اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-08-31

حضرت عائشہ ؓ کارخصتانہ اور ان کی عمر کی بحث

تعدّداز دواج کا مسئلہ،دو فرضی واقعات

سیرت خاتم النّبیینﷺ

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

حضرت عائشہ ؓ کا رخصتانہ، ماہ شوال 2ہجری

کتاب کے حِصّہ اوّل میں یہ ذکر گذر چکا ہے ۔ حضرت خدیجہ ؓکی وفات کے بعد آنحضرت ﷺنے عائشہ ؓ صدیقہ کے ساتھ شادی فرمائی تھی یہ سنہ نبوی کا دسواں سال اور شوال کا مہینہ تھااور اُس وقت حضرت عائشہ ؓ کی عمر سات سال کی تھی۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا نشوونما اس وقت بھی غیرمعمولی طور پر اچھا تھا، ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ خولہ بنت حکیم کو جو اُن کے نکاح کی محرک بنی تھیں آنحضرت ﷺ کی شادی کیلئے اُن کی طرف خیال جاتا لیکن بہرحال ابھی تک وہ بالغ نہیں ہوئی تھیں، اس لیے اُس وقت نکاح تو ہو گیا مگر رخصتانہ نہیں ہوا اور وہ بدستور اپنے والدین کے پاس مقیم رہیں، لیکن اب ہجرت کے دُوسرے سال جب کہ اُن کی شادی پر پانچ سال گذر چکے تھے اور ان کی عمر بارہ سال کی تھی وہ بالغ ہو چکی تھیں؛ چنانچہ خود حضرت ابو بکر ؓ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر رخصتانہ کی تحریک کی۔ جس پر آپؐنے مہر کی ادائیگی کا انتظام کیا۔ (اس زمانہ میں مہر کے نقد ادا کرنے کا دستور تھا) اور ماہ شوال2 ہجری میں حضرت عائشہ اپنے والدین کے گھر سے رخصت ہو کر حرمِ نبویؐ میں داخل ہو گئیں۔
یہ سوال کہ رُخصتانہ کے وقت حضرت عائشہ کی عمر کتنی تھی اس زمانہ میں ایک اختلافی سوال بن گیا ہے۔ عام کتب تاریخ اور کتبِ حدیث میں حضرت عائشہ کی عمر نو یا دس سال کی بیان ہوئی ہے حتیٰ کہ صحیح بخاری میں خود حضرت عائشہ ؓ سے بھی یہ روایت مروی ہے کہ رخصتانہ کے وقت میری عمر صرف نو سال تھی اور اسی بناء پر جمہور مؤرخین نے نو سال کی عمر بیان کی ہے مگر اسکے مقابلہ میں بعض جدید محققین نے مختلف قسم کے استدلالات سے چودہ سال بلکہ سولہ سال تک عمر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہر چند کہ ہم ان نو محققین کی رائے سے اتفاق نہیں رکھتے مگر حالات کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ نو سال کی عمر کا خیال بھی درست نہیں ہے بلکہ جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے رخصتانہ کے وقت حضرت عائشہ کی عمر پورے بارہ سال یا قریباً بارہ سال کی ثابت ہوتی ہے۔ دراصل اس معاملہ میں متقدمین کو تو ساری غلطی اس وجہ سے لگی ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ کے نو سال والے اندازے کو جو صحیح احادیث میں بیان ہوا ہے بالکل یقینی اور قطعی سمجھ کر کسی اور بات کی طرف توجہ نہیں کی، حالانکہ ہر عقلمند آدمی سمجھ سکتا ہے کہ روایت کا صحیح ہونا اور بات ہے اور اندازے کا صحیح ہونا بالکل اور بات۔ یعنی باوجود اسکے کہ یہ روائتیں جن میں حضرت عائشہ کا یہ اندازہ بیان ہوا ہے کہ رُخصتانہ کے وقت میری عمر نو سال کی تھی اصل روایت کے لحاظ سے بالکل صحیح ہوں، حضرت عائشہ کا یہ اندازہ خود اپنی ذات میں غلط ہو سکتا ہے جیسا کہ بسا اوقات لوگوں کے اندازے اپنی عمر کے متعلق غلط ہو جایا کرتے ہیں۔ اسکے مقابلہ میں جن لوگوں نے نو سال والے خیال کو غلط سمجھ کر آزادانہ تحقیق کرنی چاہی ہے انہوں نے یہ غلطی کی ہے کہ تحقیق کے سیدھے اور صاف راستہ کو ترک کر کے ایک ایسا پیچیدہ طریق اختیار کیا ہے کہ جو دل کی تسلی کا موجب نہیں ہو سکتا۔ ہر فہمیدہ شخص ہمارے ساتھ اتفاق کرے گا کہ سب سے زیادہ پختہ اور سب سے زیادہ آسان ذریعہ حضرت عائشہ کی عمر کاپتہ لگانے کایہ ہے کہ ہمیں ایک طرف تو انکی پیدائش کی تاریخ اور دوسری طرف ان کے رخصتانہ کی تاریخ کا پتہ چل جاوے۔ کیونکہ ان دونوں تاریخوں کے معین ہو جانے کے بعد رخصتانہ کے وقت کی عمر کے متعلق کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہ سکتی۔ پہلے ہم پیدائش کے سوال کو لیتے ہیں۔ ابن سعد نے طبقات میں یہ روایت نقل کی ہے کہ کَانَتْ عَائِشَۃُ وَلَدَتِ السَّنَۃَ الرَّابِعَۃَ مِنَ النُّبُّوَۃِ فِی اَوَّ لِھَا۔ یعنی ’’ حضرت عائشہ 4 نبوی کے ابتداء میں پیدا ہوئیں تھیں۔ ‘‘ حضرت عائشہ کی تاریخ پیدائش کے متعلق اس روایت کے سوا کوئی اور معین روایت ابتدائی مؤرخین کی کسی کتاب میں میری نظر سے نہیں گذری اور نہ ہی حدیث کی کسی کتاب میں اسکے متعلق کوئی روایت آتی ہے۔ پس پیدائش کی تاریخ تو آسانی کے ساتھ معین ہو گئی اور وہ ابتداء 4 نبوی ہے۔
اب ہم دوسرے سوال کو لیتے ہیں جو رخصتانہ کی تاریخ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس میں بیشک روایات میں اختلاف ہے۔ بعض روایات میں یہ تاریخ شوال 1 ہجری بیان ہوئی ہے اور بعض میں شوال 2ہجری لیکن غور کیا جاوے تو مؤخر الذکرروایات زیادہ صحیح قرار پاتی ہیں۔ شوال 1 ہجری والی روایت کا اصل منبع ابن سعد ہے جس نے ایک سلسلہ رواۃ کے ذریعہ اس روایت کو حضرت عائشہ تک پہنچایا ہے۔ اور اکثر مؤرخین نے ابن سعد والی روایت پر ہی بنا رکھ کر رُخصتانہ کی تاریخ شوال 1 ہجری قرار دی ہے لیکن گو ابن سعد خود اپنی ذات میں ثقہ ہے مگر اس روایت میں اس کے راویوں میں ایک راوی واقدی ہے جس کے غیر ثقہ اور ناقابلِ اعتماد بلکہ جھوٹا ہونے کے متعلق محققین نے قریباً قریباً اجماع کیا ہے۔ پس محض اس واقدی والی روایت پر جبکہ وہ دوسری روایات کے خلاف ہو ایک تاریخی واقعہ کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی۔ اسکے مقابلہ پر علامہ نودی علامہ عینی اور قسطلانی اور بعض دوسرے محققین نے شوال 2 ہجری والی روایت کو صحیح اور قابل ترجیح قرار دیا ہےاور علامہ نودی نے تو بڑی صراحت اور اصرار کے ساتھ لکھا ہے کہ اس روایت کے مقابلہ میں شوال 1ہجری والی روایت کمزور اور قابل ردّ ہے۔