اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-03-02

ابتدائی لڑائیاں،روزہ کی ابتداء،تحویل قبلہ اور جنگ بدر کے متعلق ابتدائی بحث

غزوات وسرایا کاآغاز اورغزوہ ودّان صفر2ہجری

اب مغازی کاعملی آغاز ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاطریق تھا کہ کبھی تو خود صحابہ کوساتھ لے کر نکلتے تھے اور کبھی کسی صحابی کی امارت میں کوئی دستہ روانہ فرماتے تھے۔ مؤرخین نے ہردوقسم کی مہموں کوالگ الگ نام دئیے ہیں ۔چنانچہ جس مہم میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خود بنفس نفیس شامل ہوئے ہوں اس کا نام مؤرخین غزوہ رکھتے ہیں اورجس میں آپؐخود شامل نہ ہوئے ہوں اسکا نام سریہ یابعث رکھا جاتا ہے ۔مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ غزوہ اورسریہ دونوں میں مخصوص طورپر جہادبالسیف کی غرض سے نکلنا ضروری نہیں بلکہ ہروہ سفر جس میں آپؐجنگ کی حالت میں شریک ہوئے ہوں غزوہ کہلاتا ہے خواہ وہ خصوصیت کے ساتھ لڑنے کی غرض سے نہ کیا گیا ہواور اسی طرح ہروہ سفر جوآپؐکے حکم سے کسی جماعت نے کیا ہو مؤرخین کی اصطلاح میں سریہ یابعث کہلاتا ہے خواہ اسکی غرض وغایت لڑائی نہ ہو،لیکن بعض لوگ ناواقفیت سے ہرغزوہ اورسریہ کولڑائی کی مہم سمجھنے لگ جاتے ہیں جودرست نہیں۔
یہ بیان کیا جاچکاہے کہ جہاد بالسیف کی اجازت ہجرت کے دوسرے سال ماہ صفر میں نازل ہوئی۔ چونکہ قریش کے خونی ارادوں اوران کی خطرناک کارروائیوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کومحفوظ رکھنے کیلئے فوری کارروائی کی ضرورت تھی اس لئے آپؐاسی ماہ میں مہاجرین کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر اللہ تعالیٰ کانام لیتے ہوئے مدینہ سے نکل کھڑے ہوئے۔ روانگی سے قبل آپؐنے اپنے پیچھے مدینہ میں سعد بن عبادہ رئیس خزرج کوامیر مقررفرمایا اور مدینہ سے جنوب مغرب کی طرف مکہ کے راستہ پرروانہ ہوگئے اوربالآخر مقام ودّان تک پہنچے۔اس علاقہ میں قبیلہ بنوضمرۃ کے لوگ آباد تھے۔یہ قبیلہ بنو کنانہ کی ایک شاخ تھا اوراس طرح گویا یہ لوگ قریش کے چچا زاد بھائی تھے۔یہاں پہنچ کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قبیلہ بنوضمرۃ کے رئیس کے ساتھ بات چیت کی اور باہم رضامندی سے آپس میں ایک معاہدہ ہوگیاجس کی شرطیں یہ تھیں کہ بنوضمرۃ مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں گے اور مسلمانوں کے خلاف کسی دشمن کی مدد نہیں کریں گے اور جب آنحضر ت صلی اﷲ علیہ وسلم ان کو مسلمانوں کی مدد کیلئے بلائیں گے،تو وہ فوراً آجائیں گے۔دوسری طرف آپؐنے مسلمانوں کی طرف سے یہ عہد کیا کہ مسلمان قبیلہ بنوضمرۃ کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں گے اور بوقت ضرورت ان کی مدد کریں گے۔یہ معاہدہ باقاعدہ لکھا گیا اور فریقین کے اس پر دستخط ہوئے اورپندرہ دن کی غیر حاضری کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم واپس تشریف لے آئے۔غزوہ ودّان کادوسرا نام غزوہ ابوا بھی ہے کیونکہ ودّان کے قریب ہی ابواکی بستی بھی ہے اور یہ وہی مقام ہے جہاں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا تھا۔مؤرخین لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کواس غزوہ میں بنوضمرۃ کے ساتھ قریش مکہ کابھی خیال تھا۔اس کا مطلب یہی ہے کہ دراصل آپؐکی یہ مہم قریش کی خطرناک کارروائیوں کے سدباب کیلئے تھی اور اس میں اُس زہریلے اور خطرناک اثرکاازالہ مقصودتھا جوقریش کے قافلے وغیرہ مسلمانوں کے خلاف قبائل عرب میں پیدا کررہے تھے اورجس کی وجہ سے مسلمانوں کی حالت ان ایام میں بہت نازک ہو رہی تھی۔

