اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-06-15

٭بدرکااثر مشرکین مدینہ پر٭رومی سلطنت کی فتح اورآنحضرت ﷺ کی پیشگوئی

٭مسئلہ غلامی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ٭موجود الوقت غلاموں کی اصلاح کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم

سیرت خاتم النّبیینﷺ

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

بدرکااثر مشرکین مدینہ پر

ابھی تک مدینہ میں قبائل اوس اورخزرج کے بہت سے لوگ شرک پر قائم تھے۔بدر کی فتح نے ان لوگوں میں ایک حرکت پیدا کردی اوران میں سے بہت سے لوگ آنحضرت ﷺ کی اس عظیم الشان اورخارق عادت فتح کو دیکھ کر اسلام کی حقانیت کے قائل ہوگئے اور اسکے بعد مدینہ سے بت پرست عنصربڑی سرعت کے ساتھ کم ہونا شروع ہوگیا مگر بعض ایسے بھی تھے جن کے دلوں میں اسلام کی اس فتح نے بغض وحسد کی چنگاری روشن کردی اورانہوں نے برملا مخالفت کوخلاف مصلحت سمجھتے ہوئے بظاہرتواسلام قبول کرلیا لیکن اندر ہی اندراسکے استیصال کے دَرپے ہوہو کر منافقین کے گروہ میں شامل ہوگئے۔ان مؤخر الذکر لوگوں میں زیادہ ممتاز عبداللہ بن ابیّ ابن سلول تھا جوقبیلہ خزرج کاایک نہایت نامور رئیس تھااورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مدینہ میںتشریف لانے کے نتیجہ میںاپنی سرداری کے چھینے جانے کا صدمہ اٹھا چکا تھا۔یہ شخص بدر کے بعدبظاہر مسلمان ہو گیا، لیکن اس کادل اسلام کے خلاف بغض وعداوت سے لبریز تھا اوراہلِ نفاق کاسردار بن کر اس نے مخفی مخفی اسلام اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف ریشہ دوانی کاسلسلہ شروع کردیا۔ چنانچہ بعد کے واقعات سے پتہ لگے گا کہ کس طرح یہ شخص بعض اوقات اسلام کیلئے نہایت نازک حالت پیدا کردینے کاباعث بنا۔

رومی سلطنت کی فتح اورآنحضرت ﷺ کی پیشگوئی

کتاب کے حصہ اول میں بیان کیا گیا تھاکہ ان ایام میںروم اور فارس کی مملکتیں برسرپیکار تھیں اورمکہ والوں کی ہمدردی طبعاًاہلِ فارس کے ساتھ تھی جوانہی کی طرح مشرک تھے۔آنحضرت ﷺ ابھی مکہ میں ہی تشریف رکھتے تھے کہ آپؐنے خدا سے الہام پاکر یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ اس جنگ میں گوابتداء ً روم کو نیچا دیکھنا پڑے گا،لیکن بالآخر اسے فارس پر فتح حاصل ہوگی اور تین سال سے لے کر نوسال کے عرصہ تک روم غالب آجائے گا۔یہ پیشگوئی اس وقت کی گئی تھی جبکہ فارس کی افواج روم کودباتی چلی جاتی تھیںاوربہت سے رومی علاقے فارس نے چھین لئے تھے اوربظاہر حالات روم کیلئے کوئی امید نظر نہیں آتی تھی۔اس حالت کو دیکھ کر کفار مکہ بہت خوش تھے اور جب آنحضرت ﷺ نے یہ پیشگوئی فرمائی تو وہ کہتے تھے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگاکہ اب روم کوغلبہ حاصل ہو۔چنانچہ ان کی تحریک پر حضرت ابوبکرؓنے ان سے ایک شرط بھی باندھ لی۔ مگر حضرت ابوبکرسے یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے کفار مکہ کے کہنے میں آکرقرآن شریف کی بیان کردہ میعاد کوجو تین سال سے لے کر نو سال کے عرصہ پرمشتمل تھی صرف چھ سال میں محصور کردیااوراس طرح قریش کو ایک جھوٹی خوشی کاموقع مل گیا،مگر بعد میں آنحضرت ﷺ نے اسکی اصلاح فرمادی کہ خدائی میعاد کوتنگ کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے پوری میعادد نوسال ہے اور اس وقت تک پیشگوئی کے پورا ہونے کا انتظار کرنا چاہئے چنانچہ ابھی نو سال نہیں گزرے تھے کہ جنگ نے یکلخت پلٹا کھایا اورروم نے فارس کو شکست پر شکست دے کراپنا سارا علاقہ واپس چھین لیا اور جنگ کا اختتام روم کی فتح پر ہوا۔یہ ایام وہی تھے جبکہ صحابہ نے قریش مکہ کو بدر کے میدان میں شکست دی تھی۔گویااس موقع پر مسلمانوں کیلئے دو خوشیاں جمع ہوگئیں اور قریش مکہ کیلئے دو ماتم۔ بعض روایات میں یہ مروی ہوا ہے کہ یہ فتح روم کوصلح حدیبیہ کے زمانہ میں حاصل ہوئی تھی مگر یہ دونوں روایتیں متضاد نہیں ہیں کیونکہ دراصل روم کی فتح کازمانہ جنگِ بدر سے لے کر صلح حدیبیہ کے زمانہ تک پھیلا ہوا تھا۔

