اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-06-22

موجود الوقت غلاموں کی اصلاح کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم(بقیہ حصہ)

سیرت خاتم النّبیینﷺ

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

پھر فرماتا ہے:لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِنْۢ بَعْدُ … اِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ
’’اوراے رسول!جو شادیاںتم اب تک کرچکے ہو (یہ تمہاری تبلیغی تربیتی اورسیاسی ضروریات کیلئے کافی ہیں اس لئے)اب اسکے بعد تمہیں کوئی اور شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔البتہ اگر کسی غلام عورت کے ساتھ رشتہ کاسوال پیدا ہو تو تمہیں اسکی اجازت ہے۔‘‘
یہ حکم بھی اسی غرض وغایت کاحامل ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے اوراس میں مزید غرض یہ شامل ہے کہ تا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے طریق عمل سے مسلمانوں کیلئے ایک بہترین نمونہ قائم ہوجاوے۔
پھرفرماتا ہے:وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِہِنَّ…اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُہُنَّ
’’یعنی اے مسلمان عورتو!تم اپنی زینت سوائے اپنے خاوندوں اور فلاں فلاں قریبی رشتہ داروں کے کسی پر ظاہر نہ کیا کرو۔یعنی پردے کی ان حدود کو مدنظررکھو جو تمہارے لئے مقرر کی گئی ہیں۔البتہ تمہیں اپنے غلاموں سے پردہ نہیں کرنا چاہئے۔‘‘
اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ غلاموں کے متعلق اسلامی تعلیم کا اصل منشاء یہ تھا کہ مسلمان انہیں بالکل اپنے قریبی عزیزوں کی طرح سمجھیں۔ حتّٰی کہ مسلمان عورتیں اپنے غلاموں سے پردہ بھی نہ کریں تاکہ غیریت کااحساس بالکل جاتا رہے اور رشتہ داروں کاسااختلاط پیدا ہوجائے۔
پھرحدیث میں آتا ہے:عَنْ اَبِیْ ذَرٍّقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ اِخْوَانَکُمْ خَوَلُکُمْ جَعَلَھُمُ اللّٰہُ تَحْتَ اَیْدِیْکُمْ فَمَنْ کَانَ اَخُوْہُ تَحْتَ یَدِہٖ فَلْیُطْعِمْہُ مِمَّا یَاکُلُ وَلْیُلْبِسْہُ مِمَّا یَلْبِسُ وَلَا تُکَلِّفُوْھُمْ مَایَغْلِبُھُمْ فَاِنْ کَلَّفْتُمُوْھُمْ مَایَغْلِبُھُمْ فَاَعِیْنُوْھُمْ
یعنی’’ابوذر روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ’’تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں۔پس جب کسی شخص کے ماتحت کوئی غلام ہوتو اسے چاہئے کہ اسے وہی کھانا دے جو وہ خود کھاتا ہے اور وہی لباس دے جووہ خود پہنتا ہے اور تم اپنے غلاموںکوایسا کام نہ دیا کرو جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو اوراگرکبھی ایسا کام دو توپھر اس کام میں خود ان کی مدد کیا کرو۔‘‘
اور مدد کرنے کے الفاظ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ وہ کام ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ اگر وہ آقا کوخودکرنا پڑے تو وہ اسے اپنے لئے موجب عار سمجھے بلکہ ایسا ہونا چاہئے کہ جسے آقا خود بھی کرسکتا ہو اور کرنے کو تیار ہو۔یہ حدیث اپنے مطالب میں نہایت واضح ہے اور اس بات کا یقینی ثبوت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم میں نہ صرف یہ کہ غلاموں کے ساتھ کامل درجہ کے حسنِ سلوک اور انتہائی شفقت کاحکم دیا گیا ہے جس کی نظیر یقینا کسی اور مذہب اورکسی اور قوم میں نہیں ملتی بلکہ یہ کہ درحقیقت اس تعلیم کا اصلی منشاء تھا کہ مسلمان اپنے غلاموں کوبالکل اپنے بھائیوں کی طرح سمجھیں اورہر امر میں جس طرح خود رہتے ہیں اسی طرح انہیں رکھیں تاکہ ان کے تمدن و معاشرت میں اسی طرح کی بلندی پیدا ہوجائے جیسی کہ دوسرے آزاد لوگوں میں ہے اوران کے دلوں سے پستی کے احساسات بالکل مٹ جائیں ورنہ محض حسنِ سلوک کی غرض سے اس قدر انتہائی تعلیم نہیں دی جاسکتی تھی کہ غلاموں کو بعینہٖ اسی طرح رکھو جس طرح کہ خود رہتے ہو۔کیونکہ حفظِ مراتب توہوا ہی کرتا ہے اوراسلام اسے تسلیم کرتا ہے۔
