اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-09-21

آنحضرت ﷺکی تعدد ازدواج اور اسکی حکمتیں (بقیہ)

سیرت خاتم النّبیینﷺ
(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

پھر حدیث میں آتا ہے:عَنْ مَعْقَلِ بْنِ یَسَارٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی ﷲ علیہ وسلم تَزَوَّجُوا الْوَدُوْدَ الْوَلُوْدَ فَاِنِّیْ مُکَاثِرٌ بِکُمُ الْاُمَمَیعنی ’’معقل بن یسار روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے اصحاب سے فرماتے تھے کہ تمہیں چاہئے کہ محبت کرنے والی زیادہ بچے دینے والی عورتوں کے ساتھ شادیاں کیا کرو، تاکہ تمہاری تعداد ترقی کرے اور میں قیامت کے دن اپنی امت کی زیادتی پر فخر کر سکوں۔‘‘
اس حدیث میں تکثیر نسل والی غرض کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
اس طرح یہ کل سات اغراض ہوتی ہیں جو اسلام نے تعدد از دواج کے متعلق بیان کی ہیں۔ یعنی جسمانی اور روحانی بیماریوں سے حفاظت ، بقائے نسل ، رفاقتِ قلب ، محبت و رحمت کے تعلقات کی توسیع ، انتظامِ یتامیٰ، انتظامِ بیوگان اور ترقی نسل ۔ لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان اغراض کو حاصل کس طرح کیا جاوے۔ یعنی کس اصل کے ماتحت بیوی کا انتخاب کیا جاوے کہ یہ اغراض احسن صورت میں حاصل ہو سکیں۔ سو اس کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
تُنْکَحُ الْمَرْاۃُ لِاَرْبَعٍ لِمَالِھَا وَلِحَسَبِھَا وَلِجَمَالِھَاوَلِدِ یْنِھَا فَاظْفِرْ بِذَاتِ الدِّیْنِ تَرِ بَتْ یَدَاکَ یعنی ’’ نکاح میں عورت کا انتخاب چار قسم کے خیالات کے ماتحت کیا جاتا ہے۔ بعض لوگ عورت کی مالی حالت کی بنا پر بیوی کا انتخاب کرتے ہیں بعض کو حسب و نسب کا خیال ہوتا ہے۔ بعض خوبصورتی اور حُسن دیکھتے ہیں اور بعض لوگ عورت کی اخلاقی اور دینی حالت کو مدِ نظر رکھتے ہیں، لیکن اے مسلمانو! تمہیں چاہئے کہ تم ہمیشہ دینی پہلو کو ترجیح دیا کرو۔ یہی تمہاری کامیابی کا طریق اور یہی دین و دنیا کی خرابی سے بچنے کا طریق ہے۔‘‘
اس حدیث میں نکاح کی اغراض کے حصول کیلئے بیوی کے انتخاب کا اصول بتایا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ دینی پہلو کو ترجیح دی جاوے اور دین سے صرف عورت کی ذاتی دینی یا اخلاقی حالت مراد نہیں ہے اور نہ دین کا لفظ عربی زبان میں محض مذہب اور عقیدہ کے معنوں میں آتا ہے بلکہ جیسا کہ عربی کی مشہور لغت اقرب الموارد میں تشریح کی گئی ہے دین کا لفظ عربی زبان میں مندرجہ ذیل معانی کے اظہار کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ اوّل اخلاق و عادات ، دوم رُوحانی پاکیزگی اور طہارت ، سوم مذہب ، چہارم قوم و ملّت ، پنجم سیاست و حکومت۔ پس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ عورت کے انتخاب میں دینی پہلو کو ترجیح دی جاوے اس میں جہاں یہ مراد ہے کہ بیوی ایسی ہونی چاہئے جو ذاتی طور پر اخلاق و عادات اور تقویٰ و طہارت اور مذہب و عقیدہ میں اچھی ہو تاکہ خاوند اور بیوی کے تعلقات بھی اچھے رہیں اور آئندہ اولاد پر بھی اچھا اثر پڑے ، وہاں یہ بھی مراد ہے کہ بیوی کے انتخاب میں وہ عام دینی پہلو بھی جو مصالحِ مذہب اور مصالحِ قوم و ملّت اور مصالحِ سیاست و حکومت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اپنے اپنے موقع پر مدِّنظر رہنے چاہئیں اور اگر اس جگہ کسی کو یہ شبہ گذرے کہ گو لغوی طور پر یہ سب معانی درست ہوں مگر یہ کس طرح تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ ایک ہی لفظ میں ایک ہی وقت میں اتنے معانی مراد ہوں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ایک مُقَنِّن نبی تھے۔ آپؐ کا کلام قانونی کلام کا رنگ رکھتا تھا جو ہمیشہ جامع المعانی اور وسیع المفہوم ہوتا ہے اور اسکے ایک ایک لفظ میں کئی کئی پہلو مدِّ نظر ہوتے ہیں اور اسی روشنی میں ہمیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے کلام کے معنے کرنے چاہئیں اور بہرحال جب لغوی طور پر یہ معانی درست ہیں تو کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ اسلام نے نکاح کی اغراض چار اور تعدّدِ ازدواج کی اغراض سات بیان کی ہیں اور ان اغراض کے بہترین حصول کیلئے بیوی کے انتخاب کے متعلق یہ ہدایت دی ہے کہ اس میں عورت کی ذاتی خوبی کے علاوہ مصالحِ مذہب اور مصالحِ قوم و ملّت اور مصالحِ سیاست و حکومت کو ترجیح دینی چاہئے۔ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ نکاح کے معاملہ میں اور خوبیوں کو نہ دیکھا جاوے کیونکہ انحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی دوسری احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپؐنے مسلمانوں کو عورت کی دوسری خوبیوں کے مدّ نظر رکھنے کی بھی اجازت دی ہے بلکہ بعض اوقات خود اس کی تحریک فرمائی ہے کہ دوسری باتوں کو بھی دیکھ لیا کرو۔ چنانچہ باوجود پردہ کے احکام کے آپؐیہ تحریک فرماتے تھے کہ نکاح سے پہلے مرد کو چاہئے کہ عورت کو خود دیکھ لےتاکہ بعد میں شکل و صورت کی ناپسندیدگی کی وجہ سے اس کی طبیعت میں کسی قسم کا تکدّر نہ پیدا ہو۔ اسی طرح مناسب حد تک مالی حالت کے مدِّ نظر رکھنے کی بھی تحریک کی گئی ہے۔ اسی طرح ایک حد تک عمر اور طبیعت کی مناسبت کو بھی ملحوظ رکھنے کی سفارش کی گئی ہے اور یہی اصول دوسرے حالات میں چسپاں ہوتا ہے مگر جس بات کی اسلام ہدایت دیتا ہے وہ یہ ہے کہ ان باتوں کو دینی پہلو کے مقابلہ میں ترجیح نہیں دینی چاہئے کیونکہ اگر دینی پہلو کی خوبیاں موجود نہ ہوں تو محض یہ خوبیاں حقیقی اور دائمی خوشی کی بنیاد نہیں بن سکتیں بلکہ بعض صورتوں میں مُضر اور نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔
اب ایک طرف تعدّدِ ازدواج کی اغراض اور دوسری طرف اس اصول کو جو بیویوں کے انتخاب کیلئے اسلام نے تجویز کیا ہے، مدِّ نظر رکھا جاوے تو ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک نہایت ہی بابرکت انتظام ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے دنیا میں قائم کیا ہے اور اس میں بنی نوع انسان کے بڑے سے بڑے حصہ کی بڑی سے بڑی بھلائی مدِّ نظر ہے۔ دراصل جن لوگوں نے تعدّد ازدواج کے خلاف رائے ظاہر کی ہے انہوں نے اپنی نظر کو بہت ہی محدود رکھا ہے اور خاوند وبیوی کے جذباتی تعلقات کے سوا کسی اور بات کی طرف ان کی نظر نہیں اٹھی اور نہ ان لوگوں نے کبھی ٹھنڈے دل سے نکاح کی اغراض اور بنی نوع انسان کی ضروریات کے متعلق غور کیا ہے، ورنہ یہ مسئلہ ایسا نہیں تھا کہ کوئی فہمیدہ شخص اس کی خوبیوں سے انکار کی گنجائش پاتا۔ پھر یہ بھی نہیں سوچا گیا کہ تعدّد از دواج کا انتظام اسلام میں قاعدہ کے طور پر نہیں ہے بلکہ یہ ایک استثناء ہے جو نکاح کی جائز اغراض کے حصول اور نسل انسانی کی جائز ضروریات کے پورا کرنے کیلئے خاص خاص قسم کے حالات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے جاری کی گئی ہے۔ پس اسکے متعلق رائے لگاتے ہوئے اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ کیا دُنیا میں انسان کو ایسے حالات پیش نہیں آسکتے کہ جن کے ماتحت تعدّدِ ازدواج ایک ضروری علاج قرار پاتا ہے اور انسان کی ذات یا اسکے خاندان یا اس کی قوم یا اس کے ملک کے مفاد اس بات کے ساتھ وابستہ ہو جاتے ہیں کہ وہ دوسری بیوی سے شادی کرے۔ مجھے شہنشاہ نپولین کی زندگی کا وہ واقعہ نہیں بھولتا کہ جب اس نے اپنے ملکی مفاد کے ماتحت حصولِ اولاد کی غرض سے دوسری بیوی کی ضرورت محسوس کی۔ مگر یہ ضرورت کس طرح پوری کی گئی؟ اس کے تصور سے میرے بدن پر ایک لرزہ آجاتا ہے۔ شہنشاہ کی ملکہ جوزفین کی طلاق کا واقعہ تاریخ کے تاریک ترین واقعات میں سے ہے اور اس کی تہہ میں یہی جھوٹا جذباتی خیال ہے کہ انسان کو کسی صورت میں بھی ایک سے زیادہ بیوی نہیں کرنی چاہئے۔ افسوس! اس جھوٹے جذباتی خیال نے کئی کمزور لوگوں کے تقویٰ پر ڈاکہ ڈالا۔ کئی خاندانوں کو بے نسل کر کے دنیا سے مٹا دیا۔ کئی گھروں کی خوشیوں کو تباہ کیا۔ کئی گھرانوں اور کئی قوموں اور کئی ملکوں کے اتحاد کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ کئی یتیموں کو آوارہ کیا۔ کئی بیوگان کو کسمپرسی کی حالت میں چھوڑا۔ کئی قوموں کی نسل کو تنزّل کے رستے پر ڈال کر ان کی تباہی کا بیج بویا اور یہ سب کچھ صرف اس لیے ہوا کہ عورت ہر صورت میں اپنے خاوند کی توجہ کی اکیلی مالک بنی رہے! مگر یہ ایک عجیب قربانی ہے کہ بڑی چیز کو چھوٹی چیز پر قربان کیا جاتا ہے؛ حالانکہ حق یہ تھا کہ اخلاقی فوائد پر مادی فوائد قربان کئے جاتے۔ دینی منافع پر دنیاوی منافع قربان کئے جاتے۔ خاندانی مصالح پر ذاتی مصالح قربان کئے جاتے۔ قومی مفاد پر انفرادی مفاد قربان کیے جاتے اور درحقیقت تعدّدِ ازدواج کا تو انتظام ہی ایک مجسم قربانی کا انتظام ہے اور اس میں خاوند اور بیوی دونوں کی ذاتی اور جسمانی قربانی ذریعہ اخلاق اور دینی اور خاندانی اور قومی اور ملکی مصالح کیلئے راستہ کھولا گیاہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ اسلام میں تعدّد ازدواج کا انتظام ایک استثنائی انتظام ہے جو انسانوں کی خاص ضروریات کو مدِّ نظر رکھ کر جاری کیا گیا ہے اور یہ ایک قربانی ہے جو مرد اور عورت دونوں کو اپنے اخلاق اور دین اور خاندان اور قوم اور ملک کیلئے خاص حالات میں کرنی پڑتی ہے اور اسلام ہر شخص سے امید رکھتا ہے کہ وہ اس قسم کے حالات کے پیدا ہونے پر جو تعدّد ازدواج کیلئے ضروری ہیں اپنی خواہش اور اپنے جسمانی آرام کو زیادہ بڑے مفاد کیلئے قربانی کر دینے میں تامل نہیں کریگا اور موقع پیش آنے پر یہ ثابت کردے گا کہ اس کی زندگی صرف اس کی ذات یا اس کے گھر تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ دنیا کی وسیع انسانیت کا ایک فرد ہے جس کی خاطر اسے اپنے شخصی مفاد کے قربان کرنے میں دریغ نہیں کرنا چاہئے۔
پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ تعدّد از دواج کی جائز ضرورت کے پیدا ہونے پر بھی اسلام نے تعدّدِ ازدواج کو لازمی نہیں قرار دیا بلکہ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے اسے اس شرط کے ساتھ مشروط کر دیا ہے کہ اگر انسان عدل کرنے کے قابل ہو تو تب تعدّدِ ازدواج پر عمل کرے، ورنہ بہرحال صرف ایک بیوی پر ہی اکتفا کرے اور عدل سے اس جگہ صرف بیویوں کے درمیان عدل کرنا مراد نہیں بلکہ ان کے ہر قسم کے حقوق کا ادا کرنا مراد ہے جو تعدّدِ ازدواج کی صورت میں انسان پر عائد ہوتے ہیں۔ پس تعدّد از دواج کی دو شرطیں ہوئیں۔ اوّل ان جائز اغراض میں سے کسی غرض کا پیدا ہو جانا جو اسلام نے اس کیلئے مقرر کی ہیں۔ دوم انسان کا عدل کر سکنے کے قابل ہونا اور ان دونوں شرطوں کے پورا ہونے کے بغیر تعدّدِ ازدواج پر عمل کرنے والا شخص اپنے وقت، اپنی توجہ، اپنے مال، اپنے ظاہری سلوک غرضیکہ دل کی محبت کے سوا جس پر انسان کو اختیار نہیں ہوتاباقی سب چیزوں میں اپنی بیویوں کے ساتھ بلا کم و کاست ایک سا معاملہ کرے اور غور کیا جاوے تو یہ پابندی خود ایک عظیم الشان قربانی ہے جو خاوند کو کرنی پڑتی ہے۔ خصوصاً ایسی حالت میں کہ اسے اپنی بیویوں میں سے ان کے ذاتی حالات اور ذاتی قابلیت کے فرق کی وجہ سے کسی سے زیادہ محبت ہوتی ہے اور کسی سے کم ۔ مگر پھر بھی وہ مجبور ہوتا ہے کہ اپنی ہر چیز کو ترازو کی طرح تول کر اپنی بیویوں میں برابر برابر تقسیم کرے اور یہ قربانی صرف خاوند ہی کی قربانی نہیں بلکہ اس قربانی میں اس کی بیویاں بھی برابر کی شریک ہوتی ہیں۔ ان حالات میں ہر عقلمند شخص سمجھ سکتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ اسلام نے تعدِّد ازدواج کے معاملہ میں تعیش کے خیال تک سے منع فرمایا ہے بلکہ اس نے اس کیلئے عملی طور پر شرطیں بھی ایسی لگادی ہیں کہ کوئی شخص ان شرطوں پر کاربند ہوتا ہوا عیش و عشرت میں پڑہی نہیں سکتا۔
اس موقع پر یہ ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اسلام سے پہلے عربوں میں بلکہ دنیا کی کسی قوم میں بھی تعدِّد ازدواج کی کوئی حد بندی نہیں تھی اور ہر شخص جتنی بیویاں بھی چاہتا تھا رکھ سکتا تھا۔ مگر اسلام نے علاوہ دوسری شرائط عائد کرنے کے تعداد کے لحاظ سے بھی اسے زیادہ سے زیادہ چار تک محدود کر دیا۔ چنانچہ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ جن نو مسلموں کی چار سے زیادہ بیویاں تھیں انہیں یہ حکم دیا جاتا تھا کہ وہ باقیوں کو طلاق دیدیں۔ مثلاً غیلان بن سلمہ سقفی جب مسلمان ہوئے تو ان کی دس بیویاں تھیں جن میں سے چھ کو حکماً طلاق دلوادی گئی۔

(باقی آئندہ)

(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ 437تا 441،مطبوعہ قادیان2011)
…٭…٭…٭…