مسئلہ غلامی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

چونکہ جنگ کو غلامی کے مسئلہ کے ساتھ ایک بنیادی تعلق ہے اوربدر وہ پہلی باقاعدہ جنگ ہے جو کفار اور مسلمانوں کے درمیان وقوع میں آئی۔اس لئے جنگ بدر کے تذکرہ میںطبعاًیہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مسئلہ غلامی کے متعلق کیا تعلیم دی اورکیا طریق اختیار کیا؟ لہٰذا پیشتر اسکے کہ ہم آگے چلیں مسئلہ غلامی کے متعلق ایک مختصر سا نوٹ درج کرنا نامناسب نہ ہوگا۔مگر چونکہ یہ مسئلہ نہایت وسیع اورنہایت نازک ہے اوراس پر پورے تبصرہ کیلئے بہت سے مباحث میں داخل ہونا پڑتا ہے جسکی اس جگہ گنجائش نہیںاور نہ ایک مؤرخ ہونے کی حیثیت میں ہم اس قسم کی علمی بحثوں میں زیادہ پڑ سکتے ہیں،اس لئے ہم اس جگہ صرف اصولی نقطۂ نگاہ سے اس مسئلہ پر ایک اجمالی نظر ڈالیں گے اوراس میں بھی اپنے آپ کو صرف اس حد تک محدود رکھیںگے جو آنحضرت ﷺ کی تعلیم اور طریق عمل کے ساتھ براہ راست تعلق رکھتا ہے۔
سو سب سے پہلے تو یہ جاننا چاہئے کہ جیسا کہ انسائیکلوپیڈیابرٹینیکا میں تصریح کی گئی ہے دنیا میں غلامی کی ابتداء دراصل جنگ سے ہوئی ہے۔شروع شروع میں غلام بنائے جانے کا طریق اس طرح پر جاری ہوا کہ جب دو قبیلوں یادوقوموں یادوملکوں کے درمیان کسی وجہ سے جنگ چھڑتی تھی تو مفتوح فوج کے جنگجو لوگ بلکہ بسااوقات مفتوح قوم کے بیشتریاسارے کے سارے مرد قتل کردئیے جاتے تھے اور عورتوں اور بچوں کو (سوائے اس کے کہ انہیں بھی واجب القتل سمجھا جاوے)قید کرکے غلام بنا لیا جاتا تھا اورپھر ان غلاموں سے مختلف قسم کے کام اور محنتیں لی جاتی تھیں۔اسکے بعدایک طرف دنیا میںتمدن اورکاروبار نے ترقی کی اور مزدور پیشہ لوگوں اور خدمتگاروں کی مانگ زیادہ ہونی شروع ہوئی اوردوسری طرف عورتوں اور بچوں کوغلام بنالینے کے عملی تجربہ نے یہ ثابت کیا کہ خدمت اور مزدوری حاصل کرنے کا یہ ایک عمدہ اورآسان ذریعہ ہے کہ مفتوح قوم کے لوگوں کو غلام بناکر رکھا جاوے اس لئے آہستہ آہستہ یہ طریق جاری ہوگیاکہ باستثناء ان لوگوں کے جو کسی وجہ سے واجب القتل سمجھے جاتے تھے مفتوح قوم کے مردوں کو بھی بجائے قتل کرنے کے غلام بنالیا جاتا تھااورپھر ان سے ملکی اورقومی اورانفرادی کاموں میں جبری محنت لی جاتی تھی۔اس طرح آہستہ آہستہ یہ طریق ایسا وسیع ہوگیاکہ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ بعض ممالک میں غلاموں کی تعداد اصل باشندوں سے بھی زیادہ ہوگئی اورغلامی کا طریق دنیا کے تمدن اورمعاشرت کا ایک ضروری حصہ بن گیا۔یہ غلام مالک کی کامل ملکیت سمجھے جاتے تھے اوراسے اختیار حاصل ہوتا تھا کہ انہیں جس طرح چاہے رکھے۔جوکام چاہے ان سے لے۔ جو سزا چاہے انہیںدے اورجب اور جس طرح چاہے انہیںکسی اور شخص کے پاس فروخت کردے۔
