اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-05-11

جنگ بدر

سیرت خاتم النّبیینﷺ
(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

جنگ بدر(بقیہ )

ان انفرادی مقابلوں کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پھراپنے سائبان میں تشریف لے گئے اور جاتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ جب تک میں حکم نہ دوں عام دھاوا نہ کیا جائے اور فرمایا کہ’’اگر کفار فوری حملہ کرکے آئیں توپہلے تیروں کے ساتھ ان کا مقابلہ کرو،لیکن دیکھو تیرذرا احتیاط سے چلانا۔ایسانہ ہو کہ یونہی بے فائدہ طورپر اپنے ترکش خالی کردواورتلوار صرف اس وقت نکالو کہ جب دونوں لشکرآپس میں مل جائیں۔‘‘غالباًاسی موقع پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ سے مخاطب ہوکر یہ بھی فرمایا کہ لشکر کفار میں بعض ایسے لوگ بھی شامل ہیں جواپنے دل کی خوشی سے اس مہم میں شامل نہیں ہوئے بلکہ رئوساء قریش کے دبائو کی وجہ سے شامل ہوگئے ہیں۔ورنہ وہ دل میں ہمارے مخالف نہیں۔اسی طرح بعض ایسے لوگ بھی اس لشکر میں شامل ہیں جنہوں نے مکہ میں ہماری مصیبت کے وقت میں ہم سے شریفانہ سلوک کیا تھا اورہمارا فرض ہے کہ ان کے احسان کا بدلہ اتاریں۔ پس اگر کسی ایسے شخص پر کوئی مسلمان غلبہ پائے تواسے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچائے۔اور آپؐنے خصوصیت کے ساتھ قسم اول میں عباس بن عبدالمطلب اور قسم ثانی میں ابوالبختری کانام لیا اوران کے قتل سے منع فرمایا۔ مگرحالات نے کچھ ایسی ناگریز صورت اختیار کی کہ ابوالبختری قتل سے بچ نہ سکاگواسے مرنے سے قبل اس بات کاعلم ہوگیا تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے قتل سے منع فرمایاہے۔اسکے بعد آپؐسائبان میں جاکر پھردعا میں مشغول ہوگئے۔ حضرت ابوبکرؓ بھی ساتھ تھے اورسائبان کے ارد گرد انصار کی ایک جماعت سعد بن معاذ کی زیرکمان پہرہ پر متعین تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد میدان میں سے ایک شور بلند ہوا اورمعلوم ہوا کہ قریش کے لشکر نے عام حملہ کردیا ہے۔ اس وقت آنحضرت صلی ا للہ علیہ وسلم نہایت رقت کی حالت میں خدا کے سامنے ہاتھ پھیلائے ہوئے دعائیں کررہے تھے اورنہایت اضطراب کی حالت میں فرماتے تھے کہ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَنْشُدُکَ عَھْدَکَ وَوَعْدَکَ اَللّٰھُمَّ اِنْ تُھْلِکْ ھٰذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ اَھْلِ الْاِسْلَامِ لَا تُعْبَدَ فِی الْاَرْضِ’’اے میرے خدااپنے وعدوں کو پورا کر۔اے میرے مالک!اگر مسلمانوں کی یہ جماعت آج اس میدان میں ہلاک ہوگئی تودنیا میں تجھے پوجنے والا کوئی نہیں رہے گا۔‘‘ اوراس وقت آپؐاس قدر کرب کی حالت میں تھے کہ کبھی آپؐسجدہ میں گرجاتے تھے اور کبھی کھڑے ہوکر خداکو پکارتے تھے اور آپؐکی چادر آپؐکے کندھوں سے گر گر پڑتی تھی اورحضرت ابوبکر اسے اٹھا اٹھا کرآپؐپر ڈال دیتے تھے۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ مجھے لڑتے ہوئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاخیال آتا تھا تومیں آپؐکے سائبان کی طرف بھاگا جاتا تھا،لیکن جب بھی میں گیامیں نے آپؐکو سجدہ میں گڑگڑاتے ہوئے پایا۔اور میں نے سنا کہ آپؐکی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ یَا حَیُّی یَاقَیُّومُ یَاحَیُّی یَاقَیُّومُ۔ یعنی’’اے میرے زندہ خدا!اے میرے زندگی بخش آقا!‘‘حضرت ابوبکر آپ کی اس حالت کودیکھ کر بے چین ہوئے جاتے تھے اورکبھی کبھی بے ساختہ عرض کرتے تھے ’’یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپؐپر فدا ہوں۔آپ ؐگھبرائیں نہیں۔اللہ اپنے وعدے ضرور پورے کرے گا۔ مگر اس سچے مقولہ کے مطابق کہ ہر کہ عارف تراست ترساں تر۔‘‘آپؐ برابردعااورگریہ وزاری میں مصروف رہے۔
