اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-08-24

لونڈیوں کامخصوص مسئلہ

قیدی عورتوں کا سوال

سیرت خاتم النّبیینﷺ

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

لونڈیوں کامخصوص مسئلہ

اب ہم ایک لفظ لونڈیوں یعنی غلام عورتوں کے متعلق کہہ کر غلامی کی بحث کو ختم کرتے ہیں۔یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے لونڈیوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کی عام اجازت دے کرنعوذ باللہ اپنے متبعین کیلئے تعیش کادروازہ کھول دیا ہے۔اس کے متعلق ہم سب سے پہلے اصولی طورپر یہ بتادینا چاہتے ہیں کہ اسلام میں مردوعورت کے مخصوص تعلق کی غرض وغایت کیا رکھی گئی ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ اور آپؐ کے صحابہ کے اعمال کو جج کرنے اوران کے پیچھے جونیتیں مخفی تھیں ان کا پتہ لگانے کیلئے سب سے زیادہ صحیح ذریعہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جاوے کہ جس مذہب کے احکام کی تعمیل میں آپؐاور آپؐکے صحابہ یہ اعمال بجالاتے اوران کی اجازت دیتے تھے وہ اس قسم کے اعمال کاحکم کس غرض وغایت کے ماتحت دیتا ہے۔سو ہم قرآن شریف میں دیکھتے ہیں کہ نکاح کی اغراض میںسے جو غرض مردوعورت کے مخصوص تعلق کے ضمن میں بیان کی گئی ہے اسکے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَاۗءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ
یعنی’’اے مسلمانو ! فلاں فلاں قریبی رشتہ دار عورتوں کوچھوڑ کر باقی سب عورتیں تمہارے لئے حلال اور جائز کی جاتی ہیں یہ کہ تم اپنے اموال میںسے ان کے مہر مقررکرکے ان کے ساتھ نکاح کرو۔مگر تمہارے نکاح کی غرض یہ ہونی چاہئے کہ تم اس کے ذریعہ اپنے آپ کو بدیوں اور بیماریوں سے محفوظ کرلو اور یہ غرض ہرگز نہیں ہونی چاہئے کہ تم شہوت رانی کاطریق اختیار کرو۔‘‘
اس تعلیم کا صحابہ کرام کی طبیعت پر اس قدر گہرا اثر تھا کہ اس انسان کی طرح جو ایک بات سے متأثر ہوکر اس کے انتہائی نقطہ کی طرف جھک جاتا ہے صحابہ کرام آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عورتوں سے بالکل ہی مجتنب ہوجانے کی اجازت چاہتے تھے۔مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جوفطرت صحیحہ کے مالک تھے اوراسلامی تعلیم کی اصل غرض وغایت کو سمجھتے ہوئے اپنے متبعین کوافراط وتفریط کی راہوں سے بچا کر اعتدال کے مقام پر قائم رکھنا چاہتے تھے انہیںاس طریق سے باز رکھتے تھے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے:
عَنْ سَعْدِ بْنِ اَبِیْ وَقَاصٍ یَقُوْلُ رَدَّرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُوْنَ التَّبَتُّلَ وَلَوْ اَذِنَ لَہٗ لاَ خْتَصَیْنَا
