اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




آنحضرت ﷺ کے اخلاق فاضلہ وسیرت طیبہ کے چند دلکش و دلنشین پہلوئوں کا تذکرہ
(دلاور خان ، خادم سلسلہ، نظارت اصلاح وارشاد مرکزیہ قادیان)

نوٹ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے متعلق اس مضمون کا پہلا حصہ گزشتہ سال کے سیرۃ النبی نمبر 7؍ جولائی 2022 میں شائع ہوا ہے۔ (ادارہ)

آپؐ کے اخلاق کے بارہ میں سوال

کسی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ آنحضرت ﷺ کے اخلاق کے متعلق ہمیں کچھ بتائیں ۔ آپ نے فرمایا کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآن (مسند احمد بن حنبل ،جلد 6، صفحہ 91)

بعثت کا مقصد اعلیٰ اخلاق

خود آپ ﷺ فرماتے ہیں بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ(کنز العمال، جلد3، صفحہ18، مطبوعہ حلب)یعنی میری بعثت کا مقصد انسانوں میں اعلیٰ اخلاق پیدا کرنا تھا ۔ چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ آپ ﷺ نے عرب کے حبشیوں کو با اخلاق اور پھر بااخلاق سے با خدا انسان بنا دیا۔

آپؐ کے اخلاق کے متعلق استفسار کا جواب

یزید بن بانبوس سے روایت ہے وہ کہتےہیں ایک دن میں نے حضرت ام المومنین حضرت عائشہؓ سے رسول کریم ﷺ کے اخلاق سے متعلق استفسار کیا تو آپؓ نے فرمایا۔ رسول کریم ﷺ کے اخلاق قرآن تھے۔ پھر مجھے فرمایا کہ اگر تمہیں سورۃ المومنون یاد ہے تو سنائو ۔ میں نے اسکی پہلی دس آیات کی تلاوت کی ۔ ان آیات میں یہ ذکر ہے کہ :
یقیناً مومن کامیاب ہوگئے وہ جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں اور جو زکوۃ کا حق ادا کرنے والے ہیں اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والےہیں مگر اپنی بیویوں سے نہیں یا ان سے (بھی نہیں)جن کے ان کے داہنے ہاتھ مالک ہوئے ۔ پس یقیناً وہ ملامت نہیں کئے جائیں گے ۔ پس جو اس سے ہٹ کر کچھ چاہے تو یہی لوگ ہیں جو حد سے تجاوز کرنے والے ہیں اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور عہد کی نگرانی کرنے والے ہیں اور وہ لوگ جو اپنی نمازوں پر محافظ بنے رہتے ہیں ۔
حضرت عائشہ ؓنے ان آیات کی تلاوت سن کر فرمایا یہ رسول اللہ ﷺ کے اخلاق فاضلہ تھے۔(مستدرک حاکم، تفسیر سورۃ مومنون)

آنحضرت ﷺ کی ظاہری و باطنی صفائی

’’کھانا کھانے سے پہلے بھی آپ ہاتھ دھوتے تھے اور کھانا کھانے کے بعد بھی ہاتھ دھوتے اور کلی کرتے تھے بلکہ ہر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد کلی کرتے اور آپ پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد بغیر کلی کے نماز پڑھنے کو ناپسند فرماتے تھے۔‘‘ (بخاری، کتاب الاطعمۃ، باب المضمضۃبعد الطعام)(کتاب نبیوں کا سرداراز قلم مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ،صفحہ 255)

لباس اور زیور میں سادگی اور تقویٰ

’’آپؐ کی بیویوں کے زیورات نہ ہونے کے برابر تھے۔ صحابیات بھی آپ کی تعلیم پر عمل کر کے زیور بنانے سے احتراز کرتی تھیں۔ آپ قرآنی تعلیم کے مطابق فرماتے تھے کہ مال جمع رکھنا غریبوں کے حقوق تلف کر دیتا ہے اس لئے سونے چاندی کو کسی صورت میں گھروں میں جمع کر لینا قوم کی اقتصادی حالت کو تباہ کرنیوالا ہے اور گناہ ہے۔ (کتاب نبیوں کا سردار،صفحہ 262تا 263)

