اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-02-16

اسلامی آداب جہاد(بقیہ حصہ)


(13)آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کایہ لازمی طریق تھاکہ جب کسی پارٹی یادستہ یافوج کوروانہ فرماتے تھے توان میں سے کسی شخص کوان کا امیر مقررفرمادیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اگر تین آدمی بھی ہوں توانہیں چاہئے کہ اپنے میں سے کسی کواپنا امیربنالیاکریں اورآپؐ امیر کی اطاعت کی سخت تاکید فرماتے تھے۔ حتّٰی کہ فرمایاکہ اگرکوئی تم پر ایک بیوقوف حبشی غلام بھی امیر مقرر کردیاجاوے تواسکی پوری پوری اطاعت کرو۔مگر ساتھ ہی یہ حکم تھا کہ اگر امیر کوئی ایسا حکم دے جوخدا اوراسکے رسول کے حکم کے صریح خلاف ہوتواس معاملہ میں اس کی اطاعت نہ کرو مگر اس حال میں بھی اس کاادب ضرورملحوظ رکھو۔
(14)آنحضرت ﷺ اورآپؐ کے صحابہ جب کسی غزوہ میں کسی چڑھائی پرچڑھتے تھے توتکبیر کہتے جاتے تھے یعنی اللہ کی بڑائی بیان کرتے تھے اورجب کسی بلندی سے نیچے اترتے تھے توتسبیح کہتے تھے یعنی اللہ کی پاکیزگی بیان کرتے تھے۔
(15)سفر میں صحابہ کوحکم ہوتا تھا کہ اس طرح پرپڑائو نہ ڈالا کریں کہ لوگوں کیلئے موجب تکلیف ہو۔نیز حکم تھا کہ کوچ کے وقت اس طرح نہ چلاکرو کہ راستہ رک جاوے اوراس میں یہاں تک سختی فرماتے تھے کہ ایک دفعہ اعلان فرمایاکہ جوشخص پڑائواوررستے میں دوسروں کاخیال نہیں رکھے گاوہ جہاد کے ثواب سے محروم رہے گا۔
(16)آنحضرتﷺ جب دشمن کے سامنے ہوتے تھے توپہلے ہمیشہ دعا فرمایا کرتے تھے۔
(17)لڑائی کیلئے آپؐصبح کا وقت پسند فرمایا کرتے تھے اورجب دھوپ تیز ہوجاتی تھی تورُک جاتے تھے اور پھر دوپہر گزار کر لڑائی کاحکم دیتے تھے۔
(18)لڑائی سے قبل آپؐخود صحابہ ؓکی صف آرائی فرمایا کرتے تھے اورصفوں میں بے ترتیبی کوبہت ناپسند فرماتے تھے۔
(19)اسلامی لشکر کے ساتھ عموماًدو قسم کے جھنڈے ہوتے تھے ایک سفید ہوتا تھا جو کسی لکڑی وغیرہ پر لپٹا ہوتا تھا اسے لواء کہتے تھے۔دوسراعموماًسیاہ ہوتا تھاجس کی ایک طرف کسی لکڑی وغیرہ سے بندھی ہوتی تھی اور وہ ہوا میں لہراتا تھااسے رایہ کہتے تھے۔یہ دونوں قسم کے جھنڈے لڑائی کے وقت خاص خاص آدمیوں کے سپرد کردئے جاتے تھے۔
(20)آنحضرتﷺ عموماًہرلڑائی میں اپنی فوج کاکوئی لفظی شعار مقرر فرمادیا کرتے تھے جس سے اپنا بیگانہ پہچانا جاتا تھا۔
(21)فوج میں شوروشغب کوناپسند کیا جاتا تھا اورنہایت خاموشی کے ساتھ کام کرنے کا حکم تھا۔
(22)لڑائی سے پہلے آنحضرت ﷺ اسلامی فوج کے مختلف دستوں پرمختلف صحابیوں کوامیر مقرر کرکے ان کی جگہیں متعین فرما دیتے تھے اور فرائض سمجھا دیتے تھے۔ ان کمانڈروں کے تقررمیں عموماًاس اصول کو مدنظر رکھا جاتا تھا کہ کسی دستہ پر اس شخص کوامیر بنایا جاوے جوان میں صاحب اثر ہو۔
