اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-02-23

آغاز جہاد اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی احتیاطی تدابیر

یہ بتایا جاچکا ہے کہ جہاد بالسیف کی اجازت میں پہلی قرآنی آیت بارہ صفر2ہجری کو نازل ہوئی تھی۔ یعنی دفاعی جنگ کے اعلان کا جو خدائی اشارہ ہجرت میں کیا گیا تھا اسکا باضابطہ اعلان صفر2ہجری میں کیاگیا جبکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم قیام مدینہ کی ابتدائی کارروائیوں سے فارغ ہوچکے تھے اوراس طرح جہاد کا آغاز ہوگیا۔تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ کفار کے شرسے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کیلئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ابتداء ًچار تدابیراختیار کیں جوآپؐکی اعلیٰ سیاسی قابلیت اورجنگی دوربینی کی ایک بیّن دلیل ہیں۔ یہ تدابیر مندرجہ ذیل تھیں۔
اوّل آپؐنے خود سفر کرکے آس پاس کے قبائل کے ساتھ باہمی امن وامان کے معاہدے کرنے شروع کئے تاکہ مدینہ کے اردگرد کاعلاقہ خطرہ سے محفوظ ہوجائے۔ اس امر میں آپؐنے خصوصیت کے ساتھ ان قبائل کومدنظر رکھا جو قریش کے شامی رستے کے قرب وجوار میں آباد تھے کیونکہ جیسا کہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے یہی وہ قبائل تھے جن سے قریش مکہ مسلمانوں کے خلاف زیادہ مدد لے سکتے تھے اور جن کی دشمنی مسلمانوں کے واسطے سخت خطرات پیدا کرسکتی تھی۔
دوم آپؐنے چھوٹی چھوٹی خبر رساں پارٹیاں مدینہ کے مختلف جہات میں روانہ کرنی شروع فرمائیں تاکہ آپؐکوقریش اوران کے حُلفاء کی حرکات وسکنات کاعلم ہوتارہے اورقریش کوبھی یہ خیال رہے کہ مسلمان بے خبر نہیں ہیں اوراس طرح مدینہ اچانک حملوں کے خطرات سے محفوظ ہوجائے۔
سوم ان پارٹیوں کے بھجوانے میں ایک مصلحت یہ بھی تھی کہ تااس ذریعہ سے مکہ اوراسکے گردونواح کے کمزوراورغریب مسلمانوں کو مدینہ کے مسلمانوں میں آملنے کاموقع مل جاوے۔ابھی تک مکہ کے علاقہ میں کئی لوگ ایسے موجود تھے جودل سے مسلمان تھے مگر قریش کے مظالم کی وجہ سے اپنے اسلام کابرملا طور پراظہار نہیں کرسکتے تھے اورنہ اپنی غربت اورکمزوری کی وجہ سے ان میں ہجرت کی طاقت تھی کیونکہ قریش ایسے لوگوں کوہجرت سے جبراً روکتے تھے۔چنانچہ قرآن شریف میں خداتعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْيَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُھَا۝۰ۚ وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّا۝۰ۚۙ وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِيْرًا یعنی ’’اے مومنو!کوئی وجہ نہیں کہ تم لڑائی نہ کرواللہ کے دین کی حفاظت کیلئے اوران مردوں اورعورتوں اور بچوں کی خاطر جوکمزوری کی حالت میں پڑے ہیں اور دعائیں کررہے ہیںکہ اَے ہمارے رب!نکال ہم کو اس شہر سے جس کے باشندے ظالم ہیں اورہم ناتوانوں کیلئے اپنی طرف سے کوئی دوست ومددگار عطا فرما۔ پس ان پارٹیوں کے بھجوانے میںایک یہ مصلحت بھی تھی کہ تاایسے لوگوں کو ظالم قوم سے چھٹکاراپانے کاموقع مل جاوے۔یعنی ایسے لوگ قریش کے قافلوں کے ساتھ ملے ملائے مدینہ کے قریب پہنچ جائیں اور پھر مسلمانوں کے دستے کی طرف بھاگ کرمسلمانوں میں آملیں۔چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ پہلا دستہ ہی جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے عبیدہ بن الحارث کی سرداری میں روانہ فرمایاتھا اورجس کا عکرمہ بن ابوجہل کے ایک گروہ سے سامنا ہوگیا تھا اس میں مکہ کے دوکمزور مسلمان جوقریش کے ساتھ ملے ملائے آگئے تھے،قریش کو چھوڑ کر مسلمانوں میں آملے تھے۔ چنانچہ روایت آتی ہے کہ:
فَرَّمِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اِلَی الْمُسْلِمِیْنَ المِقْدَادُ بْنُ عَمْرٍوحَلِیْفُ بْنِ زَھْرَۃَ وَعُتْبَۃُ بْنَ غَزْوَانَ حَلِیْفُ بَنِی نَوْفَلَ وَکَانَا مُسْلِمَیْنِ وَلٰکِنَّھُمَا خَرَجَایَتَوَصَّلَانِ بِالْکُفَّارِ اِلَی الْمُسْلِمِیْنَ۔ یعنی’’اس مہم میں جب مسلمانوں کی پارٹی لشکرِ قریش کے سامنے آئی تودو شخص مقداد بن عمرواور عتبہ بن غزوان جو بنوزہرہ اور بنو نوفل کے حلیف تھے مشرکین میں سے بھاگ کر مسلمانوں میں آملے اوریہ دونوں شخص مسلمان تھے اورصرف کفار کی آڑ لے کرمسلمانوں میں آملنے کیلئے نکلے تھے۔‘‘پس ان پارٹیوں کے بھجوانے میں ایک غرض آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ بھی تھی کہ تاایسے لوگوں کو ظالم قریش سے چھٹکارا پانے اور مسلمانوں میں آملنے کا موقع ملتا رہے۔
چہارم: چوتھی تدبیر آپؐنے یہ اختیار فرمائی کہ آپؐنے قریش کے ان تجارتی قافلوں کی روک تھام شروع فرمادی جومکہ سے شام کی طرف آتے جاتے ہوئے مدینہ کے پاس سے گزرتے تھے کیونکہ (الف) یہ قافلے جہاں جہاںسے گزرتے تھے مسلمانوں کے خلاف عداوت کی آگ لگاتے جاتے تھے اورظاہر ہے کہ مدینہ کے گردونواح میںاسلام کی عداوت کا تخم بویا جانا مسلمانوں کیلئے نہایت خطرناک تھا۔(ب)یہ قافلے ہمیشہ مسلح ہوتے تھے اورہرشخص سمجھ سکتا ہے کہ اس قسم کے قافلوں کامدینہ سے اس قدر قریب ہو کر گزرناہرگز خطرہ سے خالی نہیں تھا۔(ج)قریش کا گزارہ زیادہ تر تجارت پر تھااوراندریں حالات قریش کو زیرکرنے اوران کو ان کی ظالمانہ کارروائیوں سے روکنے اور صلح پرمجبور کرنے کا یہ سب سے زیادہ یقینی اورسریع الاثر ذریعہ تھاکہ ان کی تجارت کا راستہ بندکر دیا جاوے۔چنانچہ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جن باتوں نے بالآخرقریش کو صلح کی طرف مائل ہونے پر مجبور کیا ان میں ان کے تجارتی قافلوں کی روک تھام کابہت بڑا دخل تھا۔پس یہ ایک نہایت دانشمندانہ تدبیر تھی جواپنے وقت پر کامیابی کا پھل لائی۔ (د)قریش کے ان قافلوں کا نفع بسااوقات اسلام کو مٹانے کی کوشش میں صرف ہوتا تھابلکہ بعض قافلے توخصوصیت کے ساتھ اسی غرض سے بھیجے جاتے تھے کہ ان کا سارا نفع مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔اس صورت میں ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان قافلوں کی روک تھام خود اپنی ذات میں بھی ایک بالکل جائز مقصود تھی۔
بعض متعصب عیسائی مؤرخین نے جن کو اسلام کی خوبیاں بھی بدی کی شکل میں نظر آتی ہیں یہ اعتراض کیا ہے کہ نعوذباللہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ قریش کے قافلوں کو لوٹنے کی غرض سے نکلتے تھے۔ہم ان عدل وانصاف کے مجسموں سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا تمہاری قومیں جنہیں تم تہذیب و شرافت کے معراج کوپہنچا ہواسمجھتے ہوجنگ کے زمانہ میں دشمن قوموں کے تجارتی رستے نہیں روکتیں؟اورکیا انہیں جب یہ خبر پہنچتی ہے کہ فلاں دشمن قوم کا کوئی تجارتی جہاز فلاں جگہ سے گزررہا ہے تووہ فوراًاس کے پیچھے ایک بحری دستہ روانہ کرکے اسکو تباہ وبرباد کردینے یا اسے مغلوب کرکے اسکے اموال پرقبضہ کرلینے کی تدابیر نہیں اختیار کرتیں؟توپھر کیا اس وجہ سے تمہارے فرمانرواؤںکانام ڈاکو اورلیٹرے اورغارت گررکھا جاسکتا ہے؟یقینا اگر مسلمانوں نے قریش کے قافلوں کی روک تھام کی تو اس غرض سے نہیں کی کہ ان کے قافلوں کے اموال پرقبضہ کریں بلکہ اس لئے کی کہ تدابیر جنگ کا تقاضا تھاکہ قریش کی تجارت کارستہ بند کردیاجاوے کیونکہ اس سے بہتر ان کو ہوش میں لانے اورصلح کی طرف مائل کرنے کا اورکوئی ذریعہ نہ تھا۔