اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-09-28

آنحضرت ﷺ کی تعدد ازدواج اور اسکی حکمتیں (بقیہ)

سیرت خاتم النّبیینﷺ

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شادیوں میں کون سی اغراض مدِّ نظر تھیں کیونکہ ہمارا اصل مضمون یہی ہے۔ سو جاننا چاہئے کہ عام اغراض تو آنحضرت ﷺکی شادیوں میں وہی تھیں جو اسلام نے عام طور پر نکاح اور تعدّدِ ازدواج کی بیان کی ہیں اور جن کا ذکر اوپر گذر چکا ہے اور ان اغراض میں سے خصوصیت کے ساتھ آپؐکے مدِّنظر بقائے نسل محبت اور رحمت کے تعلقات کی توسیع اور انتظام یتامیٰ و بیوگان کی غرضیں تھیں اور محبت اور رحمت کے تعلقات کی توسیع کی غرض کے ماتحت آپ کے پیشِ نظر ایسی عورتیں تھیں جو مصالح مذہب ،مصالح قوم و ملت اور مصالح سیاست و حکومت کے لحاظ سے زیادہ مناسب تھیں، لیکن ان عام اغراض کے علاوہ آنحضرتﷺ کے مخصوص حالات کے ماتحت آپؐکی شادیوں کی بعض خاص وجوہات بھی تھیں اور یہ اغراض دو تھیں۔ اوّل آپؐ کے ذاتی نمونہ سے بعض جاہلانہ رسوم اور غلط عقائد کی عملی تردید۔ دوم بعض مناسب عورتوں کو آپؐکی تربیت میں رکھ کر ان کے ذریعہ اسلامی شریعت کے اس حصہ کا استحکام جو مستورات کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور مسلمان عورتوں کی تعلیم و تربیت، چنانچہ اﷲ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے:
فَلَمَّا قَضٰى زَيْدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَہَا لِكَيْ لَا يَكُوْنَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ حَرَجٌ فِيْٓ اَزْوَاجِ اَدْعِيَاۗىِٕہِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَرًا۝۰ۭ وَكَانَ اَمْرُ اللہِ مَفْعُوْلًا یعنی ’’ اے رسول! جب تیرے مُنہ بنائے بیٹے زید بن حارثہ نے اپنی بیوی زینب کو طلاق دیدی تو ہم نے اس کی شادی کی تجویز خود تیرے ساتھ کر دی تاکہ اس ذریعہ سے یہ جاہلانہ رسم مِٹ جاوے کہ مُنہ بُلایا بیٹا اصل بیٹے کی طرح ہو جاتا ہے اور اسکی مطلقہ بیوی یا بیوہ بیٹا بنانے والے شخص کیلئے جائز نہیں ہوتی اور آئندہ کیلئے مومنوں کے دلوں میں اس امر کے متعلق کوئی دبدہ یا خلش باقی نہ رہے۔‘‘
اس آیت میں پہلی غرض بیان کی گئی ہے اور وہ یہ کہ آنحضرتﷺ کے عملی نمونہ کے ذریعہ سے بعض ان جاہلانہ رسوم کا استیصال کیا جاوے جو عربوں کی طبیعت میں اس قدر راسخ ہو چکی تھیں کہ ان کا حقیقی استیصال بغیر اس کے ناممکن تھا کہ آپ اس معاملہ میں خود ایک عملی نمونہ قائم کریں چنانچہ متبنّٰی بنانے کی رسم عرب میں بہت راسخ اور رائج تھی اور اس معاملہ میں الٰہی حکم نازل ہونے سے پہلے آنحضرت ﷺنے اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ کو متبنّٰی بنایا ہوا تھا، اس لیے جب یہ حکم نازل ہوا کہ کسی شخص کو محض منہ بولا بیٹا بنالینے سے وہ اصل بیٹا نہیں ہو جاتا اور اس کے بعد یہ واقعہ پیش آگیا کہ زید بن حارثہ نے اپنی بیوی زینب بنت جحش کو طلاق دیدی تو آنحضرتﷺ نے خدائی حکم کے ماتحت زینب کے ساتھ خود شادی فرمائی اور اس طرح اس جاہلانہ رسم کا استیصال کیا جو آپؐکے عملی نمونہ کے بغیر پوری طرح مِٹنی محال تھی۔ علاوہ ازیں آپؐنے زینب کے ساتھ شادی کر کے اس بات میں بھی عملی نمونہ قائم فرمایا کہ کسی طلاق شدہ عورت کے ساتھ شادی کرنا کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔
پھر فرماتا ہے:يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَہَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا ۝ وَاِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللہَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِيْمًا ۝ يٰنِسَاۗءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِنِ اتَّــقَيْتُنَّ فَلَا تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا ۝ وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاہِلِيَّۃِ الْاُوْلٰى وَاَقِمْنَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتِيْنَ الزَّكٰوۃَ وَاَطِعْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۝۰ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللہُ لِيُذْہِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَيْتِ وَيُطَہِّرَكُمْ تَطْہِيْرًا ۝ وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلٰى فِيْ بُيُوْتِكُنَّ مِنْ اٰيٰتِ اللہِ وَالْحِكْمَۃِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ لَطِيْفًا خَبِيْرًا ۝یعنی ’’ اے نبی! تم اپنی بیویوں سے کہدو کہ اگر تمہیں یہ خواہش ہے کہ دنیا کی زندگی کا سازو سامان تمہیں مل جاوے تو آؤ میں تمہیں دنیا کا مال و متاع دیئے دیتا ہوں، مگر اس صورت میں تم میری بیویاں نہیں رہ سکتیں بلکہ پھر میں احسان و مروت کے ساتھ تمہیں رخصت کر دوں گا۔ لیکن اگر تم خدا اور اسکے رسول کی خواہش رکھتی ہواور آخرت کا اجر چاہتی ہو تو سُن لو کہ تم میں سے ان نیکو کاروں کیلئے جو خدا کے منشاء کو پورا کریں خدا نے بہت بڑا اجر تیار کیا ہے … اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم تقویٰ اختیار کرو اور نماز کو اسکی اصلی صورت میں قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور خدا اور اسکے رسول کی پوری پوری اطاعت کرو (کیونکہ خدا نے تمہیں ایک خاص کام کیلئے چُنا ہے) اے نبی کے اہلِ بیت! اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے ہر قسم کی کمزوریوں اور نقصوں کو دُور کر کے تمہیں خوب اچھی طرح پاک و صاف کر دے تاکہ تم ان آیاتِ الٰہی اور ان حکمت کی باتوں کو لوگوں تک پہنچاؤ جو نبی کے ذریعہ سے تمہارے گھروں میں سُنائی جاتی ہیں اور خدا تعالیٰ تمہارے ذریعہ سے یہ کام اس لیے لینا چاہتا ہے کہ وہ اگر بوجہ لطیف ہونے کے خود لوگوں کی نظروں سے اوجھل اور مخفی ہے تو بوجہ خبیر ہونے کے وہ لوگوں کی ضروریات سے آگاہ بھی ہے۔ پس ضروری ہے کہ وہ ہدایتِ خلق کا کام انسانوں کے واسطے سے سرانجام دے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں آنحضرت ﷺ کے تعدد ازدواج کی مخصوص غرض میں سے دوسری اور بڑی غرض بتائی گئی ہے یعنی یہ کہ آپؐکے ساتھ مناسب مستورات کو بطور بیویوں کے رکھ کر انہیں مسلمان عورتوں کی تعلیم و تربیت کیلئے تیار کیا جاوے۔ یہ وہ خاص الخاص غرض ہے جس کے ماتحت آپؐکی شادیاں وقوع میں آئیں اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک ایسی غرض ہے جو آپؐکی ذات کے ساتھ مخصوص تھی اور اسی لیے عام مسلمانوں کیلئے جو حد بندی تعدّدِ ازدواج کی مقرر کی گئی ہے اس سے آپ مستثنیٰ تھے۔ دراصل چونکہ آپ ایک شرعی نبی تھے اور آپؐکے ذریعہ سے دنیا میں ایک نئے شرعی قانون اور نئے تہذیب و تمدن کی بنیاد پڑنی تھی اس لیے صرف اس قدر کافی نہیں تھا کہ آپؐکے ذریعہ نئے احکام کی اشاعت ہو جاتی بلکہ اس بات کی بھی ضرورت تھی کہ آپ خود اپنی نگرانی میں اس نئی شریعت کو تفصیلاً جاری فرماتے اور لوگوں کی زندگیوں کو اس جدید داغ بیل پر عملاً چلا دیتے جو اسلام نے قائم کی تھی۔ یہ کام ایک نہایت مشکل اور نازک کام تھا اور گو مردوں کے معاملہ میں بھی آپ کے رستے میں بہت سی مشکلات تھیں لیکن مستورات کے متعلق تو یہ ایک نہایت ہی مشکل کام تھا کیونکہ اوّل تو بوجہ ان کے عموماً اپنے گھروں میں رہنے اور اپنے خانگی مشاغل کی مصروفیت کے انہیں آپؐکی صحبت سے مستفیض ہونے کے زیادہ موقعے نہیں تھے۔ دوسرے اس طبعی حیاء کی وجہ سے جو عورتوں میں ہوتی ہے وہ ان مخصوص مسائل کو جو عورتوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں زیادہ آزادی کے ساتھ آپؐسے دریافت نہیں کر سکتی تھیں اور اس کے مقابلہ میں عورتوں میں تعلیم کی نسبتاً کمی اور جاہلانہ رسوم کی پابندی نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے مقررہ طریق میں کسی قسم کی تبدیلی کرنے کیلئے جلد تیار نہیں ہوتیں ان حالات میں عورتوں کی تعلیم و تربیت کے متعلق خاص انتظام کی ضرورت تھی اور اسکی بہترین صورت یہی تھی کہ آنحضرتﷺ مناسب عورتوں کے ساتھ شادی کرکے انہیں اپنی تربیت میں اس کام کے قابل بنادیں اور پھر آپ کی یہ ازواج مسلمان عورتوں کی تعلیم و تربیت کا کام سرانجام دیں؛ چنانچہ یہ تجویز کارگر ہوئی اور مسلمان عورتوں نے بڑی خوبی کے ساتھ اور نہایت قلیل عرصہ میں اپنی زندگیوں کو جدید شریعت کے مطابق بنالیا۔ حتّٰی کہ دنیاکی کسی قوم میں یہ مثال نظر نہیں آتی کہ طبقہ نسواں نے ایسے قلیل عرصہ میں اور اس درجہ تکمیل کے ساتھ ایک بالکل نئے قانون اور نئے تہذیب و تمدن کو اختیار کر لیا ہو۔
اس بات کا ایک عملی ثبوت کہ آنحضرت ﷺ کی شادیاں نفسانی اغراض کے ماتحت نہیں تھیں بلکہ دینی اغراض کے ماتحت تھیں اس بات سے بھی ملتا ہے کہ آپؐنے بعض ایسی عورتوں کے ساتھ شادی فرمائی جو اتنی عمر کو پہنچ چکی تھیں کہ وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں رہی تھیں۔ مثلاً حضرت ام سلمہ ؓ جن سے آپؐنے 4 ہجری میں شادی فرمائی۔ ان کی عمر شادی کے وقت پیدائش اولاد وغیرہ کی حد سے تجاوز کر چکی تھی۔ چنانچہ انہوں نے اس بناء پر عذر بھی کیا، مگر چونکہ آپؐکی غرض و غایت دینی تھی اور اس غرض کیلئے وہ بہت مناسب تھیں۔ اس لیے آپؐ نے ان کو باصرار رضا مند کر کے ان کے ساتھ شادی فرمالی۔