(23)بعض خاص خاص موقعوں پرآپؐکایہ بھی طریق تھا کہ صحابہ سے خاص بیعت لیتے تھے۔ چنانچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر بیعت لینے کا ذکر قرآن شریف میں بھی ہے۔
(24)میدان جنگ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاحکم ہوتاتھاکہ جب تک میں حکم نہ دوں لڑائی شروع نہ کی جاوے۔
(25)لڑائی کے دوران میں بھی آپؐخاص خاص احکام جاری فرماتے رہتے تھے اور خود یاکسی بلند آواز صحابی کے واسطے سے پکارپکار کرضروری ہدایات کااعلان فرماتے تھے۔
(26)مسلمانوں کوبھاگنے یا ہتھیار ڈالنے کی قطعاً اجازت نہیں تھی۔حکم تھا کہ یا غالب آئو یا شہید ہوجائو۔ ہاں جنگی اغراض کیلئے وقتی طور پر پیچھے ہٹ آنے کی اجازت تھی لیکن اگر کبھی کسی بشری کمزوری کے ماتحت بعض لوگ بھاگ جاتے تھے تو آپؐان سے زیادہ ناراض نہیں ہوتے تھے بلکہ انہیں آئندہ کیلئے ہمت دلاتے تھے اورفرماتے تھے کہ شاید تم لوگ جنگی تدبیر کے طورپر دوبارہ حملہ کرنے کیلئے پیچھے ہٹ آئے ہوگے۔
(27)صحابہ کو حکم تھاکہ لڑائی میں کسی کے منہ پرضرب نہ لگائیں۔
(28)آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ ضرب لگانے میں سب لوگوں سے زیادہ نرم مسلمان کو ہونا چاہئے۔
(29)تاکیدی حکم تھاکہ جب تک عملاًلڑائی نہ ہولے۔قیدی نہ پکڑے جائیں۔یہ نہیں کہ دشمن کو دیکھااورکمزور پاکر قیدی پکڑنے شروع کردئے۔
(30)حکم تھا کہ جو قیدی پکڑے جائیں انہیں بعد میں حسب حالات یاتوبطوراحسان کے یونہی چھوڑ دیا جاوے یاضروری ہوتو قید میں رکھا جاوے،مگریہ قیدصرف اس وقت رہ سکتی ہے کہ جب تک جنگ جاری رہے یا جنگ کی وجہ سے جوبوجھ پڑے ہوں وہ دور نہ ہوجائیں،اس کے بعد نہیں۔
(31)قیدیوں کے ساتھ نہایت درجہ نرمی اورشفقت کے سلوک کا حکم تھا۔چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم کی وجہ سے صحابہ کوخود اپنے آرام کی نسبت بھی قیدیوں کے آرام کاخیال زیادہ رہتا تھا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کایہ بھی حکم تھا کہ جو قیدی آپس میں قریبی رشتہ دارہوں ان کو ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ کیا جاوے۔
(32)قیدیوں کا فدیہ صرف نقدی کی صورت میں لینے پراصرار نہ کیا جاتا تھا۔چنانچہ بدر کے بعض خواندہ قیدیوں سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ سمجھوتہ کیا تھا کہ اگر وہ مسلمانوں کو نوشت وخواند سکھادیں توانہیں چھوڑ دیاجاوے گا۔بعض اوقات کفار قیدیوں کومسلمان قیدیوں کے تبادلہ میں بھی چھوڑ دیا جاتا تھا۔نقد فدیہ کی صورت میں بھی مکاتبت کے طریق کی اجازت تھی۔
