اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




جنگی قیدیوں کامسئلہ

سیرت خاتم النّبیینﷺ

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

جنگی قیدیوں کامسئلہ

اب ہم جنگی قیدیوں کے سوال کولیتے ہیں اور درحقیقت اگراسلام میں غلام بنانے کے جواز کی کوئی صورت سمجھی جاسکتی ہے تو وہ صرف اسی سوال کے ماتحت آتی ہے،لیکن جیسا کہ ابھی ظاہر ہو جائے گا غلامی کی یہ قسم دراصل حقیقی غلامی نہیں ہے بلکہ ایک محض جزوی مشابہت کی وجہ سے اسے یہ نام دے دیا گیا ہے اورپھراس غیر حقیقی غلامی کوبھی اسلام نے ایسی شرائط کے ساتھ مشروط کردیا ہے کہ وہ ایک عالمگیرچیز نہیںرہتی بلکہ بعض خاص قسم کے حالات میں محدود ہوجاتی ہے اس بحث میں سب سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ جیسا کہ تاریخ عالم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے غلامی کی ابتداء دنیا میں جنگی قیدیوں سے ہوئی تھی اوربعد میں آہستہ آہستہ دوسرے ظالمانہ طریق ایجاد ہوتے گئےجس کی وجہ سے بالآخر غلامی جودراصل ابتدائی زمانہ کے حالات کاایک لازمی نتیجہ تھی ایک بھیانک صورت اختیار کرگئی اوربجائے ظلم کوروکنے کاباعث بننے کے جو اسکی اصل غرض تھی وہ خود ظلم وستم کاایک خطرناک آلہ بن گئی۔ ابتداء ًیہ طریق تھا گوبعد میں اسکے ساتھ اَور اَور ظالمانہ طریق شامل ہو گئے (جنہیں نہ صرف اسلام نے مٹادیا بلکہ اس ابتدائی طریق کو بھی مزید پاک وصاف کرکے اسے ایک نہایت پاکیزہ صورت دے دی)کہ جب ایک قوم دوسری قوم پرحملہ آور ہوکراسے صفحۂ دنیا سے مٹا دینے یا اس کی آزادی کو چھین کر اسے بلاوجہ اپنے ماتحت کرلینے کے درپے ہوتی تھی تومؤخر الذکر قوم غلبہ حاصل کرنے پر حملہ آور قوم کے آدمیوں کوقیدکرکے اپنے پاس روک لیتی تھی کیونکہ اگر ظالم لوگوں کو اس طرح روک لینے کا طریق اختیارنہ کیا جاتاتوبین الاقوام جنگوں کا کبھی بھی خاتمہ نہ ہوسکتااورظالم لوگ اپنی درازدستیوں اورامن شکن کارروائیوں سے باز نہ آتے اورظلم وستم کامیدان وسیع ہوتا چلا جاتا۔چنانچہ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ اس قسم کی غلامی کاطریق ابتدائی زمانہ میں تمام اقوام عالم میں کم وبیش پایا جاتاتھا۔ حتّٰی کہ بنواسرائیل میں بھی جو نبیوں کی اولاد تھے اورکثیر التعداد نبیوں کے تربیت یافتہ تھے یہ طریق کثرت کے ساتھ رائج تھا بلکہ اسرائیلی شریعت نے خود اس کا حکم دیا تھا اوراگر غور کیا جاوے تواس ابتدائی زمانہ میں مذہبی جماعتوں کیلئے اس کی ضرورت دوسری قوموں کی نسبت بھی زیادہ تھی۔کیونکہ جیسا کہ قاعدہ ہے مذہبی سلسلوں کی سخت مخالفت ہوتی تھی اوردوسری قومیں انہیں تلوار کے زور سے مٹانے کیلئے کھڑی ہوجاتی تھیں۔پس انہیں بھی دفاع اورخود حفاظتی میں غلامی وغیرہ کے طریق اختیار کرنے پڑتے تھے۔اسی طرح مسیحی قوم میں بھی جودراصل بنواسرائیل ہی کی ایک شاخ تھے غلامی کاسلسلہ جاری رہابلکہ اب تک بھی حبشہ کے عیسائی ملک میں جو اس وقت تک ابتدائی مسیحی روایات پربڑی سختی کے ساتھ قائم ہے غلامی کارواج پایا جاتا ہے بلکہ شاید اس ملک کی غلامی دوسرے ممالک کی غلامی سے بھی سخت تر ہے۔اسی طرح ہندوستان کی قدیم آریہ قوم میںبھی غلامی کارواج تھا۔ چنانچہ یہ شودروغیرہ جوآج تک ہندوستان میں پائے جاتے ہیں یہ اسی سلسلۂ غلامی کاایک ناگواربقیہ ہیں۔الغرض ابتدائی زمانوں میں غلامی کارواج کم وبیش سب ممالک اورسب اقوام میں پایا جاتا تھااوریہ ان زمانوں کے حالات کالازمی نتیجہ تھااوراس کی غرض ظلم وستم کا سدباب تھی اورپھر یہ کہ اسکی سب سے زیادہ ضرورت بلکہ حقیقی ضرورت صرف مذہبی جماعتوں کو تھی جو سب سے زیادہ مظالم کاتختۂ مشق بنتی تھیں اورلوگ ان کے مذہب کوتباہ کرنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوتے تھے اوراس رنگ کی غلامی جسے اسلام نے اوربھی پاک وصاف کردیا حتّٰی کہ وہ حقیقتاًایک محض قید کی صورت اختیار کرگئی کوئی ناانصافی نہیں تھی۔کیونکہ جوقوم دوسروں کے مذہب کو تلوار کے زور سے مٹانا چاہتی ہے اورظالم وسفاک ہے اور امن شکنی کاطریق اختیار کرکے ملک میں فتنہ وفساد اورقتل وغارت کابیج بوتی ہے،وہ ہرگز آزادی کی حق دار نہیں سمجھی جاسکتی جیسے کہ ایک چوریا ٹھگ یاڈاکو جیل خانہ سے باہر رہنے کاحق دار نہیں سمجھا جاتا اوریہ مظالم سب سے زیادہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کوپیش آئے۔ ہمارے ناظرین بھولے نہیں ہوں گے کہ کفار نے مسلمانوں کواسلام کی وجہ سے نہایت درد ناک عذاب دیئے۔ان کے دین ومذہب کوبزور مٹانے کیلئے مسلمانوں کے خلاف تلوار نکالی۔ اوران کے محبوب آقا کے مقدس خون سے اپنے ناپاک ہاتھوں کو رنگنا چاہا۔اور کمزورمگربے گناہ اورآزاد مسلمانوں کو غلاموں کی طرح اپنے پاس قید رکھا۔اوربے گناہ مسلمانوں کو ذلیل ترین دھوکے کے ساتھ قیدکرکے اپنا غلام بنایا اورپھران میں سے بعض کونہایت ظالمانہ طریق پر تہ تیغ کیا۔اوران کی عورتوں کواپنی لونڈیاں بنانے کیلئے سازشیں کیں اور لڑائیاں لڑیںاوران کے معزز شہیدوں کامثلہ کیااوران کے ناک کان کاٹ کراپنے گلوں میں ہار پہنے اوران کی معزز مستورات پر وحشیانہ حملے کرکے ان کے حمل گرائے اوران کی عصمت شعار بیبیوں کی شرمگاہوں میں نیزے مارمارکرانہیں ہلاک کیا۔ان حالات میں اگران ظالموں کو ان کی آزادی سے محروم کرکے مستقل طورپر غلام بنالیا جاتا تویہ ہرگزناانصافی نہیں تھی۔مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاسراسر احسان تھا کہ آپؐنے ایسے لوگوں میں سے بھی اکثرکومعاف فرمادیا اوران میں سے جو لوگ جنگ میں پکڑے جاکر قیدی بنے ان کی آزادی میں بھی سوائے وقتی حد بندی کے کوئی روک نہیں ڈالی اور اس وقتی حد بندی کے زمانہ میں بھی آپؐنے قیدیوں کے آرام وآسائش کے متعلق ایسے تاکیدی احکام صادرفرمائے کہ ان سے متأثرہوکر صحابہ نے اپنی قمیصیں اتاراتار کر قیدیوں کوہاں اپنے خون کے پیاسے قیدیوں کودے دیں۔خود خشک کھجوروں پرگزارہ کیااورانہیں پکاہواکھانا دیا۔آپ پیدل چلے اور انہیں سوار کیا۔ کیا دنیا کی کسی قوم میں کسی زمانہ میں اس کی مثال ملتی ہے؟
جنگی قیدیوں کے متعلق اسلامی تعلیم کاخلاصہ تین قرآنی آیتوں میں آجاتا ہے جن میںسے دوتو خاص جنگی قیدیوں کے متعلق ہیں اور ایک اصولی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ تُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا۝۰ۤۖ وَاللہُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَۃَ۝۰ۭ وَاللہُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ
یعنی نبی کی شان سے یہ بہت بعید ہے کہ اس کیلئے جنگی قیدی پکڑے جائیں حتّٰی کہ دشمن کے ساتھ کسی میدان میں اچھی طرح عملی جنگ نہ ہولے۔اے مسلمانو!تم قریب کے فوائدپرنگاہ رکھتے ہو(کہ قیدی پکڑنے میں جلدی کی جاوے تاکہ تم ان کے فدیہ کی رقم سے دشمن کے مقابلہ کی تیاری کرسکو) مگر اللہ تعالیٰ انجام کارکودیکھتا ہے(اورچونکہ انجام کے لحاظ سے یہ طریق پسندیدہ نہیں اوراخلاقی طورپر اس کا اثرخراب ہے اس لئے وہ تمہیں اس طریق سے باز رہنے کا حکم دیتا ہے)اوراگر تمہیں دشمن کی تعداد وطاقت کاخوف ہوتو جانو کہ اللہ تعالیٰ سب طاقتوں پرغالب ہے اوروہ حکیم یعنی تمہاری حقیقی ضرورتوں کوپورا کرنے والا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی کمزوری اوردشمن کی طاقت کے خیال سے یافدیہ کے ذریعہ اپنی مالی حالت کو مضبوط بنانے کی غرض سے دشمن کے قیدی پکڑنے کے معاملہ میں جلدی اوربے احتیاطی سے کام نہیں لینا چاہئے کہ جہاں بھی دشمن کوکمزورپایا قیدی پکڑنے شروع کردیئے یامیدان جنگ میں عملی مقابلہ ہونے سے پہلے ہی قیدی پکڑ لئےبلکہ مسلمانوں کوصرف اس صورت میں قیدی پکڑنے کی اجازت ہے کہ میدان جنگ میں عملاًدشمن کامقابلہ ہواورلڑائی کے بعدقیدی پکڑے جائیں۔ اس اسلامی تعلیم میں جو بین الاقوامی ضابطۂ جنگ کی اعلیٰ ترین بنیاد پرقائم ہے جنگی قیدیوںکی تعداد اوروسعت کوامکانی طورپرتنگ سے تنگ دائرہ میں محدود کردیا گیا ہے جو اس بات کوظاہرکرتا ہے کہ اسلام کامنشاء یہ تھاکہ سوائے ان صورتوں کے جو لابدی اوراٹل ہوں حتّی الوسع جنگی قیدی نہیں پکڑنے چاہئیں۔
پھر فرماتا ہے:
فَاِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ۝۰ۭ حَتّٰٓي اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ۝۰ۤۙ فَاِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَاۗءً حَتّٰى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَہَا
یعنی’’ اے مسلمانو!جب کفار کے ساتھ تمہاری جنگ ہو تو خوب جم کرلڑو اور ظالموں کو قتل کرو اورجب اچھی طرح جنگ ہولے تواس کے بعد دشمن کے آدمیوں میں سے قیدی پکڑو۔پھراگر اصلاح کی امید ہواورحالات مناسب ہوں توان قیدیوں کوبعد میںیونہی احسان کے طور پر چھوڑ دو یامناسب فدیہ لے کر انہیں رہا کردواوریا اگر ضروری ہوتو انہیں قید میں ہی رکھو حتّٰی کہ جنگ ختم ہوجاوے اوراسکے بوجھ تمہارے سروں سے اترجاویں۔‘‘
یہ آیت جنگی قیدیوں کے متعلق اسلامی شریعت میں بطوربنیادی پتھر کے ہے جس میں وہ مختلف صورتیں بتادی گئی ہیں جو قیدیوں کے معاملہ میں مختلف حالات کے ماتحت اختیار کی جاسکتی ہیں۔ اور وہ تین ہیں:
اوّل:بطور احسان چھوڑدینا۔دوم:فدیہ لے کر چھوڑ دینا۔اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے تعامل سے پتہ لگتا ہے کہ فدیہ کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں(ا)نقد فدیہ خواہ وہ یکمشت اورفوری ادائیگی کی صورت میں ہو یامکاتبت کے اصول پرجس کی مفصل بحث اوپر گزر چکی ہے(ب)مسلمان قیدیوں کے ساتھ تبادلہ(ج)کوئی مناسب خدمت لے لینا مثلاً اگرقیدیوں کوکوئی فن آتا ہوتو ان کے ساتھ یہ شرط کرلینا کہ اگر وہ بعض مسلمانوں کویہ فن سکھا دیں تو رہا کردئیے جائیں گے۔