الغرض وہ اغراض جن کے ماتحت آنحضرتﷺ کی شادیاں وقوع میں آئیں نہایت مبارک اور پاکیزہ تھیں اور ان میں غالب طور پر فرائضِ نبوت کی ادائیگی مدِّ نظر تھی اور شادیوں پر ہی موقوف نہیں بلکہ اگر آنحضرتﷺ کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کیا جاوے تو پتہ لگتا ہے کہ آپؐجو کام بھی کرتے تھے خواہ وہ بظاہر دنیا کا ہو یا دین کا اس میں بلا واسطہ یا بالواسطہ آپؐ کی مقدم اور غالب غرض فرائض نبوت کی ادائیگی ہوتی تھی اور دنیا کی نعمتوں سے آپؐکو کبھی بھی شغف نہیں ہوا اور مندرجہ ذیل حدیث یقینا آپ کی زندگی کا بہترین نقشہ ہے:عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ اَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی ﷲ علیہ وسلم نَامَ علٰی حَصِیْرٍ فَقَامَ وَقَدْ اَثَرَ فِیْ جَسَدِہٖ فَقَالَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ یَا رَسُوْلَ ﷲِ لَوْ اَمَرْ تَنَا اَنْ نَبْسُطَ لَکَ وَنَعْمَلَ فَقَالَ مَالِیْ وَلِلدُّنْیَا وَمَااَنَا وَالدُّنْیَا اِلَّا کَرَاکِبٍ اِسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَھَایعنی ’’ ابنِ مسعود روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ ایک موٹی اور کھردری چٹائی پر لیٹ کر سوگئے جب آپؐاُٹھے تو اس چٹائی کا نشان آپؐکے جسم پر نظر آتا تھا۔ اس پر میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ آپ پسند فرمائیں تو ہم آپؐکیلئے آرام و آسائش کا سامان مہیا کر دیں۔ آپؐنے فرمایا ابنِ مسعود! مجھے دنیا کی نعمتوں سے کیا کام ہے میری اور دنیا کی مثال تو یہ ہے کہ ایک سوار راستہ پر چلا جاتا ہو اور وہ تھوڑی دیر کیلئے کسی درخت کے سایہ کے نیچے دم لینے کیلئے ٹھہر جاوے اور پھر اُٹھ کر اپنا راستہ لے لے۔
اس حدیث سے یہ مراد نہیں ہے کہ دُنیا کی نعمتوں سے متمتّع ہونا منع ہے کیونکہ اسلام کسی جائز نعمت سے جائز طور پر مُتمتّع ہونے سے منع نہیں کرتا بلکہ خود قرآن شریف میں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ رَبَّنَآاٰتِنَافِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃًیعنی ’’ اے ہمارے رب ہمیں دنیا کی نعمتوں سے بھی حصہ دے اور آخرت کی نعمتوں سے بھی حصہ دے۔‘‘
پس حدیث مندرجہ بالا سے صرف مراد یہ ہے کہ انسان کو اپنی زندگی کا اصل مقصد دنیا کی نعمتوں کا حصول نہیں سمجھنا چاہئے اور نیز اس حدیث سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو ذاتی طور پر دنیا کی نعمتوں سے قطعاً کوئی شغف نہیں تھا اور جہاں تک نعماء دنیا کا تعلق ہے آپ کی زندگی ایک محض مسافرانہ زندگی تھی۔