اوربالآخر اس سلسلہ نے ایسی وسعت اختیار کرلی کہ ان غلاموں کی اولاد بھی مالک کی ملک متصور ہونے لگی اوراس طرح ایک مستقل اور غیر متناہی سلسلہ غلامی کا جاری ہوگیا اورجب لوگوں نے یہ دیکھا کہ یہ ایک بڑا فائدہ مند سلسلہ ہے کہ گویا مفت میں ایسے نوکروں اور مزدوروںکی خدمت حاصل ہوجاتی ہے جن کو کوئی تنخواہ وغیرہ نہیںدینی پڑتی اورجو ہر حالت میں اورہرقسم کی خدمت پر مجبور ہوتے تھے بلکہ علاوہ خدمت کے ان سے اور بھی بعض فائدے اٹھائے جاسکتے ہیں تو جنگی قیدیوں کے طریق کے علاوہ لوگوں نے اور بھی کئی قسم کے ظالمانہ طریق غلام بنانے کے ایجاد کرلئے۔مثلاً بلاوجہ کسی کمزور قبیلہ یاقافلہ پرحملہ کرکے ان کے مردوزن کوپکڑ کر غلام بنالیاجاتا تھااورپھر ان بدنصیب لوگوںکی نسل میں یہ غلامی کاداغ ہمیشہ کیلئے چلتا چلا جاتا تھا۔الغرض آہستہ آہستہ غلامی کا جائزو ناجائزطریق دنیا میںرائج اور مستحکم ہوگیااورجس وقت اسلام کی ابتداء ہوئی اس وقت تمام ممالک میں یہ طریق کم وبیش جاری تھا اور مملکت ہائے روم اوریونان اورایران وغیرہ میں لاکھوں غلام دکھ اور مصیبت کی زندگی کاٹ رہے تھے اورکوئی ان کا پرسانِ حال نہیں تھا اوربحیثیت مجموعی ان کی حالت جانوروں سے بڑھ کر نہیں تھی۔اس زمانہ میں عرب کے ملک میں بھی ہزارہا غلام پائے جاتے تھے اور امراء کی امارت میں غلاموں کی تعداد بھی گویا ایک ضروری حصہ سمجھی جاتی تھی اور عرب کے لوگ خصوصیت کے ساتھ غلاموں کو سخت حقیروذلیل خیال کرتے تھے اورجیسا بھی ظالمانہ سلوک چاہتے تھے ان سے کرتے تھے۔چنانچہ کتاب کے حصہ اول میں گزر چکا ہے کہ مسلمان ہونے والے غلاموں پر رئوساء مکہ نے کیسے کیسے سخت مظالم کئے۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب خدا سے الہام پاکر رسالت کادعویٰ کیا تو آپؐکی ابتدائی تعلیمات میںیہ بات بھی داخل تھی کہ غلاموں کے ساتھ نرمی اور شفقت کاسلوک ہونا چاہئے۔ اورغلاموں کے آزاد کئے جانے کے متعلق بھی آپؐنے اسی ابتدائی زمانہ میںتحریک شروع کردی تھی بلکہ اس بارہ میں تو خصوصیت کے ساتھ ایک قرآنی وحی بھی نازل ہوئی کہ غلام کاآزاد کرنا ایک بہت بڑی نیکی ہے۔ اسلامی تعلیم کی خوبی اور کشش کے ساتھ اس مخصوص تعلیم نے مل کر عرب کے غلاموں پر ایک نہایت گہرااثر پیدا کیا اور وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی آواز کواپنے لئے ایک نجات دہندہ کی آواز سمجھنے لگ گئے۔