اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-09-07

حضرت عائشہ ؓ کا رخصتانہ، ماہ شوال 2ہجری

سیرت خاتم النّبیینﷺ

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

حضرت عائشہ ؓ کا رخصتانہ، ماہ شوال 2ہجری(بقیہ حصہ)

اب جب یہ ثابت ہو گیا کہ نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر سات سال کی تھی تو اگلا حساب کوئی مشکل کا م نہیں رہتا۔ یہ بتایا جا چکا ہے کہ حضرت عائشہ کی شادی شوال 10 نبوی میں ہوئی تھی اور یہی تاریخ جمہورمؤرخین میں مسلم ہے گویا شوال10 نبوی میں حضرت عائشہ کی عمر سات سال یا اس کے قریب تھی۔ اسکے بعد ربیع الاوّل14 نبوی میں ہجرت ہوئی۔ اس طرح شادی اور ہجرت کے درمیان کا عرصہ تین سال اور کچھ ماہ بنتا ہے اور ہجرت کے وقت حضرت عائشہ کی عمر دس سال اور کچھ ماہ کی قرار پاتی ہے اس کے بعد ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہجرت اور رخصتانہ کے درمیان کا عرصہ کس قدر ہے۔ یہ مسلّم ہے کہ ہجرت ربیع الاوّل میں ہوئی، اس لیے ہجرت کا پہلا سال ساڑھے نو ماہ کا ہوا اور پھر چونکہ رخصتانہ شوال2 ہجری میں ہوا اس لیے ساڑھے نو ماہ ہی دوسرے سال کے ہوئے اور یہ دونوں عرصے مل کر ہجرت اور رُخصتانہ کے درمیان کا عرصہ انیس ماہ یعنی ایک سال اور سات ماہ کا ہوا۔ اب اگر اس عرصہ کو دس سال اور کچھ ماہ کے عرصہ کے ساتھ ملائیں جو ہجرت سے قبل کا ہے تو اس کی میزان وہی بارہ سال ہوتی ہے جو ہم نے دوسری جہت سے قرار دی ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ خواہ حضرت عائشہ ؓکے انداز ے سے حساب شماری کریں یا یہ کہ ان کی تاریخ پیدائش سے شمار کریں نتیجہ دونو صورتوں کا یہی ہے کہ رخصتانہ کے وقت حضرت عائشہ ؓ کی عمر بارہ سال کی تھی نہ کہ نو سال کی اور یقینا حضرت عائشہ ؓکا یہ خیال کہ اُس وقت میری عمر نو سال کی تھی غلط اندازے یا غلط حساب شماری پر مبنی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب انہوں نے مہینوں کی کسر چھوڑ کر اپنے نکاح کی عمر کا اندازہ چھ سال لگایا تو اس کے بعد انہوں نے حسابی طور پر درمیانی عرصہ کو شمار نہیں کیا بلکہ یونہی موٹے طور پر اندازہ کر لیا کہ رخصتانہ کے وقت ان کی عمر نو سال کی ہو گی اور پھر یہی خیال ان کے دل میں قائم ہو گیا۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ چونکہ اس وقت تک ابھی جنتری وغیرہ کا حساب مروّج نہیں ہوا تھا اور ہجری کی تاریخ بھی ابھی ضبط و تدوین میں نہیں آئی تھی اور پھر شادی اور رخصتانہ کے درمیان کی میعاد بھی دو مختلف سنین (یعنی سن نبوی ؐ اور سن ہجری) کے حسابات سے تعلق رکھتی تھی اس لیے حضرت عائشہ سے حساب شماری میں سہواً غلطی ہو گئی ہو اور پھر یہ غلط خیال ان کے دل میں ایسا راسخ ہو گیا ہو کہ بعد میں کبھی اس حسابی غلطی کی طرف ان کا ذہن منتقل ہی نہ ہوا ہو لیکن بہرحال کچھ بھی ہو اگر یہ بات ٹھیک ہے کہ نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر سات سال یا اس کے قریب تھی تو پھر رخصتانہ کے وقت نو سال کی عمر کا اندازہ کسی صورت میں بھی درست نہیں سمجھا جا سکتا اور یہ ایک حسابی سوال ہے جس کے مقابلہ میں کوئی اور دلیل نہیں ٹھہر سکتی۔ خلاصہ کلام یہ کہ خواہ کسی جہت سے بھی دیکھا جاوے رخصتانہ کے وقت حضرت عائشہ کی عمر بارہ سال یا اس کے قریب قریب ہوتی ہے اور اگر رخصتانہ کی تاریخ شوال 1 ہجری قرار ی جاوے تو پھر بھی ان کی عمر گیارہ سال کی بنتی ہے۔ پس نو سال کا اندازہ بہرحال غلط اور نا درست ہے۔