یعنی’’سعد بن ابی وقاص روایت کرتے ہیں کہ عثمان بن مظعون نے آنحضرت ﷺ سے عورتوں سے بالکل ہی علیحدہ ہوجانے کی اجازت چاہی مگر آپؐنے اسکی اجازت نہیںدی اور اگرآپؐاجازت دے دیتے توہم لوگ تیار تھے کہ اپنے آپ کوگویا بالکل خصی ہی کرلیتے۔‘‘
ان حالات میں تعیش وغیرہ کا سوال توبالکل خارج ازبحث ہے اوراس قسم کی بدظنی وہی شخص کرسکتا ہے جویا تو اسلامی تعلیم اوراسلامی تاریخ سے قطعی طورپر ناواقف ہو اور یاوہ خوداس گندمیں اس حدتک مبتلا ہوکہ اسے دوسروں کے اعمال میں بھی اس گندی نیت کے سوا کوئی اور نیت نظر نہ آتی ہو۔ مگربہرحال یہ سوال قابل جواب ہے کہ لونڈیوں کے متعلق اسلامی تعلیم کیا ہے؟سواسکے متعلق سب سے پہلے تو یہ جاننا چاہئے کہ غلامی کے عام احکام میںغلام اورلونڈی کے معاملہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔یعنی جو حقوق غلاموں کے ہیں وہی لونڈیوں کے بھی ہیں۔البتہ یہ فرق ضرور ہے کہ لونڈیوں کو اچھی تعلیم وتربیت دینے اورانہیں آزاد کرکے اپنے عقد میں لے لینے کے بارے میں اسلام نے زیادہ تاکیدی سفارش کی ہے۔اورجب تک لونڈیاں غلامی کی حالت میں رہیں اس وقت تک ان کیلئے بھی یہ پسند کیا گیا ہے کہ آزاد لوگ ان کے ساتھ رشتے کریں تاکہ اس رشتہ دارانہ اختلاط کے نتیجے میں غلاموں کے تمدن و معاشرت میں جلد تر اصلاح پیداہوسکے اوراسی غرض وغایت کے ماتحت لونڈیوںکامعاملہ تعدادازدواج کی انتہائی حد بندی سے مستثنیٰ رکھا گیا ہےتاکہ غلاموں اور لونڈیوں کے تمدن ومعاشرت میں اصلاح کے موقعے زیادہ سے زیادہ تعداد میں کھلے رہیں اوروہ جلدترآزاد کئے جانے کے قابل ہوجائیں۔اس کے متعلق بعض قرآنی آیات اوپر والے مضمون میں درج کی جاچکی ہیں اس جگہ ان کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔
یہ سوال کہ آیالونڈیوں کے ساتھ باقاعدہ رسمی نکاح کی ضرورت ہے یا نہیں۔اس کی مختلف صورتیں ہیں۔اوّل جبکہ کسی لونڈی اورغلام کے آپس کے رشتہ کاسوال ہو۔دوم جبکہ کسی لونڈی اور ایسے آزاد مرد کے رشتہ کاسوال ہوجواس کا مالک وآقا نہیں ہے۔سوم جبکہ کسی غلام اورآزاد عورت کے رشتہ کاسوال ہو۔چہارم جبکہ کسی لونڈی اور اس کے اپنے آقاومالک کے رشتہ کاسوال ہو۔ان چاروں امکانی صورتوں میں سے پہلی تین صورتوں میں مسلمہ طورپر رسمی نکاح ضروری سمجھاگیا ہے اوراسکے بغیررشتہ قائم نہیں ہوسکتا،لیکن چوتھی صورت میں اکثرعلماء آقااورلونڈی کے رشتے کے معاملہ میں رسمی نکاح کی ضرورت نہیںسمجھتے اوران کی دلیل کاخلاصہ یہ ہے کہ چونکہ آقا کولونڈی پرحق ملکیت حاصل ہوتا ہے اس لئے قانونی رنگ میں یہی حق نکاح کاقائم مقام سمجھاجانا چاہئے اورکسی الگ رسمی نکاح کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ اخلاقی اورتمدنی اورنسلی حفاظت جورسمی نکاح میں ملحوظ ہے وہ اس رشتہ میں بھی جوحق ملکیت کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے اسی طرح حاصل ہوتی ہے۔واللہ اعلم۔