قوم کے معزز لوگوں کا احترام

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ جب تمہارے پاس کسی قوم کا بڑا آدمی آئے تو اس کا واجبی اکرام کرو۔ (ابن ماجہ)

وفود کا اکرام

’’آنحضرت ﷺ کا ذاتی اسوہ یہ تھا ،باوجود اسکے کہ آپ نہایت درجہ سادہ مزاج تھے اور لباس اور خوراک میں کوئی تکلف کا پہلو نہیں تھا ۔ مگر آپ نے بیرونی قوموں کے وفود کے استقبال کیلئے خاص لباس رکھا ہوا تھا اور جب بھی کوئی وفد آتا تھا آپ اس خاص لباس کو پہن کر اس سے ملاقات فرماتے تھے تاکہ آپ باہر سے آنے والے مہمانوں کا واجبی اکرام کر سکیں اور آپ کو وفود کے اکرام کا اتنا خیال تھا کہ مرض الموت میں وصیت فرمائی کہ میرے پیچھے وفود کے اکرام میں کمی نہ آنے دینا۔‘‘( چالیس جواہر پارے، صفحہ 99)

بستر میں سادگی

آپؐ کا بستر بھی نہایت سادہ ہوتا تھا ۔ بالعموم ایک چمڑا یا اونٹ کے بالوں کا ایک کپڑا ہوتا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ہمارا بستر اتنا چھوٹا تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو عبادت کیلئے اٹھتے تو میں ایک طرف ہوکر لیٹ جاتی تھی اور بوجہ اس کے کہ بستر چھوٹا ہوتا تھا ، جب آپ عبادت کیلئے کھڑے ہوجاتے تو میں ٹانگیں لمبی کر لیا کرتی اور جب آپ سجدہ کرتے تو میں ٹانگیں سمیٹ لیا کرتی۔(بخاری، باب الصلوٰۃ علی الفراش)(کتاب نبیوں کا سردار،صفحہ 263تا 264)

مکان اور رہائش میں سادگی

رہائشی مکا ن کے متعلق بھی آپ سادگی کو پسند کرتے تھے ۔ بالعموم آپ کے گھروں میں ایک ایک کمرہ ہوتا تھا اور چھوٹا سا صحن ۔ اس کمرہ میں ایک رسی بندھی ہوئی ہوتی تھی جس پر کپڑا ڈالکر ملاقات کے وقت میں آپ اپنے ملنے والوں سے علیحدہ بیٹھ کر گفتگو کر لیا کرتے تھے۔ چارپائی آپ استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ زمین پر ہی بستر بچھا کر سوتے تھے ۔ آپکی رہائش کی سادگی اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ حضرت عائشہ ؓنے آپ کی وفات کے بعد فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہمیں کئی دفعہ صرف پانی اور کھجور پر ہی گذارا کرنا پڑتا تھا یہاں تک کہ جس دن آپ کی وفات ہوئی اس دن بھی ہمارے گھر میں سوائے کھجور اور پانی کے کھانے کیلئے اور کچھ نہیں تھا۔(بخاری، کتاب الاطعمۃ، باب الرطب والتمر) (کتاب نبیوں کا سردار،صفحہ 264)

غرباء کے مالوں کی حفاظت

’’اسلام کی فتح کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت سے اموال آتے جنہیں آپ مستحقین میں تقسیم کر دیتے …اس سے بڑ ھ کر یہ کہ آپ نے صدقہ کو اپنی اولاد کیلئے حرام کر دیا تا ایسا نہ ہو کہ آپ کے اعزاز اور احترام کی وجہ سے صدقہ کے اموال لوگ آپؐ کی اولاد میں ہی تقسیم کر دیا کریں اور دوسرے غریب محروم رہ جائیں۔‘‘(ماخوذ از کتاب نبیوں کا سرداراز قلم خلیفۃ المسیح الثانیؓ ،صفحہ 291تا 292)