لیکن اگر بالفرض نو سال کی عمر کو ہی صحیح تسلیم کر لیا جاوے تو پھر بھی کوئی جائے اعتراض نہیں ہے ، کیونکہ عرب جیسے ملک میں نو یا دس سال کی لڑکی کا بالغ ہو جانا بعید از قیاس نہیں۔ خود ہمارے ہندوستان میں بھی بعض لڑکیاں جن میں نشوونما کا مادہ غیر معمولی طور پر زیادہ ہوتا ہے۔ دس سال کی عمر میں بالغ ہو جاتی ہیں۔ دراصل بلوغ کا انحصار زیادہ تر آب و ہوا اور خوراک اور گردو پیش کے حالات پر ہوتا ہے۔ٹھنڈے ممالک میں اور خصوصاً ایسے ممالک میں جہاں کی خوراک میں گرم مسالہ جات کا دخل کم ہوتا ہے لڑکیاں عموماً بہت دیر میں بالغ ہوتی ہیں؛ چنانچہ انگلستان وغیرہ میں سنِ بلوغ اوسطاً اٹھارہ سال کا ہوتا ہے اورلڑکیوں کی شادی عموماً بیس سال بلکہ بسا اوقات اس سے بھی زیادہ عمر میں ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں اگر کوئی لڑکی بیس سال کی عمر تک بغیر شادی کے بیٹھی رہے تو عموماً لوگوں میں انگشت نمائی شروع ہو جاتی ہے کہ اس میں کوئی نقص ہو گا تبھی اسے کوئی رشتہ نہیں ملا کیونکہ یہاں بلوغ کی اوسط عمر تیر ہ چودہ سال ہے۔ عرب کا ملک چونکہ ہندوستان کی نسبت بھی زیادہ گرم اور خشک ہے اس لیے وہاں کے سنِ بلوغ کی اوسط ہندوستان سے بھی گری ہوئی ہے اور کئی لڑکیاں ایسی ملتی ہیں جو نو دس سال کی عمر میں ہی سنِ بلوغ کو پہنچ جاتی ہیں۔ اندریں حالات حضرت عائشہ کا نو یا دس سال کی عمر میں بالغ ہو کر رخصتانہ کے قابل ہو جانا ہرگز قابلِ تعجب نہیں سمجھا جا سکتا۔ خصوصاً جبکہ اس امر کو مدِّ نظر رکھا جاوے کہ حضرت عائشہ میں نشوونما کا مادہ غیر معمولی طور پر زیادہ تھا۔ جیسا کہ سرولیم میور نے بھی اپنی کتاب میں تسلیم کیا ہے۔
بہرحال اب حضرت عائشہ پوری طرح بالغ تھیں اور ہجرت کے بعد شوال2 ہجری میں ان کا رخصتانہ ہوا۔ اس وقت حضرت عائشہ کی والدہ مدینہ کے مضافات میں ایک جگہ السُّنْح نامی میں مقیم تھیں، چنانچہ انصار کی عورتوں نے وہاں جمع ہو کر حضرت عائشہ کو رخصتانہ کیلئے آراستہ کیا اور پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خود وہاں تشریف لے گئے اور اسکے بعد حضرت عائشہ اپنے گھر سے رخصت ہو کر حرمِ نبوی ؐ میں داخل ہو گئیں۔مہر پانچ سودرہم یا بعض روایات کی رُو سے چار سودرہمیعنی کم و بیش یک صد روپیہ تھا ، جو رخصتانہ کے وقت نقد ادا کر دیا گیا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تمام بیویوں میں سے صرف حضرت عائشہ ہی وہ بیوی تھیں جو باکرہ ہونے کی حالت میں آپؐکے نکاح میں آئیں۔باقی سب بیوہ یا مطلقہ تھیں اور اس خصوصیت کو حضرت عائشہ بعض اوقات اپنے امتیازات میں شمار کیا کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ کے رُخصتانہ کے وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر قریباً پچپن سال کی تھی اور آپ حضرت عائشہ کی خوردسالی کا خیال کرتے ہوئے ان کے ساتھ بہت دلداری کا سلوک فرماتے اور ان کے جذبات کا خاص خیال رکھتے تھے، چنانچہ ایک دفعہ جب چند حبشی شمشیر زن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐکے صحابہ کو نیزہ کے کرتب دکھانے لگے تو آپؐنے انہیں مسجدِ نبوی کے صحن میں کرتب دکھانے کیلئے ارشاد فرمایا اورخود حضرت عائشہ کو سہارا دے کر مکان کی دیوار کے ساتھ اپنی اوٹ میں لے کر کھڑے ہو گئے تاکہ وہ بھی ان لوگوں کے کرتب دیکھ لیں اور جب تک وہ اس فوجی تماشہ سے خود سیر نہیں ہو گئیں آپؐوہاں سے نہیں ہٹے۔