دوسری طرف جب دونوں فوجیں ایک دوسرے سے بھڑ گئیں توابوجہل رئیس قریش نے بھی یوں دعا کی کہ ’’اے خدا!وہ فریق جس نے رشتو ں کو توڑ رکھا ہے اوردین میں ایک بدعت پیدا کی ہے توآج اسے اس میدان میں تباہ وبرباد کر۔‘‘ ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ اس موقع پریا اس سے قبل ابوجہل نے یہ دعا کی تھی کہ’’اے ہمارے رب اگر محمد کا لایا ہوا دین سچا ہے تو آسمان سے ہم پر پتھروں کی بارش برسایا کسی اوردردناک عذاب سے ہمیں تباہ وبرباد کر۔‘‘
اب میدان کارزار میں کشت وخون کامیدان گرم تھا۔مسلمانوں کے سامنے ان سے سہ چند جماعت تھی جو ہرقسم کے سامانِ حرب سے آراستہ ہوکر اس عزم کے ساتھ میدان میں نکلی تھی کہ اسلام کا نام ونشان مٹا دیاجاوےاورمسلمان بیچارے تعداد میں تھوڑے، سامان میں تھوڑے،غربت اور بے وطنی کے صدمات کے مارے ہوئے ظاہری اسباب کے لحاظ سے اہل مکہ کے سامنے چند منٹوں کا شکار تھے،مگر توحید اوررسالت کی محبت نے انہیں متوالا بنارکھا تھا اوراس چیز نے جس سے زیادہ طاقتور دنیا میں کوئی چیز نہیں یعنی زندہ ایمان نے ان کے اندر ایک فوق العادت طاقت بھر دی تھی۔وہ اس وقت میدانِ جنگ میں خدمت دین کا وہ نمونہ دکھا رہے تھے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ہراک شخص دوسرے سے بڑھ کر قدم مارتا تھا اورخدا کی راہ میں جان دینے کیلئے بے قرار نظر آتا تھا۔حمزہ اور علی اورزبیر نے دشمن کی صفوں کی صفیں کاٹ کر رکھ دیں۔ انصار کے جوشِ اخلاص کا یہ عالم تھا کہ عبدالرحمن بن عوف روایت کرتے ہیں کہ جب عام جنگ شروع ہوئی تو میں نے اپنے دائیں بائیں نظر ڈالی۔مگر کیا دیکھتا ہوں کہ انصار کے دو نوجوان لڑکے میرے پہلو بہ پہلو کھڑے ہیں۔انہیںدیکھ کر میرا دل کچھ بیٹھ سا گیا کیونکہ ایسے جنگوں میں دائیں بائیں کے ساتھیوں پر لڑائی کابہت انحصار ہوتا تھا اوروہی شخص اچھی طرح لڑ سکتا ہے جس کے پہلو محفوظ ہوں۔مگر عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں اس خیال میں ہی تھا کہ ان لڑکوں میں سے ایک نے مجھ سے آہستہ سے پوچھا کہ گویا وہ دوسرے سے اپنی یہ بات مخفی رکھنا چاہتا ہے کہ چچا وہ ابو جہل کہاں ہے جومکہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو دکھ دیا کرتا تھا میں نے خدا سے عہد کیا ہوا ہے کہ میں اسے قتل کروں گا یاقتل کرنے کی کوشش میں مارا جائوں گا۔میں نے ابھی اس کا جواب نہ دیا تھا کہ دوسری طرف سے دوسرے نے بھی اسی طرح آہستہ سے یہی سوال کیا۔میں ان کی یہ جرأت دیکھ کر حیران سا رہ گیاکیونکہ ابوجہل گویا سردارِلشکر تھا اور اسکے چاروں طرف آزمودہ کار سپاہی جمع تھے۔میں نے ہاتھ سے اشارہ کرکے کہا کہ وہ ابوجہل ہے۔ عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میرا اشارہ کرنا تھا کہ وہ دونوں بچے باز کی طرح جھپٹے اور دشمن کی صفیں کاٹتے ہوئے ایک آن کی آن میں وہاں پہنچ گئے اوراس تیزی سے وار کیا کہ ابوجہل اوراسکے ساتھی دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے اورابوجہل خاک پرتھا۔ عکرمہ بن ابوجہل بھی اپنے باپ کے ساتھ تھا۔وہ اپنے باپ کو تو نہ بچا سکا مگر اس نے پیچھے سے معاذ پرایسا وار کیا کہ ان کا بایاں بازو کٹ کرلٹکنے لگ گیا۔معاذ نے عکرمہ کا پیچھا کیا مگر وہ بچ کرنکل گیا۔ چونکہ کٹا ہوا بازو لڑنے میں مزاہم ہوتا تھا۔معاذ نے اسے زور کے ساتھ کھینچ کراپنے جسم سے الگ کردیا اورپھر لڑنے لگ گئے۔ غرض کیا مہاجر اورکیا انصار سب مسلمان پورے زوروشور اوراخلاص کے ساتھ لڑے۔مگر دشمن کی کثرت اوراسکے سامان کی زیادتی کچھ پیش نہ جانے دیتی تھی اورنتیجہ ایک عرصہ تک مشتبہ رہا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم برابر دعا و ابتہال میں مصروف تھے اورآپ کا اضطراب لحظہ بلحظہ بڑھتا جاتا تھا مگر آخر ایک کافی لمبے عرصے کے بعد آپؐسجدہ سے اٹھے اور خدائی بشارت سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ۔ کہتے ہوئے سائبان سے باہر نکل آئے۔