خدا کےتول میں اعلیٰ اور وزنی خلق

ابو دائود میں ایک حدیث ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مَا مِنْ شَیْ ءٍفِیْ الْمِیْزَانِ اَثْقَلَ مِنْ حُسْنِ الْخُلُق(مسند احمد بن حنبل، کتاب مسند القبائل)کہ خدا تعالیٰ کے تول میں کوئی چیز اعلیٰ اخلاق سے زیادہ وزن نہیں رکھتی ۔ دراصل اعلیٰ اخلاق ہی نیکی کی بنیاد اور روحانیت کی جڑ ہیں ۔ اعلیٰ اخلاق نام ہے بنی نوع انسان کیساتھ اعلیٰ ترین سلوک کا اور اسلام کی تعلیم کے دو ہی بڑے ستون ہیں خدا تعالیٰ کے حقوق اور بندوں کے حقوق ۔ اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو بنی نوع انسان کے سب سے بڑے محسن ہیں آپ نے اللہ تعالیٰ سے لیکر بندہ تک کے حقوق مقرر فرمائے ہیں اور بندوں میں بادشاہ سے لیکر غلام تک کے بارہ میں حقوق ادا کرنے کے متعلق احکام بیان فرمائے ہیں ۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم مسکراتے ہوئے چہرہ سے بھی کسی کو ملوگے تو یہ ایک اعلیٰ خلق ہے اور اسکا تم ثواب حاصل کرو گے۔ نیز فرمایا راستے میں کانٹے ہٹا دوگے یا کوئی اور چیز جس سے ٹھوکر کھانے کا ڈر ہو تو یہ بھی ایک خلق ہے۔(ماخوذ از کتاب خطابات مریم ،جلد اوّل، صفحہ 298)

تحمل

تحمل بھی اخلاق فاضلہ میں سے ایک اعلیٰ درجہ کا خلق ہے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے بادشاہت بھی عطا کی آپؐ ہر ایک کی بات سنتے اگر کوئی شخص سختی بھی کرتا تو آپ خاموش ہو جاتے۔ آپ جب باہر تشریف لے جاتے تو لوگ آپؐکا راستہ روک کر کھڑے ہوجاتے اور اپنی حاجات بیان فرماتے جب تک وہ اپنی بات ختم نہ کر لیتے آپؐسنتے رہتے۔

عدل و انصاف

آنحضرت ﷺ کے پاس ایک مقدمہ آتا ہے جس میں ایک بڑے خاندان کی عورت نے کسی کا مال لیا تھا جب بات ظاہر ہوگئی تو لوگوں نے چاہا کہ اس عورت کو سزا نہ ہونے دیں ایک بڑے گھر کی عورت ہے بدنامی ہوگی لوگوں نے اسامہ بن زید سے کہا کہ آپ رسول کریم ﷺ کے پاس سفارش لیکر جائیں اسامہ گئے ابھی بات شروع ہی کی تھی کہ آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور آپ ﷺ نے فرمایا خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی اس قسم کا جرم کرتی تو میں اسے سزا دیئے بغیر نہ رہتا۔ (مسلم، کتاب الحدود)
جنگ بدر کا واقعہ ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ جو رسول کریم ﷺ کے چچا تھے اور ابھی اسلام نہ لائے تھے جنگ میں قید ہوئے جہاں قیدی بندھے ہوئے تھے اسکے قریب ہی آپ ﷺ کا خیمہ تھا ۔ حضرت عباسؓکے کراہنے کی آواز آپ کو پہنچی تو آپ ﷺبے چین ہوگئے ۔ صحابہ نے جو آپ ﷺ کی بے چینی اور کرب دیکھا تو حضرت عباسؓکے ہاتھوں کی رسیاں ڈھیلی کر دیں ۔ آنحضرت ﷺکو جب اس کا علم ہوا تو آپ ﷺنے فرمایا جیسے میرے رشتہ دار ویسے دوسروں کے رشتہ دار۔ یا ان کی بھی رسیاں ڈھیلی کرو یا ان کی بھی کس دو۔صحابہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف دیکھ نہ سکتے تھے انہوںنے سب کی رسیاں کھول دیں اور پہرہ کا انتظام کر دیا۔

