اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-10-12

قبائل نجداوریہود کے ساتھ جنگ کاآغاز حضرت فاطمہؓ اورحفصہؓ کی شادی بعض متفرق واقعات

سیرت خاتم النّبیینﷺ

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

غزوہ قرقرۃ الکدرشوال 2 ہجری

یہ بتایا جاچکا ہے کہ ہجرت کے بعد قریش مکہ نے مختلف قبائل عرب کادورہ کرکے بہت سے قبائل کو مسلمانوں کاجانی دشمن بنادیا تھا۔ان قبائل میں طاقت اورجتھے کے لحاظ سے زیادہ اہم عرب کے وسطی علاقہ نجد کے رہنے والے دوقبیلے تھے۔جن کا نام بنوسلیم اور بنو غطفان تھا اورقریش مکہ نے ان دوقبائل کوخصوصیت کے ساتھ اپنے ساتھ گانٹھ کرمسلمانوں کے خلاف کھڑا کردیا تھا۔چنانچہ سرولیم میور لکھتے ہیں کہ
’’قریش مکہ نے اب اپنی توجہ اس نجدی علاقہ کی طرف پھیری اوراس علاقہ کے قبائل کے ساتھ آگے سے بھی زیادہ گہرے تعلقات قائم کرلئے اوراس وقت کے بعد قبائل سلیم وغطفان محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے سخت دشمن ہوگئے اوران کی اس دشمنی نے مسلمانوں کے خلاف عملی صورت اختیار کرلی۔ چنانچہ قریش کی اشتعال انگیزی اورابوسفیان کے عملی نمونہ کے نتیجہ میں انہوں نے مدینہ پرحملہ آور ہونے کی تجویز پختہ کرلی۔‘‘
چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بدرسے واپس تشریف لائے توابھی آپؐکو مدینہ میں پہنچے ہوئے صرف چند دن ہی ہوئے تھےکہ آپؐکویہ اطلاع موصول ہوئی کہ قبائل سلیم وغطفان کا ایک بڑالشکر مدینہ پر حملہ آور ہونے کی نیت سے قرقرۃ الکدرمیں جمع ہو رہا ہے۔ جنگ بدر کے اس قدر قریب اس اطلاع کا آنا یہ ظاہرکرتا ہے کہ جب قریش کا لشکر مسلمانوں کے خلاف حملہ آور ہونے کی نیت سے مکہ سے نکلا تھا تورئوساء قریش نے اسی وقت قبائل سلیم وغطفان کویہ پیغام بھیج دیا ہوگا کہ تم دوسری طرف سے مدینہ پرحملہ آور ہوجائو۔ یایہ بھی ممکن ہے کہ جب ابوسفیان اپنے قافلہ کے ساتھ بچ کرنکل گیا ،تو اس نے کسی قاصد وغیرہ کے ذریعہ ان قبائل کومسلمانوں کے خلاف نکلنے کی تحریک کی ہو۔ بہرحال ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنگ بدر سے فارغ ہوکرمدینہ میں پہنچے ہی تھے کہ یہ وحشتناک اطلاع موصول ہوئی کہ قبائل سلیم وغطفان مسلمانوں پر حملہ کرنے والے ہیں۔یہ خبر سن کر آپ فوراً صحابہ کی ایک جمعیت کوساتھ لے کر پیش بندی کے طورپر نجد کی طرف روانہ ہوگئے،لیکن جب آپ کئی دن کا تکلیف دہ سفرطے کرکے موضع الکدر کے قرقرہ یعنی چٹیل میدان میں پہنچے تومعلوم ہوا کہ بنو سلیم اوربنوغطفان کے لوگ لشکر اسلام کی آمد آمد کی خبر پاکر پاس کی پہاڑیوں میں جاچھپے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے ان کی تلاش میں مسلمانوں کا ایک دستہ روانہ فرمایا اورخود بطن وادی کی طرف بڑھے، مگر ان کا کچھ سراغ نہیں ملا۔البتہ ان کے اونٹوں کاایک بڑا گلہ ایک وادی میں چرتا ہوا مل گیا ،جس پر قوانین جنگ کے ماتحت صحابہ نے قبضہ کرلیااور اسکے بعد آنحضرت ﷺ مدینہ کوواپس لوٹ آئے۔ ان اونٹوں کاچرواہا ایک یسار نامی غلام تھا،جو اونٹوں کے ساتھ قید کرلیا گیا تھا۔اس شخص پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا ایسا اثرہوا کہ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ وہ مسلمان ہوگیا اورگوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب عادت اسے بطور احسان کے آزاد کردیا مگروہ مرتے دم تک آپ کی خدمت سے جدا نہیں ہوا۔

