اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-06-08

جنگ بدر

سیرت خاتم النّبیینﷺ
(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

جنگ بدر(بقیہ )

بدر کے نتائج پربحث کرتے ہوئے سرولیم میور لکھتے ہیں:
’’بدر کے حالات میں ایسی باتوںکابہت کچھ عنصر نظر آتا ہے ،جس کی وجہ سے محمد صاحب اس فتح کو جائز طور پرخدائی تقدیرکاکرشمہ شمار کرسکتے تھے۔نہ صرف یہ کہ یہ فتح بہت نمایاں اورفیصلہ کن تھی بلکہ اس جنگ میں غیر معمولی طورپر محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) کے اکثر بااثر دشمن خاک میں مل گئے تھے۔ان رئوساء مکہ کے علاوہ جوجنگ میں قتل کئے گئے یاقید کرلئے گئے تھے ابولہب جوجنگ میں شامل نہیں ہوا تھا وہ بھی قریش کی بھگوڑی فوج کے مکہ پہنچنے کے چند دن بعد ہی مکہ میں مر گیا۔گویا کہ وہ خدائی حکم جس کی ماررئوساء مکہ پر پڑی ایک اٹل تقدیر تھی۔‘‘
دوسری طرف جنگِ بدر کے نتیجے میں مسلمانوں کی پوزیشن نمایاں طورپر مضبوط ہوگئی تھی کیونکہ اول تواس عظیم الشان اورغیر متوقع فتح کی وجہ سے قبائلِ عرب پرمسلمانوں کاایک قسم کارعب بیٹھ گیا تھا۔ دوسرے خود مسلمانوںکی ہمتیں بھی لازماً بلند ہوگئی تھیں اورایک جائز رنگ خود اعتمادی کاپیدا ہو گیا تھا۔اس فتح کایہ نتیجہ بھی ہوا کہ منافقین مدینہ مرعوب ہوکر دب گئے اور چونکہ یہ فتح بالکل غیر متوقع حالات میں حاصل ہوئی تھی اورفریقین کیلئے اپنے نتائج اوراثرات کے لحاظ سے ایک عظیم الشان قومی یادگار تھی اس لئے مسلمانوں میں جنگِ بدرایک خاص نظر سے دیکھی جانے لگی۔چنانچہ جن صحابہ نے اس جنگ میں حصہ لیا تھاوہ دوسروں سے ممتاز سمجھے جاتے تھے۔ حتّٰی کہ ایک دفعہ ایک بدری صحابی سے کوئی سخت غلطی سرزد ہوگئی اور حضرت عمرؓنے اسے ایک قومی غدار سمجھ کر(حالانکہ دراصل وہ ایک مخلص صحابی تھا مگراس سے یہ غلطی ہوگئی تھی)اسے سزادینی چاہی توآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔اورفرمایا کہ’’عمر!تم جانتے نہیں ہوکہ یہ شخص بدری ہے اور بدریوں کی اس قسم کی غلطیاں اللہ کے نزدیک معاف ہیں۔‘‘حضرت عمرؓ کے زمانہ میںبھی جب صحابہ کے وظیفے مقرر ہوئے تو بدری صحابیوں کاوظیفہ ممتاز طورپر خاص مقرر کیا گیا۔ خود بدری صحابہؓ بھی جنگِ بدرکی شرکت پر خاص فخر کرتے تھے۔ چنانچہ میور صاحب لکھتے ہیں:
’’بدری صحابی اسلامی سوسائٹی کے اعلیٰ ترین رکن سمجھے جاتے تھے۔سعد بن ابی وقاص جب اسّی سال کی عمر میں فوت ہونے لگے توانہوں نے کہا کہ مجھے وہ چوغہ لاکردوجومیںنے بدر کے دن پہنا تھااورجسے میں نے آج کے دن کیلئے سنبھال کررکھا ہوا ہے۔یہ وہی سعد تھے جو بدر کے زمانہ میں بالکل نوجوان تھے اورجن کے ہاتھ پر بعد میں ایران فتح ہوا اورجو کوفہ کے بانی اور عراق کے گورنر بنے مگر ان کی نظر میں یہ تمام عزتیں اورفخر جنگِ بدرمیں شرکت کے عزت وفخر کے مقابلے میںبالکل ہیچ تھیں اورجنگِ بدروالے دن کے لباس کووہ اپنے واسطے سب خلعتوں سے بڑھ کر خلعت سمجھتے تھے اوران کی آخری خواہش یہی تھی کہ اسی لباس میں لپیٹ کر ان کو قبر میں اتارا جاوے۔‘‘