ایفائے عہد

ایک دفعہ ایک حکومت کا ایلچی آپؐ کے پاس آیا اور چند روز میں ہی اتنا متاثر ہوا کہ اسلام لے آیا اور عرض کی میں اسلام لا چکا ہوں کیا اعلان کر دوں ۔ آپؐ نے فرمایا یہ مناسب نہیں تم اپنی حکومت کے ایلچی ہو اسی حالت میں واپس جائو۔ وہاں جاکر اگر تمہارے دل میں اسلام کی محبت قائم رہی تو پھر واپس آکر اسلام قبول کرنا۔(ابودائود)

صبر و استقامت

صبر اور استقامت کا جو نمونہ آپؐنے دکھایا تاریخ عالم اسکی نظیر پیش نہیں کر سکتی۔ مکہ میں آپؐ کے ساتھ وہ ظلم کئے گئے کہ اس سے قبل کسی نبی کے ساتھ ایسا سلوک روا نہ رکھا گیا ہوگا مگر آپؐ نے خدا تعالیٰ کی راہ میں صبر سے کام لیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب رسالہ اسلام اور جہاد میں فرماتے ہیں: ’’خدا کے پاک ور مقدس رسول کو جس پر زمین اور آسمان سے بے شمار سلام ہیں بار ہا پتھر مار مار کر خون سے آلودہ کیا گیا مگر اس صدق اور استقامت کے پہاڑ نے ان تمام آزاروں کی دلی انشراح اور محبت سے برداشت کی۔‘‘(روحانی خزائن، جلد 17 ، گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، صفحہ 5)

چشم پوشی

ایک اعلیٰ درجہ کا خلق ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو بندہ کسی دوسرے بندہ کا گناہ دنیا میں چھپاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ قیامت کے دن چھپائے گا۔(مسلم)نیز یہ بھی آپؐسے مروی ہے کہ آپؐ نےفرمایا کہ میری امت میں سے ہر شخص کا گناہ توبہ سے مٹ جائے گا مگر جو اپنے گناہوں کا آپ اظہار کرتے پھریں ان کا کوئی علاج نہیں۔

آپؐ کے دن کا آغاز

آپؐ کے دن کا آغاز نماز تہجد سے ہوتا ۔ اسکی خوبصورتی اور دلآو یز ی کے متعلق حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں میں بھی بیان نہیں کر سکتی کہ کس طرح اپنے مولیٰ کے حضور گڑ گڑاتےاور اصلاح امت کیلئے دعائیں کرتے ۔ بگڑتی انسانیت کو سنوارنے کیلئے عرش الٰہی کو ہلاتے ۔ کفر کے اندھیروں سے نکال کر روشنیوں کے شہر میں لانے کیلئے التجائیں کرتے ۔ کھڑے کھڑے پائوں متورم ہوجاتے ۔ نماز فجر کے بعد صحابہ ؓکے ساتھ تشریف فرما ہوتے ۔ انکا حال احوال دریافت فرماتے۔ ان میں اگر کوئی غیر حاضر ہوتا تو اس کے بارہ میں معلوم فرماتے ۔ اگر کوئی صحابی سفر پر گئے ہوتے تو اس کیلئے دعا کرتے۔ کوئی بیمار ہوتا تو عیادت کرتے۔(کنز العمال، جلد 7، صفحہ 153 ،باب الجلوس و المجالس)

