اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




اسلامی ممالک میںغلامی کیوںقائم رہی؟

غلاموں کے متعلق آنحضرتﷺ کی آخری وصیت

آئندہ غلامی کوروکنے کیلئے آنحضرت ﷺ کی تعلیم

سیرت خاتم النّبیینﷺ

(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

اسلامی ممالک میںغلامی کیوںقائم رہی؟

اس موقع پریہ سوال بھی پیدا کیا گیا ہے کہ اگراسلام کی تعلیم کااصل منشاء یہ تھا کہ غلام آہستہ آہستہ آزاد ہوجائیں توپھر اسلامی ممالک میں موجودہ زمانہ تک غلامی کاسلسلہ کیوں جاری رہا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب تک ایک طرف تواسلامی حکومت ترقی کرتی گئی اوراسکے اثر کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اوردوسری طرف مسلمان اسلامی تعلیمات کی اصل روح کوسمجھتے رہے اوراس پر کاربند رہے اس وقت تک غلاموں کی آزادی کی تحریک نہایت سرعت کے ساتھ جاری رہی اورمسلمانوں کی کوشش سے کروڑوں غلام داغ غلامی سے نجات پاگئے، لیکن جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے اس زمانہ میں دنیا میں غلاموں کی تعداد بے شمار اوربے حساب تھی اوردنیا کا کوئی متمدن ملک ایسا نہیں تھا جہاں نہایت کثرت کے ساتھ غلام نہ پائے جاتے ہوں۔پس پیشتر اس کے کہ یہ نہ ختم ہونے والا خزانہ ختم ہوتا ۔ایک طرف تو اسلامی فتوحات کی رو آہستہ آہستہ کمزور ہوکر بالآخربالکل رک گئی۔اوردوسری طرف زمانہ نبوی کے بعد کے نتیجہ میں وہ نورنبوت کی روشنی جس سے یہ سارا باغ وبہار تھا مسلمانوں کے دلوں میں مدھم پڑنی شروع ہوگئی اوراسلامی تعلیمات کی حقیقت کوسمجھنے اوران پر عمل پیراہونے کاوہ ولولہ انگیزشوق جسے صحابہ لے کر اٹھے تھے اورجوصحابہ نے اپنے پیچھے آنے والوں کوورثہ میںدیا تھا وہ مسلمانوں کے دلوں سے آہستہ آہستہ مٹنا شروع ہوگیا بلکہ اس فیج اعوج کے زمانہ میں وہ لوگ پیدا ہوگئے جنہوں نے اپنی جہالت یادنیاداری کے نتیجہ میں دین کو بگاڑکراسے کچھ کاکچھ رنگ دے دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسری قوموں کی طرح جوابھی تک غلامی کی نہایت مکروہ صورت پر کاربند تھیں مسلمان بھی اسلامی تعلیمات اوراسلامی روایات کوچھوڑ کر غلامی کی اس ظالمانہ صورت کی طرف لوٹ گئے جس کے استیصال کیلئے اسلام کھڑا ہوا تھااورگواس کج خیالی اورکجروی کے زمانہ میں بھی اسلامی ممالک میں غلاموں کی حالت دوسرے ممالک کی نسبت بحیثیت مجموعی اچھی رہی ہے اور مسلمان لوگ ظاہری طورپر غلام رکھتے ہوئے بھی کبھی غلامی کی اصل روح کے حامی نہیں بنے۔ اوراس کے مقابلہ میںابی سینیا کے عیسائی ملک میں تو اس وقت تک غلامی کی وہ بھیانک صورت قائم ہے جسے دیکھ کر انسانیت شرماتی ہے اوریورپ وامریکہ کے مہذب اورمتمدن عیسائی ممالک میںبھی ابھی تک غلامی کی روح پر موت نہیں آئی،لیکن کسی ہمسایہ قوم کی خراب ترحالت ہماری خرابی کے داغ کودھو نہیں سکتی اوراس بات کی فوری اوراشد ضرورت ہے کہ اسلامی حکومتیں اوراسلامی سوسائٹیاں پوری توجہ اور پوری کوشش کے ساتھ غلامی کے ظالمانہ طریق کو مٹانے میں لگ جائیں اوردنیاکوپھر اس مبارک نقطہ پر لے آئیں جس پر آنحضرت ﷺ اورآپ کے اصحاب اسے قائم کرنا چاہتے تھے اور جس کا مقصد دنیا سے غلامی اوراس کی روح کومٹانا اورحقیقی آزادی اورحقیقی مساوات کاقائم کرنا تھا۔