خدا نے بھی قرآن شریف میں جنگِ بدر کے تذکرہ کوخاص اہمیت دی ہے اور سورۃ انفال گویا ساری کی ساری اسی کے بیان میں ہے اور بدر کے متعلق جوپیشگوئی مکہ میں ہوئی تھی وہ بھی نمایاں طورپر قرآن شریف میں بیان ہوئی ہے۔چنانچہ سورۃ قمرمیں اس کاان الفاظ میں ذکر ہے۔
اَمْ يَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِيْعٌ مُّنْتَصِرٌ۝ سَيُہْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ۝ بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُہُمْ وَالسَّاعَۃُ اَدْہٰى وَاَمَرُّ۝ اِنَّ الْمُجْرِمِيْنَ فِيْ ضَلٰلٍ وَّسُعُرٍ۝ يَوْمَ يُسْحَبُوْنَ فِي النَّارِ عَلٰي وُجُوْہِہِمْ۝۰ۭ ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ۝یعنی ’’کیایہ کفار کہتے ہیں کہ ہم انتقام لینے کیلئے جمع ہوئے ہیں؟یہ لشکر ضرور پسپا ہوگااورپیٹھ دکھائے گا بلکہ یہ گھڑی ان کے عذاب کی گھڑی ہوگی۔اوریہ وقت ان پر سخت کڑا اورکڑوا وقت ہوگا۔ مجرم لوگ گمراہی اور جلانے والے عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ اس وقت یہ لوگ آگ یعنی جنگ میں اپنے منہ کے بل گھسیٹے جائیںگے اوران سے کہا جائے گا کہ لواب اس آگ کا عذاب چکھو۔‘‘کیا یہ پیشگوئی لفظ بلفظ پوری نہیں ہوئی؟پھرصحفِ گزشتہ میں بھی بدر کا تذکرہ مخصوص طور پرموجود ہے۔چنانچہ کتاب یسعیاہ میں’’عرب کے متعلق الہامی کلام‘‘کے عنوان کے نیچے یہ پیشگوئی درج ہے:
’’عرب کے صحرا میں تم رات کاٹو گے۔اے دوانیوں کے قافلو! پانی لے کر پیاسے کااستقبال کرنے آئو۔اے تیما کی سرزمین کے باشندو!روٹی لے کر بھاگنے والے کے ملنے کونکلوکیونکہ وہ تلواروں کے سامنے سے ننگی تلوار سے اور کھچی ہوئی کمان اورجنگ کی شدت سے بھاگے ہیںکیونکہ خداوند نے مجھ سے یوں فرمایا۔ہنوز ایک برس ہاں مزدور کے سے ٹھیک ایک برس۔ قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی اورتیراندازوں کی جو باقی رہیقیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائیں گے کہ خداوند اسرائیل کے خدا نے یوں فرمایا۔‘‘
الغرض یہ جنگ تاریخ اسلام کا ایک نہایت اہم اور عظیم الشان واقعہ ہے اوراسکے اثرات کفار اور مسلمانوں ہردو کے واسطے نہایت گہرے اوردیر پاثابت ہوئے اورجہاں کفارِ مکہ کی جڑ کٹ گئی وہاں ظاہری اسباب کے لحاظ سے مسلمانوں کی جڑ زمین میں قائم ہوگئی لیکن اگر ایک لحاظ سے جنگِ بدرکے یہ خوش کن ثمرات مسلمانوں کیلئے پیدا ہوئے تو دوسرے لحاظ سے وقتی طور پر مسلمانوں کے خطرات بھی بدر کے بعد زیادہ ہوگئے۔کیونکہ لازماً بدر کی تباہی کی وجہ سے کفارِ مکہ کے سینے جذبہ انتقام سے بھر گئے اورچونکہ اب قریش کے قومی کاموں کا حل وعقد زیادہ تر نوجوانوں کے ہاتھ میں تھا جو طبعاً زیادہ جوشیلے اورعواقب کی طرف سے بے پروا ہوتے ہیں اس لئے بدر کے بعد مدینہ پر کفار کے حملہ کا خطرہ زیادہ مہیب صورت اختیار کرگیا۔دوسری طرف دوسرے قبائل عرب جہاں جنگِ بدر سے مرعوب ہوئے وہاں مسلمانوں کی طرف سے ان کا فکرآگے سے بھی زیادہ بڑھ گیااور انہوں نے یہ خیال کرنا شروع کیاکہ اگر اسلام کو مٹانے اورمسلمانوں کوتباہ وبرباد کرنے کی کوئی صورت جلدی نہ ہوئی تو یہ قوم ملک میں اس قدر مضبوط ہوجائے گی کہ پھر اسکا مٹانا ناممکن ہوگا،اس لئے جنگِ بدر کے نتیجہ میں ان کی معاندانہ کوششیں زیادہ عملی اور خطرناک صورت اختیار کرگئیں اوریہودان مدینہ بھی چونک کر ہوشیار ہوگئے۔ ایک اور خطرناک نتیجہ بدرکا یہ نکلا کہ کفار مکہ جو اب تک صرف ظاہری زور اور گھمنڈ پر لڑرہے تھے اب ایک کھلے میدان میں مسلمانوں سے زک اٹھا کر مخفی اور دَرپردہ سازشوں کی طرف بھی مائل ہونے لگ گئے۔ چنانچہ ذیل کا تاریخی واقعہ جو جنگِ بدر کے صرف چند دن بعدوقوع میں آیا اس خطرہ کی ایک بین مثال ہے لکھا ہے کہ بدر کے چند دن بعد عمیربن وہب اور صفوان بن امیہ بن خلف جوذی اثر قریش میں سے تھے صحنِ کعبہ میں بیٹھے ہوئے مقتولین بدر کا ماتم کررہے تھے کہ اچانک صفوان نے عمیر سے مخاطب ہو کرکہا کہ’’اب تو جینے کا کوئی مزا نہیں رہا۔‘‘عمیر نے اشارہ تاڑا اور جواب دیا کہ’’میںتو اپنی جان خطرہ میں ڈالنے کیلئے تیار ہوں لیکن بچوں اور قرض کا خیال مجھے مانع ہوجاتا ہے۔ورنہ معمولی بات ہے مدینہ جاکر چپکے سے محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم)کا خاتمہ کرآئوں اور میرے لئے وہاں جانے کا یہ بہانہ بھی موجود ہے کہ میرا لڑکا ان کے پاس قید ہے۔‘‘ صفوان نے کہا۔’’تمہارے قرض اوربچوں کا میں ذمہ دار ہوتا ہوں تم ضرور جائو اورجس طرح بھی ہو یہ کام کرگزرو۔‘‘غرض تجویز پختہ ہوگئی اورصفوان سے رخصت ہوکر عمیراپنے گھر آیا اورایک تلوار زہر میں بجھا کر مکہ سے نکل کھڑا ہوا جب وہ مدینہ پہنچا تو حضرت عمرؓنے جو ان باتوں میں بہت ہوشیارتھے اسے دیکھ کرخوفزدہ ہوئے اور فوراً آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے جاکر عرض کیا کہ عمیرآیا ہے اور مجھے اس کے متعلق اطمینان نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اسے میرے پاس لے آئو۔حضرت عمرؓ اسے لینے کیلئے گئے۔مگر جاتے ہوئے بعض صحابہ سے کہہ گئے کہ میں عمیر کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملانے کیلئے لاتا ہوں،مگر مجھے اسکی حالت مشتبہ معلوم ہوتی ہے تم لوگ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس جاکر بیٹھ جائواورچوکس رہو۔اسکے بعد حضرت عمرؓعمیر کوساتھ لئے ہوئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؐنے اسے نرمی کے ساتھ اپنے پاس بٹھا کر پوچھا’’کیوں عمیر کیسے آنا ہوا؟‘‘ عمیر نے کہا ’’میرا لڑکاآپؐکے ہاتھ میں قید ہے اسے چھڑانے آیا ہوں۔‘‘آپؐنے فرمایا’’توپھر یہ تلوار کیوں حمائل کررکھی ہے؟‘‘اس نے کہا’’آپؐتلوار کاکیا کہتے ہیں۔بدر میں تلواروں نے کیا کام دیا۔‘‘ آپؐنے فرمایا’’ نہیں ٹھیک ٹھیک بات بتائو کہ کیسے آئے ہو؟‘‘ اس نے کہا بات وہی ہے جو میں کہہ چکا ہوں کہ بیٹے کو چھڑانے آیا ہوں۔آپؐنے فرمایا’’اچھا تو گویا تم نے صفوان کے ساتھ مل کر صحن کعبہ میںکوئی سازش نہیں کی۔‘‘ عمیرسناٹے میں آگیا۔مگر سنبھل کر بولا’’نہیں میں نے کوئی سازش نہیں کی۔‘‘آپؐنے فرمایا’’کیا تم نے میرے قتل کا منصوبہ نہیں کیا؟مگر یاد رکھو خدا تمہیں مجھ تک پہنچنے کی توفیق نہیں دے گا۔