باقی اگرقریش کا کوئی قافلہ مغلوب ہوگیااوراس غلبہ کے نتیجہ میں اس کا مال ومتاع مسلمانوں کے ہاتھ آیاتووہ جنگ کی فتوحات کاحصہ تھا جس کا ہرقوم اورہر زمانہ میں فاتح کوحق دار سمجھا گیا ہے۔ کیا معترضین کایہ مطلب ہے کہ مسلمان کفار کے قافلوں کو توبیشک روکتے اوران کے آدمیوں کو مارتے،لیکن قافلوں کے اموال کو اپنے تصرت میں نہ لاتے بلکہ اپنے خرچ پر اپنی فوج کی حفاظت میں نہایت احتیاط کے ساتھ مکہ بھجوا دیا کرتے تاکہ ان اموال کی مددسے قریش دو چاراورجرار لشکر تیار کرکے مسلمانوں کے خلاف مدینہ پر چڑھالاتے؟اگران کا یہی خیال ہے توانہیں یہ خیال مبارک ہو۔ہمیں اعتراف ہے کہ اسلام کادامن اس قسم کی بے وقوفی اوربے غیرتی اورخودکشی کی تعلیم سے پاک ہے اوریہ کہنا کہ ان قافلوں کی روک تھام میں مسلمانوں کولوٹ مار کی تعلیم دی جاتی تھی کس قدر ظلم، کس قدر انصاف سے بعید ہے۔کیا اس قوم کو لوٹ مار کی تعلیم دی جاتی تھی جن میں سے بعض نے ایک جہاد کے سفر میں بھوک سے سخت تنگ آکر اور گویاموت کے منہ پر پہنچ کرکسی کے ایک گلہ میںسے دوچار بکریاں پکڑ کرذبح کرلیں مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے تشریف لاکر غصہ میں ہنڈیوں کوالٹ دیااورگوشت کومٹی میں مسلتے ہوئے فرمایاکہ’’یہ لوٹ کا مال تمہارے لئے کس نے حلال کیا ہے؟یہ تو ایک مردار سے بڑھ کر نہیں؟‘‘پھر کیا اس قوم کو لوٹ مار کی تعلیم دی جاتی تھی جن میں سے نومسلم لوگ جہاد پر جاتے ہوئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے آآکر پوچھتے تھے کہ یارسول اللہ!اگرلڑائی میں ایک شخص کی اصل نیت تو حفاظت دین ہو لیکن اسے کچھ یہ بھی خیال ہوکہ شاید غنیمت کامال بھی مل جائے گا،توکیا ایسے شخص کو جہادکاثواب ہوگا؟اورآپؐفرماتے تھے ’’ہرگز نہیں ہرگز نہیں ایسے شخص کیلئے کوئی ثواب نہیں ہے‘‘کیا ان واقعات کے ہوتے ہوئے قافلوں کی روک تھام کو لوٹ مار کی تعلیم سمجھا جاسکتا ہے؟ پھر یہی نہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو سمجھاتے رہتے تھے کہ جہاد میں دنیا کے خیالات کی ملونی نہیں ہونی چاہئے بلکہ صحابہ پر آپؐکی اس تعلیم کا اثر بھی تھا اوریہ اثراس قدر غالب تھا کہ وہ نہ صرف اس بات کی کوشش کرتے تھے کہ ان کے دلوں میں دنیا طلبی کے خیالات جاگزیں نہ ہوں بلکہ بعض اوقات وہ ایسے جائز موقعوں سے بھی بچتے تھے جن میں کمزور طبیعتوں کیلئے اس قسم کے خیالات پیدا ہونے کااندیشہ ہوسکتا تھا۔چنانچہ غزوہ بدر کے متعلق روایت آتی ہے کہ کئی صحابہ اس غزوہ میں اس لئے شریک نہیں ہوئے تھے کہ ان کا یہ خیال تھا کہ یہ مہم صرف قافلہ کی روک تھام کیلئے اختیار کی جارہی ہے وَاِلَّا اگران کو یہ علم ہوتا کہ قریش کے لشکر کے ساتھ جنگ ہوگا تو وہ ضرور شامل ہوتے اوریہ اس بات کا ایک عملی ثبوت ہے کہ صحابہ کوقافلوں کی روک تھام میں ان کے اموال واَمِتعہ کی وجہ سے کوئی شغف نہیں تھاکیونکہ اگرایساہوتا تو صورت حال یہ ہونی چاہئے تھی کہ کسی قافلہ کی روک تھام کے موقع پر صحابہ زیادہ کثرت کے ساتھ شامل ہونے کیلئے آگے بڑھتے،مگر یہاں معاملہ بالکل برعکس نظر آتاہے۔میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ سارے صحابہ ایک جیسے تھے۔بیشک ان میں بعض کمزور بھی تھے اورطبعاً یہ کمزوری ابتداء میں نسبتاً زیادہ تھی۔مگر جو تبدیلی صحابہ کی جماعت نے آپؐکی تربیت کے ماتحت دکھائی وہ فی الجملہ نہایت محیرالعقول اورحقیقتاً بے نظیر تھی ۔ (باقی آئندہ)
(سیرت خاتم النّبیینؐ،صفحہ323تا326،مطبوعہ قادیان2011)
…٭…٭…٭…