دلنشیں معاشرت

آپﷺ کی دلنشیں معاشرت کا نقشہ حضرت علیؓ اس طرح بیان فرماتے ہیں :رسول کریم ﷺ ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے ۔ نہایت عمدہ اخلاق کے مالک اور نرم خو تھے۔ ترش رو تھے نہ تند خو۔کوئی فحش بات زبان پر نہ لاتے۔ چیخ چیخ کر کلام نہ فرماتے۔ عیب نہ نکالتے۔بخل نہ کرتے ۔ جو بات پسند نہ آتی اس کی طرف توجہ نہ فرماتے ۔ تین باتوں سے آپؐ کلیۃً آزاد تھے۔ جھگڑا، تکبر، لا یعنی و فضول باتوں سے پرہیز کرتے ۔ آپؐکسی کی مذمت نہ کرتے ۔ کسی کی غیبت نہ کرتے اور کسی کی بھی پردہ دری نہ کرتے۔ آپ صرف ان امور سے متعلق گفتگو فرماتے جن میں ثواب کی امید ہو۔ جب آپؐخاموش ہوتے تو دوسرے گفتگو کرتے ۔ مگر جب ایک شخص کلام کر رہا ہوتا تو باقی خاموشی سے سنتے یہاں تک کہ وہ اپنی بات مکمل کر لیتا۔ آپؐصحابہ کی بات توجہ سے سنتے ۔ آپ ان باتوں سے خوش ہوتے جن پر صحابہ خوش ہوتے آپؐاجنبی شخص کے گفتگو اور سوال میں تلخی پر صبر فرماتے۔(شمائل النبی ﷺتصنیف الامام حضرت ابن عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی 209 ہجری تا 279 ہجری)

ضرورت مند کی ضرورت پوری فرماتے

آنحضرت ﷺ ہمیشہ ضرورت مند کی ضرورت پوری فرماتے۔ دوسروں کو بھی ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کی طرف توجہ دلاتے۔ فرمایا کرتے تھے اگر کسی ضرورت مند کو دیکھو تو اسے دے سکتے ہو تو ضرور دو ورنہ اس کی مدد کیلئے دوسروں کو تحریص کرو کیونکہ نیک سفارش کا بھی اجر ہوتا ہے۔ مبالغہ آمیز تعریف ہرگز پسند نہ فرماتے سوائے اسکے کہ وہ جائز حدود کے اندر ہو۔ (بخاری، کتاب الادب )
آپؐکے اعلیٰ اخلاق اور بلندی کردار کے بارہ حضرت خدیجہؓکی گواہی
آپؐکے اعلیٰ اخلاق اور بلندی کردار کے بارہ میں حضرت ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کی گواہی سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے فرماتی ہیں۔ آپؐصلہ رحمی کرنے والے ، دوسروں کے بوجھ اٹھانے والے ، گمشدہ اخلاق اور نیکیوں کو زندہ کرنے والے، مہمان نواز اور حق میں مصائب پر مدد کرنے والے ہیں۔(بخاری، کتاب بدء الوحی)
آپؐ اللہ اور اسکے بندوں کے درمیان فیض پہنچانے کا واسطہ بن گئے
پس یہ حقیقت ہے کہ جس طرح اسلام کا خدا زندہ خدا ہے اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نبی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اپنی صفات کے کامل ظہور کیلئے پیدا کیا ۔ اللہ تعالیٰ کی کامل تجلی آپﷺ پر ہوئی ۔ آنحضرتﷺ نے اللہ کی راہ میں انتہائی درجہ تک فنا ہوکر وہ اعلیٰ ترین مقام حاصل کیا کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا:ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى۝ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى۝(النجم 8 تا 9)یعنی آپ اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان ایک واسطہ بن گئے۔فیض پہنچانے کا اور یہ واسطہ آپ صرف اپنے زمانہ کیلئے نہیں تھے بلکہ ہمیشہ کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دستور قرار دیا گیا کہ اب اللہ تعالیٰ کا قرب صرف آپ کے ہی واسطہ سے ملے گا۔
آپؐ ہمدردی مخلوق کی خاطر اور محبت الٰہی کے جوش میں بے تاب اسے ملنے کیلئے قریب ہوئے تو پیارا خدا بھی اپنی رحمت کے جوش میں اوپر سے نیچے آگیا۔ اس طرح وہ دونوں دو کمانوں کے وتر کی شکل میں ہوگئے بلکہ اس سے بھی قریب تر۔ جسے مقام اتصال کہا جاتا ہے۔اس طرح آپ اللہ تعالیٰ کے وجود کے مظہر اتم بن گئے۔ یہ مقام سوائے آپؐکے کسی نبی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا نہیں کیا گیا۔سبحان اللہ