یہی وجہ تھی کہ باوجود ان نہایت درجہ بے دردانہ مظالم کے جو رئوساء مکہ مسلمان ہونے والوں پر کرتے تھے، غلاموں میں اسلام بڑی سرعت کے ساتھ پھیلنا شروع ہوگیا۔ چنانچہ جیسا کہ کتاب کے حصہ اول میںبیان کیا جاچکا ہے ابتدائی مسلمانوں میں غلاموں کی نسبت غیر معمولی طور پر زیادہ تھی اورتاریخ سے ثابت ہے کہ یہ لوگ ابتدائی زمانہ میںبھی اسلامی سوسائٹی میں ہرگز ذلیل نہیں سمجھے جاتے تھے۔اس کے بعد جوں جوں اسلامی احکام نازل ہوتے گئے غلاموں کی پوزیشن زیادہ مضبوط اوران کی حالت زیادہ بہتر ہوتی گئی اوربالآخر اس انتظامی فرق کے سوا کہ ایک افسر ہوتا تھا اور دوسرا اسکے ماتحت، کوئی اور امتیاز باقی نہ رہا۔دوسری طرف غلاموں کی آزادی کی تحریک بھی دن بدن زیادہ مضبوط ہوتی گئی اور مسلمانوں نے آنحضرت ﷺکی پرزور تعلیم اور آپؐکے عملی نمونہ کے ماتحت ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اس تحریک میںحصہ لیا۔چنانچہ قرآن شریف اورکتاب حدیث وتاریخ اس کی تفاصیل سے بھری پڑی ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس معاملہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا کام صرف اس حد تک محدود رہا ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے اورآپؐنے غلامی کے ناجائز اورظالمانہ طریقوں کو منسوخ کرنے کیلئے کوئی تدابیراختیار نہیں کیں؟ اگریہی ہے تو گوپھر بھی آنحضرتﷺ دنیا کے ایک عظیم الشان محسن قرار پاتے ہیں کہ آپؐنے غلاموں کی حالت کو بہتر بنانے اور ان کی آزادی کی تحریک جاری کرنے اوراس تحریک کو عملی جامہ پہنانے میں ایک نہایت نمایاں خدمت سرانجام دی مگر یقینا اس سے آپؐکاوہ حقیقی کام پردہ میں رہتا ہے جوآپ کی اس تحریک کی اصل روحِ رواں تھے کیونکہ جہاں تک ہماری تحقیق ہے اوریہ تحقیق خوش عقیدگی کا ثمرہ نہیں بلکہ تاریخی واقعات پر مبنی ہے آنحضرت ﷺ نے صرف غلاموں کی حالت کو بہتر ہی نہیں بنایابلکہ آپؐ نے آئندہ کیلئے غلامی کے ناجائز اورظالمانہ طریقوں کو منسوخ بھی کردیا۔گویا مسئلہ غلامی کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم میں اصلاح کاکام دوحلقوں میں تقسیم شدہ تھا۔
اوّل حاضر الوقت غلاموں کی حالت کی اصلاح اوران کی آزادی کاانتظام۔دوم آئندہ کیلئے اصول احکامات۔اورہم اس جگہ ان دونوں قسم کے کاموں کے متعلق آپؐ کی تعلیم اور آپؐ کے طریق عمل کا نمونہ مختصر طور پر ہدیۂ ناظرین کرتے ہیں۔

