اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-03-30

سیرت خاتم النّبیینﷺ
(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

عیدالفطر
رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد رمضان کاآخرآیا توآپؐنے خدا سے حکم پاکر صدقۃ الفطر کاحکم جاری فرمایا کہ ہرمسلمان جسے اسکی طاقت ہو اپنی طرف سے اور اپنے اہل وعیال اورتوابع کی طرف سے فی کس ایک صاع کے حساب سے کھجور یاانگور یاجَو یاگندم وغیرہ بطورصدقہ، عید سے پہلے ادا کرے اور یہ صدقہ غرباء اور مساکین اوریتامیٰ اوربیوگان وغیرہ میں تقسیم کردیا جاوے تاکہ ذی استطاعت لوگوں کی طرف سے عبادت صوم کی کمزوریوں کا کفارہ ہوجاوے اور غرباء کیلئے عید کے موقع پرایک امداد کی صورت نکل آئے۔چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم سے ہر عید رمضان سے پہلے صدقتہ الفطر باقاعدہ طورپر ہرچھوٹے بڑے مردعورت مسلمان سے وصول کیا جاتا تھا اوریتامیٰ اورغرباء اور مساکین میں تقسیم کردیا جاتا تھا۔
عیدالفطر بھی اِسی سال شروع ہوئی یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ رمضان کامہینہ ختم ہو جانے پر شوال کی پہلی تاریخ کومسلمان عید منایا کریں۔ یہ عید اس بات کی خوشی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں رمضان کی عبادت ادا کرنے کی توفیق عطافرمائی ہے۔مگر کیا شان دلربائی ہے کہ آپؐنے اس خوشی کے اظہار کیلئے بھی ایک عبادت ہی مقرر فرمائی۔ چنانچہ حکم دیا کہ عید کے دن تمام مسلمان کسی کھلی جگہ جمع ہو کر پہلے دو رکعت نماز ادا کیا کریں اورپھر اس نماز کے بعد بے شک جائز طورپر ظاہری خوشی بھی منائیں کیونکہ روح کی خوشی کے وقت جسم کا بھی حق ہے کہ وہ خوشی میں حصہ لے۔دراصل اسلام نے ان تمام بڑی بڑی عبادتوں کے اختتام پر جواجتماعی طورپرادا کی جاتی ہیںعیدیں رکھی ہیں۔چنانچہ نمازوں کی عید جمعہ ہے جوگویا ہرہفتہ کی نمازوں کے بعد آتا ہے اور جسے اسلام میں ساری عیدوں سے افضل قرار دیا گیا ہے پھرروزوں کی عید عید الفطر ہے جو رمضان کے بعد آتی ہےاورحج کی عید عیدالضحیٰ ہے جو حج کے دوسرے دن منائی جاتی ہے اوریہ ساری عیدیں پھر خود اپنے اندر ایک عبادت ہیں۔ الغرض اسلام کی عیدیں اپنے اندر ایک عجیب شان رکھتی ہیں اوران سے اسلام کی حقیقت پربڑی روشنی پڑتی ہے اوریہ اندازہ کرنے کا موقع ملتا ہے کہ کس طرح اسلام مسلمانوں کے ہر کام کو ذکر الٰہی کے ساتھ پیوند کرنا چاہتا ہے۔مجھے تاریخ سے ہٹنا پڑتا ہے، ورنہ میں بتاتا کہ کس طرح اسلام نے ایک مسلمان کی ہرحرکت وسکون اورہرقول وفعل کو خدا کی یاد کا خمیر دیا ہے۔ حتّٰی کہ روزمرہ کے معمولی اٹھنے بیٹھنے،چلنے پھرنے، سونے جاگنے، کھانے پینے،نہانے دھونے،کپڑے بدلنے، جوتاپہننے،گھر سے باہر جانے،گھرکے اندر آنے، سفر پر جانے،سفر سے واپس آنے،کوئی چیز بیچنے،کوئی چیز خریدنے،بلندی پر چڑھنے، بلندی سے اترنے،مسجد میں داخل ہونے، مسجد سے باہرآنے،دوست سے ملنے، دشمن کے سامنے ہونے،نیا چاند دیکھنے،بیوی کے پاس جانے غرض ہرکام کے شروع کرنے اور ختم کرنے حتّٰی کہ چھینک اوراباسی تک لینے کو کسی نہ کسی طرح خدا کے ذکر کے ساتھ وابستہ کردیا ہے۔اس حالت میں اگر مشرکین عرب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق جو دراصل اس تعلیم کے لانے والے،لیکن کفار کے خیال میں اس تعلیم کے بنانے والے تھے یہ کہتے ہوں کہ محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) کوخدا کا جنون ہوگیا ہے تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔واقعی ایک دنیادار کویہ باتیں جنون کے سوا اورکچھ نظر نہیں آسکتیں،مگر جس نے اپنی ہستی کی حقیقت کو سمجھا ہے وہ جانتا ہے کہ زندگی اسی کا نام ہے۔