قیدی عورتوں کا سوال

اس جگہ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ اسلام نے ان عورتوں کے متعلق بھی جو کفار کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیں اوربطورقیدی کے پکڑی جائیں اس قسم کاایک استثنائی انتظام جاری کیا ہے جس کے ماتحت ان قیدی عورتوں کے ساتھ جن کے مرد انہیں فدیہ دے کر چھڑانے کیلئے جلد نہ پہنچ جائیں یاجوقیدہونے پرخود مکاتبت کے طریق پرآزاد کئے جانے کا مطالبہ نہ کریں، مسلمانوں کارشتہ نکاح قائم ہوسکتا ہے۔اوراس انتظام کی غرض وغایت اسلام نے یہ رکھی کہ تاقیدی عورتوں اور اس کی وجہ سے ان کے قید کرنے والوں کے اخلاق خراب ہونے سے محفوظ رہیں اور سوسائٹی میں بدی اوربدکاری پھیلنے نہ پائے۔تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ عموماًجب کبھی بھی کسی قوم کوکوئی بڑی جنگ پیش آئی ہے تواس کے بعد اس قوم میںعموماًزنااوربدکاری کامرض پھیل گیا ہے۔کیونکہ اول تو جنگ میں عموماًعورتوں کی تعدادزیادہ ہوجاتی ہے۔ دوسرے جنگ کے مصائب کی وجہ سے مردوں کے اعصاب پر ایسا اثر پڑتا ہے کہ جس کی وجہ سے ان میں عموماًضبطِ نفس کامادہ کمزور ہوجاتا ہے۔پس چونکہ اسلام انفرادی اورقومی اخلاق کی حفاظت کے سوال کوباقی تمام تمدنی اور معاشرتی امور پر ترجیح دیتا ہے،اس لئے ضروری تھا کہ اس قسم کے حالات کیلئے کوئی خاص احتیاطی احکام جاری کئے جاتے۔ چنانچہ ایسا کیا گیاکہ ایک طرف توتعدّدازدواج کی استثنائی اجازت دے دی گئی اوردوسری طرف ان عورتوں کے متعلق جوایسے جنگوں میںقید ہوکرآئیں جن میں کوئی قوم مسلمانوں کے مذہب کوبرباد کرنے کیلئے ان پر حملہ آور ہوئی ہو یہ حکم دیاگیاکہ اگران کے مرد ان کے ساتھ قید نہ ہوں اورنہ ہی وہ انہیں چھڑانے کیلئے جلد پہنچیں اورنہ ہی یہ قیدی عورتیں خود مکاتبت کے طریق پرآزادکئے جانے کامطالبہ کریں توان کے ساتھ مسلمانوں کواستثنائی طورپر رشتہ قائم کرنے کی اجازت ہے تاکہ نہ توان قیدی عورتوں کے اخلاق خراب ہوں اورنہ ان کی وجہ سے مسلمانوں کی سوسائٹی میں بدکاری رونما ہونے پائے اوراس انتظام میں نسلی اختلاط واشتباہ سے بچانے کیلئے یہ شرط لگا دی گئی کہ قیدی عورتوں کے ساتھ اس اطمینان کے بعد رشتہ ہونا چاہئے کہ وہ حاملہ نہیں ہیں۔یہ سسٹم شایدجدید تہذیب وتمدن کے دل دادگان کواچنبھانظرآئے گا،لیکن اگران حالات کومدنظررکھا جاوے جن کیلئے یہ انتظام مقصود ہے تو کم از کم وہ لوگ جوانفرادی اورقومی اخلاق کی حفاظت کے خیال پر دوسرے خیالات کوقربان کرنا جانتے ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ان حالات کے ماتحت جن میں یہ انتظام جاری کیا گیا تھا۔یہ ایک بہت دانشمندانہ انتظام تھا جوبنی نوع انسان کی حقیقی بہتری کیلئے استثنائی حالات میں ضروری سمجھا گیا۔ علاوہ ازیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جب مکاتبت کادروازہ ہرقیدی عورت کیلئے کھلا ہے تو جو عورت اس سے فائدہ نہیں اٹھاتی اسکے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ وہ اپنے سابقہ رشتوں کوقطع کرکے اسلامی سوسائٹی کاجزوبننا چاہتی ہے۔ پس اس حالت میں اسکے ساتھ کسی مسلمان کارشتہ قائم ہونا قابل اعتراض نہیں ہوسکتا۔
