اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-08-17

جنگی قیدیوں کامسئلہ

کیا قیدیوں کوقتل کیا جاسکتا ہے؟

سیرت خاتم النّبیینﷺ

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

جنگی قیدیوں کامسئلہ

(بقیہ حصہ)

اب ناظرین خود انصاف کے ساتھ غور کریں کہ خواہ نام کے لحاظ سے اسے غلامی کہہ دیا جائے مگرکیااس تعلیم میں کوئی حقیقت غلامی کی پائی جاتی ہے؟کیاآج کل کی حکومتیں جنگی قیدی نہیں پکڑتیں؟کیاآج کل کی حکومتیں جنگی قیدیوں سے خدمت نہیں لیتیں؟پھرکیا آج کل کی حکومتیںجنگی قیدیوں کی قید کے عرصہ کوجنگ کے لمبا ہوجانے کی صورت میں لمبا نہیں کردیتیں؟جب یہ سب کچھ ہرقوم میں ہوتا ہے اوراب بھی ہوتا ہے اورہرزمانہ میں بین الاقوامی قانون اسے جائز قرار دیتا ہے توپھر ازروئے انصاف اس بناء پراسلام اوربانی اسلام پر اعتراض نہیں کیا جاسکتابلکہ میں کہتا ہوں کہ یہ اسلام کاایک احسان ہے کہ اس نے جنگی ضابطہ میں نرمی اور شفقت کے عنصر کونمایاں کرکے دنیا کے امن اور اتحاد بین الاقوام کیلئے راستہ صاف کردیا ہے۔باقی رہا انفرادی قبضہ کا سوال ۔سویہ درست ہے کہ ابتداء میں کفار کے قیدی عام طورپر مسلمان سپاہیوں میں تقسیم کردئیے جاتے تھے اوردراصل یہی ایک بات ہے جو اس قانون کوغلامی کارنگ دینے والی سمجھی جاسکتی ہے مگر غور کیا جاوے تویہ بات ان حالات میں جن کے ماتحت اسے اختیار کیا جاتا رہا ہے ہرگز قابل اعتراض نہیں ہے اورنہ اسے حقیقی غلامی سے یعنی غلامی کی اس اصطلاح سے جو غیر اسلامی دنیا میں رائج ہے تعبیر کیا جاسکتا ہے کیونکہ اول تویہ طریق اسلام میں بالذات اختیار نہیں کیا گیا اورنہ مخصوص تعلیم میں جو اسلام جنگی قیدیوں کے متعلق دیتا ہے اسکا کوئی ذکر پایا جاتا ہے بلکہ درحقیقت یہ ایک جوابی تدبیر تھی جوکفار کے ظالمانہ رویہ کی وجہ سے اختیار کی گئی تھی۔ یعنی چونکہ کفار مسلمان قیدیوں کوغلام بناکر اپنے افراد میں تقسیم کردیتے تھے اس لئے انہیں ہوش میں لانے کی غرض سے اسلام میں بھی کفار کے قیدیوں کو مسلمانوں کی انفرادی حراست میںدے دینے کا طریق اختیار کیا گیا۔مگرپھر بھی اسلام نے ان قیدیوں کو اس رنگ میں غلام بنانے کی اجازت نہیں دی جیسا کہ کفار بناتے تھے نیز یہ شرط کہ جنگ کے اختتام پروہ لازماًآزاد کردئیے جائیں۔ دوسری وجہ انفرادی حراست کے طریق اختیار کئے جانے کی یہ تھی کہ اس زمانہ میںشاہی قیدخانوں کا دستور نہیں تھابلکہ دشمن کے قیدی فاتح قوم کے افراد میں تقسیم کردیئے جاتے جوانہیں اپنی زیرنگرانی رکھتے تھے اور یہی طریق ابتداء میں اسلام میںرائج رہا۔پس درحقیقت یہ غلامی نہیں تھی بلکہ قیدیوں کے رکھنے کا ایک سسٹم تھا جوبعد میں آہستہ آہستہ بدل گیا اوراس کی جگہ شاہی قیدخانوں کاطریق قائم ہوگیا۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جہاں تک اسلامی حکومت کاتعلق تھا یہ طریق قیدیوں کیلئے ہرگز تکلیف دہ نہیں تھابلکہ یقینا اس میںان کو آج کل کے شاہی قیدیوں کی نسبت بھی زیادہ آرام ملتا تھا کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پُرزورتعلیم اورحکومت کی چوکس نگرانی کی وجہ سے کفار کے قیدی مسلمانوں کے جس خاندان میں رہتے تھے اسکے نوکر اورخادم بن کر نہیں رہتے تھے بلکہ خاندان کے ممبر سمجھے جاتے تھے اوران کی خاطر وتواضع مہمانوں کی طرح ہوتی تھی۔چنانچہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ بدر کے قیدیوں کوجوعموماً اسلام کے بدترین دشمن تھے مسلمانوں نے اس آرام وآسائش کے ساتھ رکھا کہ وہ ان کی تعریف میں رطب اللسان تھے اور ان میں سے کئی محض اس حسنِ سلوک سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگئے۔الغرض اس نام نہاد غلامی میںبھی جس کی اسلام اجازت دیتا ہے اسلام نے احسان ومروت کاوہ اعلیٰ نمونہ قائم کیا جوآج کل کی آزادی کی برکات کو بھی شرماتا ہے،لیکن بہرحال چونکہ یہ طریق ایک محض جوابی رنگ رکھتا تھا اس لئے وہ ان خاص حالات کے ساتھ مخصوص سمجھا جائے گا جن کے جواب میں وہ اختیار کیا گیااوراسی لئے اب اس زمانہ میں یہی فتویٰ ہے کہ چونکہ آج کل شاہی قیدیوں کادستور قائم ہوگیا ہے اورمسلمان قیدیوں کوکفار غلام نہیں بناتے اس لئے شریعت اسلامی کے اصولی حکم کے ماتحت اب مسلمانوں کیلئے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کفار کے قیدیوں کومسلمان افراد میںتقسیم کرکے ایک رنگ غلامی کا پیدا کریںچنانچہ مقدس بانی ٔسلسلہ احمدیہ جن کا دعویٰ خدا کی طرف سے اس زمانہ کیلئے مامور ومصلح ہونے کا تھاتحریرفرماتے ہیں:
’’یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ ہمارے زمانہ میںاسلام کے مقابل پرجو کافر کہلاتے ہیں انہوں نے یہ تعدی اورزیادتی کاطریق چھوڑدیا ہے اس لئے اب مسلمانوں کیلئے بھی روا نہیں کہ ان کے قیدیوں کولونڈی غلام بنائیں کیونکہ خداقرآن شریف میں فرماتا ہے جوتم جنگجو فرقہ کے مقابل پر صرف اُسی قدر زیادتی کرو جس میں پہلے انہوں نے سبقت کی ہو۔پس جبکہ اب وہ زمانہ نہیں ہے اوراب کافر لوگ جنگ کی حالت میں مسلمانوں کے ساتھ ایسی سختی اور زیادتی نہیں کرتے کہ ان کواوران کے مردوں اورعورتوں کولونڈیاں اورغلام بنادیں بلکہ وہ شاہی قیدی سمجھے جاتے ہیں اس لئے اب اس زمانہ میں مسلمانوں کوبھی ایسا کرنا ناجائز اورحرام ہے۔‘‘
خلاصہ کلام یہ کہ جنگی قیدیوں کے متعلق اسلامی تعلیم کے اصل الاصول صرف دو ہیں۔ یعنی اول یہ کہ حتّی الوسع قیدی پکڑنے میں جلدی نہ کی جاوے اورصرف انتہائی حالات میں عملی جنگ ہونے کے بعد قیدی پکڑے جائیں۔ دوم یہ کہ قیدی پکڑنے کے بعد حالات کے ماتحت یاتو انہیں بلافدیہ احسان کے طورپر چھوڑ دیا جاوے اوریہ سب سے زیادہ پسندیدہ صورت ہے اوریامناسب فدیہ لے کر انہیں رہاکردیا جاوے اوریااگرضروری ہوتو اختتام جنگ تک ان کی قید کے سلسلہ کولمبا کردیا جاوے۔ اس سے زیادہ جنگی قیدیوںکے متعلق کوئی منصوص تعلیم اسلامی شریعت میںپائی نہیں جاتی۔البتہ ایک عام قاعدہ کے طورپر اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ اگرسیاسی اغراض کے ماتحت کفار کے متعلق کوئی سخت جوابی تدبیراختیار کی جانی ضروری ہوتووہ اس شرط کے ماتحت کی جاسکتی ہے کہ اول اس میںکوئی ایسی سختی نہ کی جاوے جس میںکفار نے خودپہل نہ کی ہو اوردوسرے وہ اسلام کی کسی دوسری منصوص تعلیم کے خلاف نہ ہو۔کفارکے قیدیوں کامسلمان افراد میںتقسیم کردیا جانا اسی عام قاعدہ کے ماتحت تھا، لیکن چونکہ آج کل کفار مسلمانوں کے قیدیوں کوغلام نہیں بناتے اورشاہی قیدیوں کے طور پر رکھتے ہیں۔اس لئے اس زمانہ میں مسلمانوں کیلئے بھی ناجائز ہے کہ وہ کفار کے قیدیوں کومسلمان افراد میں تقسیم کرکے کوئی رنگ غلامی کاپیدا کریں۔