جنگ بدر کے متعلق ایک ابتدائی بحث
اسی سال رمضان کے مہینہ میں بدر کی جنگ وقوع میں آئی۔یہ جنگ چونکہ کئی لحاظ سے تاریخ اسلام کاایک نہایت اہم واقعہ ہے،اس لئے ضروری ہے کہ اسکے متعلق کسی قدر زیادہ تفصیلی نظر ڈالی جاوے۔بدر وہ پہلی باقاعدہ لڑائی ہے جوکفار اورمسلمانوں کے درمیان ہوئی اوراسکے اثرات بھی ہردو فریق کیلئے نہایت وسیع اور گہرے ثابت ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے اسکانام’’یوم الفرقان‘‘یعنی حق وباطل کے درمیان فیصلہ کا دن رکھا ہے اور اسکے متعلق دعویٰ کیا ہے کہ یہ وہی عذاب ہے جس کی خبر رسول خدا کے ذریعہ قریش مکہ کو ہجرت سے پہلے دی گئی تھی۔جنگ بدر کے تحریکی سبب کے متعلق زمانہ حال میں بعض محققین نے اختلاف کیا ہے اوراسی اختلاف کے متعلق ہم اس ابتدائی نوٹ میں کچھ بحث کرنا چاہتے ہیں۔ عام مؤرخین کایہ خیال ہے اورمتقدمین میں سے تو اس بارہ میں کسی ایک مؤرخ نے بھی اختلاف نہیں کیا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو قریش کے ایک تجارتی قافلہ کی اطلاع ملی تھی جوابوسفیان کی سرداری میں شام کی طرف سے مکہ کوواپس آرہاتھا اور آپؐاسی قافلہ کی روک تھام کیلئے مدینہ سے نکلے تھے، لیکن جب آپؐبدر کے قریب پہنچے تواس وقت آپؐکو یہ اطلاع ملی کہ قریش کاایک بڑا لشکرمکہ سے آیا ہے اورپھر قافلہ توبچ کرنکل گیا اورقریش کے لشکر کے ساتھ مسلمانوں کی مٹھ بھیڑ ہوگئی۔دوسری طرف زمانہ حال میں جماعت احمدیہ قادیان کے ایک معزز فرد مولوی شیر علی صاحب بی.اے نے رسالہ ریویوآف ریلیجنز قادیان بابت سال 1910ء میں اور ہندوستان کے مشہور مؤرخ مولانا شبلی نعمانی نے سیرۃ النبیؐ میں بعض قرآنی آیات اوردیگر شہادات سے استدلال کرکے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ مسلمانوں کومدینہ میں ہی قریش کے لشکر کی اطلاع مل گئی تھی۔اوروہ مدینہ سے ہی لشکر کے مقابلہ کے خیال سے نکلے تھے اور قافلہ کے ارادے سے نکلنے کاخیال غلط ہے۔چنانچہ مولاناشبلی اپنی رائے کا خلاصہ یہ لکھتے ہیں کہ ’’مدینہ میں یہ مشہور ہوا کہ قریش ایک جمعیت عظیم لے کر مدینہ آرہے ہیں۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدافعت کاقصد کیا اوربدر کا معرکہ پیش آیا۔‘‘
جہاں تک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذاتی خلق اور مسلمانوں کے قومی اخلاق پرروشنی پڑنے کا سوال ہے یہ اختلاف چنداں اہمیت نہیں رکھتا۔صحابہ قافلہ کی روک تھام کیلئے نکلے تھے یا لشکر قریش کے مقابلہ کی غرض سے یا یہ کہ انہیں دونوں کی اطلاع اوردونوں کاخیال تھا ان میں سے کوئی بھی مقصد ہووہ مقصد جیسا کہ ہم جہاد کی اصولی بحث میں ثابت کرچکے ہیں بالکل درست اورجائز تھا اورکوئی معقول اورغیرمتعصب شخص اس پر اعتراض نہیں کرسکتا،لیکن تاریخی اورعلمی نکتہ نگاہ سے یہ اختلاف ایک دلچسپ بحث کا رنگ اختیار کرگیا ہے اورکوئی علم دوست مؤرخ اسکی طرف سے بے توجہی نہیں برت سکتا اورپھرصحتِ واقعات کی تحقیق کی ذمہ داری مزید برآں ہے ،لیکن مشکل یہ ہے کہ اسکی پوری پوری بحث اورمکمل چھان بین کیلئے ایک طویل مقالہ کی ضرورت ہے جسکی گنجائش ایک خالص تاریخ کی کتاب میں نہیں نکالی جاسکتی اورحق یہ ہے کہ میں نے اس بحث میں ایک مفصل مضمون لکھا بھی تھا، لیکن پھر اسے اس خیال سے خارج کردیا کہ اس قسم کامضمون حقیقتاً علم کلام میں داخل ہے اورعام تاریخ کاحصہ نہیں بننا چاہئے۔ سواب میں نہایت مختصر طورپر اس معاملہ میں اپنی تحقیق کاذکر کرکے اصل مضمون کی طرف لوٹتا ہوں۔
