثلہ کرنا کہتے تھے اور دشمن کے اموال و اَمْتِعہ اوران کی آبادی کوتباہ وبرباد کردیتے تھے اور عہدوپیمان کی تو کوئی قیمت ہی نہ تھی۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سب باتوں سے روک دیا۔مذہبی لوگوں اورمذہبی چیزوں کی حفاظت کے طریق میں بھی اسلام نے ایک نمایاں امتیاز پیدا کیا۔بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ آپؐجب کسی جماعت کو روانہ فرماتے تھے تواسے نصیحت فرماتے تھے کہ بَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا وَیَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا۔ یعنی’’لوگوں کوخوشخبریاں دویعنی ان کوخوش رکھنے کی کوشش کرواورایسا طریق اختیار نہ کروجس سے ان کے دلوں میں نفرت پیداہواوران کیلئے آسانیاں پیدا کرو اور انہیں مشکلوں میں مت ڈالو۔‘‘ (باقی آئندہ)
(سیرت خاتم النّبیینؐ،صفحہ313تا 318،مطبوعہ قادیان2011)