اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-10-05

دو فرضی واقعات

سیرت خاتم النّبیینﷺ

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

جنگِ بدر کے حالات کے بعد واقدی اور بعض دُوسرے مؤرخین نے دو ایسے واقعات درج کئے ہیں جن کا کتب حدیث اور صحیح تاریخی روایات میں نشان نہیں ملتا اور درایتاً بھی غور کیا جائے تو وہ دُرست ثابت نہیں ہوتے مگر چونکہ ان سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف ایک ظاہری صورت اعتراض کی پیدا ہو جاتی ہے، اس لیے بعض عیسائی مؤرخین نے حسبِ عادت نہایت ناگوار صورت میں ان کا ذکر کیا ہے۔ یہ فرضی واقعات یوں بیان کئے گئے ہیں کہ مدینہ میں ایک عورت عصماء نامی رہتی تھی جو اسلام کی سخت دشمن تھی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف بہت زہر اُگلتی رہتی تھی اور اپنے اشتعال انگیز اشعار میں لوگوں کو آپؐکے خلاف بہت اُکساتی تھی اور آپؐکے قتل پر اُبھارتی تھی۔ آخر ایک نابینا صحابی عمیر بن عدی نے اشتعال میں آکر رات کے وقت اس کے گھر میں جبکہ وہ سوئی ہوئی تھی اُسے قتل کر دیا اور جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو آپؐنے اس صحابی کو ملامت نہیں فرمائی بلکہ ایک گونہ اس کے فعل کی تعریف کی۔ دوسرا واقعہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک بڈھا یہودی ابو عفک نامی مدینہ میں رہتا تھا۔ یہ بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف اشتعال انگیز شعر کہتا تھا اور کفار کو آپؐکے خلاف جنگ کرنے اور آپؐکو قتل کر دینے کیلئے اُبھارتا تھا۔ آخر ایک دن اُسے بھی ایک صحابی سالم بن عمیر نے غصّہ میں آکر رات کے وقت اُس کے گھر کے صحن میں قتل کر دیا۔ اور واقدی اور ابن ہشام نے بعض وہ اشتعال انگیز اشعار بھی نقل کئے ہیں جو عصماءاور ابو عفک نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف کہے تھے۔ان دو واقعات کو سرولیم میور وغیرہ نے نہایت ناگوار صورت میں اپنی کتابوں کی زینت بنایا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جرح اور تنقید کے سامنے یہ واقعات دُرست ثابت ہی نہیں ہوتے۔ پہلی دلیل جو ان کی صِحت کے متعلق شبہ پیدا کرتی ہے یہ ہے کہ کتب احادیث میں ان واقعات کا ذکر نہیں پایا جاتا۔ یعنی کسی حدیث میں قاتل یا مقتول کا نام لے کر اس قسم کا کوئی واقعہ بیان نہیں کیا گیا بلکہ حدیث تو الگ رہی بعض مؤرخین نے بھی ان کا ذکر نہیں کیا، حالانکہ اگر اس قسم کے واقعات واقعی ہوئے ہوتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ کتب حدیث اور بعض کتب تاریخ ان کے ذکر سے خالی ہوتیں۔ اس جگہ یہ شُبہ نہیں کیا جاسکتا کہ چونکہ ان واقعات سے بظاہر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐکے صحابہ ؓ کے خلاف ایک گونہ اعتراض وارد ہوتا تھا، اس لئے محدّثین اور بعض مؤرخین نے ان کا ذِکر ترک کر دیا ہو گا، کیونکہ اوّل تو یہ واقعات ان حالات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے جن میں وہ وقوع پذیر ہوئے قابلِ اعتراض نہیں ہیں۔ دوسرے جو شخص حدیث و تاریخ کا معمولی مطالعہ بھی رکھتا ہے اس سے یہ بات مخفی نہیں ہو سکتی کہ مسلمان محدّثین اور مؤرخین نے کبھی کسی روایت کے ذکر کو محض اس بناء پر ترک نہیں کیا کہ اس سے اسلام اور بانیٔ اسلام پر بظاہر اعتراض وارد ہوتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا مسلّمہ طریق تھا کہ جس بات کو بھی وہ ازروئے روایت صحیح پاتے تھے اُسے نقل کرنے میں وہ اس کے مضمون کی وجہ سے قطعاً کوئی تأمل نہیں کرتے تھے بلکہ اُن میں سے بعض محدّثین اور اکثر مؤرخین کا تو یہ طریق تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐکے صحابہ ؓ کے متعلق جو بات بھی انہیں پہنچتی تھی خواہ وہ روایت و درایت دونوں لحاظ سے کمزور اور ناقابلِ اعتماد ہو وہ اُسے دیانتداری کے ساتھ اپنے ذخیرہ میں جگہ دے دیتے تھے اور اس بات کا فیصلہ مجتہد علماء پر یا بعد میں آنے والے محققین پر چھوڑ دیتے تھے کہ وہ اصول روایت و درایت کے مطابق صحیح و سقیم کا خود فیصلہ کر لیں اور ایسا کرنے میں اُن کی نیّت یہ ہوتی تھی کہ کوئی بات جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐکے صحابہ ؓ کی طرف منسوب ہوتی ہے خواہ وہ دُرست نظر آئے یا غلط وہ جمع ہونے سے نہ رہ جاوے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کی ابتدائی کتابوں میں ہر قسم کے رطب و یابس کا ذخیرہ جمع ہو گیا ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ سب قابلِ قبول ہیں بلکہ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ان میں سے کمزور کو مضبوط سے جُدا کر دیں۔ بہرحال اس بات میں ذرّہ بھر بھی گنجائش نہیں کہ کسی مسلمان محدّث یا مؤرخ نے کبھی کسی روایت کو محض اس بناء پر ردّ نہیں کیا کہ وہ بظاہر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم یا صحابہ ؓ کی شان کے خلاف ہے یا یہ کہ اس کی وجہ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم یا اسلام پر کوئی اعتراض وارد ہوتا ہے۔ چنانچہ کعب بن اشرف اور ابو رافع یہودی کے قتل کے واقعات جو عصماء اور ابو عفک کے مزعومہ واقعات سے بالکل ملتے جلتے ہیں اور جن کا بیان آگے چل کر اپنے اپنے موقع پر آئے گا حدیث و تاریخ کی تمام کتابوں میں پوری پوری صراحت اور تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں اور کسی مسلمان راوی یا محدّث یا مؤرخ نے ان کے بیان کو ترک نہیں کیا۔ اندریں حالات عصماء اور ابو عفک یہودی کے قتل کا ذکرکسی حدیث میں نہ پایا جانا، بلکہ ابتدائی مؤرخین میں سے بعض مؤرخین کا بھی اس کے متعلق خاموش ہونا اس بات کو قریباً قریباً یقینی طور پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ قصّے بناوٹی ہیں اور کسی طرح بعض روایتوں میں راہ پاکر تاریخ کا حِصّہ بن گئے ہیں۔ پھر اگر ان قِصّوں کی تفصیلات کا مطالعہ کیا جاوے تو ان کا بناوٹی ہونا اور بھی یقینی ہو جاتا ہے۔ مثلاً عصماء کے قصّہ میں ابنِ سعد وغیرہ کی روایت میں قاتل کا نام عمیر بن عدی بیان کیا گیا ہے، لیکن اس کے مقابلہ میں ابن درید کی روایت میں قاتل کا نام عمیر بن عدی نہیں بلکہ غشمیرہے۔ سہیلی ان دونوں ناموں کو غلط قرار دے کر یہ کہتا ہے کہ دراصل عصماء کو اس کے خاوند نے قتل کیا تھا جس کا نام روایتوں میں یزید بن یزید بیان ہوا ہے اور پھر بعض روایتوں میں یہ آتا ہے کہ مذکورہ بالا لوگوں میں سے کوئی بھی عصماء کا قاتل نہیں تھا بلکہ اس کا قاتل ایک نامعلوم الاسم شخص تھا جو اسی کی قوم میں سے تھا۔ مقتولہ کا نام ابنِ سعد وغیرہ نے عصماء بنت مروان بیان کیا ہے۔ لیکن علامہ عبدالبرکا یہ قول ہے کہ وہ عصماء بنت مروان نہیں تھی بلکہ دراصل عمیر نے اپنی بہن بنت عدی کو قتل کیا تھا۔ قتل کا وقت ابنِ سعد نے رات کا درمیانی حِصّہ لکھا ہے لیکن زرقانی کی روایت سے دن یا زیادہ سے زیادہ رات کا ابتدائی حِصّہ ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مقتولہ اس وقت کھجوریں بیچ رہی تھی۔
دوسرا واقعہ ابو عفک کے قتل کا ہے اس میں ابنِ سعد اور واقدی وغیرہ نے قاتل کا نام سالم بن عمیر لکھا ہے لیکن بعض روایتوں میں اس کا نام سالم بن عمرو بیان ہوا ہے اور ابن عقبہ نے سالم بن عبداﷲ بیان کیا ہے۔ اسی طرح ابو عفک مقتول کے متعلق ابن سعد نے لکھا ہے کہ وہ یہودی تھا، لیکن واقدی اسے یہودی نہیں لکھتا۔ پھر ابن سعد اور واقدی دونوں سے یہ پتہ لگتا ہے کہ سالم نے خود جوش میں آکر ابوعفک کو قتل کر دیا تھا، لیکن ایک روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اسے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہدایت سے قتل کیا گیا تھا۔ زمانہ قتل کے متعلق بھی ابن سعد اور واقدی اسے عصماء کے قتل کے بعد رکھتے ہیں، لیکن ابنِ اسحاق اور ابو الربیع اسے عصماء کے قتل سے پہلے بیان کرتے ہیں۔ یہ جملہ اختلافات اس بات کے متعلق قوی شبہ پیدا کرتے ہیں کہ یہ قصّے جعلی اور بناوٹی ہیں یا اگر ان میں کوئی حقیقت ہے تو وہ ایسی مستور ہے کہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کیا ہے اور کس نوعیت کی ہے۔
ایک اور دلیل ان واقعات کے غلط ہونے کی یہ ہے کہ ان دونوں قصّوں کا زمانہ وہ بیان کیا گیا ہے جس کے متعلق جملہ مؤرخین کا اتفاق ہے کہ اس وقت تک ابھی مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان کوئی جھگڑا یا تنازعہ رونما نہیں ہوا تھا، چنانچہ تاریخ میں غزوہ بنی قینقاع کے متعلق یہ بات مسلّم طور پر بیان ہوئی ہے کہ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ پہلی لڑائی تھی جو وقوع میں آئی اور یہ کہ بنو قینقاع وہ پہلے یہودی تھے جنہوں نے اسلام کی عداوت میں عملی کارروائی کی۔ پس یہ کس طرح قبول کیا جاسکتا ہے کہ اس غزوہ سے پہلے یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان اس قسم کا کشت و خون ہو چکا تھا اور پھر اگر غزوہ بنوقینقاع سے قبل ایسے واقعات ہو چکے تھے تو یہ ناممکن تھا کہ اس غزوہ کے بواعث وغیرہ کے بیان میں ان واقعات کا ذکر نہ آتا۔ کم از کم اتنا تو ضروری تھا کہ یہودی لوگ جو ان واقعات کی بنا پر مسلمانوں کے خلاف ایک ظاہری رنگ اعتراض کا پیدا کر سکتے تھے کہ انہوں نے ان کے ساتھ عملی چھیڑ چھاڑ کرنے میں پہل کی ہے ان واقعات کے متعلق واویلا کرتے۔ مگر کسی تاریخ میں حتیّٰ کہ خود ان مؤرخین کی کتب میں بھی جنہوں نے یہ قصّے روایت کئے ہیں قطعاً یہ ذکر نہیں آتا کہ مدینہ کے یہود نے کبھی کوئی ایسا اعتراض کیا ہو اور اگر کسی شخص کو یہ خیال پیدا ہو کہ شاید اُنہوں نے اعتراض اُٹھایا ہو مگر مسلمان مؤرخین نے اس کا ذکر نہ کیا ہوتو یہ ایک غلط اور بے بنیاد خیال ہو گاکیونکہ جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے کبھی کسی مسلمان محدث یا مؤرخ نے مخالفین کے کسی اعتراض پر پَردہ نہیں ڈالا، چنانچہ مثلاً جب سریہ نخلہ والے قصہ میں مشرکینِ مکّہ نے مسلمانوں کے خلاف اشہر حرم کی بے حرمتی کا الزام لگایا تو مسلمان مؤرخین نے کمال دیانت داری سے اُن کے اس اعتراض کو اپنی کتابوں میں درج کر دیا۔ پس اگر اس موقع پر بھی یہود کی طرف سے کوئی اعتراض ہوا ہوتا، تو تاریخ اس کے ذکر سے خالی نہ ہوتی۔ الغرض جس جہت سے بھی دیکھا جاوے یہ قصّے صحیح ثابت نہیں ہوتے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یا تو کسی مخفی دشمنِ اسلام نے کسی مسلمان کی طرف منسوب کر کے یہ قصّے بیان کر دیئے تھے اور پھر وہ مسلمانوں کی روایتوں میں دخل پاگئے اور یا کسی کمزور مسلمان نے اپنے قبیلہ کی طرف یہ جھوٹا فخر منسوب کرنے کیلئے کہ اس سے تعلق رکھنے والے آدمیوں نے بعض موذی کافروں کو قتل کیا تھا یہ روایتیں تاریخ میں داخل کر دیں۔ واﷲ اعلم۔
یہ تو وہ اصل حقیت ہے جو ان واقعات کی معلوم ہوتی ہے لیکن جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے اگر یہ واقعات دُرست بھی ہوں تو پھر بھی ان حالات کو دیکھتے ہوئے جن کے ماتحت وہ وقوع پذیر ہوئے وہ قابلِ اعتراض نہیں سمجھے جاسکتے۔ ان ایام میں جو نازک حالت مسلمانوں کی تھی اس کا ذکر اوپر کیا جاچکا ہے۔ ان کا حال بعینہٖ اس شخص کی طرح ہو رہا تھا جو ایک ایسی جگہ میں گھِر جاوے جس کے چاروں طرف دُور دُور تک خطرناک آگ شعلہ زن ہو اور اس کیلئے کوئی راستہ باہر نکلنے کا نہ ہو اور پھر اس کے پاس بھی وہ لوگ کھڑے ہوں جو اس کے جانی دشمن ہیں۔ مسلمانوں کی ایسی نازک حالت میں اگر کوئی شریر اور فتنہ پرداز شخص ان کے آقا اور سردار کے خلاف اشتعال انگیز شعر کہہ کہہ کر لوگوں کو اس کے خلاف اکساتا اور اس کے قتل پر دشمنوں کو اُبھارتا تھا، تو اس زمانہ کے حالات کے ماتحت اس کا علاج سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا تھا کہ ایسے شخص کو قتل کر دیا جاتا اور پھر یہ قتل بھی مسلمانوں کی طرف سے انتہائی اشتعال کی حالت میں ہوا۔ جس حالت میں کہ معمولی قتل بھی قصاص کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ چنانچہ مسٹر مارگولیس جیسا شخص بھی جو عموماً ہر امر میں مخالفانہ پہلو لیتا ہے ان واقعات کی وجہ سے مُسلمانوں کو قابلِ ملامت نہیں قرار دیتا، چنانچہ مسٹرمارگولیس لکھتے ہیں:
