اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-03-23

تحویل قبلہ

صیامِ رمضان

تحویل قبلہ


باوجود جنگ وجدال کی بے انتہا مصروفیت کے تکمیل وتاسیس مذہب کا کام نہیں رک سکتا تھاکیونکہ بعثت نبویؐ کی یہی علت اولیٰ تھی۔پنجگانہ نماز مکہ میں ہی شروع ہوچکی تھی۔مدینہ میں باجماعت نماز کے التزام نے اذان کی ضرورت محسوس کرائی اوراسکا انتظام کیا گیا۔مگر مسلمانوںکاقبلہ ابھی تک بیت المقدس تھا اورمکہ میںبھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐکے اصحاب بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے اورمدینہ کے ابتدائی زمانہ میںبھی یہی طریق جاری رہا،لیکن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہمیشہ سے یہ خواہش تھی کہ مسلمانوں کا قبلہ مکہ کے کعبہ کوقرار دیا جاوے،کیونکہ وہ خدا کی عبادت کاپہلا گھرتھاجو دنیا میں تعمیر ہوا اورابوالانبیاء حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور عربوں کے جدِّاعظم اسماعیل ذبیح اللہ کی یاد گار بھی اسی گھر سے وابستہ تھی اورپھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کامولد و مسکن اوراسلام کامبدء ومنبع ہونے کی حیثیت میں بھی کعبہ ہی مسلمانوں کاقبلہ بننے کاحق دار تھا،لیکن چونکہ ابھی تک کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز اداکرنے کا حکم نازل نہیں ہوا تھااس لئے آپؐبیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے اور یہ سلسلہ ہجرت کے سولہ سترہ ماہ بعد تک جاری رہا،لیکن اب وقت آگیا تھا کہ مسلمانوں کوان کے اصل قبلہ پر قائم کردیا جاوے۔ چنانچہ ہجرت کے دوسرے سال شعبان کے مہینہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی توجہ حکم الٰہی کے نزول کی محرک ہوئی اوریکلخت مسلمانوں کارخ بیت المقدس کی طرف سے کعبہ کی طرف پھرگیا۔ قرآن شریف میں جو آیات اس بارہ میں نازل ہوئیںوہ یہ ہیں۔
سَيَقُوْلُ السُّفَہَاۗءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّہُمْ عَنْ قِبْلَتِہِمُ الَّتِىْ كَانُوْا عَلَيْہَا۝۰ۭ قُلْ لِّلہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ۝۰ۭ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ… وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِىْ كُنْتَ عَلَيْہَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَّتَّبِــعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ يَّنْقَلِبُ عَلٰي عَقِبَيْہِ۝۰ۭ وَاِنْ كَانَتْ لَكَبِيْرَۃً اِلَّا عَلَي الَّذِيْنَ ھَدَى اللہُ۝۰ۭ…قَدْ نَرٰى تَـقَلُّبَ وَجْہِكَ فِي السَّمَاۗءِ۝۰ۚ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَۃً تَرْضٰىھَا۝۰۠ فَوَلِّ وَجْہَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۝۰ۭ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ شَطْرَہٗ۝۰ۭ…وَلِكُلٍّ وِّجْہَۃٌ ھُوَمُوَلِّيْہَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ۝۰ۭ۬ اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يَاْتِ بِكُمُ اللہُ جَمِيْعًا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ
’’ضرور بیوقوف لوگ اعتراض کریں گے کہ مسلمانوں کوان کے اس قبلہ سے کس بات نے پھیردیا جس پر کہ وہ تھے۔توکہہ دے کہ مشرق ومغرب اللہ ہی کیلئے ہے وہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی طرف راستہ دکھادیتا ہے اوراَے رسول!ہم نے تیرے پہلے قبلہ کوتوصرف اس امتحان کے طورپررکھاتھا کہ یہ ظاہر ہوجاوے کہ کون خدا کے رسول کی سچی اتباع اختیار کرتا ہے اورکون اپنی ایڑیوں کے بل پھرجاتا ہے اوربے شک پہلا قبلہ طبائع پرایک بوجھ رہا ہے سوائے ان لوگوں کے جواللہ کی طرف سے ہدایت پرقائم ہیں اوراے رسول! ہم دیکھتے ہیں کہ تیری توجہ قبلہ کے معاملہ میں آسمان کی طرف لگی ہوئی ہے کہ کب کعبۃ اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم اترتا ہے۔لہٰذا ا ب ہم پھیر دیتے ہیں تجھے اس قبلہ کی طرف جو تجھے پسند ہے۔پس اَے رسول اپنے رخ کومسجد حرام کی طرف پھیر لے اوراے مسلمانو!جہاں کہیں بھی تم ہواپنا رخ مسجدحرام کی طرف رکھاکرواورجانو کہ ہر قوم کیلئے توجہ کی ایک خاص سمت ہوتی ہے اورگو ہم نے تمہاری ظاہری سمت کعبہ کومقرر کیاہے لیکن یاد رکھو تمہاری باطنی سمت نیکیوں کی طرف بڑھنا ہونی چاہئے اوراس ظاہر وباطن کی یکجہتی سے یہ فائدہ ہوگا کہ تم خواہ دنیا کے کسی حصہ میں پھیلے ہوئے ہوگے تم میں اتحاد رہے گا۔بے شک اللہ جو چاہتا ہے اس پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘
ان آیات قرآنی میں جہاں تحویل قبلہ کا حکم ہے وہاں قبلہ کی حکمت اورضرورت بھی بیان کی گئی ہے کہ اس سے قوم میںظاہری یکجہتی اوراتحاد فی الصورت قائم رہتے ہیں اوریہ بھی بتایا گیا ہے کہ شروع شروع میں اللہ تعالیٰ نے ایک عرصہ تک مسلمانوں کو بیت المقدس کے قبلہ پراس مصلحت سے قائم رکھا تھا کہ وہ مشرکین عرب کیلئے جن کی ساری توجہ کا مرکز کعبہ تھا بطور ایک امتحان کے رہے اوروہ اپنے اندر ایمان کی خاطر قربانی کرنے کی روح پیدا کریں،لیکن جب آزمائش کا مناسب زمانہ گزر گیا تواصل قبلہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دے دیا گیا۔اس موقع پر سرولیم میور نے اعتراض کیا ہے کہ شروع شروع میں مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے اس لئے نماز پڑھتے تھے تا کہ اس طرح مدینہ کے یہودیوں کواپنی طرف مائل کریں، لیکن جب دیکھا کہ وہ اس دائو میں نہیں آتے تورخ بدل کرکعبہ کی طرف کرلیا گیا تاکہ مشرکین عرب کو خوش کرنے کی کوشش کی جاوے۔تعصب بے شک انسان کو اندھا کردیتا ہے لیکن اگر سرولیم جیسا قابل شخص جو ہندوستان کے ایک بہت بڑے صوبے کاکامیاب حاکم رہ چکا ہے اسلام کے متعلق ایسی بے بنیاد باتیں کرے توجائے تعجب ضرور ہے،مگرحقیقت ایسی واضح ہے کہ کسی کے چھپائے چھپ نہیںسکتی۔جوطریق عمل ہجرت سے کئی سال پہلے مکہ میں جاری ہوا ہو اور مدینہ جانے پر چند ماہ کے بعد منسوخ کردیا ہو اس کے متعلق یہ دعویٰ کرنا کہ وہ یہود مدینہ کو خوش کرنے کیلئے جاری کیا گیا تھا اوراسکی منسوخی کے متعلق یہ کہنا کہ وہ مشرکین کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے وقوع میں آئی تھی کسی عقل مند کو دھوکے میں نہیں ڈال سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلا قبلہ مشرکین کیلئے بطور ایک امتحان کے تھا اوراس امتحان کاوقت ہجرت سے پہلے ہی مناسب تھا،لیکن چونکہ مدینہ میں بھی مشرکین بستے تھے اس لئے مدینہ کے ابتدائی ایام میں بھی وہ امتحان جاری رہا۔مگر جب مشرکین مدینہ قریباًمفقود ہوگئے تو اس امتحان کی ضرورت نہ رہی اورتحویل قبلہ کا حکم نازل ہوگیا اوراس حکم میں دو مصلحتیں تھیں۔ایک یہ کہ مسلمان اپنے اصل قبلہ پر قائم ہوگئے اوردوسرے یہ کہ نیا قبلہ یہود کیلئے ایک امتحان بن گیا جیسا کہ پہلا قبلہ مشرکین کیلئے امتحان تھا۔پس حقیقت وہ نہیں جو میور صاحب کے خامۂ تعصب نے خلق کی ہے بلکہ اسکے بالکل برعکس ہے اور قرآن جس کی شہادت کی تاریخی حیثیت کو میور صاحب نے سب شہادتوں سے بڑھ کر قرار دیا ہے اس کا شاہد ہے۔