موجود الوقت غلاموں کی اصلاح کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم

طبعی ترتیب کو مدّنظر رکھتے ہوئے پہلے ہم اس بحث کو لیتے ہیں جوحاضرالوقت غلاموں سے تعلق رکھتی ہے۔سوجاننا چاہئے کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ…وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْــتَالًا فَخُــوْرَۨا
’’اے مسلمانو!اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی اور احسان کاسلوک کرو اوراپنے دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ…اوراپنے غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ۔اورجانو کہ اللہ تعالیٰ نہیںپسند کرتا ان لوگوں کو جو تکبر اوربڑائی کا طریق اختیار کرتے ہیں۔‘‘
اس آیت میں غلاموں کے ساتھ نیکی اوراحسان کا حکم دیا گیا ہے۔پھر فرماتا ہے:
وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ۝۰ۭ وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَۃٍ وَّلَوْ اَعْجَبَـتْكُمْ۝۰ۚ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا۝۰ۭ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكُمْ
’’اوراے مسلمانو!نہ شادی کرو تم مشرک عورتوں کے ساتھ حتّٰی کہ وہ ایمان لے آئیں اورجانو کہ ایک مسلمان لونڈی بہتر ہے ایک آزاد مشرک عورت سے خواہ تمہیں مشرک عورت اچھی ہی نظر آئے۔اوراے مسلمانو!نہ نکاح کرو مسلمان عورتوں کا تم مشرک مردوں کے ساتھ حتّٰی کہ وہ ایمان لے آئیں اور جانو کہ ایک مسلمان غلام بہتر ہے ایک آزاد مشرک آدمی سے خواہ تمہیں مشرک آدمی اچھا ہی نظر آئے۔‘‘
اس آیت میںعلاوہ اس کے کہ غلاموں کی پوزیشن کو نمایاں طورپر مضبوط کیا گیا ہے۔ آزاد مسلمان مردوں اور عورتوں اور مسلمان لونڈیوں اورغلاموں کے باہمی شادیوں کیلئے دروازہ کھولا گیا ہے تااس مساویانہ اوررشتہ دارانہ اختلاط کے نتیجہ میں غلاموں کی حالت جلد تر اصلاح پذیر ہوسکے۔چنانچہ منجملہ اورمصالح کے اس اصل کے ماتحت قرآن شریف میں یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ چار بیویوں کی انتہائی اوراستثنائی حد کے پورا ہوچکنے کے بعد بھی اگر کسی مسلمان کیلئے کسی غلام عورت کے ساتھ رشتہ کرنے کا سوال پیدا ہوتو یہ چار کی حد بندی اس کے رستہ میں روک نہیں ہوگی اور وہ ہرحالت میں غلام عورت کے ساتھ رشتہ کرسکے گا تاکہ غلاموں کی حالت کی اصلاح کارستہ کسی صورت میں بھی مسدود نہ ہونے پائے۔

(سیرت خاتم النّبیین صفحہ 376تا 381،مطبوعہ قادیان2011)