آپؐ کی بے مثال شفقت کا ایک اور ثبوت

اور وہ جو قادیان میں ایک نور نازل ہوا اگر خدا تعالیٰ کی پایاں رحمت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے مثال شفقت کا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے۔ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ایک دفعہ دنیا کو انتہا ئی ضلالت و گمراہی میں دیکھا اور امت کو انتہائی ذلت کی حالت میں پایا تو آپؐکا دریائے رحمت پھر ایک دفعہ جوش میں آیا اور آپؐکی روح پھر امت کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوئی ۔ تب آپ کے خدا نے آپ ہی کے گود کے پالے کو، ہاں آپ ہی کے بیٹے کو بھیجا کہ وہ دنیا میں جاکر دنیا کو پھر ایک بار اپنے روحانی باپ اپنے رسول مطاع کی محبت و شفقت کا نظارہ دکھائے کُلُّ بَـرَکَۃٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَکَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّم(از کتابچہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم تقریر صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب، صفحہ 61)
الغرض آپؐاولین و آخرین کیلئے رحمت ہیں ۔ آپ انبیاء کیلئے رحمت ہیں کیونکہ آپؐہی خاتم النّبیین ہیں ۔ آپؐہی کی مہر نے ان کو مقام نبوت تک پہنچایا اور قرب الٰہی کا وارث کیا ۔ آپؐ مصدق ہیں جنہوں نے پہلے انبیاء کی صداقت کو دلائل سے منوایا ورنہ ہمارے پاس ان کی صداقت کا کوئی ثبوت نہ تھا۔ آپؐہی تمام انبیاءمیں سے ایک ایسے یکتا وجود ہیں جنہوں نے اپنی امت سے اقرار کروایا کہ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ(البقرہ:286)اصولی طور پر سب رسولوں پر ایمان لانا ضروری ہے ۔ نیز بعض کو بعض پر اللہ تعالیٰ نے فضیلت بھی دی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ایک اور مقام پر فرمایا:لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِنْھُمْ (البقرہ137) کہ ہم اللہ کے نبیوں میں فرق نہیں کرتے۔ یعنی اے مسلمانو ! تم دنیا کو بتا دو کہ ہم تمام انبیاء کی تعلیم پر ایمان لاتے ہیں خواہ وہ کسی ملک یا قوم میں پیدا ہوئے تھے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے انبیاء میں تفرقہ نہیں کرتے کہ کسی کو قبول کریں اور کسی کو نہ کریں بلکہ ہم سب کو قبول کرتے ہیں کیونکہ وہ سب ایک ہی خدا کی طرف سے آئے تھے۔
کیا خوب اسلامی تعلیم ہے جس نے سارے جھگڑے ختم کر دیئے ۔ اس طرح آپؐاپنے سے پہلے زمانہ کیلئے رحمت ثابت ہوئے۔ (سبحان اللہ)