غلاموں کے متعلق آنحضرتﷺ کی آخری وصیت

میں اس بحث کوان نہایت درجہ پیارے الفاظ کے ساتھ ختم کرتا ہوں جواس مادی دنیا میں مقدس بانیٔ اسلام کے آخری الفاظ تھے۔حضرت علی بن ابی طالب اورانس بن مالک روایت کرتے ہیں:
کَانَ اٰخِرُ کَلَامِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَھُوَ یُغَرْغِرُ بِنَفْسِہٖ اَلصَّلٰوۃُ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ
یعنی آخری الفاظ جوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنے گئے اس حال میں کہ آپؐپرموت کاغرغرہ طاری تھا یہ تھے کہ اَلصَّلٰوۃُ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ یعنی اے مسلمانو!میری آخری وصیت تم کویہ ہے کہ نماز اور غلاموں کے متعلق میری تعلیم کونہ بھولنا۔
اس وقت جبکہ آپؐنے یہ الفاظ فرمائے،آپؐکی وہ رفیق حیات بیویاں جنہوں نے ہر تنگی وترشی میں آپؐ کاساتھ دیا تھا آپؐکے پاس تھیں۔آپؐکی لخت جگر صاحبزادی اوراسکے بچے اورآپؐکے دوسرے عزیز واقارب بھی سامنے تھے۔وفادار مہاجرین کی مخلصانہ رفاقت میں آپؐکی عمرگزری تھی وہ بھی موجود تھے۔جان نثارانصار جنہوں نے اپنے خون کے پانی سے اسلام کے پودے کو سینچا تھا وہ بھی قریب تھے اوریہ وقت بھی وہ تھاجس کے بعد آپؐکوکسی اورکو نصیحت کے کرنے کا موقع نہیں ملنا تھا اورآپؐ اس بات کوبھی جانتے اورمحسوس کرتے تھے کہ ایسے وقت کی نصیحت آپؐکی ساری نصیحتوں سے زیادہ وزن رکھے گی مگر آپؐکی نظر ان لوگوں میں سے کسی پر نہیں پڑی اوراگر دنیا میں سے آپؐنے کسی کویاد کیااوراس کی یاد نے موت کے غرغرہ میں بھی آپؐکوبے چین کردیا تو وہ یہی مظلوم غلام تھے۔اللہ!اللہ!!غلاموں کایہ کیسا سچا دوست کیسا دردمند مخلص تھا جوخدا نے دنیا کوعطا کیا مگر افسوس کہ دنیا نے اس کی قدر نہیں کی۔

