اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-09-14

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعدد ازدواج اور اس کی حکمتیں

سیرت خاتم النّبیینﷺ

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )


حضرت عائشہ کے رخصتانہ کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حرم میں تعدّد ازدواج کا آغاز ہوتا ہے ، اس لیے اس موقع پر اس مسئلہ کے متعلق ایک مختصر سا نوٹ درج کرنا نا مناسب نہ ہو گا، لیکن پیشتر اسکے کہ تعدّد از دواج کے متعلق کچھ بیان کیا جاوے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ وہ اغراض بیان کر دی جائیں جو اسلامی شریعت میں نکاح کی مقرر کی گئی ہیں۔ کیونکہ منجملہ اور اغراض کے ان اغراض کے توسیعی مصالح پر ہی تعدّد از دواج کا ایک حد تک دارومدار ہے۔ سو جاننا چاہئے کہ قرآن شریف سے نکاح کی اغراض چار معلوم ہوتی ہیں۔ اوّل انسان کا بعض جسمانی اور اخلاقی اور روحانی بیماریوں اور ان کے بد نتائج سے محفوظ ہو جانا۔ اس صورت کو عربی میں احصان کہتے ہیں جس کے لفظی معنے کسی قلعہ کے اندر محفوظ ہو جانے کے ہیں۔ دوم بقائے نسل ، سوم حصولِ رفیق حیات اور سکینتِ قلب ، چہارم محبت اور رحمت کے تعلقات کی توسیع ، چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے:
وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَاۗءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ’’ اور اے مسلمانو! جائز کی جاتی ہیں تمہارے لیے تمام عورتیں سوائے ان عورتوں کے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے یہ کہ تم ان کے مہر مقرر کر کے ان کے ساتھ نکاح کرو۔ مگر تمہارے نکاح کی غرض یہ ہونی چاہئے کہ تم بیماریوں اور بدیوں سے محفوظ ہو جاؤ اور یہ غرض نہیں ہونی چاہئے کہ تم شہوت کے طریق پر عیش و عشرت میں پڑو۔‘‘
اس آیت میں احصان والی غرض بیان کی گئی ہے یعنی (الف) یہ کہ نکاح کے ذریعہ انسان بعض ان خاص قسم کی جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہونے سے بچ جاوے جو تجرد کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں اور (ب) یہ کہ وہ بعض روحانی اور اخلاقی بیماریوں سے محفوظ ہو جاوے ، لیکن ناپاک خیالات اور ناپاک تعلقات میں مبتلا نہ ہو۔ اسی غرض و غایت کو ایک دوسری آیت میں یوں بیان کیا گیا ہے:
ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ ’’اَے مسلمان مردو ! یاد رکھو کہ تمہاری عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم اپنی عورتوں کا لباس ہو۔‘‘
یعنی تم ایک دوسرے کو بدیوں اور بیماریوں سے محفوظ کرنے کا ذریعہ ہو جیسا کہ لباس انسان کیلئے سردی اور گرمی کی تکلیف سے بچنے کاذریعہ ہوتا ہے۔ اس آیت میں چونکہ عورتوں کو بھی شامل کرنا تھا اس لیے طریقِ بیان زیادہ لطیف کر دیا گیا ہے۔ نیز اس آیت میں یہ بھی اشارہ ہے کہ مرد و عورت ایک دوسرے کیلئے پردہ پوشی کا بھی ذریعہ ہیں جیسا کہ لباس بھی پردہ پوشی کا ذریعہ ہوتا ہے۔
پھر فرماتا ہے:نِسَاۗؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ۝۰۠ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ۝۰ۡوَقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ یعنی ’’ اے مسلمانو! تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں جن سے تمہاری آئندہ نسل کی فصل نے پیدا ہونا ہے۔ پس اب تمہیں اختیار ہے کہ جس طرح چاہو اپنی کھیتیوں کے ساتھ معاملہ کرو اور جس قسم کی فصل اپنے لیے پیدا کرنا چاہو پیدا کر لو۔‘‘
اس آیت میں بقائے نسل کی غرض بیان کی گئی ہے یعنی یہ کہ انسانی نسل کا سلسلہ قائم رہے اور ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے نہایت لطیف پیرا یہ میں یہ اشارہ بھی کر دیا ہے کہ جب بیویوں کے ذریعہ آئندہ نسل کا وجود قائم ہونا ہے تو پھر انسان کو چاہئے کہ اپنی بیوی کے ساتھ تعلقات رکھنے میں ایسا طریق اختیار کرے کہ جس کے نتیجہ میں آئندہ نسل خراب نہ ہو بلکہ بہتر سے بہتر نسل پیدا ہو۔