ایک دوسرے موقع پر آپؐنے حضرت عائشہ کے ساتھ دوڑنے کا مقابلہ کیا۔ پہلی دفعہ تو حضرت عائشہ آگے نکل گئیں لیکن جب ایک عرصہ بعد آپؐدوسری دفعہ ان کے ساتھ دوڑے تو اس وقت وہ پیچھے رہ گئیں، جس پر آپؐنے مُسکراتے ہوئے فرمایا ھٰذِہٖ بِتِلْکَ یعنی ’’ لو عائشہ اب وہ بدلہ اُتر گیا ہے۔‘‘ بعض اوقات حضرت عائشہ کی بعض سہیلیاں اُن کے گھر میں معصومانہ اشعار وغیرہ پڑھنے کا شغل کرتیں، تو آپؐبالکل تعرض نہ فرماتے بلکہ جب ایک دفعہ حضرت ابو بکر نے یہ نظارہ دیکھ کر لڑکیوں کو کچھ تنبیہہ کرنی چاہی تو آپؐنے منع فرمایا اور کہا ابو بکر جانے دو۔ یہ عید کا دن ہے لڑکیاں اپنا شغل کرتی ہیں لیکن جب آپؐدوسری طرف متوجہ ہوئے تو حضرت عائشہ نے خود لڑکیوں کو اشارہ کر کے انہیں رخصت کر دیا۔مگر باوجود اس صغر سنی کے حضرت عائشہ کا ذہن اور حافظہ غضب کا تھا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت کے ماتحت انہوں نے نہایت سرعت کے ساتھ حیرت انگیز طور پر ترقی کی اور دراصل اس چھوٹی عمر میں ان کو اپنے گھر میںلے آنے سے آپ کی غرض ہی یہ تھی کہ تا آپ بچپن سے ہی اپنے منشاء کے مطابق ان کی تربیت کر سکیں اور تا انہیں آپ کی صحبت میں رہنے کالمبے سے لمبا عرصہ مل سکے اور وہ اس نازک اور عظیم الشان کام کے اہل بنائی جاسکیں جو ایک شارع نبی کی بیوی پر عاید ہوتا ہے، چنانچہ آپؐاس منشاء میں کامیاب ہوئے اور حضرت عائشہ نے مسلمان خواتین کی اصلاح اور تعلیم و تربیت کا وہ کام سرانجام دیا جس کی نظیر تاریخِ عالم میں نہیں ملتی۔ احادیث نبویؐ کا ایک بہت بڑا اور بہت ضروری حصہ حضرت عائشہ ہی کی روایات پر مبنی ہے حتّٰی کہ ان کی روایتوں کی کل تعداد دو ہزار دو سو دس تک پہنچتی ہے۔ ان کے علم و فضل اور تفقہ فی الدین کا یہ عالم تھا کہ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ ان کا لوہا مانتے اور ان سے فیض حاصل کرتے تھے۔ حتّٰی کہ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کو کوئی علمی مشکل ایسی پیش نہیں آئی کہ اس کا حل حضرت عائشہ کے پاس نہ مل گیا ہو اور عروہ بن زبیر کا قول ہے کہ میں نے کوئی شخص علمِ قرآن اور علم میراث اور علم حلال و حرام اور علمِ فقہ اور علمِ شعر اور علمِ طِب اور علمِ حدیثِ عرب اور علمِ انساب میں عائشہ ؓ سے زیادہ عالم نہیں دیکھا۔ زہد و قناعت میں ان کا یہ مرتبہ تھا کہ ایک دفعہ ان کے پاس کہیں سے ایک لاکھ درہم آئے انہوں نے شام ہونے سے پہلے پہلے سب خیرات کر دیئے ! حالانکہ گھر میں شام کے کھانے تک کیلئے کچھ نہیں تھا۔انہی اوصافِ حمیدہ کی وجہ سے جن کی جھلک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی نظر آنے لگ گئی تھی۔ آپؐانہیں خاص طور پر عزیز رکھتے تھے اور بعض اوقات فرماتے تھے کہ سب لوگوں میں عائشہ مجھے محبوب ترین ہے۔ ایک دفعہ فرمایا کہ مردوں میں تو بہت لوگ کامل گذرے ہیں لیکن عورتوں میں کاملات بہت کم ہوئی ہیں۔ پھر آپؐنے آسیہ اہلیہ فرعون اور مریم بنت عمران کا نام لیا اور پھر فرمایا کہ عائشہ کو عورتوں پر وہ درجہ حاصل ہے جو عرب کے بہترین کھانے ثرید کو دوسرے کھانوں پر ہوتا ہے۔ ایک دفعہ بعض دوسری ازواج مطہرات نے کسی اہلی امر میں حضرت عائشہ کے متعلق آنحضرتﷺ سے کوئی بات کہی مگر آپؐخاموش رہے لیکن جب اصرار کے ساتھ کہا گیا تو آپؐ نے فرمایا ’’ میں تمہاری ان شکایتوں کا کیا کروں میں تو یہ جانتا ہوں کہ کبھی کسی بیوی کے لحاف میں مجھ پر میرے خدا کی وحی نازل نہیں ہوئی، مگر عائشہ کے لحاف میں وہ ہمیشہ نازل ہوتی ہے۔ اﷲ اﷲ ! کیا ہی مقدس وہ بیوی تھی جسے یہ خصوصیت حاصل ہوئی اور کیا ہی مقدس وہ خاوند تھا جس کی اہلی محبت کا معیار بھی تقدس و طہارت کے سوا کچھ نہیں تھا!!