(33)مسلمانوں کو لوٹ مار اورغارت گری سے نہایت سختی سے روکا جاتاتھا۔چنانچہ اس کے متعلق کسی قدر مفصل بحث اوپر گزر چکی ہے۔
(34)حکم تھاکہ اگر لڑائی کے وقت بھی کوئی دشمن اسلام کا اظہار کرے توخواہ اس نے مسلمانوں کا کتنا ہی نقصان کیا ہو فوراً اس سے ہاتھ کھینچ لو۔کیونکہ اب اس سے خطرہ کااحتمال نہیں رہا۔ چنانچہ اس ضمن میں اسامہ بن زید کاواقعہ اوپر گزرا ہے۔
(35)عہدوپیمان کے پورا کرنے کی نہایت سختی سے تاکید کی جاتی تھی اورخود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوعہد کااس قدر پاس تھا کہ جب حذیفہ بن یمان مکہ سے ہجرت کرکے بدر کے موقعہ پرآپؐکی خدمت میں حاضر ہوئے توانہوں نے آپؐسے عرض کیا کہ میں جب مکہ سے نکلا تھا توقریش نے یہ شبہ کرکے کہ شاید میں آپؐکی مدد کیلئے جارہاہوں مجھ سے یہ عہد لیا تھا کہ میں آپؐکی طرف سے نہ لڑوں گا۔ توآپؐ نے فرمایا توپھر تم جائواوراپنا عہد پورا کروہمیں خدا کی امداد بس ہے۔ (یہ آنحضرت ﷺکی کمال احتیاط تھی۔ حالانکہ فتویٰ کے طورپرایسا عہدجوجبر کے طور پر حاصل کیا جاوے واجب الایفاء نہیں) اور حضرت عمرؓنے اپنے عہدخلافت میں تویہاں تک اعلان کیا تھا کہ جو مسلمان دشمن کے ساتھ دھوکا یابدعہدی کرے گا میں اسکی گردن اڑادوں گا۔
(36)میدان جنگ میں جو مسلمان شہید ہوتے تھے انہیں غسل نہیںدیا جاتا تھااورنہ ہی خاص طور پر کفنایاجاتاتھا۔
(37)مجبوری کے وقت ایک ہی قبر میںکئی کئی شہداء کواکٹھا دفن کردیا جاتاتھااورایسے موقعوں پر ان لوگوں کوقبرمیںپہلے اتارا جاتاتھا جوقرآن شریف زیادہ جانتے تھے۔نیز شہداء کے متعلق حکم تھاکہ انہیں میدان جنگ میں ہی دفنا دیاجاوے۔
(38)شہداء کا جنازہ بعض اوقات تولڑائی کے فوراً بعد پڑھ دیاجاتا تھا اوربعض اوقات جب امن کی صورت نہ ہوتو بعد میں کسی اورموقع پرپڑھادیا جاتاتھا۔
(39)آنحضرت ﷺ کایہ طریق تھا کہ حتّی الوسع دشمن کے مقتولوں کوبھی اپنے انتظام میں دفن کروا دیتے تھے۔
(40)اسلامی جنگوں میں لڑنے والے تنخواہ دار نہیں ہوتے تھے۔
(41)مال غنیمت کی تقسیم کایہ اصول تھاکہ سب سے پہلے امیر لشکر غنیمت کے مال میں سے کوئی ایک چیز اپنے لئے چن لیتا تھاجسے صفیہ کہتے تھے۔ پھر سارے اموال کا پانچواں حصہ خدا اوراسکے رسول کیلئے الگ کردیا جاتاتھااوراسکے بعد بقیہ مال فوج میں بحصہ برابرتقسیم کردیا جاتا تھااس طرح پر کہ سوار کو پیدل کی نسبت دوحصے زیادہ دیا جاتاتھا اورنیز مقتول کافر کا ذاتی سامان جو اس کے جسم پر ہووہ بھی مسلمان قاتل کاحق سمجھا جاتا تھا۔