غزوہ سویق ذوالحجہ 2ہجری

بدر کے نتیجہ میں جو ماتم مکہ میں بپا ہوا تھا اس کا ذکر اوپر گزرچکا ہے۔قریباً سارے رئوساء قریش قتل ہوچکے تھے اوراب مکہ کی ریاست ابوسفیان بن حرب کے حصہ میں آئی تھی۔چنانچہ بدر کے بعد ابوسفیان نے قسم کھائی تھی کہ جب تک مقتولین بدرکاانتقام نہ لے لے گا کبھی اپنی بیوی کے پاس نہ جائے گا اورنہ کبھی اپنے بالوں کوتیل لگائے گا۔ چنانچہ بدرکے دوتین ماہ بعد ذوالحجہ کے مہینہ میں ابوسفیان دوسومسلح قریش کی جمعیت کواپنے ساتھ لے کر مکہ سے نکلا اورنجدی راستہ کی طرف سے ہوتا ہوا مدینہ کے پاس پہنچ گیا۔یہاں پہنچ کراس نے اپنے لشکر کوتومدینہ سے کچھ فاصلہ پرچھوڑا اور خود رات کی تاریکی کے پردہ میں چھپتا ہوایہودی قبیلہ بنونضیر کے رئیس حیی بن اخطب کے مکان پر پہنچا اوراس سے امداد چاہی، مگرچونکہ اس کے دل میں اپنے عہدوپیمان کی کچھ یاد باقی تھی اس نے انکار کیا۔پھرابو سفیان اسی طرح چھپتا ہوابنونضیر کے دوسرے رئیس سلام بن مشکم کے مکان پر گیا اوراس سے مسلمانوں کے خلاف اعانت کاطلب گار ہوا۔اس بدبخت نے کمال جرأت کے ساتھ سارے عہدوپیمان کوبالائے طاق رکھ کر ابوسفیان کی بڑی آئو بھگت کی اوراسے اپنے پاس رات کو مہمان رکھا اور اس سے مسلمانوں کے حالات کے متعلق مخبری کی۔ صبح ہونے سے قبل ابوسفیان وہاں سے نکلا اوراپنے لشکر میں پہنچ کر اس نے قریش کے ایک دستے کو مدینہ کے قریب عریض کی وادی میں چھاپہ مارنے کیلئے روانہ کردیا۔یہ وہ وادی تھی جہاں ان ایام میں مسلمانوں کے جانور چراکرتے تھے اورجو مدینہ سے صرف تین میل پر تھی اورغالباً اسکا حال ابوسفیان کوسلام بن مشکم سے معلوم ہوا ہوگا۔جب قریش کا یہ دستہ وادیٔ عریض میں پہنچا توخوش قسمتی سے اس وقت مسلمانوں کے جانور وہاں موجود نہ تھے۔البتہ ایک مسلمان انصاری اوراس کا ایک ساتھی اس وقت وہاں موجود تھے۔ قریش نے ان دونوں کو پکڑ کر ظالمانہ طورپر قتل کردیا۔اورپھر کھجوروں کے درختوں کو آگ لگاکر اوروہاں کے مکانوں اورجھونپڑوں کوجلا کرابوسفیان کی قیام گاہ کی طرف واپس لوٹ گئے۔ ابوسفیان نے اس کامیابی کواپنی قسم کے پورا ہونے کیلئے کافی سمجھ کر لشکر کوواپسی کاحکم دیا۔دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوابو سفیان کے حملہ کی اطلاع ہوئی تو آپؐصحابہ کی ایک جماعت ساتھ لے کر اسکے تعاقب میں نکلے،مگر چونکہ ابوسفیان اپنی قسم کے ایفاء کومشکوک نہیں کرنا چاہتا تھا،وہ ایسی سراسیمگی کے ساتھ بھاگا کہ مسلمان اس کے لشکرکوپہنچ نہیں سکے اوربالآخر چند دن کی غیر حاضری کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس لوٹ آئے۔اس غزوہ کوغزوہ سویق کہتے ہیں،جس کی وجہ یہ ہے کہ جب ابوسفیان مکہ کوواپس لوٹا توتعاقب کے خیال کی وجہ سے کچھ توگھبراہٹ میں اورکچھ اپنا بوجھ ہلکا کرنے کیلئے وہ اپنا سامان رسد جوزیادہ ترسویق یعنی ستو کے تھیلوں پرمشتمل تھا راستہ میں پھینکتا گیا تھا۔