تعدّد ازدواج کے متعلق اس نوٹ میں یہ ذکر بھی بے موقع نہ ہو گا کہ تعدّد ازدواج کی اجازت دینے میں اسلام اکیلا نہیں ہے بلکہ دُنیا کے اکثر مذاہب میں تعدّد ازدواج کی اجازت دی گئی ہے مثلاً موسوی شریعت میں اسکی اجازت ہے۔اور بنی اسرائیل کے بہت سے انبیاء اس پر عملاً کاربند رہے ہیں۔ہندوؤں کے مذہب میں تعدّد ازدواج کی اجازت ہے۔اور کئی ہندوبزرگ ایک سے زیادہ بیویاں رکھتے رہے ہیں مثلاً کرشن جی تعدّدِ ازدواج پر عملاً کاربند تھے۔اور ہندو راجے مہاراجے تو اب تک تعدّد ازدواج پر کار بند ہیں۔ اسی طرح حضرت مسیح ناصری کا بھی کوئی قول تعدّد ازدواج کے خلاف مروی نہیں ہے اور چونکہ شریعت موسوی میں اس کی اجازت تھی اور عملاً بھی حضرت مسیح ناصری کے زمانہ میں تعدّد ازدواج کا رواج تھا، اس لیے ان کی خاموشی سے یہی نتیجہ نکالا جائیگا کہ وہ اسے جائز سمجھتے تھے۔ پس اسلام نے اس میں کوئی جدّت نہیں کی البتہ اسلام نے یہ کیا کہ تعدّدِ ازدواج کی حد بندی کر دی اور اسے ایسے شرائط کے ساتھ مشروط کر دیا کہ افراد اور اقوام کے استثنائی حالات کیلئے ایک مفید اور بابرکت نظام قائم ہو گیا۔
اس نوٹ کے خاتمہ پر یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ گو مخالفین کی طرف سے آنحضرت ﷺکی شادیوں پر بہت سخت سخت اعتراض کئے گئے ہیں اور ہر شخص نے اپنی فطرت اور اپنے خیالات کے مطابق آپؐکے تعدّدِ ازدواج کے مسئلہ کو دیکھا ہے مگر پھر بھی صداقت کبھی کبھی مخالفین کے قلم و زبان پر بھی غالب آگئی ہے اور انہیں اگر کلی طور پر نہیں تو کم از کم جزواً حقیقت کا اعتراف کرنا پڑا ہے، چنانچہ مسٹر مارگو لیس بھی جن کی آنکھ عموماً ہر سیدھی بات کو اُلٹا دیکھنے کی عادی ہے اس معاملہ میں حقیقت کے اعتراف پر مجبور ہوئے ہیں۔ وہ اپنی کتاب ’’محمد‘‘ میں لکھتے ہیں:’’ محمد (ﷺ) کی بہت سی شادیاں جو خدیجہ ؓ کے بعد وقوع میں آئیں بیشتر یورپین مصنفین کی نظر میں نفسانی خواہشات پر مبنی قرار دی گئی ہیں لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زیادہ تر اس جذبہ پر مبنی نہیں تھیں۔ محمد (ﷺ) کی بہت سی شادیاں قومی اور سیاسی اغراض کے ماتحت تھیں کیونکہ محمد (ﷺ) یہ چاہتے تھے کہ اپنے خاص خاص صحابیوں کو شادیوں کے ذریعہ سے اپنی ذات کے ساتھ محبت کے تعلقات میں زیادہ پیوست کر لیں۔ ابو بکر و عمر کی لڑکیوں کی شادیاں یقینا اسی خیال کے ماتحت کی گئی تھیں۔ اسی طرح سربرآوردہ دشمنوں اور مفتوح رئیسوں کی لڑکیوں کے ساتھ بھی محمد (ﷺ) کی شادیاں سیاسی اغراض کے ماتحت وقوع میں آئی تھیں … باقی شادیاں اس نیت سے تھیں کہ تا آپ کو اولاد نرینہ حاصل ہو جاوے جس کی آپؐکو بہت آرزو رہتی تھی۔‘‘
یہ اس شخص کی رائے ہے جو آنحضرتﷺ کے سوانح نگاروں میں عناد اور تعصب کے لحاظ سے غالباً صفِ اوّل میں ہے اور گو مارگولیس صاحب کی یہ رائے غلطی سے بالکل پاک نہیں ہے۔ مگر اس سے یہ ثبوت ضرور ملتا ہے کہ صداقت کس طرح ایک عنید دل کو بھی مغلوب کر سکتی ہے۔ والفضل ماشھدت بہ الاعداء۔                              (باقی آئندہ)

(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ 441تا 446،مطبوعہ قادیان2011)