یہ سوال ہوسکتا ہے کہ عورتوں کوجنگوں میں پکڑا ہی کیوں جاتا تھاکہ اس قسم کے خطرات پیدا ہوتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس زمانہ میںعرب میںیہ عام دستور تھا کہ عورتیں بھی کثرت کے ساتھ جنگ میں شریک ہوتی تھیں اور بعض اوقات جنگ میں عملی حصہ بھی لیتی تھیں اورمیدان جنگ میں سپاہیوں کو جوش دلانے کاکام توزیادہ ترعورتوں کے ہی سپرد ہوتا تھا۔پس کوئی وجہ نہیں تھی کہ ان حالات میں انہیں قید نہ کیاجاتا۔اگرفوجداری مقدمات میں عورت قیدکی جاسکتی ہے اورہرایک ملک وقوم میں قید کی جاتی ہے توکیوں جنگجو عورت میدان جنگ میںقید نہ کی جاتی؟علاوہ ازیں چونکہ اس زمانہ میں کفار لوگ مسلمانوں کی عورتوں کوقید کرتے تھے بلکہ لونڈی تک بنا کررکھتے تھے اوران ابتدائی جنگوں میں تو ان بدباطنوں کی طرف سے یہ عام الٹی میٹم تھا کہ وہ مسلمان عورتوں کوقید کرکے اپنی لونڈیاں بنائیںگے اورلونڈیوں کی طرح ان سے تعلقات قائم کریں گے۔اس لئے خدائے اسلام نے جواگرایک طرف حلیم ہے تودوسری طرف سب سے زیادہ غیرت مند بھی ہے۔ مسلمانوں کو بھی اجازت دے دی کہ اگر ضرورت ہوتووہ بھی کفارکے ساتھ اگرویسا نہیں تواسی قسم کا سلوک کرکے انہیں ہوش میں لائیں،تاکہ وہ اپنے مظالم میں زیادہ شوخ اوردلیرنہ ہوتے جائیں۔جنگی ضروریات سے واقف لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ بسااوقات جنگوں میں انتقامی طریق اختیار کئے جانے کی ضرورت پیش آجاتی ہے اوریہی وجہ ہے کہ جنگی قانون سول قانون سے ہمیشہ مختلف ہوتا ہے۔پس یہ ایک ناگزیر حالات کی مجبوری تھی جس کے بغیر چارہ نہیں تھااورجب یہ صورت حال پیدا ہوگئی کہ عورتیں قید میں آتی تھیں اورنیز یہ کہ کفارلوگ مسلمان عورتوں کے ساتھ ہرقسم کا سلوک روا رکھتے تھے تواس کے لازمی اورخطرناک نتائج کے سدباب کیلئے کوئی خاص قانون جاری کرنا بھی ضروری تھا۔ البتہ چونکہ موجودہ زمانہ میں کفارلوگ مسلمانوں کے ساتھ اس قسم کاسلوک نہیں کرتے اوراگرعورتیں قید بھی ہوں توانہیں شاہی قیدی کے طورپر رکھا جاتا ہے اس لئے اصولی قرآنی حکم کے مطابق جواوپردرج کیا گیا ہے اس زمانہ میں مسلمانوں کیلئے بھی یہ ناجائز ہوگا کہ وہ کفار کی عورتوں کوبلاکسی حقیقی مجبوری کے قید کریں یاقیدکرنے کے بعد انہیں مسلمانوں کی انفرادی حراست میں دے کر کوئی رنگ غلامی کا پیدا کریں۔
اس جگہ اگرکسی کو شبہ پیدا ہوکہ ایسا کیوں ہے کہ بعض حالات میں شریعت اسلامی کافتویٰ اور ہوتا ہے اوربعض میں اور۔تواس کاجواب یہ ہے کہ یہ کوئی نقص کی بات نہیں بلکہ اگرغور کیا جاوے تویہی بات اسلامی شریعت کے کامل اورعالمگیر ہونے کی دلیل ہے کیونکہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی شریعت میں حالات کے اختلاف کوپوری طرح ملحوظ رکھا گیا ہے اورجہاں بعض احکام جواصل الاصول کے طور پر ہیں ٹھوس اورغیر مبدل صورت میں رکھے گئے ہیں جن میں کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں وہاں بہت سے احکام ایسے بھی ہیں جن میں یاتو حالات کے اختلاف سے حکم کی صورت بدل جاتی ہے اوریاان میں مختلف حالات کے ماتحت نئی مگر جائزتشریحات کی گنجائش ہوتی ہے۔چنانچہ قرآن شریف خود فرماتا ہے:
ھُوَالَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْہُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ
یعنی’’خدا نے یہ قرآن شریف اس صورت میں اتارا ہے کہ اس کی بعض آیات تومحکم ہیں یعنی اصل الاصول کے طورپر ہیں جو سب حالات میں ایک سی چسپاں ہوتی ہیں اوربعض متشابہات ہیں یعنی ان میںایسی لچک رکھی گئی ہے کہ وہ مختلف حالات میں ایک دوسرے سے ملتی جلتی مختلف صورتیں اختیار کرسکتی ہیں۔‘‘
خلاصۂ کلام یہ کہ غلامی کے متعلق اسلامی تعلیم دو حصوں میںمنقسم ہے۔اوّل وہ تعلیم جوان لوگوں سے تعلق رکھتی ہے جوکسی وجہ سے ظالمانہ غلامی کے چکر میں آچکے تھے اوران کے اخلاق وعادات میں عموماًنہایت درجہ پستی اوردنائت پیدا ہوچکی تھی اوروہ جوہرجوانسان کودنیا میں آزاد زندگی گزارنے کے قابل بناتا ہے ان میں مفقود ہو چکا تھا۔ ایسے لوگوں کے متعلق اسلام نے یہ تجویز کی کہ پہلے ان کے اخلاق اور تمدن کو درست کیا جاوے اورپھر جُوں جُوں ان کی اصلاح ہوتی جاوے وہ ساتھ ساتھ آزاد کئے جاتے رہیں اورایسا انتظام کیا کہ آزاد ہونے کے بعد ایسے لوگوں کی آزادی حقیقی آزادی ہونہ کہ محض رسمی اورنمائش کی آزادی اوراس انتظام کی نگرانی کاکام اسلامی حکومت کے فرائض میںداخل کردیا گیاتاکہ لوگ اس معاملہ میں کسی قسم کی سستی یاغفلت سے کام نہ لیں۔دوم وہ تعلیم جو غلام بنانے کے سوال کے متعلق اسلام نے اصولی طورپردی اور جس کی رو سے غلامی کے تمام ظالمانہ طریق قطعی طورپر منسوخ کردئے گئے۔باقی رہا جنگی قیدیوں کاسوال سواس میں بے شک بعض حالتوں میں انتقامی طریق پر غلامی کی اجازت دی گئی ہے مگراسکی تفصیلات پرغورکیا جاوے تو صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہ اس رنگ کی غلامی نہیں ہے جو غیراسلامی دنیا میںعام طورپر معروف ہے بلکہ حقیقتاً ایک نوع قیدکی ہے اوریہ جوابی اورغیرحقیقی غلامی بھی جس کی اجازت دی گئی ہے موجودہ زمانہ میں ناجائز اورحرام ہے کیونکہ اب شاہی قیدخانوں کاسسٹم رائج ہوگیا ہے اور کفار مسلمانوں کے قیدیوں کوغلام نہیںبناتے بلکہ شاہی قیدیوں کے طورپر رکھتے ہیں۔اس لئے اب مسلمانوں کیلئے بھی ناجائز ہے کہ کفار کے قیدیوں کومسلمانوں کی انفرادی حراست میں تقسیم کرکے کوئی رنگ غلامی کا پیدا کریں۔باقی رہاغلاموں اورجنگی قیدیوں کے ساتھ سلوک کرنے کامعاملہ سو اس میں اسلام نے وہ منصفانہ اورمحسنانہ تعلیم دی ہے کہ جس کی نظیرکوئی قوم کسی زمانہ میں پیش نہیں کرسکتی۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اَصْحَابِ مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ

(باقی آئندہ)

(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ 417تا 422،مطبوعہ قادیان2011)