(42)جوخمس خدا اوراسکے رسول کیلئے الگ کیا جاتا تھااس میں کچھ تو آنحضرت ﷺاپنے اہل وعیال اوراقرباء میں تقسیم فرمادیتے تھے اوربیشترحصہ اسکا مسلمانوں کی اجتماعی دینی اورقومی اغراض میں صرف ہوتا تھااور اسی لئے آنحضرت ﷺ نے ایک دفعہ صحابہ سے فرمایاکہ مال غنیمت میں سے مجھے خمس کے علاوہ ایک اونٹ کے بال کے برابر بھی لینا حرام ہے وَالْخُمْسُ مَرْدُوْدٌ عَلَیْکُمْ اورپھر یہ خمس بھی تمہارے ہی کام آتا ہے۔
(43)لڑائی کے میدان میںعام طورپر نماز کی ادائیگی کایہ طریق تھا کہ امام توایک ہی رہتا تھا لیکن فوج کے آدمی مختلف حصوں میں باری باری آکر امام کی اقتداء میں نماز ادا کرتے تھے اوربقیہ فوج دشمن کے سامنے رہتی تھی اسے صلوٰۃ خوف کہتے ہیں اور مختلف حالات کے ماتحت اس کی مختلف صورتیں تھیں۔
(44)شروع شروع میں بعض صحابہ سفروں میں روزے رکھتے تھے اوربعض افطار کرتے تھے، لیکن آخری ایام میں آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ سفر میں روزہ نہ رکھا جاوے اورفرمایا تھا کہ سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی کا کام نہیں ہے۔ جن صحابہ نے آپؐکے اس حکم کومحض ایک سفارش سمجھ کر روزہ رکھ لیاان کے متعلق آپ نے فرمایا:اُولٓئِکَ العُصَاۃُ۔ یعنی یہ لوگ نافرمانی کے مرتکب ہوئے ہیں۔
(45)جاسوس کے قتل کاعرب میں دستورتھا اور آنحضرت ﷺنے اسے برقرار رکھا۔
(46)دشمن کے قاصد کو روک لینے یا کسی قسم کا نقصان پہنچانے یاقتل کرنے سے آنحضرت ﷺ سختی سے منع فرماتے تھے۔چنانچہ ایک دفعہ بعض لوگ کفار کے قاصد ہوکر آئے اورانہوںنے آپؐکے سامنے گستاخانہ طریق سے باتیں کیں۔آپؐنے فرمایا تم قاصد ہو اس لئے میں تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ایک اورموقع پرایک قاصد آیا اور آپؐسے مل کر مسلمان ہوگیا اورپھر اس نے آپؐسے عرض کیا کہ میں اب واپس جانا نہیں چاہتا۔آپؐنے فرمایا: میںبدعہدی کامرتکب نہیں ہوسکتا۔تم قاصد ہو تمہیں بہرحال واپس جانا چاہئے۔ہاں اگرپھر آنا چاہو توآجانا۔چنانچہ وہ گیا اورکچھ عرصہ کے بعد موقع پاکر پھر واپس آگیا۔
(47)جب مکہ اورمدینہ کی سرزمین شرک کے عنصر سے پاک ہوگئی اس وقت یہ اعلان کیا گیا کہ اگر اب بھی کوئی بیرونی مشرک مذہبی تحقیق کیلئے حجازمیں آنا چاہے توبخوشی آسکتا ہے اور آنحضرت ﷺنے اعلان فرمایا کہ اسکی حفاظت اورپُرامن واپسی کے ہم ذمہ وار ہوں گے۔
(48)کفار میں سے جو لوگ مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کرلیتے تھے ان کی حفاظت اورحقوق کا آپؐکوخاص خیال رہتا تھا۔چنانچہ آپؐفرمایا کرتے تھے کہ مَنْ قَتَلَ مُعَاھِداً لَمْ یَرِحْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ۔ یعنی جو مسلمان کسی معاہدکافر کوقتل کرے گے،اسے جنت کی ہوا تک نہیں پہنچے گی۔