کیا قیدیوں کوقتل کیا جاسکتا ہے؟

یہ سوال کہ آیا قیدیوں کوقتل کرنا جائز ہے یانہیں؟ اسکا مجمل جواب اوپر گزرچکا ہے کہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا،لیکن چونکہ اس معاملہ میں بعض مسلمان علماء نے بھی اختلاف کیا ہے اورمسیحی مؤرخین نے بھی اسے اعتراض کا نشانہ بنایا ہے اس لئے اسکے متعلق کسی قدر تشریح کے ساتھ لکھنا ضروری ہے۔ سو سب سے پہلے تو جاننا چاہئے کہ سورۃ محمدکی آیت سے جس کا حوالہ اوپر دیا جاچکا ہے نہایت واضح طورپر پتہ لگتا ہے کہ جنگی قیدیوں کا قتل کرناجائز نہیں ہے اورقرآنی فیصلہ کے بعد کسی کو حق نہیں ہے کہ کوئی اورطریق تجویز کرے،لیکن ناظرین کی مزید تسلی کیلئے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ قرآنی آیت کے جو معنے ہم نے کئے ہیں اس زمانہ کی اختراع نہیں ہے بلکہ یہی معنے صحابہ بھی کرتے تھے اوراسی پر ان کا عمل تھا۔ چنانچہ حدیث میں روایت آتی ہے کہ
عَنِ الْحَسَنِ اَنَّ الْحَجَّاجَ اُتِیَ بِاَسِیْرٍ فَقَالَ لِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَقُمْ فَاقْتُلْہُ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ مَابِھٰذَا اُمِرْنَا یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی حَتّٰٓي اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ۝۰ۤۙ فَاِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَاۗءً
یعنی’’حسن روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حجاج کے سامنے ایک قیدی پیش ہوا اس وقت حضرت عبداللہ بن عمرؓ بھی پاس تھے۔حجاج نے ابن عمرؓ سے کہا ’’آپ اٹھیں اوراس قیدی کی گردن اڑادیں۔‘‘ابن عمرؓنے جواب دیاہمیں اس کا حکم نہیں دیا گیا۔اللہ تعالیٰ توفرماتا ہے کہ جب جنگ میں قیدی پکڑے جائیں تو ان کو یا تو احسان کے طور پر چھوڑ دینا چاہئے یا فدیہ لے کر رہا کردینا چاہئے۔ قتل کرنے کا کوئی حکم نہیں ہے۔‘‘
اسی طرح حسن بصری اورعطاء بن ابی رباح سے روایت آتی ہے کہ لَا تُقْتَلُ الْاُسٰرٰی یُتَخَیَّرُ بَیْنَ الْمَنِّ وَالْفِدَائِیعنی’’قیدی قتل نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کیلئے یہی حکم ہے کہ یاتو اسے احسان کے طور پر چھوڑ دیاجاوے اوریافدیہ لے کر رہا کردیاجاوے۔‘‘