میں نے ہر دوقسم کے خیالات کے متعلق کافی غور کیا ہے لیکن جہاں میں مولوی شیرعلی صاحب اور مولانا شبلی کی تحقیق کوقدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں وہاں میں افسوس کے ساتھ بعض باتوں میں ان بزرگوں سے اختلاف بھی رکھتا ہوںاور میری رائے میں اصل حقیقت ان ہردوقسم کے خیالات کے بین بین ہے۔یعنی میری تحقیق یہ ہے کہ ایک طرف توجدید تحقیق کایہ حصہ ٹھیک ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کومدینہ میںہی لشکرقریش کی آمد کی اطلاع ہوگئی تھی اوردوسری طرف عام مؤرخین کایہ خیال بھی ہرگز غلط نہیں ہے کہ صحابہ(یعنی اکثر صحابہ جیسا کہ ابھی ظاہر ہوجائے گا)صرف قافلہ ہی کی روک تھام کے خیال سے نکلے تھے اور لشکر قریش کا علم انہیں بدر کے قریب پہنچ کر ہوا تھااورجہاں تک میں نے غور کیا ہے قرآن شریف اور تاریخ وحدیث دونوں میرے اس خیال کے مؤید ہیں۔دراصل ہمارے ان جدید محققین نے قرآن شریف کے سارے بیان کواپنے مد نظر نہیں رکھا اورصرف اسکے ایک حصہ کو لے کر (جوبظاہر تاریخی بیان کے مخالف نظر آتا ہے حالانکہ دراصل وہ بھی تاریخی روایات کے مخالف نہیں ہے بلکہ تاریخ سے ایک زائد بات بتاتا ہے)اس بحث میں ساری تاریخی روایات کو عملاًردی کی طرح پھینک دیا ہے۔ حالانکہ خود قرآن شریف کے دوسرے حصے ان تاریخی روایات کی تصدیق کرتے ہیں اورسوائے ایک زائد بات کے جس کی طرف قرآن شریف اشارہ کرتا ہے باقی ساری باتوں میں قرآنی بیان اور تاریخی بیان ایک دوسرے کے مطابق ہیںاورہرگز کوئی اختلاف نہیں۔ تفصیلات سے قطع نظر کرتے ہوئے تاریخی بیان کا ماحصل جومضبوط روایات سے ثابت ہے اورجس کی تائید میں صحیح احادیث بھی پائی جاتی ہیں یہ ہے کہ بدر کے موقع پرمسلمان صرف قافلہ کی روک تھام کے خیال سے مدینہ سے نکلے تھے اورلشکر قریش کاعلم انہیں بدر کے پاس پہنچ کر ہوا تھا او راس طرح گویا لشکر قریش اور مسلمانوں کا مقابلہ اچانک ہوگیا تھا۔اب اس تاریخی بیان کے مقابلہ میں ہم قرآن شریف پر نظر ڈالتے ہیں کہ وہ اس بارے میں کیا کہتا ہے سوسورۃ انفال میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
كَـمَآ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ۝۰۠ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ لَكٰرِہُوْنَ۝ يُجَادِلُوْنَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَيَّنَ كَاَنَّمَا يُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ وَہُمْ يَنْظُرُوْنَ۝ وَاِذْ يَعِدُكُمُ اللہُ اِحْدَى الطَّاۗىِٕفَتَيْنِ اَنَّہَا لَكُمْ وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَۃِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَيُرِيْدُ اللہُ اَنْ يُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِہٖ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِيْنَ…اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَۃِ الدُّنْيَا وَہُمْ بِالْعُدْوَۃِ الْقُصْوٰي وَالرَّكْبُ اَسْفَلَ مِنْكُمْ۝۰ۭ وَلَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيْعٰدِ۝۰ۙ وَلٰكِنْ لِّيَقْضِيَ اللہُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا…وَاِذْ يُرِيْكُمُوْہُمْ اِذِ الْتَقَيْتُمْ فِيْٓ اَعْيُنِكُمْ قَلِيْلًا وَّيُقَلِّلُكُمْ فِيْٓ اَعْيُنِہِمْ لِيَقْضِيَ اللہُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا۝۰ۭ وَاِلَى اللہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۝
یعنی’’اے رسول!جس طرح نکالا تجھے تیرے رب نے تیرے گھر (مدینہ)سے حق کے ساتھ اس حال میں کہ مومنوں میںسے بعض لوگ تیرے اس نکلنے کو ایک سخت مشکل اور نازک کام سمجھتے تھے۔ اسی طرح نکلے تیرے دشمن تجھ سے لڑتے ہوئے حق کے رستہ میںبعد اسکے کہ وہ حق ان کیلئے ظاہر ہوچکا تھا۔(یعنی ان پر خدائی سنت کے مطابق اتمام حجت ہوچکا تھا)اورحق کو قبول کرنا ان کیلئے ایسا تھا کہ گویا وہ موت کی طرف دھکیلے جارہے ہوں اورموت بھی وہ جو سامنے نظر آرہی ہو اور یاد کرو اے مسلمانو!جبکہ اللہ تعالیٰ تمہیں یہ وعدہ دیتاتھا کہ کفار کے دو گروہوں(یعنی لشکر اور قافلہ)میں سے کسی ایک گروہ پر ضرور تمہیں غلبہ حاصل ہو گا اور تمہارا حال یہ تھا کہ تم خواہش کر رہے تھے کہ ان گروہوں میں سے کم تکلیف اور کم مشقّت والے گروہ(یعنی قافلہ)سے تمہارا سامنا ہو،لیکن اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ(لشکر سے تمہارا مقابلہ کراکے)اپنی پیشگوئی کے مطابق حق کو قائم کر دے اور ان کفّار مکّہ کی جڑ کاٹ ڈالے (یعنی ائمۃ الکفر ہلاک کر دئیے جائیں)…جبکہ تم بدر کی وادی کے ورلے کنارے پر پہنچے تھے اور قریش کا لشکر پرلے کنارے پر تھا (یعنی تم ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہو گئے تھے) اور قافلہ تمہارے نیچے(مکّہ کی طرف کو)نکل چکا تھا (یعنی قافلہ تو بچ کر نکل گیا اور تم اچانک لشکر کے سامنے آگئے اور یہ سب کچھ خدائی تصرف کے ماتحت ہوا ورنہ)اگر لڑائی کے وقت کی تعیین تم پر چھوڑ دی جاتی تو(اس وقت ظاہری اسباب کے لحاظ سے تمہاری حالت ایسی کمزور تھی کہ)تم ضرور اس میں اختلاف کرتے (یعنی گو تم میں سے بعض یہ کہتے کہ ہم ہر حالت میں لڑنے کو تیار ہیں،لیکن ضرور اس بات پر زور دیتے کہ لڑائی کے وقت کو پیچھے ڈال دیا جاوے تا کہ وہ کفار کے مقابلہ کیلئے اچھی طرح مضبوط ہو جائیں تو پھر لڑائی کیلئے ان کے سامنے آئیں)لیکن اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ(تمہیں لشکر قریش کے مقابلہ پر لا کر )وہ کام کر گزرے جس کا فیصلہ پہلے سے ہو چکا تھا(یعنی وہ پیشگوئی پوری کرے جو خدائی نشان کے طور پر ائمۃ الکفر کی ہلاکت کے متعلق کی گئی تھی) …پھر وہ وقت بھی یاد کرو جب میدان جنگ میں اللہ تعالیٰ تمہاری آنکھوں میں کفار کو تھوڑا کر کے دکھاتا تھا(تا کہ تم بد دل نہ ہو)اور تمہیں کفار کی نظروں میں تھوڑا کر کے دکھاتا تھا (تا کہ وہ بھی مقابلہ سے پیچھے نہ ہٹ جائیں)یہ بھی خدا نے اس لیے کیا کہ وہ اس بات کو کر گزرے جس کا پہلے سے فیصلہ ہو چکا تھا اور بیشک اللہ ہی کی طرف ہر کام کا مآل ہے(یعنی تمام کاموں کا انتہائی تصرف اسی کے ہاتھ میں ہے اور وہ جس طرح چاہے واقعات کو چلا سکتا ہے‘‘)
(باقی آئندہ)
(سیرت خاتم النّبیینؐ،صفحہ337تا342،مطبوعہ قادیان2011)
…٭…٭…٭…