سریہ عبیدۃ بن الحارث ربیع الاول 2ہجری

غزوہ ودّان سے واپس آنے پر ماہ ربیع الاول کے شروع میں آپؐ نے اپنے ایک قریبی رشتہ دارعبیدۃ بن الحارث مطلبی کی امارت میں ساٹھ شترسوارمہاجرین کاایک دستہ روانہ فرمایا۔ اس مہم کی غرض بھی قریش مکہ کے حملوں کی پیش بندی تھی۔چنانچہ جب عبیدۃ بن الحارث اوران کے ساتھی کچھ مسافت طے کرکے ثنیۃ المرّۃ کے پاس پہنچے توناگاہ کیا دیکھتے ہیں کہ قریش کے دوسو مسلح نوجوان عکرمہ بن ابوجہل کی کمان میں ڈیرہ ڈالے پڑے ہیں۔ فریقین ایک دوسرے کے سامنے ہوئے اورایک دوسرے کے مقابلہ میں کچھ تیراندازی بھی ہوئی،لیکن پھر مشرکین کاگروہ یہ خوف کھا کر کہ مسلمانوں کے پیچھے کچھ کمک مخفی ہوگی ان کے مقابلہ سے پیچھے ہٹ گیا اور مسلمانوں نے ان کا پیچھا نہیں کیا۔البتہ مشرکین کے لشکر میں سے دو شخص مقداد بن عمرو اور عتبہ بن غزوان، عکرمہ بن ابوجہل کی کمان سے خود بخود بھاگ کر مسلمانوں کے ساتھ آملے اور لکھا ہے کہ وہ اسی غرض سے قریش کے ساتھ نکلے تھے کہ موقع پاکر مسلمانوں میں آملیںکیونکہ وہ دل سے مسلمان تھے مگر بوجہ اپنی کمزوری کے قریش سے ڈرتے ہوئے ہجرت نہیں کرسکتے تھے اور ممکن ہے کہ اسی واقعہ نے قریش کوبددل کردیا ہو اور انہوں نے اسے بدفال سمجھ کر پیچھے ہٹ جانے کا فیصلہ کرلیاہو۔ تاریخ میں یہ مذکور نہیں ہے کہ قریش کایہ لشکر جویقینا کوئی تجارتی قافلہ نہیں تھااورجس کے متعلق ابن اسحاق نے جمع عظیم(یعنی ایک بڑا لشکر)کے الفاظ استعمال کئے ہیںکسی خاص ارادہ سے اس طرف آیا تھا،لیکن یہ یقینی ہے کہ ان کی نیت بخیر نہیں تھی اور یہ خدا کا فضل تھا کہ مسلمانوں کوچوکس پاکراوراپنے آدمیوں میںسے بعض کو مسلمانوں کی طرف جاتا دیکھ کر ان کو ہمت نہیں ہوئی اوروہ واپس لوٹ گئے۔اورصحابہ کواس مہم کایہ عملی فائدہ ہوگیاکہ دو مسلمان روحیں قریش کے ظلم سے نجات پاگئیں۔

سریہ حمزہ بن عبدالمطلب ربیع الاول2ہجری

اسی ماہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے تیس شترسوار مہاجرین کے ایک اوردستہ کواپنے حقیقی چچاحمزہ بن عبدالمطلب کی سرداری میں مدینہ سے مشرقی جانب سیف البحر علاقہ عیص کی طرف روانہ فرمایا۔حمزہ اور ان کے ساتھی جلدی جلدی وہاں پہنچے تو کیادیکھتے ہیں کہ مکہ کارئیس اعظم ابوجہل تین سوسواروں کاایک لشکر لئے ان کے استقبال کو موجود ہے۔مسلمانوں کی تعداد سے یہ تعداد دس گنے زیادہ تھی،مگر مسلمان خدااوراس کے رسول کے حکم کی تعمیل میں گھر سے نکلے تھے اورموت کا ڈرانہیں پیچھے نہیں ہٹاسکتا تھا۔دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابل میں صف آرائی کرنے لگ گئیں اورلڑائی شروع ہونے والی ہی تھی کہ اس علاقہ کے رئیس مجددی بن عمروالجہنی نے جو دونوں فریق کے ساتھ تعلقات رکھتا تھادرمیان میں پڑکربیچ بچائو کرادیااور لڑائی ہوتے ہوتے رک گئی۔ابن سعد نے جوعموماًاپنے استاد واقدی کی اتباع کرتا ہے لکھا ہے کہ یہ قریش کا ایک قافلہ تھا جس سے مسلمانوں کا سامنا ہواتھا،لیکن ابن اسحاق نے بروایت ابن ہشام قافلہ کاکوئی ذکر نہیںکیا، بلکہ صرف یہ لکھا ہے کہ قریش کے تین سو سواروں سے سامنا ہواتھا جوابوجہل کے زیر کمان تھے اورکفار کی تعداد اوردوسرے قرائن سے ابن اسحاق کی روایت صحیح ثابت ہوتی ہے اور یہ یقینی ہے کہ کفار کایہ دستہ مسلمانوں کے خلاف نکلا تھا۔ چنانچہ کرزبن جابرفہری کاحملہ بھی جس کا ذکر آگے آتا ہے اس خیال کامؤید ہے۔