قرآن شریف کی محولہ بالاواضح آیت کے ساتھ یہ واضح تشریح مل کراس بات میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں چھوڑتی کہ قیدیوں کے قتل کے جوازکامسئلہ بالکل غلط اوربے بنیاد ہے اوراسلام ہرگز اس بات کی اجازت نہیںدیتاکہ کسی جنگی قیدی کوقتل کیا جاوے اوراگراس جگہ یہ سوال ہوکہ پھر اس معاملہ میں بعض مسلمان علماء کوغلطی کیوں لگی ہے تواس کا جواب یہ ہے کہ یہ غلط فہمی صرف اس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ تاریخ میں بظاہر ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جن جنگی قیدیوں کے قتل کاحکم دیا تھاوہ جنگی قیدی ہونے کی حیثیت میں قتل نہیں کئے گئے بلکہ ان کے قتل کی وجہ یہ تھی کہ وہ بعض دوسرے جرائم کی وجہ سے واجب القتل تھے اوریہ ظاہر ہے کہ اگر کوئی قیدی کسی ایسے جرم کا مرتکب ہوا جس کی سزاقتل ہے تواس کا قیدی ہونااسے اس سزا سے نہیںبچاسکتا۔اگرایک آزاد شخص کسی جرم کی سزا میں قتل کیا جاسکتا ہے تو ایک قیدی کیوں نہیںکیا جاسکتا۔پس جیسا کہ اپنے اپنے موقع پرثابت کیا جائے گا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم سے جوجو قیدی بھی قتل کیا گیا وہ اس جرم کی بناء پرقتل نہیں کیا گیاکہ وہ ایک دشمن فوج کا سپاہی یاایک جنگجو قوم کا فرد ہے بلکہ وہ اس وجہ سے قتل کیا گیا کہ وہ کسی ایسے جرم کا مرتکب ہوچکا تھا جس کی سزا قتل تھی لیکن بعض علماء نے صرف ظاہری حالت کو دیکھ کر کہ بعض قیدی قتل کردئیے گئے تھے یہ نتیجہ نکال لیا کہ قیدی کوقتل بھی کیا جاسکتا ہے حالانکہ یہ بات اسلامی تعلیم اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے تعامل ہردو کے لحاظ سے قطعاً غلط اور بے بنیاد ہے۔
یہ اس تعلیم کا ڈھانچہ ہے جواسلام نے جنگی قیدیوں کے متعلق دی ہے اورہر عقل مند شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک نہایت منصفانہ قانون ہے جوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ خدا نے دنیا کو عطاکیا ہے اور موجودہ زمانہ کی ترقی یافتہ اورمہذب کہلانے والی اقوام بھی اس سے بہتر قانون دنیا کو نہیں دے سکیں کہ جس میں اگر ایک طرف جنگ کے ناواجب طورپر طول پکڑ جانے اور بین الاقوامی مظالم کاسدباب کیا گیا ہے تودوسری طرف احسان ومروت کے پہلو کوبھی بہترین صورت میںقائم رکھا گیا ہےبلکہ اگرغور کیا جاوے تواس قانون میں دشمن کے ساتھ نرمی اوراحسان کاپہلو اپنی حفاظت کے پہلو سے بھی غالب ہے اور یقینا آج تک کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس نے اپنے خونی دشمن کے ساتھ جواسے ملیا میٹ کردینے کے درپے ہوایسے منصفانہ اورمحسنانہ سلوک کا حکم دیا ہو۔ (باقی آئندہ)

(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ 413تا 417،مطبوعہ قادیان2011)