پھر حدیث میں آتا ہے: عَنْ عَبَادَۃَ بْنِ الْوَلِیْدِ بْنِ عَبَادَۃَ الصَّامِتِ قَالَ لَقِیْنَا اَبَا الْیُسْرِ صَاحِبَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَعَہٗ غَلَامٌ وَعَلَیْہِ بُرْدَۃٌ وَمَعَافِرِیٌّ وَعَلٰی غُلَامِہٖ بُرْدَۃٌ وَمَعَافِرِیٌّ قَالَ قُلْتُ لَہٗ یَاعَمِّ لَوْاَنَّکَ اَخَذْتَ بُرْدَۃّ غُلَامِکَ وَاَعْطَیْتَہٗ مَعَافِرَیْکَ وَاَخَذْتَ مَعَافِرَیْہِ وَاَعْطَیْتَہٗ بُرْدَتَکَ فَکَانَتْ عَلَیْکَ حُلَّۃٌ وَعَلَیْہِ حُلَّۃٌ قَالَ فَمَسَحَ رَأسِیْ وَقَالَ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ فِیْہِ ثُمَّ قَالَ یَا ابْنَ اَخِیْ بَصَرَتْ عَیْنَایَ حَاتانِ وَسَمِعَتْہُ اُذُنَایَ ھَاتَانِ وَوَعَاہُ قَلْبِیْ ھٰذَا مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَھُوَ یَقُوْلُ اُطْعِمُوْھُمْ مِمَّا تَأْکُلُوْنَ وَاکْسُوْھُمْ مِمَّا تَلْبِسُوْنَ فَکَانَ اِنْ اَعْطَیْتُہٗ مِنْ مَتَاعِ الدُّنْیَا اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ اَنْ یَّاخُذَ مِنْ حَسَنَاتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ
یعنی’’عبادہ بن ولید روایت کرتے ہیں کہ ہم ایک دفعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابی ابوالیسر کوملے۔ اس وقت ان کے ساتھ ان کا ایک غلام بھی تھااورہم نے دیکھا کہ ایک دھاری دارچادر اورایک یمنی چادر ان کے بدن پر تھی اوراسی طرح ایک دھاری دار چادراورایک یمنی چادر ان کے غلام کے بدن پر تھی۔ میں نے انہیں کہاچچا تم نے ایسا کیوں نہ کیا کہ اپنے غلام کی دھاری دار چادر خود لے لیتے اور اپنی چادر اسے دے دیتے یا اس کی یمنی چادر خود لے لیتے اور اپنی دھاری دار چادر اسے دے دیتے تاکہ تم دونوںکے بدن پر ایک ایک طرح کا جوڑا تو ہو جاتا۔ ابوالیسرنے میرے سر پر ہاتھ پھیرااورمیرے لئے دعا کی اور کہا بھتیجے! میری ان آنکھوں نے دیکھا ہے اور میرے ان کانوں نے سنا ہے اورمیرے اس دل نے اسے اپنے اندر جگہ دی ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ’’اپنے غلاموں کووہی کھانا کھلائو جو تم خود کھاتے ہواوروہی لباس پہنائو جو تم خود پہنتے ہو۔پس میں اس بات کو بہت زیادہ پسند کرتا ہوں کہ میںدنیاکے اموال میں سے اپنے غلام کو برابر کا حصہ دے دوں بہ نسبت اسکے کہ قیامت کے دن میرے ثواب میں کوئی کمی آوے۔‘‘
یہ حدیث اپنے الفاظ کے زوردار ہونے میں گزشتہ حدیث سے بھی زیادہ واضح ہے اور اس سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس نصیحت پر صحابہ عمل بھی کرتے تھے۔بلکہ اس کی تعمیل میں انہیں اس درجہ انہماک تھا کہ وہ اس بات کو بھی پسند نہیں کرتے تھے کہ ان کے اوران کے غلاموں کے لباس میں درجہ کااختلاف تو الگ رہا ظاہری صورت کا بھی خفیف سا اختلاف پیدا ہو۔