عیدالاضحی ذوالحجہ2ہجری

عیدالفطر کے ذکر میں اسلامی عیدوں کا فلسفہ بیان کیا جاچکا ہے۔اسی سال ماہ ذی الحجہ میں دوسری اسلامی عید یعنی عیدالاضحی مشروع ہوئی جو ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کوتمام اسلامی دنیا میں منائی جاتی ہے۔اس عید میں علاوہ نماز کے جو ہر سچے مسلمان کی حقیقی عید ہے،ہرذی استطاعت مسلمان کیلئے واجب ہوتا ہے کہ اپنی طرف سے کوئی چوپایہ جانور قربان کرکے اسکا گوشت اپنے عزیز واقارب اوردوستوں اورہمسایوں اوردوسرے لوگوں میں تقسیم کرے اورخود بھی کھائے۔ چنانچہ عیدالاضحی کے دن اوراس کے بعد دودن تک تمام اسلامی دنیا میں لاکھوں کروڑوں جانور فی سبیل اللہ قربان کئے جاتے ہیں اوراس طرح مسلمانوں کے اندر عملی طورپر اس عظیم الشان قربانی کی یادزندہ رکھی جاتی ہے جوحضرت ابراہیم ؑاورحضرت اسمٰعیلؑ اورحضرت ہاجرہؑ نے پیش کی اورجس کی بہترین مثال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تھی اورہرایک مسلمان کو ہوشیار کیا جاتا ہے کہ وہ بھی اپنے آقا ومالک کی راہ میں اپنی جان اورمال اوراپنی ہرایک چیز قربان کردینے کے واسطے تیار ہے۔ یہ عیدبھی عیدالفطر کی طرح ایک عظیم الشان اسلامی عبادت کی تکمیل پرمنائی جاتی ہے اوروہ عبادت حج ہے جس کا ذکر انشاء اللہ اپنے موقع پر آئے گا۔