اس جگہ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ حضرت عائشہ کا نکاح خاص خدائی تجویز کے ماتحت وقوع میں آیا تھا! چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ان کے نکاح سے پہلے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خواب دیکھا تھا کہ ایک فرشتہ آپؐکے سامنے ایک ریشمی کپڑا پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ آپؐکی بیوی ہے آپؐاسے کھولتے ہیں تو اس میں حضرت عائشہ کی تصویر پاتے ہیں مگر آپؐنے اس خواب کا کسی سے ذکر نہیں فرمایا اور سمجھ لیا کہ اگر اس خواب نے اپنی ظاہری صورت میں پورا ہونا ہے تو خدا خود اس کا سامان کر دے گا! چنانچہ بالآخر خولہ بنت حکیم کی تحریک سے یہ رشتہ قائم ہو گیا۔ احادیث میں یہ ذکر بھی آتا ہے کہ آخری ایام میں حضرت سودہ بنت زمعہ نے اپنی باری حضرت عائشہ کو دیدی تھی اور اس طرح حضرت عائشہ کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت سے مستفیض ہونے کا دوہرا موقع میسر آگیا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ چونکہ اس زمانہ میں شریعت کا نزول ہو رہا تھا اور ہر امر میں جدید دستور العمل کی بنیاد پڑ رہی تھی، اس لیے جب حضرت سودہ بوڑھی ہو گئیں اور پورے طور پر حقوقِ زوجیت کی ادائیگی کے قابل نہ رہیں تو انہیں اپنی جگہ یہ خیال پیدا ہواکہ شاید آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اس حال میں انہیں علیحدہ کر دیں اس لیے انہوں نے خود ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ عرض کر کے کہ یا رسول اﷲ مجھے اب باری کی ضرورت نہیں ہے اپنی باری حضرت عائشہ کو دیدی۔ ان کا یہ خیال تو سراسر غلط اور محض وہم پر مبنی تھا ، لیکن چونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ کی تعلیم و تربیت کا خاص خیال تھا اور وہ اپنی عمر اور حالات کے لحاظ سے اس قابل تھیں کہ ان پر خاص توجہ صرف کی جاوے اس لیے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے باری کے متعلق سودہ کی تجویز منظور فرمالی۔ مگر اسکے بعد بھی آپؐحضرت سودہ ؓ کے پاس باقاعدہ تشریف لے جایا کرتے تھے اور دوسری بیویوں کی طرح ان کی دلداری اور آرام کا خیال رکھتے تھے۔
حضرت عائشہؓ کے خواندہ ہونے کے متعلق اختلاف ہے مگر بخاری کی ایک روایت سے پتہ لگتا ہے کہ ان کے پاس ایک نسخہ قرآن شریف کا لکھا ہوا موجود تھا۔ جس پر سے انہوں نے ایک عراقی مسلمان کو بعض آیات خود املاء کرائی تھیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ کم از کم خواندہ ضرور تھیں اور اغلب ہے کہ انہوں نے اپنے رخصتانہ کے بعد ہی لکھنا سیکھا تھا، لیکن جیسا کہ بعض مؤرخین نے تصریح کی ہے وہ غالباً لکھنا نہیں جانتی تھیں۔ حضرت عائشہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کم و بیش اڑتالیس سال زندہ رہیں اور58 ہجری کے ماہِ رمضان میں اپنے محبوب حقیقی سے جا ملیں۔ اس وقت ان کی عمر قریباً اڑسٹھ سال کی تھی۔

(باقی آئندہ)

(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ 428تا 432،مطبوعہ قادیان2011)
…٭…٭…٭…