پھر روایت آتی ہے: عَنْ اَبِی النَّوَارِ بَیَّاعِ الْکَرَابِیْسِ قَالَ اَتَانِیْ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ وَمَعَہٗ غُلاَمٌ لَہٗ فَاشْتَریٰ مِنِّیْ قَمِیْصَیْ کَرَابِیْسَ فَقَالَ لِغُلَامِہٖ اخْتَرَاَیَّھُمَا شِئْتَ فَاَخَذَ اَحَدَھُمَا وَاَخَذَ عَلِیُّ الآخَرَ فَلَبِسَہٗ
یعنی’’ابونوار جو روئی کے کپڑوں کی تجارت کرتے تھے روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت علیؓ ان کی دوکان پر آئے۔اس وقت ان کے ساتھ ان کا ایک غلام بھی تھا۔علیؓ نے دو ٹھنڈی قمیصیں خریدیں اورپھر اپنے غلام سے کہنے لگے کہ ان میں سے جو قمیص تم چاہو لے لو۔چنانچہ غلام نے ایک قمیص چن لی اور جو دوسری قمیص رہ گئی وہ حضرت علیؓ نے خود پہن لی۔‘‘
اس روایت سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد کے ماتحت خاص خاص صحابہؓ بعض اوقات یہاں تک احتیاط کرتے تھے کہ اپنی چیزوں میں سے انتخاب کاحق پہلے غلام کو دیتے تھے اور پھر جو چیز باقی رہ جاتی تھی وہ خود استعمال کرتے تھے۔یہ انتہائی درجہ کا ایثار ہے جو کوئی شخص کسی دوسرے شخص کیلئے کرسکتا ہے اور یقینا غلاموں کے متعلق اس درجہ کا ایثار محض حسنِ سلوک کی غرض سے نہیں ہوسکتا بلکہ اس میں وہی دور کی غرض بھی مدنظر تھی کہ یہ غلام جلد تر اپنے اخلاق اورمعاشرت میں آزاد لوگوں کے مرتبہ کو پہنچ کر آزاد کردئیے جانے کے قابل ہوجائیں۔
پھر حدیث میں آتا ہے:عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ یُحَدِّثُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہٗ قَالَ لَا یَقُلْ اَحَدُکُمْ عَبْدِیْ اَمَتِیْ وَلْیَقُلْ فَتَایَ وَفَتَاتِیْ…وَلْیَقُلْ سَیِّدِیْ وَمَوْلَا یَ
یعنی ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ’’اے مسلمانو!تم یوں نہ کہا کرو کہ’’میرا غلام میری لونڈی‘‘بلکہ یوں کہا کرو کہ’’میرا آدمی میری عورت‘‘ اورغلام بھی اپنے آقا کو رب یعنی مالک نہ کہا کرے بلکہ سیداوربزرگ کہہ کر پکارا کرے۔‘‘
اس حدیث میںآقا اورغلام کی ذہنیتوں کودرست کیا گیا ہے۔یعنی جہاں ایک طرف آقا کے دل ودماغ سے بڑائی اور تکبر کے خیالات کو مٹایا گیا ہے۔وہاں دوسری طرف غلام کے دل میں خود داری اورعزتِ نفس کے جذبات پیدا کئے گئے ہیں اورعملی اورمعاشرتی اصلاح کے ساتھ جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے یہ ذہنی اصلاح مل کر سونے پر سہاگے کا کام دیتی ہے اوراس کے بعد حالات اور خیالات کی کامل تبدیلی میںکوئی امرمانع نہیں رہتا۔اسی طرح اور بھی بہت سی احادیث اورآثار ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ اسلام میں موجود الوقت غلاموں کی اصلاح اور ان کی بہبودی اور آرام وآسائش کے متعلق انتہائی درجہ کا زور دیاگیا ہے بلکہ یہ کہ اس تعلیم میں اسلام کا اصل منشاء یہ تھا کہ غلاموں اوران کے مالکوں کے تمدن ومعاشرت اورعزت وآبرو کوایک مساویانہ درجہ پر لاکرغلاموں کوجلد تر اس قابل بنادیا جاوے کہ وہ آزاد ہوکر ملک کے مفید اورکارآمد شہری بن سکیں۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ غلاموں کے یہ حقوق جن کاکسی قدر نمونہ اوپر درج کیا گیا ہے محض سفارشی رنگ نہیں رکھتے تھے بلکہ شرعی اورسیاسی احکام تھے اور حکومتِ اسلامی کی طرف سے نہایت سختی کے ساتھ غلاموں کے حقوق کی نگرانی کی جاتی تھی۔