حضرت فاطمہؓ کا نکاح ذوالحجہ2ہجری

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کے بیان میں حضرت فاطمہؓ کا ذکر گزرچکا ہے جمہور مؤرخین کے قول کے مطابق حضرت فاطمہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس اولاد میں سب سے چھوٹی تھیں جو حضرت خدیجہؓ کے بطن سے پیدا ہوئی۔ اورآپؐاپنی اولاد میں سب سے زیادہ حضرت فاطمہؓکوعزیز رکھتے تھے۔ اوراپنی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے وہی اس امتیازی محبت کی سب سے زیادہ اہل تھیں۔اب ان کی عمر کم وبیش پندرہ سال کی تھی اور شادی کے پیغامات آنے شروع ہوگئے تھے۔ سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ کیلئے حضرت ابوبکرؓ نے درخواست کی، مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عذر کردیا۔پھرحضرت عمرؓنے عرض کیامگر ان کی درخواست بھی منظور نہ ہوئی۔اس کے بعد ان دونوں بزرگوں نے یہ سمجھ کر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاارادہ حضرت علیؓ کے متعلق معلوم ہوتا ہے حضرت علیؓ سے تحریک کی کہ تم فاطمہؓ کے متعلق درخواست کردو۔ حضرت علیؓ نے جوغالباً پہلے سے خواہش مند تھے مگر بوجہ حیا خاموش تھے فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر درخواست پیش کردی۔ دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدائی وحی کے ذریعہ یہ اشارہ ہوچکا تھا کہ حضرت فاطمہ ؓکی شادی حضرت علیؓ سے ہونی چاہئے۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے درخواست پیش کی تو آپؐنے فرمایا کہ مجھے تو اسکے متعلق پہلے سے خدائی اشارہ ہوچکا ہے۔ پھر آپؐنے حضرت فاطمہؓ سے پوچھا وہ بوجہ حیا کے خاموش رہیں۔ یہ ایک طرح سے اظہار رضا تھا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اورانصار کی ایک جماعت کوجمع کرکے حضرت علیؓ اورفاطمہؓ کا نکاح پڑھ دیا۔ یہ2ہجری کی ابتداء یاوسط کا واقعہ ہے۔اسکے بعد جنگ بدرہوچکی توغالباً ماہ ذوالحجہ2 ہجری میں رخصتانہ کی تجویز ہوئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کوبلا کر دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس مہر کی ادائیگی کیلئے کچھ ہے یا نہیں؟حضرت علیؓنے عرض کیا۔ یارسول اللہ!میرے پاس توکچھ نہیں۔ آپؐنے فرمایا وہ زرہ کیاہوئی جومیں نے اس دن(یعنی بدر کے مغانم میں سے)تمہیں دی تھی؟ حضرت علی نے عرض کیا وہ تو ہے۔آپؐنے فرمایا:بس وہی لے آئو۔ چنانچہ یہ زرہ چار سواسی درہم میں فروخت کردی گئی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی رقم میں سے شادی کے اخراجات مہیا کئے۔ جوجہیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ کودیا وہ ایک بیل دار چادر،ایک چمڑے کاگدیلا جس کے اندر کجھور کے خشک پتے بھرے ہوئے تھے اور ایک مشکیزہ تھا۔ اورایک روایت میں ہے کہ آپؐنے حضرت فاطمہؓ کے جہیز میں ایک چکی بھی دی تھی۔ جب یہ سامان ہوچکا تومکان کی فکر ہوئی۔حضرت علی ؓاب تک غالباًآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد کے کسی حجرہ وغیرہ میں رہتے تھے مگر شادی کے بعد یہ ضروری تھا کہ کوئی الگ مکان ہوجس میں خاوند بیوی رہ سکیں۔چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے ارشاد فرمایا کہ اب تم کوئی مکان تلاش کرو جس میں تم دونوں رہ سکو۔حضرت علی نے عارضی طورپر ایک مکان کا انتظام کیا اوراس میں حضرت فاطمہؓ کارخصتانہ ہوگیا۔اسی دن رخصتانہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مکان پر تشریف لے گئے اورتھوڑا ساپانی منگا کر اس پر دعا کی اورپھر وہ پانی حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓہردو پریہ الفاظ فرماتے ہوئے چھڑکا۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ فِیْھِمَا وَبَارِکْ عَلَیْھِمَا وَبَارِکْ لَھُمَا نَسْلَھُمَا۔ یعنی ’’اے میرے اللہ!توان دونوں کے باہمی تعلقات میںبرکت دے اوران کے ان تعلقات میں برکت دے جودوسرے لوگوں کے ساتھ قائم ہوں اوران کی نسل میں برکت دے۔‘‘ اور پھر آپؐاس نئے جوڑے کو اکیلا چھوڑ کرواپس تشریف لے آئے۔اس کے بعد جوایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لے گئے تو حضرت فاطمہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حارثہ بن نعمان انصاری کے پاس چند ایک مکانات ہیں آپؐان سے فرماویں کہ وہ اپنا کوئی مکان خالی کردیں۔آپؐنے فرمایا وہ ہماری خاطر اتنے مکانات پہلے ہی خالی کرچکے ہیں،اب مجھے توانہیںکہتے ہوئے شرم آتی ہے۔حارثہ کوکسی طرح اس کا علم ہواتو وہ بھاگے آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ!میرا جو کچھ ہے وہ حضور کا ہے اورواللہ جوچیز آپؐمجھ سے قبول فرمالیتے ہیں وہ مجھے زیادہ خوشی پہنچاتی ہے بہ نسبت اس چیز کے جو میرے پاس رہتی ہے اورپھر اس مخلص صحابی نے باصرار اپنا ایک مکان خالی کروا کے پیش کردیا اورحضرت علیؓاورفاطمہؓ وہاں اٹھ گئے۔
اس جگہ یہ ذکر بھی بے موقع نہ ہوگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری اولاد میں صرف حضرت فاطمہؓ ہی آپؐکی وفات کے بعد زندہ رہیں باقی سب بچے آپؐکی زندگی میں فوت ہوگئے تھے۔حضرت فاطمہؓ کویہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری اولاد میں صرف انہی کی نسل کا سلسلہ قائم رہا۔چنانچہ مسلمانوں میں سادات کی قوم انہی کی نسل سے ہے۔حضرت فاطمہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ ماہ بعد وفات پائی۔ (باقی آئندہ)

(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ 452تا 457،مطبوعہ قادیان2011)