باہر آکر آپؐنے چاروں طرف نظر دوڑائی توکشت وخون کا میدان گرم پایا۔اس وقت آپؐنے ریت اورکنکر کی ایک مٹھی اٹھائی اوراسے کفار کی طرف پھینکا۔ اورجوش کے ساتھ فرمایا شَاھَتِ الْوُجُوْہُ ’’دشمنوں کے منہ بگڑ جائیں۔‘‘ اورساتھ ہی آپؐنے مسلمانوں سے پکار کر فرمایا یکدم حملہ کرو۔مسلمانوں کے کانوں میں اپنے محبوب آقا کی آواز پہنچی اورانہوں نے تکبیر کا نعرہ لگا کر یکدم حملہ کردیا۔دوسری طرف ادھرآپؐکا مٹھی بھر کر ریت پھینکنا تھا کہ ایسی آندھی کا جھونکا آیا کہ کفار کی آنکھیں اورمنہ اورناک ریت اورکنکر سے بھرنے شروع ہوگئے۔آپؐنے فرمایا:یہ خدائی فرشتوں کی فوج ہے جو ہماری نصرت کوآئی ہے اورروایتوں میں مذکور ہے کہ اس وقت بعض لوگوں کویہ فرشتے نظر بھی آئے۔بہرحال عتبہ،شیبہ اورابوجہل جیسے رئوساء قریش توخاک میں مل ہی چکے تھے۔ مسلمانوںکے اس فوری دھاوے اورآندھی کے اچانک جھونکے کے نتیجہ میں قریش کے پائوں اکھڑنے شروع ہوگئے اور جلد ہی کفار کے لشکر میں بھاگڑ پڑگئی اورتھوڑی دیر میں میدان صاف تھا۔ مسلمانوںنے ستر قیدی پکڑے اور جب لڑائی کے بعد مقتولین کی دیکھ بھال کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہی تعداد قریش کے مقتولین کی تھی اورجب مقتولین کی شناخت ہوئی توقرآنی آیت وَیَقْطَعَ دَابِرَ الْکَافِرِیْنَ کی ہیبت ناک تفسیرآنکھوں کے سامنے تھی۔یعنی تمام بڑے بڑے رئوساء قریش خاک میں ملے پڑے تھے اورجو ایک دو رئیس بچے تھے وہ مسلمانوں کے ہاتھ میں قیدی تھے۔البتہ شروع شروع میں ابو جہل کی لاش نظر نہ آتی تھی۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی جاکر اچھی طرح دیکھے کہ ابوجہل کاکیا حال ہے۔عبداللہ بن مسعود گئے اور دیکھ بھال کے بعد اسے ایک جگہ جان توڑتے ہوئے پایاجبکہ وہ قریباً ٹھنڈا ہوچکاتھا۔عبداللہ نے اس سے پوچھا توہی ابوجہل ہے؟ اس نے کہا ھَلْ فَوْقَ رَجُلٍ قَتَلْتُمُوْہٗ کیا تم نے مجھ سے بھی کوئی بڑا شخص قتل کیا ہے؟‘‘یعنی میں سب سے بڑا آدمی ہوںجو تم نے مارا ہے۔‘‘پھر کہنے لگا لَوْ غَیْرَ اِکَارٍقَتَلَنِیْ ’’کاش میں کسی کسان کے ہاتھ سے قتل نہ ہوتا۔‘‘ پھر اس نے پوچھا کہ میدان کس کے ہاتھ میں رہا ہے؟ عبداللہ نے جواب دیاخدا اوراس کے رسول کے ہاتھ۔‘‘اس کے بعد ابو جہل بالکل بے حس وحرکت ہو گیا اور جان دے دی۔ اور عبداللہ بن مسعود نے واپس آکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس کے قتل کی اطلاع دی۔امیہ بن خلف جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشگوئی کی وجہ سے مکہ سے نہیں نکلتا تھا، مگر جس کا دل عداوتِ اسلام اوربغضِ رسولؐ سے بھرا ہوا تھا اس کا انجام یوں ہوا کہ جس وقت لشکر قریش پسپا ہوا اس نے اپنے جاہلیت کے دوست عبدالرحمن بن عوف کے پاس پناہ ڈھونڈی جن کا اسکے ساتھ یہ معاہدہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کی حفاظت کریں گے ،لیکن جونہی کہ بلالؓ کی نظر امیہ پرپڑی اس نے شور مچا دیا کہ دیکھو یہ رأس الکفر بچ کر نکلا جارہا ہے،جس پر چند انصاریوں نے اس کا پیچھا کیا اور اس کے ساتھ لڑکر اسے مار کرگرا دیابلکہ اسے بچاتے بچاتے حضرت عبدالرحمن بن عوف بھی کسی قدر زخمی ہوگئے۔

(سیرت خاتم النّبیین صفحہ 355تا 360 مطبوعہ قادیان2011)