 

صیامِ رمضان


نماز سے اتر کر اسلامی عبادات کادوسرا بڑارکن روزہ ہے۔دراصل اسلام نے مختلف قسم کی عبادات مختلف قسم کے تزکیۂ نفس کومدنظر رکھ کر شروع کی ہیں۔یعنی اگرنماز ایک رنگ میں انسان کی آلائشوں اورکمزوریوں کو دور کرتی ہے اوراسے خدا کا مقرب بننے کے قابل بناتی ہے تو روزے کسی دوسرے رنگ میں یہ کام سرانجام دیتے ہیں اورزکوٰۃ ایک تیسرے میدان کیلئے مقرر ہے اور حج ان تینوں کے علاوہ ایک چوتھا مقصد ہے اوراس طرح مختلف عبادتیں مختلف مقاصد کوپورا کرتی ہیں اور مختلف جہات سے انسان کی اصلاح اورترقی کے کام میںممد ہوتی ہیں اور اگر غور کیا جاوے تو یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس ترتیب سے اسلامی عبادات کے مختلف ارکان شروع ہوئے ہیں وہی ان کی اہمیت کی ترتیب بھی ہے۔یعنی سب سے زیادہ اہم اورسب سے زیادہ وسیع طورپرانسانی اخلاق اورروحانیت پراثر ڈالنے والی عبادت وہ ہے جو سب سے پہلے قائم کی گئی اوراس کے بعد اس سے کم درجہ کی قائم کی گئی اوراسکے بعد اس سے کم کی وعلٰی ھذا القیاس۔اورجولوگ عبادات کو محض ایک رسم کے طور پر ادا نہیں کرتے اوران کے اثر کو اپنے نفوس میں مطالعہ کرنے کے عادی ہیں وہ یہ بات آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں کہ عبادات میں اول نمبر نماز کا ہے اورپھراس سے اتر کر روزہ کا اورپھردوسری عبادات کا۔ بہرحال اس وقت تک صرف نماز مشروع ہوئی تھی اوراب ہجرت کے دوسرے سال رمضان کی آمد پر روزوںکابھی آغاز ہوا۔یعنی یہ حکم نازل ہوا کہ رمضان کے مہینہ میںتمام بالغ مسلمان مردوعورت باستثناء بیماروں اورناتوانوں کے اور باستثناء مسافروں کے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک ہر قسم کے کھانے پینے سے پرہیز کریں اوران اوقات میں خاوند بیوی کے مخصوص تعلقات سے بھی پرہیز کیا جاوے اور روزوں کے ایام کوخصوصیت کے ساتھ ذکر الٰہی اور قرآن خوانی اورصدقہ وخیرات میں گزارا جاوے اور روزوں کی راتوں میں مخصوص طورپر نماز تہجد کاالتزام کیا جاوے وغیرذالک۔ چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق لکھا ہے کہ آپؐکارمضان گویاایک مجسم عبادت کا رنگ رکھتا تھااورگویوں توآپؐکی ساری زندگی ہی عبادت تھی،مگر روزوں میں آپؐخصوصیت سے بیشتر حصہ وقت کا نوافل اورذکر الٰہی میں گزارتے تھے اورراتوں کو کثر ت کے ساتھ جاگتے تھے اور رمضان میں آپؐ اتنا صدقہ وخیرات کرتے تھے کہ صحابہؓ نے اس کو ایک تیز ہوا کے ساتھ تشبیہہ دی ہے جوکسی روک کوخیال میں نہ لائے۔نیز روزہ کی روح کوزندہ رکھنے کیلئے آپؐہمیشہ صحابہ کو یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ یہ نہ سمجھو کہ بس کھانا پینا چھوڑنے کی رسم ادا کرکے تم خدا کے نزدیک روزہ دار شمار ہوجائو گے بلکہ تمہیں روزہ کی اصل روح کوملحوظ رکھنا چاہئے تاکہ اس سے تمہارے اندر طہارت نفس اورضبط خواہشات اورمادۂ قربانی اورغرباء کی امدادکااحساس پیداہواورفرماتے تھے کہ وہ شخص بہت بدقسمت ہے جس کو کوئی رمضان میسر آئے اورپھراس کے گزشتہ گناہ معاف نہ ہوں۔آپؐ نوافل کے طورپر بھی روزہ کی تحریک فرمایا کرتے تھے مگرآپؐکی یہ سنت تھی کہ آپؐہر بات میں میانہ روی کا حکم دیتے تھے۔ چنانچہ آپؐاس بات سے منع فرماتے تھے کہ کوئی شخص مسلسل روزے ہی رکھتا چلاجاوے اورفرماتے تھے کہ انسان پرخدا نے اسکے نفس کا بھی حق رکھا ہے اوراسکی بیوی کا بھی حق رکھا ہے اوراسکے بچوں کا بھی حق رکھا ہے اوراسکے دوستوں کا بھی حق رکھا ہے اور ہمسایوں کا بھی حق رکھا ہے اوراسی طرح دوسرے حقوق ہیں اوران میں سے ہرحق کو خدا کی شریعت اور منشاء کے ماتحت ادا کرنا عبادت میںداخل ہے۔پس ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی شخص ایک خاص عبادت پرزور دے کر دوسرے حقوق کو نظر انداز کردے۔ غرض اس طرح اس سال رمضان کے روزے فرض ہوگئے اوراسلامی عبادات میںدوسرے رکن کا اضافہ ہوا،لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جس طرح پنجگانہ نماز فرض ہونے سے قبل بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے رنگ میں نفلی نماز پڑھا کرتے تھے اورصحابہ کو بھی اس کی تلقین فرماتے تھے۔اسی طرح رمضان کے روزے فرض کئے جانے سے پہلے آپؐنفلی روزے بھی رکھتے تھے،مگر وہ اس طرح باقاعدہ اورمعیّن اور مؤقت صورت میں مشروع نہیں ہوئے تھے۔ چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ رمضان کے روزے فرض ہونے سے قبل آپؐیوم عاشورہ یعنی محرم کی دسویں تاریخ کاروزہ رکھا کرتے تھے اورصحابہ کوبھی اس کی تحریک فرماتے تھے۔ (باقی آئندہ)
(سیرت خاتم النّبیینؐ،صفحہ334تا 337،مطبوعہ قادیان2011)
…٭…٭…٭…