نیز آپؐنے یہ حکم جاری فرمایا تھا کہ جو مسلمان کسی معاہد کافر کو یونہی غلطی سے بلاارادے کے قتل کردے اس کا فرض ہوگا کہ اسکے رشتہ داروں کواس کی پوری پوری دیت ادا کرنے کے علاوہ ایک غلام آزاد کرے۔
(49)معاہد کافر کے متعلق یہ بھی فرمایا کہ مَنْ ظَلَمَ مُعَاھِداً اَوِنْتَقَصَہٗ اَوْکَلَّفَہُ فَوْقَ الطَّاقَۃِ اَوْاَخَذَ مِنْہُ شَیْئًا بِغَیْرِ طِیْبِ نَفْسِہٖ فَاَنَا حَجِیْجُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ یعنی جو مسلمان کسی معاہد کافرپرکسی قسم کا ظلم کرے گایااسے نقصان پہنچائے گایااس پر کوئی ایسی ذمہ داری یا ایسا کام ڈالے گاجو اس کی طاقت سے باہر ہے یا اس سے کوئی چیز بغیر اس کی خوشی اور مرضی کے لے گاتواے مسلمانو!سن لو میں قیامت کے دن اس معاہد کافر کی طرف سے ہوکر اس مسلمان کے خلاف انصاف چاہوں گا۔‘‘
(50)آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جب کسی قوم کے خلاف جنگ کرنے کو نکلتے تھے تو فتح حاصل ہونے کے بعد عموماً تین دن سے زیادہ وہاں نہیں ٹھہرتے تھے اوریہ غالباًاس لئے کرتے تھے کہ وہاں کے لوگوں کیلئے اسلامی لشکر کا قیام موجب تکلیف اورپریشانی نہ ہو۔
(51)سب سے آخر میں مگر غالباًسب سے بڑھ کر یہ کہ جہاد میں دین کی حفاظت اورفتنہ کے سدباب کے سواکسی اور نیت کوسخت ناجائز سمجھا جاتا تھااورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا عام اعلان تھا کہ جو شخص غنیمت کے لالچ میں یا لڑائی کے اظہار کیلئے یا کسی اوردنیاوی غرض سے نکلتا ہے وہ جہاد کے ثواب سے قطعی محروم ہے۔اس ضمن میں کسی قدر مفصل بحث اوپر گزر چکی ہے۔
اس جگہ یہ ذکر بھی بے موقع نہ ہوگا کہ اس زمانہ میں عرب میں لڑنے کا طریق یہ ہوتا تھا کہ جب فوجیں ایک دوسرے کے سامنے ہوجاتیں تھیں توخاص خاص لوگ انفرادی مقابلوں کیلئے نکل کر مبارزطلبی کرتے تھے اوران انفرادی مقابلوں کے بعد عام حملہ کیا جاتا تھا۔ جنگ میں پیدل اور گھوڑے پرسوار ہوکردونوں طرح لڑنے کا دستور تھامگرگھوڑے پرسوار ہو کرلڑنا بہترسمجھا جاتا تھا۔ اونٹ عموماً صرف سفر کاٹنے یا اسباب اٹھانے کیلئے استعمال کئے جاتے تھے۔ آلات حرب حملہ کیلئے تلوار، نیزہ اورتیر کمان تک محدود تھے اور دفاع کیلئے ڈھال اورزرہ اورخود استعمال کئے جاتے تھے۔عرب کے بعض قبائل میں دشمن پرپتھر کی بارش برسانے کیلئے ایک قسم کی مشین بھی استعمال ہوتی تھی جسے منجنیق کہتے تھے۔اس مشین کاخیال غالباًایران سے عرب میں آیا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے اسکا استعمال محاصرہ طائف کے موقع پرفرمایا تھا۔
(باقی آئندہ)
(سیرت خاتم النّبیینؐ،صفحہ318تا 323،مطبوعہ قادیان2011)
…٭…٭…٭…