آئندہ غلامی کوروکنے کیلئے آنحضرت ﷺ کی تعلیم

اب ہم اس بحث کے دوسرے سوال کو لیتے ہیں اورجو اس امر سے تعلق رکھتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسئلہ غلامی کے متعلق اصولی طورپرکیا تعلیم دی ہے یعنی موجود الوقت غلاموں کے سوال سے قطع نظر کرتے ہوئے آپ نے آئندہ کیلئے غلامی کے مسئلہ اور غلام بنائے جانے کے متعلق کیا اصولی احکام صادر فرمائے ہیں لیکن چونکہ گزشتہ بحث نے ہمارے اندازہ سے بہت زیادہ جگہ لے لی ہے اس لئے اگلی بحث کو ہم نہایت مختصر طورپر بیان کریں گے۔سو اس کے متعلق سب سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ یہ بحث دراصل دوحصوں پر منقسم ہے۔اول حقیقی غلامی کا سوال یعنی کسی آزاد انسان کو اس کی جائز آزادی کے حق سے کلیتہً اورمستقل طورپر محروم کردینا۔یہ صورت غلام بنانے کے ان طریقوں سے تعلق رکھتی ہے جو مذہبی جنگوں میں قیدی پکڑے جانے کے علاوہ ہیں۔ یعنی غلام بنانے کے بہت سے ظالمانہ طریق جوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں دنیا کے تمام ممالک میں کم وبیش رائج تھے اور اسلام کے بعد بھی مختلف غیراسلامی ممالک میں رائج رہے۔ دوسرے مذہبی جنگوں میں قیدی پکڑےجانے کا سوال جسے اسلامی تعلیم کی روشنی میں گویا ایک قسم کی غیر حقیقی غلامی کہہ سکتے ہیں۔
پہلے ہم مقدم الذکر بحث کولیتے ہیں۔سواس کے متعلق جاننا چاہئے کہ جیساکہ گزشتہ بحث میں اشارہ کیا جاچکا ہے،اسلام نے حقیقی غلامی کو یعنی غلامی کے ان ظالمانہ طریقوں کو جو مذہنی جنگوں میں قیدی پکڑے جانے کے علاوہ ہیں یکدم اورقطعی طورپر منسوخ کردیا تھا مگر پیشتر اسکے کہ ہم اس بارے میں کوئی معیّن اورمنصوص اسلامی احکام پیش کریں ہم اسکے متعلق دومنفی قسم کے دلائل ہدیۂ ناظرین کرنا چاہتے ہیں۔
پہلی دلیل یہ ہے کہ قطع نظر اسکے کہ اصولی طورپر اسلام بڑی سختی کے ساتھ ظلم وتعدی کے طریق سے منع فرماتا ہے اورانسانی آزادی اورانسانی مساوات کانہایت زبردست حامی ہے اوریہ تمام باتیں حقیقی غلاموں کے طریق سے بُعد المشرقین رکھتی ہیںوہ واضح اورپُرزور تعلیم جواسلام نے حاضر الوقت غلاموں کے ساتھ محسنانہ اورمساویانہ سلوک کئے جانے اوران کی آزادی کے متعلق دی ہے اور جس کا ایک خاکہ اوپر درج کیا جاچکا ہے وہ اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ اسلام غلامی کے ظالمانہ طریق کی تائید میں نہیں ہوسکتا۔انسانی عقل ہرگزاس بات کو قبول نہیں کرسکتی کہ اس تعلیم کے ساتھ ساتھ کہ غلاموں کواپنا بھائی سمجھو اور انہیںاپنے گھر کے آدمیوں کی طرح رکھواوران کی تعلیم وتربیت کا خاص انتظام کرواور پھر جُوں جُوں ان کی حالت بہتر ہوتی جاوے اوروہ دنیامیں آزاد زندگی گزارنے کے قابل بنتے جائیں انہیں آزاد کرتے جائو۔اسلام میں یہ تعلیم بھی دی جاسکتی تھی کہ کسی آزاد انسان کواس کی جائزآزادی کے حق سے کلیتہً محروم کرکے حقیقی طورپر غلام بنانا جائزہے۔ان دونوں قسم کی تعلیم میں بُعدالقطبین ہے اوروہ کبھی بھی کسی ایک ہی شخص کی تعلیم کاحصہ نہیں بن سکتیں۔پس غورکیا جاوے تو دراصل وہ تعلیم ہی جس کا خاکہ اوپر والے مضمون میں درج کیا گیا ہے اس بات کے ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ اسلام میں حقیقی غلامی کی تعلیم نہیں دی گئی۔
دوسری دلیل جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں حقیقی غلامی کوجائز نہیں سمجھا گیا یہ ہے کہ اسلامی لٹریچر کے کسی حصہ میں یہ حکم موجود نہیں کہ کسی آزاد شخص کواس کی آزادی کے جائز حق سے محروم کرکے حقیقی طورپر غلام بنالینا جائز ہے یایہ کہ اگرکسی آزاد شخص کو غلام بنانا ہوتو اس کا یہ یہ طریق ہے۔ حالانکہ غلامی کے دوسرے مسائل مثلاًغلاموں کے ساتھ سلوک کرنے اوران کے حقوق کی حفاظت کرنے اورانہیں آزاد کرنے کے متعلق اسلامی شریعت میں نہایت تفصیلی احکام موجود ہیں۔