پھر فرماتا ہے: خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْہَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً یعنی ’’ اﷲ تعالیٰ نے تمہاری جنس میں سے ہی تمہارے لیے بیویاں بنائی ہیں تاکہ تم ان کے تعلق میں سکینتِ قلب حاصل کرو اور پھر اس تعلق کو خدا نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت کا ذریعہ بنایا ہے۔‘‘
اس آیت میں نکاح کی تیسری اور چوتھی اغراض بیان کی گئی ہیں۔ یعنی یہ کہ خاوند کو بیوی میں اور بیوی کو خاوند میں رفیقِ حیات میسر آجاوے اور وہ دونوں ایک دوسرے کے تعلق میں تسکین قلب پائیں اور دوسرے یہ کہ نکاح کے ذریعہ سے خاوند اور بیوی کے متعلقین کے درمیان رشتہ وِداد و اتحاد قائم ہو جاوے اور نسلی رشتہ داری کے تعلق کے علاوہ رحمی تعلق کے ذریعہ بھی مختلف خاندانوں اور مختلف قوموں کے درمیان محبت اور رحمت کی زنجیر سے منسلک ہو جانے کے موقعے میسر رہیں۔
الغرض اسلامی شریعت میں نکاح کی چار اغراض بیان کی گئی ہیں۔ اوّل احصان یعنی بعض جسمانی اور روحانی بیماریوں اور ان کے نتائج سے محفوظ ہو جانا۔ دوم بقاء نسل ، سوم رفاقتِ حیات اور تسکین قلب، چہارم مختلف خاندانوں یا مختلف قوموں کا آپس میں محبت اور رحمت کے رشتہ کے ذریعہ سے مل جانا اور اگر غور کیا جاوے تو یہ ساری اغراض نہ صرف بالکل جائز اور مناسب ہیں بلکہ نہایت درجہ پاکیزہ اور فطرتِ انسانی اور ضروریاتِ بنی نوع انسان کے عین مطابق ہیں اور ان سے خاوند بیوی کے تعلق کو ایک بہترین بنیاد پر قائم کر دیا گیا ہے اور اس تعلق سے بہترین ثمرہ پیدا کرنے کی صورت نکالی گئی ہے اور ان اغراض کے مقابلہ میں جس غرض کو قرآن شریف نے نام لے کر ناجائز قرار دیا اور اس سے مسلمانوں کو روکا ہے وہ تعیّش اور شہوت رانی کی غرض ہے۔
اب ہم وہ اغراض بیان کرتے ہیں جو تعدّد از دواج کی اجازت میں اسلام نے مدّ نظر رکھی ہیں۔ سو اسلامی شریعت کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ یہ اغراض دو قسم کی ہیں۔ اوّل وہی عام اغراض جو نکاح میں اسلام کے مدِّ نظر ہیں اور جو اوپر بیان کی جاچکی ہیں۔ دوم وہ خاص اغراض جو مخصوص طور پر تعدّد ازدواج کے ساتھ وابستہ ہیں۔ مقدم الذکر اغراض کو تعدّد ازدواج کے معاملہ میں اس لیے بحال رکھا گیا ہے کہ بعض اوقات ایک بیوی سے نکاح کی غرض پورے طور پر حاصل نہیں ہوتی اور اس لیے اسی غرض کے ماتحت دوسری بیوی کی ضرورت پیدا ہو جاتی ہے۔ مثلاً نکاح کی ایک غرض احصان ہے یعنی یہ کہ اس ذریعہ سے انسان بعض بیماریوں اور بدیوں اور بدکاریوں سے بچ جاوے لیکن ہو سکتا ہے کہ انسان کے حالات ایسے ہوں کہ وہ ایک ہی عورت کے تعلق سے جس پر حیض اور حمل اور وضع حمل اور رضاعت اور پھر مختلف قسم کی بیماریوں وغیرہ کی حالتیں آتی رہتی ہیں اپنے تقویٰ اور طہارت کو قائم نہ رکھ سکتا ہو۔ اور اگر وہ غیر معمولی کوشش کے ساتھ اپنے آپ کو عملی بدی سے بچائے بھی رکھے تو کم از کم اس کے خیالات میں ناپاکی کا عنصر غالب رہتا ہو اور یا اس طرح رکے رہنے سے اسے کسی جسمانی بیماری میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہو تو ایسے شخص کا صحیح علاج سوائے تعدّد از دواج کے اور کوئی نہیں۔ یعنی وہی غرض جو ایک نکاح کی محرّک تھی اس صورت میں اس کیلئے دوسرے نکاح کی محرک ہو جائے گی۔ اسی طرح نکاح کی ایک غرض بقائے نسل ہے، لیکن اگر کسی شخص کے ہاں ایک بیوی سے کوئی اولاد نہ ہو یا نرینہ اولاد نہ ہو تو یہی غرض دوسرے نکاح کی جائز بنیادبن جائے گی۔ اسی طرح نکاح کی ایک غرض رفاقتِ حیات اور تسکینِ قلب ہے، لیکن اگر کسی کی بیوی دائم المریض ہو اور اس کا مرض اس حالت کو پہنچا ہوا ہو کہ وہ بالکل صاحبِ فراش رہتی ہو یا وہ مجنون ہو جاوے تو اس صورت میں ایسے شخص کو رفاقتِ حیات اور تسکینِ قلب کی غرض کو پورا کرنے کیلئے دوسری بیوی کی ضرورت ہو گی۔ اسی طرح نکاح کی ایک غرض مختلف خاندانوں کا آپس میں ملنا اور ایک دوسرے کیلئے محبت و رحمت کے موقعے پیدا کرنا ہے، لیکن ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص نے ابتداءً کسی ایسے خاندان میں شادی کی ہو جہاں اس کیلئے اس رشتہ محبت کا قائم ہونا ضروری تھا، مگر اسکے بعد اس کیلئے اس سے بھی زیادہ ضروری اور اہم موقعے پیش آجائیں جہاں اسکا تعلق قائم ہونا خاندانی یا قومی یا ملکی یا سیاسی یا دینی مصالح کے ماتحت نہایت ضروری اور پسندیدہ ہو تو اس صورت میں اس کیلئے تعدّد ازدواج پر عمل کرنا ضروری ہو جائے گا۔ الغرض وہ ساری اغراض جو اسلام نے نکاح کے متعلق بیان کی ہیں وہی خاص حالات میں تعدّد ازدواج کی بنیاد بھی بن جاتی ہیں اور مندرجہ بالا صورتیں مثال کے طور پر بیان کی گئی ہیں ، ورنہ اور بعض صورتیں بھی پیدا ہو سکتی ہیں کہ جب نکاح کی غرض ایک بیوی سے پورے طور پر یا احسن صورت میں حاصل نہیں ہوتی اور دوسری بیوی کی جائز طور پر ضرورت پیش آجاتی ہے ، لیکن ان اغراض کے علاوہ اسلام نے تعدّد ازدواج کی بعض خاص وجوہات بھی بیان کی ہیں وہ تین ہیں۔ اوّل حفاظتِ یتامیٰ ، دوم انتظام بیوگان ، سوم تکثیرِ نسل۔ چنانچہ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے:
وَاِنْ خِفْتُمْ اَ لَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ۝۰ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَ لَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃًاور ’’ اے مسلمانو! (ان جنگوں میں جو تمہیں در پیش ہیں لازماً یتامیٰ کی کثرت ہو گی اور تمہیں ان یتامیٰ کی حفاظت کیلئے تعدّدِ ازدواج کی ضرورت پیش آئیگی۔ پس) اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ (ایک بیوی تک محدود رہتے ہوئے) تم یتامیٰ کی حفاظت اور ان کے حقوق کی خاطرخواہ ادائیگی سے قاصر رہو گے تو پھر اپنی پسند کے مطابق زیادہ عورتوں سے شادیاں کرو۔ دو دو کے ساتھ ، تین تین کے ساتھ اور چار چار کے ساتھ (مگر اس سے زیادہ نہیں کیونکہ خدا کی نظر میں یہ حد تمہاری استثنائی ضروریات کیلئے کافی ہے، لیکن اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ اپنی مالی یا جسمانی یا انتظامی کمزوری کی وجہ سے یا طبیعت کی کمزوری کی وجہ سے) تم ایک سے زیادہ عورتوں کے ساتھ شادی کر کے ان کے ساتھ عدل نہیں کر سکو گے تو پھر تمہیں لازماً ایک ہی بیوی سے شادی کرنی چاہئے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں تعدّد ازدواج کے حکم کو یتامیٰ کے ذکر کے ساتھ ملا کر اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ دراصل یتامیٰ کی کثرت بھی تعدّدِ ازدواج کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہے اور چونکہ یتامیٰ کی کثرت ایک طرف تو بیوگان کی کثرت کو چاہتی ہے اور دوسری طرف وہ آئندہ کیلئے نسل کی قلّت کا اندیشہ پیدا کرتی ہے اور ویسے بھی یہ تینوں حالتیں جنگ کا لازمی نتیجہ ہیں۔ اس لیے گویا اس آیت میں ہی خدا تعالیٰ نے نہایت لطیف پیرایہ میں تعدّدِ ازدواج کی ساری زائد اغراض کو جمع کر دیا ہے۔ یعنی حفاظتِ یتامیٰ، انتظامِ بیوگان اور علاجِ قلّتِ نسل اور پھر مزید تشریح و توضیح کیلئے ان کا علیحدہ علیحدہ ذکر بھی کیا ہے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:-
وَاَنْکِحُواالْاَ یَامٰی مِنْکُمْ یعنی ’’ اے مسلمانو! (اب جب ہم نے تمہارے لیے تعدّد ازدواج کا استثنائی علاج تجویز کر دیا ہے تو) اب تمہیں ایسا انتظام کرنا چاہئے کہ حتّی الوسع کوئی غیر شادی شدہ عورت خواہ وہ کنواری ہو یا بیوہ ہو بغیر شادی کے نہ رہے۔‘‘
اس آیت میں غیر شادی شدہ عورتوں خصوصاً بیوگان کی شادی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔

(باقی آئندہ)
(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ 432تا 436،مطبوعہ قادیان2011)