پس کوئی وجہ نہیں کہ صرف اس بناء پر کہ عام مؤرخین نے شوال 1 ہجری والی روایت کی تقلیدکی ہے ہم ایک زیادہ مضبوط خیال کو ردّکر دیں اور دراصل عام مؤرخین نے بھی واقدی کی روایت کو محض اس خیال سے نوازا ہے کہ وہ نو سال والی عمر کے اندازے کے ساتھ جو صحیح احادیث میں بیان ہوا ہے زیادہ مطابقت کھاتی ہے ، چنانچہ زرقانی جیسا محقق صاف لکھتا ہے کہ شوال2 ہجری والی روایت اس لیے قابل قبول نہیں ہے کہ اس طرح نو سال سے زیادہ ہو جاتی ہے حالانکہ جب خود عمر کا سوال اور عمر کی روایتیں ہی زیر بحث ہوں تو کسی خاص روایت کو صحیح فرض کر لینا درست نہیں ہے اور پھر جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں نو سال والے اندازے کو غلط ماننے کے یہ معنے نہیں ہیں کہ نو سال والی روایتیں بھی غلط ہیں اور پھر تعجب یہ ہے کہ خود علامہ زرقانی نے دوسری جگہ شوال2 ہجری والے قول کو مقدم کیا ہے۔ اندریں حالات شوال 1 ہجری والی روایت شوال 2 ہجری والی روایت کے مقابلہ میں قابل قبول نہیں سمجھی جا سکتی اور حقیقت یہی معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عائشہ کا رخصتانہ شوال2 ہجری میں ہوا تھا۔ واﷲ اعلم
اب جب پیدائش اور رخصتانہ کی تاریخوں کی تعیین ہو گئی تو عمر کا پتہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے بلکہ یہ صرف ایک موٹا حسابی سوال رہ جاتا ہے جسے ایک بچہ بھی نکال سکتا ہے۔ حضرت عائشہ4نبوی کے شروع میں پیدا ہوئیں اور آنحضرتﷺ کی ہجرت 14 نبوی کے ربیع الاوّل میں ہوئی۔اس طرح ہجرت تک حضرت عائشہ کی عمر کچھ ماہ اوپر دس سال بنتی ہے اور ہجرت کے بعد جو ربیع الاوّل 1ہجری میں ہوئی شوال2 ہجری تک جبکہ حضرت عائشہ ؓ کا رخصتانہ ہوا دو سال سے کچھ کم کا عرصہ ہوتا ہے اور ان دونوں عرصوں کو ملانے سے وہی بارہ سال حاصل ہوتے ہیں جو ہم نے ابتداء میں بیان کئے ہیں اور اگر ابنِ سعد کی روایت کے مطابق رخصتانہ کو ہجرت کے پہلے سال میں سمجھا جاوے تو پھر بھی یہ عرصہ گیارہ سال کا بنتا ہے نہ کہ نو یا دس سال کا اور یہ ایک حسابی نتیجہ ہے جس کے مقابلہ میں کوئی تخمینی اندازہ قبول نہیں کیا جاسکتا۔
اب رہا یہ سوال کہ متعدد احادیث میں حضرت عائشہ ؓ نے خود اپنی عمر نو سال کی کیوں بیان کی ہے؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم ان روایتوں کو غلط نہیں کہتے یعنی ہم تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ کا یہی خیال تھا کہ رخصتانہ کے وقت ان کی عمر نو سال کی تھی ، لیکن یقینا ان کا یہ خیال محض تخمینی تھا اور درست نہیں تھا اور یہ کوئی قابلِ تعجب بات نہیں کیونکہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ عمروں کے اندازوں میں لوگوں سے غلطی ہو جایا کرتی ہے۔ پس اگر پیدائش اور رخصتانہ کی تاریخوں کے حسابی مقابلہ سے حضرت عائشہ کی عمر نو سال نہیں بنتی تو محض حضرت عائشہ کے اس اندازے کی وجہ سے کہ رخصتانہ کے وقت میری عمر نو سال کی تھی نو سال والی روایت کو قبول نہیں کیا جاسکتا؛ البتہ اگر کسی صحیح حدیث میں حضرت عائشہ کی پیدائش کی تاریخ اوائل 4 نبوی کے علاوہ کوئی اور بیان کی گئی ہو یا رخصتانہ کی تاریخ شوال2 ہجری کے علاوہ کوئی اور ثابت ہو تو بیشک یہ روایتیں قابل قبول ہوں گی اور انہی پر عمر کے حساب کو مبنی قرار دیا جائے گا لیکن ایک محض اندازے اور خیال کے مقابلہ میں خواہ وہ صحیح احادیث میں ہی بیان کیا گیا ہو ایک حسابی نتیجہ کو رد نہیں کیا جاسکتا۔
یہ تو ایک اصولی بحث ہے جو ہم نے اس جگہ پیش کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر اندازے والی روایتوں کی چھان بین کی جائے تو ان سے بھی بالآخر وہی نتیجہ نکلتا ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے یعنی یہ کہ رخصتانہ کے وقت حضرت عائشہ کی عمر بارہ سال کی تھی نہ کہ نو سال کی۔ اس کے سمجھنے کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ دراصل حضرت عائشہ نے صرف رخصتانہ کی عمر کا اندازہ ہی نہیں بتایا بلکہ ساتھ ہی نکاح کی عمر کا اندازہ بھی بتایا ہے اور حدیث و تاریخ کی کتابوں میں یہ دونوں اندازے ساتھ ساتھ بیان ہوئے ہیں؛ چنانچہ حضرت عائشہ کا یہ قول کثرت کے ساتھ مروی ہوا ہے کہ جب میرا نکاح ہوا تو میری عمر چھ یا سات سال کی تھی اور جب میرا رخصتانہ ہوا تو میری عمر نو سال کی تھی اور بعض روایتوں میں رخصتانہ کی عمر دس سال بھی بیان ہوئی ہے۔ اب اصولی قاعدہ کے مطابق ہمیں ان دونوں اندازوں میں سے پہلے اندازے کو جو نکاح کے وقت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اَقرب بالصحت سمجھنا چاہئے کیونکہ اول تو یہ اندازہ زیادہ چھوٹی عمر کے ساتھ تعلق رکھتا ہے جبکہ غلطی کاامکان نسبتاً کم ہوتا ہے۔ دوسرے چونکہ وہ سب سے پہلا اندازہ ہے وہی اصل اندازہ سمجھا جائے گا اور بعد کی عمر کے ساتھ تعلق رکھنے والے اندازے اس اندازے کی فرع سمجھے جائیں گے نہ کہ مستقل اندازے۔ پس اندازوں کی بحث میں اصل بنیاد لازماً پہلے اندازے پر رکھی جائے گی جو نکاح کے وقت کی عمر کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور جس میں چھ یا سات سال کی عمر بیان کی گئی ہے۔ اب جب ہم اس اندازے سے حساب شماری کرکے رخصتانہ کی عمر کا پتہ لگاتے ہیں تو اس طرح بھی وہی بارہ سال کی عمر ثابت ہوتی ہے نہ کہ نو یا دس سال کی مگر پیشتر اس کے کہ ہم یہ حساب پیش کریں چھ اور سات کے باہمی اختلاف کا حل ضروری ہے۔ یہ بیان کیا جاچکا ہے کہ شادی کے وقت کی عمر بعض روایتوں میں چھ سال بیان ہوئی ہے اور بعض میں سات سال اور یہ دونوں قسم کی روایتیں کتب حدیث اور کتب تاریخ ہر دو میں پائی جاتی ہیں۔ سات سال والی روایت خصوصیت کے ساتھ صحیح مسلم و نسائی اور ابن ہشام اور ابن سعد اور طبری میں بیان ہوئی ہےاور اسکے مقابلہ میں چھ سال والی روایت بھی ان سب کتب میں باستثناء سیرت ابنِ ہشام مروی ہوئی ہے اور علاوہ اسکے بخاری میں بھی چھ سال والی روایت پائی جاتی ہے۔ اب ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوںقسم کی روایتوں میں سے کونسی روایتیں قابل ترجیح ہیں۔ ہر شخص جو علم روایت سے تھوڑا بہت بھی مس رکھتا ہے اس بات کو تسلیم کرے گا کہ جہاں تک محض روایت کی صحت کا تعلق ہے کہ دونوں قسم کی روایتیں ہر طرح صحیح اور قابلِ اعتماد ہیں اور ہم ان میں سے کسی کو غلط کہہ کر رد نہیں کر سکتے۔ پس ماننا پڑے گا کہ خود حضرت عائشہ ؓ نے ہی مختلف موقعوں پر یہ دو مختلف اندازے بیان کیے ہیں۔ یعنی کبھی تو انہوں نے اپنی عمر چھ سال کی بیان کی ہے اور کبھی سات سال کی اور کبھی ان دونوں کو ملا کر یہ کہہ دیا ہے کہ شادی کے وقت میری عمر چھ یا سات سال کی تھی۔ پس روایت کے لحاظ سے تو کوئی فرق نہیں ہے لیکن درایتاً غور کیا جاوے تو سات سال والے اندازے کو ترجیح دینی پڑتی ہے اور وہ اس طرح پر کہ یہ ایک عام دستور ہے کہ جب تک عمر کا کوئی سال پورا نہیں ہو جاتا۔ اس وقت تک صرف نیچے کے سال کا نام لیا جاتا ہے اور اوپر کی کسر کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور اوپر کے سال کا نام صرف اسی وقت لیا جاتا ہے کہ جبکہ یا تو اوپر کا سال پورا ہو چکا ہو اور یا پورا ہونے کے اس قدر قریب ہو کہ عملاً اسے پورا سمجھا جا سکے۔ پس حضرت عائشہ کی عمر کے متعلق بعض روایات میں چھ سال کا ذکر آنا اور بعض میں سات سال کا یقینی طور پر اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر چھ سے گذر کے سات کے اس قدر قریب پہنچ چکی تھی کہ اس پر سات سال کا اطلاق عام محاورہ کی رو سے جائز ہو گیا تھا اور صرف تھوڑی سی برائے نام کمی کی وجہ سے چھ سال کا لفظ استعمال کر لیا جاتا تھا ورنہ عملاً ان کی عمر سات سال کی ہی تھی؛ چنانچہ اسی خیال کے ماتحت بعض مؤرخین نے چھ سال کے ذکر کو بالکل ترک کر دیا ہے اور صرف سات سال کا ذکر کیا ہے مثلاً ابن ہشام نے چھ سال کا ذکر تک نہیں کیا اور صرف سات سال کا ذکر کیا ہے اور اس کے مقابلہ میں میری نظر سے کوئی ایسی مستند تاریخ کی کتاب نہیں گذری جس میں صرف چھ سال کے ذکر پر اکتفاء کیا گیا ہو۔ پھر صاحب سیرت حلبیہ نے بھی جہاں ازواج النبی ؐ کا ذکر کیا ہے، وہاں حضرت عائشہ کی عمر صرف سات سال بیان کی ہے اور چھ سال کا ذکر نہیں کیا اور حضرت عائشہ کے نکاح کے بیان میں ذکر تو دونوں کا ہے مگر صراحتاً لکھا ہے کہ سات سال والی روایت اقرب بالصحت ہے۔اندریں حالات گوروایتاً دونوں قسم کی روایتیں صحیح ہیں مگر درایت کے طریق پر اس بات میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں سمجھی جا سکتی کہ نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر سات سال کے اس قدر قریب پہنچی ہوئی تھی کہ گویا عملاً وہ سات سال ہی تھی۔ (باقی آئندہ)

(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ 423تا 428،مطبوعہ قادیان2011)