پس غلاموں کے بارے میںدوسرے ہرقسم کے مسائل کاپایا جانا، لیکن غلام بنانے کے سوال کے متعلق قطعاًکسی جوازی حکم کا پایانہ جانا اس بات میں ہرگز کسی شک کی گنجائش نہیں چھوڑتا کہ دراصل اسلام میں حقیقی غلامی کوجائز ہی نہیں سمجھا گیا۔میں نے بہت تلاش کی ہے مگر مجھے کسی قرآنی آیت یاکسی روایت میں خدایا اس کے رسول کا یہ حکم نظر نہیں آیا کہ کسی آزادانسان کو حقیقی طورپر غلام بنانا جائز ہے یا یہ کہ کسی آزادشخص کوغلام بناناہوتواس کا یہ طریق ہے۔حالانکہ اگراسلام میں کسی آزاد انسان کو حقیقی طور پر غلام بناناجائز ہوتا توغلامی کے جملہ مسائل میں سب سے زیادہ اہم اور سب سے زیادہ وسیع الاثر اورسب سے زیادہ نازک مسئلہ جوتوضیح وتنصیص کا حق دار تھااور جس میں ایک نہایت واضح اور منصوص حکم دئیے جانے کی ضرورت تھی وہ یہی غلام بنانے کامسئلہ تھا مگر تنصیص وتوضیح توالگ رہی قرآن وحدیث میں اس کا ذکر تک نہیں ہے جواس بات کی ایک یقینی دلیل ہے کہ اسلام میںکسی آزاد شخص کو حقیقی طورپر غلام بناناجائز نہیں ہے۔
لیکن جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔ہمارے دعویٰ کی بنیاد صرف منفی قسم کے دلائل پر نہیں ہے بلکہ خدا کے فضل سے اسلامی شریعت میں نہایت واضح اورمنصوص طورپر یہ حکم موجود ہے کہ کسی آزاد انسان کو اس کی جائزآزادی سے محروم کرکے غلام بنانا ایک سخت ممنوع اورحرام فعل ہے جس کے متعلق قیامت کے دن خداکے حضور سخت مواخذہ ہوگا۔چنانچہ حدیث میں آتا ہے:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی ثَلَا ثَۃٌ اَنَا خَصَمُھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ رَجُلٌ اَعْطٰی بِیْ ثُمَّ غَدَرَوَرَجُلٌ بَاعٍ حُرًّا فَاٰکِلٌ ثَمَنَہٗ وَرَجُلٌ اِسْتَأْجَرَ اَجِیْرًا فَاسْتَوْ فٰی مِنْہُ وَلَمْ یُعْطِ اَجْرَہٗ
یعنی’’ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا ہے کہ تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن سے میں قیامت کے دن جنگ کروں گا۔اول وہ شخص جومیرا واسطہ دے کر کسی سے کوئی عہد باندھتا ہے اورپھر غداری کرتا ہے۔ دوسرے وہ جو کسی آزاد شخص کو غلام بناتاہے اوراسے فروخت کرکے اس کی قیمت کھا جاتا ہے اور تیسرے وہ جو کسی شخص کو کام پر لگاتا ہے اورپھر اس سے کام توپورا لے لیتا ہے مگر اس کی مزدوری اسے نہیں دیتا۔‘‘
اوردوسری روایت میں یوں آتا ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ…لَا تُقْبَلُ مِنْھُمْ صَلَا ۃٌ وَرَجُلٌ اِعْتَبَدَ مُـحَــرَّرًا…الخ
یعنی’’ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایاہے کہ تین قسم کے لوگ ہیں جن کی نماز میرے حضورہرگز قبول نہیں ہوگی اور میں ان سے قیامت کے دن لڑوں گا۔ایک وہ شخص جومیرا واسطہ دے کر کسی سے کوئی عہد باندھتا ہے اور پھر بدعہدی کرتا ہے۔دوسرے وہ جو اسے غلام بناتا ہے جسے خدا نے آزاد رکھا ہے اورتیسرے وہ جو مزدور سے کام لیتا ہے اورپھر اس کی مزدوری نہیں دیتا۔‘‘
ان حدیثوں میںجس وضاحت اورتعیین کے ساتھ اورجس زوردارطریق پر حقیقی غلامی کو منسوخ کیا گیا ہے وہ کسی تشریح کامحتاج نہیں ہے اورپھر یہ حدیثیں بھی حدیث کی اس قسم میں داخل ہیں جو محدثین کی اصطلاح میں حدیثِ قدسی کہلاتی ہے یعنی جوہوتی تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان سے ہے مگراس میںحکم اورالفاظ خدا کے ہوتے ہیں۔اب اس واضح اورصریح تعلیم کے ہوتے ہوئے کسی کا یہ کہنا کہ اسلام میں حقیقی غلامی کوجائز رکھا گیا ہے یعنی اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کسی آزاد انسان کواس کی جائز آزادی کے حق سے محروم کرکے حقیقی طورپر غلام بنالیا جاوے ایک انتہائی درجہ کا ظلم ہے جس کے ارتکاب کی کوئی دیانت دارشخص جرأت نہیں کرسکتا۔

(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ 404تا408،مطبوعہ قادیان2011)