‘‘عمیر ایک گہرے فکر میں پڑ گیا اور پھربولا’’آپؐسچ کہتے ہیں ہم نے واقعی یہ سازش کی تھی۔مگر معلوم ہوتا ہے خدا آپؐکے ساتھ ہے جس نے آپؐکوہمارے ارادوں سے اطلاع دے دی ورنہ جس وقت میری اور صفوان کی بات ہوئی تھی اس وقت وہاں کوئی تیسرا شخص موجود نہیں تھااورشاید خدا نے یہ تجویز میرے ایمان لانے ہی کیلئے کروائی ہے اور میں سچے دل سے آپؐپر ایمان لاتا ہوں۔‘‘ آپؐعمیر کے اسلام سے خوش ہوئے اور صحابہ سے فرمایا۔’’اب یہ تمہارا بھائی ہے اسے اسلام کی تعلیم سے آگاہ کرواوراس کے قیدی کو چھوڑ دو۔‘‘الغرض عمیر بن وہب مسلمان ہوگئے اور بہت جلد انہوں نے ایمان واخلاص میں نمایاں ترقی کرلی اور بالآخر نورِ صداقت کے اس قدر گرویدہ ہوئے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے باصرار عرض کیاکہ مجھے مکہ جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں تاکہ میں وہاں کے لوگوں کو جاکر تبلیغ کروں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اجازت دی اور عمیرنے مکہ پہنچ کراپنے جوش تبلیغ سے کئی لوگوں کو خفیہ خفیہ مسلمان بنا لیا۔صفوان جودن رات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قتل کی خبر سننے کا منتظر تھا اور قریش سے کہا کرتا تھا کہ اب تم ایک خوشخبری سننے کیلئے تیار رہو،اس نے جب یہ نظارہ دیکھا تو بے خود سارہ گیا۔
اگر اس جگہ کسی کو یہ سوال پیدا ہوکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کویہ کس طرح علم ہوگیا کہ عمیر اس نیت سے آیا ہے تواس کا سیدھا اورسادہ جواب یہ ہے کہ جس خدا نے آپؐکودنیاکی اصلاح کیلئے نبی بناکر بھیجا تھا اور جس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے اسی نے آپؐکو اطلاع دے دی۔ دراصل آنحضرت ﷺکی سیرت کامطالعہ کرتے ہوئے یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ آپ کوئی معمولی انسان نہ تھے بلکہ آپؐکوخدا کی طرف سے نبی اور رسول بلکہ خاتم النبییّن ہونے کا دعویٰ تھا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ آپؐکی سیرت وسوانح کا منہاجِ نبوت کی روشنی میں مطالعہ کیا جاوے۔پس جس طرح ضرورتِ زمانہ کے ماتحت دوسرے انبیاء ومرسلین کواللہ غیب کی باتوں پر آگاہ کرتا رہا ہے اور ان کے ذریعہ سے وقتاً فوقتاً خوارق ومعجزات ظاہر ہوتے رہے ہیں اسی طرح ضروری تھا کہ آپؐکے ذریعہ بھی اللہ تعالیٰ اپنے علم وقدرت کی مخفی طاقتوں کا اظہار کرے اور کوئی وجہ نہیں کہ اگر ہم دنیا کی دوسری باتوں کومعتبرلوگوں کی شہادت کی وجہ سے مانتے ہیں توآیات ومعجزات کو معتبر شہادت کے ہوتے ہوئے نہ مانیں۔البتہ جس طرح دوسری باتوں میں تحقیق کے بعد ایک بات کو مانا جاتا ہے اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ ضروری ہے کہ آیات ومعجزات کے متعلق پوری پوری تحقیق سے کام لیا جاوے اور صرف اسی بات کو مانا جاوے جو معتبر شہادت سے پایۂ ثبوت کوپہنچی ہوئی ہو تاکہ غلط اور موضوع قصے صحیح تاریخ کا حصہ نہ قرار پاجائیں ،مگر یہ ایک نازک اور اہم مسئلہ ہے جس کے متعلق مفصل بحث انشاء اللہ کسی اور موقع پر آئے گی۔

(سیرت خاتم النّبیین صفحہ 372تا 376،مطبوعہ قادیان2011)
…٭…٭…٭…