غزوہ بواط ربیع الآخر2ہجری

اسی مہینہ کے آخری ایام یاربیع الآخر کے شروع میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوپھر قریش کی طرف سے کوئی خبر موصول ہوئی جس پرآپؐمہاجرین کی ایک جماعت کوساتھ لے کر خود مدینہ سے نکلے اور اپنے پیچھے سائب بن عثمان بن مظعون کومدینہ کاامیر مقرر فرمایا لیکن قریش کاپتہ نہیں چل سکااورآپؐبواط تک پہنچ کر واپس تشریف لے آئے۔
غزوہ عشیرۃ اور سریہ سعد بن ابی وقاص

جمادی الاولیٰ 2ہجری

اسکےبعدجمادی الاولیٰ میںپھر قریش مکہ کی طرف سے کوئی خبرپا کرآپ مہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ مدینہ سے نکلے اوراپنے پیچھے اپنے رضاعی بھائی ابوسلمہ بن عبدالاسد کو امیر مقررفرمایا۔اس غزوہ میں آپؐکئی چکرکاٹتے ہوئے بالآخر ساحل سمندر کے قریب ینبع کے پاس مقام عشیرۃ تک پہنچے اورگوقریش کامقابلہ نہیں ہوا مگر اس میں آپؐنے قبیلہ بنومدلج کےساتھ انہیںشرائط پر جوبنوضمرۃ کے ساتھ قرار پائی تھیںایک معاہدہ طے فرمایااور پھر واپس تشریف لے آئے۔اسی سفر کے دوران میں آپؐنے سعدبن ابی وقاص کو آٹھ مہاجرین کے ایک دستہ پر امیر مقرر کرکے قریش کی خبررسانی کیلئے خراء کی طرف روانہ فرمایا۔
کرزبن جابرکاحملہ اور

غزوہ سفوان جمادی الآخر 2ہجری

مگر باوجود صحابہؓ کی اس قدر بیدارمغزی اور مسلمان پارٹیوں کے مدینہ کے گردونواح میں اس طرح ہوشیاری کے ساتھ چکر لگاتے رہنے کے قریش کی شرارت نے اپنے لئے راستہ پیدا کرہی لیا۔چنانچہ ابھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کومدینہ میں تشریف لائے دس دن بھی نہیں گزرے تھے کہ مکہ کے ایک رئیس کرزبن جابرفہری نے قریش کے ایک دستہ کے ساتھ کمال ہوشیاری سے مدینہ کی چراگاہ پرجوشہر سے صرف تین میل پر تھی اچانک حملہ کیا اورمسلمانوں کے اونٹ وغیرہ لوٹ کر چلتا ہوا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کویہ اطلاع ہوئی توآپؐ فوراًزید بن حارثہ کواپنے پیچھے امیر مقرر کرکے اور مہاجرین کی ایک جماعت کوساتھ لے کر اسکے تعاقب میں نکلے اور سفوان تک جوبدر کے پاس ایک جگہ ہے اس کا پیچھا کیا،مگر وہ بچ کر نکل گیا۔اس غزوہ کو غزوہ بدرالاولیٰ بھی کہتے ہیں۔
کرزبن جابرکایہ حملہ ایک معمولی بدویانہ غارت گری نہیں تھی بلکہ یقیناً وہ قریش کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف خاص ارادے سے آیاتھا بلکہ بالکل ممکن ہے کہ اس کی نیت خاص آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات کونقصان پہنچانے کی ہو،مگر مسلمانوں کو ہوشیار پاکران کے اونٹوں پرہاتھ صاف کرتا ہوا نکل گیا۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قریش مکہ نے یہ ارادہ کرلیاتھا کہ مدینہ پرچھاپے مار مار کر مسلمانوں کوتباہ وبرباد کیا جاوے۔یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ گواس سے پہلے مسلمانوں کو جہاد بالسیف کی اجازت ہوچکی تھی اور انہوں نے خود حفاظتی کے خیال سے اس کے متعلق ابتدائی کارروائی بھی شروع کردی تھی،لیکن ابھی تک ان کی طرف سے کفار کوعملاًکسی قسم کامالی یاجانی نقصان نہیں پہنچا تھا،لیکن کرزبن جابر کے حملہ سے مسلمانوں کو عملاًنقصان پہنچا۔گویا مسلمانوں کی طرف سے قریش کاچیلنج قبول کرلئے جانے کے بعد بھی عملی جنگ میں کفار ہی کی پہل رہی۔
(باقی آئندہ)
(سیرت خاتم النّبیینؐ،صفحہ327تا330،مطبوعہ قادیان2011)
…٭…٭…٭…