چنانچہ حدیث میں آتا ہے: عَنْ اَبِیْ مَسْعُوْدٍ الْبَدْرِیِّ قَالَ کُنْتُ اَضْرِبُ غُلَا مًا بِالسَّوْطِ فَسَمِعْتُ صَوْتًا مِنْ خَلْفِیْ اِعْلَمْ اَبَامَسْعُوْدٍ فَلَمْ اَفْھَمُ الصَّوَّاتَ مِنَ الْغَضَبِ قَالَ فَلَمَّادَنٰی مِنِّیْ اِذَا ھُوَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاِذَا ھُوَیَقُوْلُ اِعْلَمْ اَبَا مَسْعُوْدٍ اِعْلَمْ اَبَا مَسْعُوْدٍ قَالَ فَاُلْقِیْتَ السَّوْطُ مِنْ یَدِیْ فَقَالَ اِعْلَمْ اَبَامَسْعُوْدٍ اِنَّ اللّٰہَ اَقْدَرُ عَلَیْکَ مِنْکَ عَلٰی ھٰذَا الْغُلَامِ فَقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ھُوَحُرٌّ لِوَجِہِ اللّٰہِ فَقَالَ اَمَّالَوْلَمْ تَفْعَلْ لَلَفْحَتْکَ النَّارُ اَوْلَمَسَتْکَ النَّارُ
یعنی ابو مسعود بدری روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میںنے کسی بات پر اپنے غلام کو مارا۔ اس وقت میںنے اپنے پیچھے سے آواز سنی کہ کوئی شخص کہہ رہا تھا’’دیکھو ابومسعود یہ کیا کرتے ہو۔مگر غصہ کی وجہ سے میں نے اس آواز کو نہ پہچانااورغلام کو مارتا ہی گیا۔اتنے میں وہ آواز میرے قریب آگئی اور میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم یہی آواز دیتے ہوئے میری طرف بڑھتے چلے آرہے ہیں کہ’’دیکھو ابو مسعود یہ کیا کرتے ہو۔آپؐکو دیکھ کر میری چھڑی میرے ہاتھ سے گر گئی اور آپؐنے غصہ کی نظر سے میری طرف دیکھتے ہوئے فرمایا۔’’ابو مسعود تمہارے سر پر ایک خدا ہے جو تمہارے متعلق اس سے بہت زیادہ طاقت رکھتا ہے جو تم اس غلام پر رکھتے ہو۔‘‘میں نے عرض کیایارسول اللہ!میں خدا کی خاطر اس غلام کو آزاد کرتا ہوں۔آپؐنے فرمایا۔’’اگر تم ایسا نہ کرتے توجہنم کی آگ تمہارے منہ کو جھلستی۔‘‘
پھر حدیث میں آتا ہے: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ اَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ فَقَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ سَیِّدِیْ زَوَّجَنِیْ اَمَتَہٗ وَھُوَ یُرِیْدُ اَنْ یُفَرِّقَ بَیْنِیْ وَبَیْنَھَا قَالَ فَصَعِدَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلْمِنْبَرَ فَقَالَ اَیُّھَا النَّاسُ مَابَالُ اَحَدِکُمْ یُزَوِّجُ عَبْدَہٗ اَمَتَہٗ ثُمَّ یُرِیْدُ اَنْ یُفَرِّقُ بَیْنَھُمَا اِنَّمَا الطَّلاَ قُ لِمَنْ اَخَذَ بِالسَّاقِ
یعنی ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک غلام آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اورکہنے لگا یارسول اللہ!میرے آقا نے اپنی لونڈی کے ساتھ میری شادی کردی تھی مگر اب وہ چاہتاہے کہ ہمارے نکاح کو فسخ کرکے ہمیں ایک دوسرے سے جدا کردے۔آپؐیہ بات سن کر غصہ کی حالت میں منبر پر چڑھ گئے اور لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا۔’’اے مسلمانو! یہ کیا بات ہے کہ تم لوگ اپنے غلاموں اور لونڈیوں کی شادی کرتے ہو اور پھر خود بخود اپنی مرضی سے ان میں علیحدگی کرانا چاہتے ہو؟ سن لو کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔طلاق دینے کا حق صرف خاوند کو ہے اورتم اپنے غلاموں کو طلاق پر مجبور نہیں کرسکتے۔‘‘
پھر حدیث میں آتا ہے: کَانَ عُمَرُ ْبنُ الْخَطَّابِ یَذْھَبُ اِلَی الْحَوَالِی کُلَّ یَوْمٍ سَبْتٍ فَاِذَا وَجَدَ عَبْدًا فِیْ عَمَلٍ لَا یُطِیْقُہٗ وَضَعَ عَنْہُ مِنْہُ
یعنی امام مالک روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کایہ قاعدہ تھا کہ ہر ہفتہ مدینہ کے مضافات میں جایا کرتے تھے اور جب انہیں کوئی ایسا غلام نظر آتا تھا جسے اس کی طاقت اور مناسبت کے لحاظ سے زیادہ کام دیا گیا ہوتو حکماًاس کے کام میں تخفیف کردیتے تھے۔‘‘

(سیرت خاتم النّبیین صفحہ 376تا 381،مطبوعہ قادیان2011)
…٭…٭…٭…