سوم:قید کی حالت کوہی جنگ کے اختتام تک لمبا کردینا اورجنگ کے اختتام سے اسکا کامل اختتام مراد ہے جبکہ وہ صرف جنگی کارروائیوں کاسلسلہ عملاًختم ہوجاوے بلکہ وہ بوجھ بھی جواس کی وجہ سے ملک اورقوم پر پڑے ہوں اور جن کی ذمہ داری دشمن قوم پر سمجھی جاوے دور ہوجائیں۔جیسا کہ قرآنی الفاظحَتّٰى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَہَا میں اشارہ پایا جاتا ہے اوریہ آخری صورت اس لئے تجویز کی گئی ہے کہ اگر حالات ایسے ہوں کہ نہ تو کفار کے قیدیوں کواحسان کے طور پر چھوڑنا قرین مصلحت ہواور نہ ہی وہ یاان کے رشتہ داراپنی ضدیاعداوت کی وجہ سے فدیہ ادا کرنے پرآمادہ ہوں توپھر انہیں جنگ کے حقیقی اختتام تک قید رکھا جاسکے تاکہ ان کے رہا ہونے سے مسلمانوں کی مشکلات اورخطرات میں اضافہ نہ ہو اوریہی وہ صورت ہے جسے اسلام میں غلامی کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اورجس کی اسلام نے اجازت دی ہے۔مگر غور کیاجاوے تودراصل یہ غلامی نہیں بلکہ محض ایک قید ہے اورپھراس قید یاغیر حقیقی غلامی کوبھی اسلام نے ایک اصولی قاعدہ کے ساتھ مشروط ومحدود کردیا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ۝۰ۭ وَلَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَخَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ
یعنی’’ اے مسلمانو!اگرتم کفار کے مقابلہ میں انتقام اورسزا کے طریق پر کوئی سختی کرنا مناسب خیال کروتو ضروری ہے کہ تمہاری سختی اس سختی سے تجاوز نہ کرے جوکفار تمہارے خلاف کرتے ہوںاوریہ بھی ضروری ہے کہ تم کوئی ایسی سختی نہ کرو جس میں کفار نے سبقت اورپہل نہ کی ہو اوراگر تمہارے لئے صبر کرنا ممکن ہوتوپھر صبرہی سے کام لوکیونکہ صبر کرنا بہتر ہے۔‘‘
اس اصولی آیت کے ماتحت جنگی قیدیوں کے متعلق وہ صورت جوقید کی حالت کے لمبا کئے جانے سے تعلق رکھتی ہے مختلف رنگ اختیار کرسکتی ہے۔مثلاًاگرکفار مسلمان قیدیوں سے خدمت لیتے ہوں تومسلمان بھی کفار کے قیدیوں سے مناسب خدمت لے سکتے ہیں۔مگریہ خدمت بہرحال ان شرائط کے ماتحت ہوگی جوغلاموں وغیرہ سے خدمت لینے کے متعلق اسلام نے مقرر فرمائی ہیں۔مثلاً یہ کہ ان کو ان کی طاقت سے زیادہ کام نہ دیا جاوے اورایسا کام نہ دیا جاوے جسے آقا خود کرنے کیلئے تیار نہ ہو۔اسی طرح اگرکفار مسلمان قیدیوں کوبجائے قومی اورملکی قیدخانوں میں رکھنے کے اپنے افراد میں تقسیم کردیتے ہوں تومسلمان بھی کفار کے قیدیوں کومسلمان افراد کی سپردگی میںدے سکتے ہیں۔وغیرذالک۔مگر بہرحال یہ ضروری ہے کہ اس قسم کی تفصیلات میں جو صورت بھی اختیار کی جاوے وہ کسی مخصوص اسلامی حکم کے خلاف نہ ہو۔مثلاًیہ کہ یہ ضروری ہے کہ قید کاسلسلہ جنگ کے اختتام پر لازماً ختم کردیا جاوے یایہ کہ قیدی محض دشمن کی فوج کاسپاہی ہونے کی وجہ سے قتل نہ کیا جاوے یایہ کہ قیدیوں سے خدمت ان کی طاقت اورحیثیت کے مطابق لی جاوے یایہ کہ قیدیوں کے آرام وآسائش کاخاص خیال رکھا جائے۔ وغیرذالک
یہ وہ تعلیم ہے جوجنگی قیدیوں کے متعلق اسلام دیتا ہے۔     (باقی آئندہ)

(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ 409تا 413،مطبوعہ قادیان2011)
…٭…٭…٭…