آپؐ صادق تھے اور خدا آپ کے ساتھ تھا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :پانچ موقعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے نہایت نازک پیش آئےتھے جن میں جان کا بچنا محالات سے معلوم ہوتا تھا ۔ اگر آنجناب درحقیقت خدا کے سچے رسول نہ ہوتے تو ضرور ہلاک کئے جاتے ۔ ایک تو وہ موقعہ تھا جب کفار قریش نے آنحضرت ﷺ کے گھر کا محاصرہ کیا اور قسمیں کھا لی تھیں کہ آج ہم ضرور قتل کریں گے۔ دوسرا وہ موقع تھا جبکہ کافر لوگ اس غار پر معہ ایک گروہ کثیر کے پہنچ گئے تھے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مع حضرت ابوبکر ؓ کے چھپے ہوئے تھے۔ تیسرا وہ نازک موقع تھا جبکہ احد کی لڑائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے تھے اور کافروں نے آپ کے گرد محاصرہ کر لیا تھا اور آپ پر بہت سی تلواریں چلائیں مگر کوئی کارگر نہ ہوئی ۔ یہ ایک معجزہ تھا۔ چوتھا وہ موقع تھا جبکہ ایک یہود یہ نے آنجناب کو گوشت میں زہر دیدی تھی اور وہ زہر بہت تیز اور مہلک تھی۔ اور بہت وزن اسکا دیا گیا تھا۔ پانچواں وہ نہایت خطرناک موقع تھا جبکہ خسر و پرویز شاہ فارس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کیلئے مصمم ارادہ کیا تھا اور گرفتار کرنے کیلئے اپنے سپاہی روانہ کئے تھے۔ پس صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان تمام پُر خطر موقعوں سے نجات پانا اور ان تمام دشمنوں پر آخر کار غالب ہوجانا ایک بڑی زبردست دلیل اس بات پر ہے کہ درحقیقت آپ صادق تھے اور خدا آپ کے ساتھ تھا۔ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن، جلد23 صفحہ 252 حاشیہ)

وحشت خیز معاشرے میں انقلاب عظیم

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ـ’’وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مُردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہوگئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئےاور دنیا میں یکدفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا، کچھ جانتے ہو وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچا دیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اُس اُمی بیکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَ سَلِّمْ وَ بَا رِکْ عَلَیْہِ وَ آ لِہٖ بِعَدَدِ ھَمِّہٖ وَ غَمِّہٖ وَ حُزْنِہٖ لِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ وَ اَ نْزِلْ عَلَیْہِ اَنْوَارَ رَحْمَتِکَ اِلَی الْاَ بَدِ‘‘(برکات الدعا ، روحانی خزائن، جلد 6، صفحہ 10)

کہتے ہیں یورپ کے ناداں یہ نبی کامل نہیں
وحشیوں میں دیں کو پھیلانا یہ کیا مشکل تھا کار
پر بنانا آدمی وحشی کو ہے اک معجزہ
معنیٔ راز نبوت ہے اسی سے آشکار
نورلائے آسماں سے خود بھی وہ اک نور تھے
قوم وحشی میں اگر پیدا ہوئے کیا جائے عار

یہ آپ کو عطا ہونے والے عظیم الشان مقام محمدیت کی تجلی تھی جس نے عرب کی روحانیت اور علم سے خالی اور بنجر زمین کو گلہائے روحانیت سے لالہ زار کر دیا ۔ آپ کے ہاتھوں سے انسانی تاریخ کا سب سے بڑا معجزہ ظاہر ہوا اور قرآن کریم اور اس کے نور سے استفادہ کرنے والوں نے علم و عمل کے وہ چراغ روشن کئے جس پر انسانی تاریخ آج بھی انگشت بدنداں ہے۔آپ کے اس عظیم الشام مقام کا احاطہ کرنا الفاظ میں ممکن نہیں ۔ وہ وجود جس کی تعریفیں خود رب کریم کر رہا ہو۔یہ انقلاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سیرت کے درخشندہ پہلوئوں کا ایک عظیم سنہری باب ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جلالی ظہور شیطان مع اپنے تمام لشکروں کے بھاگ گیا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’اور کئی مقام قرآن شریف میں اشارات و تصریحات سے بیان ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مظہراتم الوہیت ہیں اور ان کا کلام خدا کا کلام اور انکا ظہور خدا کا ظہور اور انکا آنا خدا کا آنا ہے ۔ چنانچہ قرآن شریف میں اس بارے میں ایک یہ آیت بھی ہے وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ۝۰ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوْقًا کہ حق آیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل نے بھاگنا ہی تھا ۔ حق سے مراد اس جگہ اللہ جل شانہ اور قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور باطل سے مراد شیطان اور شیطان کا گروہ اور شیطانی تعلیمیں ہیں۔ سو دیکھو اپنے نام میں خدائے تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کیوں کر شامل کر لیا اور آنحضرتؐ کا ظہور فرمانا خدا تعالیٰ کا ظہور فرمانا ہوا ۔ ایسا جلالی ظہور جس سے شیطان مع اپنے تمام لشکروں کے بھاگ گیا اور اسکی تعلیمیں ذلیل اور حقیر ہوگئیں اور اس کے گروہ کو بڑی بھاری شکست آئی۔‘‘(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن، جلد 2، صفحہ 277تا 279 حاشیہ)
دیکھیں حق کس شان سے آیا کہ تئیس برس کے قلیل عرصہ میں عرب کی کایہ پلٹ گئی اور وہ مقدس گھر جو بنی نوع انسان کی عبادت کیلئے اولین طور پر بنایا گیا تھا اب وہاں خدا ئے واحد و یگانہ کی پرستش کرنے والے سجدہ ریز ہونے لگے ۔ سبحان اللہ کیا عظیم انقلاب ہوا۔