’’چونکہ عصماء نے اپنے اشعار میں اگر وہ اس کی طرف صحیح طور پر منسوب کئے گئے ہیں محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) کے قتل پر اُن کے دشمنوں کو عمدًا ابھارا تھا۔ اس لیے اس کا قتل خواہ اُسے دُنیا کے کسی معیار کے مطابق ہی جج کیا جاوے ایک بے بنیاد اور ظالمانہ فعل نہیں سمجھا جا سکتا اور پھر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ اشتعال انگیزی کا وہ طریق جو ہجوکے اشعار کی صورت میں اختیار کیا گیا وہ عرب جیسے ملک میں دُوسرے ممالک کی نسبت بہت زیادہ خطرناک نتائج پیدا کرسکتا تھا … اور یہ بات کہ صرف مجرموں کو ہی قتل کیا گیا عرب کے رائج الوقت دستور پر ایک بہت بڑی اصلاح تھی کیونکہ عربوں میں اشتعال انگیز اشعار کی وجہ سے صرف افراد تک معاملہ محدود نہیں رہتا تھا بلکہ سالم کے سالم قبائل میں خطرناک جنگ کی آگ مشتعل ہو جایا کرتی تھی۔ اس کی جگہ اسلام میں یہ صحیح اصول قائم کیا گیا کہ جُرم کی سزا صرف مجرم کو ہونی چاہئے نہ کہ اس کے عزیزو اقارب کو بھی۔ ‘‘
مسٹر مارگولیس کو اگر ان قتلوں کے متعلق کوئی اعتراض ہے، تو اس طریق کی وجہ سے ہے جو اختیار کیا گیا یعنی یہ کہ کیوں نہ ان کے جرم کا باقاعدہ اعلان کر کے انہیں باضابطہ طور پر قتل کی سزا دی گئی۔ سو اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ اگر ان واقعات کو دُرست بھی سمجھا جاوے تو وہ بعض مسلمانوں کے محض انفرادی فعل تھے جو ان سے سخت اشتعال کی حالت میں سرزد ہوئے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کا حکم نہیں دیا تھا جیسا کہ ابنِ سعد کے بیان سے یقینی طور پر پایا جاتا ہے۔ دوسرے اگر بالفرض آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا حکم ہی سمجھا جاوے تو پھر بھی یقینا اس زمانہ کے حالات ایسے تھے کہ اگر عصماء اور ابو عفک کے قتل کے متعلق باقاعدہ طور پر ضابطہ کا طریق اختیار کیا جاتا اور مقتولین کے متعلقین کو پیش از وقت اطلاع ہو جاتی کہ ہمارے آدمی قتل کئے جائیں گے تو اس کے نتائج بہت خطرناک ہو سکتے تھے اور اس بات کا سخت اندیشہ تھا کہ یہ واقعات مسلمانوں اور یہودیوں اور نیز مسلمانوں اور مشرکین مدینہ کے درمیان ایک وسیع جنگ کی آگ مشتعل کر دیتے۔ تعجب ہے کہ مسٹر مارگولیس نے جہاں محض قتل کے فعل کو عرب کے مخصوص حالات کے ماتحت جائز قرار دیا ہے وہاں طریقۂ قتل کے متعلق ان کی نظر اس زمانہ کے مخصوص حالات تک کیوں نہیں پہنچی۔ اگر وہ اس پہلو میں بھی اس وقت کے حالات کو مد نظر رکھتے تو غالباً انہیں یقین ہو جاتا کہ جو طریق اختیار کیا گیا وہی اس وقت کے حالات اور اَمنِ عامہ کے مفاد کیلئے مناسب اور ضروری تھا، لیکن اس کے متعلق زیادہ تفصیلی بحث ہم انشاء اﷲ کعب بن اشرف کے قتل کے بیان میں ہدیۂ ناظرین کریں گے۔
خلاصہ کلام یہ کہ اوّل تو عصماء اور ابو عفک یہودی کے قتل کے واقعات روایتاً اور درایتاً دُرست ثابت ہی نہیں ہوتے اور اگر بالفرض انہیں دُرست سمجھا بھی جاوے تو وہ اس زمانہ کے حالات کے ماتحت قابلِ اعتراض نہیں سمجھے جاسکتے اور پھر یہ کہ جو بھی صورت ہو یہ واقعات قتل بہرحال بعض مسلمانوں کے انفرادی افعال تھے جو سخت اشتعال کی حالت میں اُن سے سرزد ہوئے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُن کے متعلق حکم نہیں دیا تھا۔

(باقی آئندہ)

(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ 446تا 451،مطبوعہ قادیان2011)