سیرت کا سنہری نمایاں پہلو باب رحمت حجۃ الوداع اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خطبہ

نویں سال ہجری میں آپؐنے مکہ کا حج فرمایا اور اس دن آپؐ پر قرآن شریف کی یہ مشہور آیت نازل ہوئی اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (المائدہ: 4)یعنی آج میں نےتمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور جتنے روحانی انعامات خدا تعالیٰ کی طرف سے بندوں پر نازل ہوسکتے ہیں وہ سب میں نے تمہاری امت کو بخش دیئے ہیں اور اس بات کا فیصلہ کر دیا ہے کہ تمہارا دین خالص اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر مبنی ہو۔
یہ آیت آپ نے مزدلفہ کے میدان میں جب کہ حج کیلئے لوگ جمع ہوتے ہیں سب لوگوں کے سامنے باآواز بلند پڑھ کر سنائی ۔ مزدلفہ سے لوٹنے پر حج کے قواعد کے مطابق آپ منیٰ میں ٹھہرے اور گیارھویں ذوالحجہ کو آپ نے تمام مسلمانوں کے سامنے کھڑے ہوکر ایک تقریر کی جس کا مضمون یہ تھا۔
اَے لوگو ! میری بات کو اچھی طرح سنو کیونکہ میں نہیں جانتا کہ اس سال کے بعد کبھی بھی میں تم لوگوں کے درمیان اس میدان میں کھڑے ہوکر کوئی تقریر کروں گا۔ تمہاری جانوں اور تمہارے مالوں کو خدا تعالیٰ نے ایک دوسرے کے حملہ سے قیامت تک کیلئے محفوظ قرار دیا ہے۔خدا تعالیٰ نے ہر شخص کیلئے وراثت میں اُس کا حصہ مقرر کر دیا ہے۔ کوئی وصیت ایسی جائز نہیں جو دوسرے وارث کے حق کو نقصان پہنچائے جو بچہ جس کے گھر میں پیدا ہو وہ اس کا سمجھا جائے گا ۔ اور اگر کوئی بدکاری کی بناء پر اس بچے کا دعویٰ کرے گا تو وہ خود شرعی سزا کا مستحق ہوگا ۔ جو شخص کسی کے باپ کی طرف اپنے آپکو منسوب کرتا ہے یا کسی کو جھوٹے طور پر اپنا آقا قرار دیتا ہے خدا اور اسکے فرشتوں اوربنی نوع انسان کی لعنت اس پر ہے ۔ اَے لوگو! تمہارے کچھ حق تمہاری بیویوں پر ہیں اور تمہاری بیویوں کے کچھ حق تم پر ہیں۔ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ عفت کی زندگی بسر کریں کمینگی کا طریق اختیار نہ کریں جس سے خاوند وں کی قوم میں بے عزتی ہو ۔ اگر وہ ایسا کریں تو تم (جیسا کہ قرآن کریم کی ہدایت ہے کہ باقاعدہ تحقیق اور عدالتی فیصلہ کے بعد ایسا کیا جاسکتا ہے)انہیں سزا دے سکتے ہومگر اس میں بھی سختی نہ کرنا۔لیکن اگر وہ کوئی ایسی حرکت نہیں کرتیں جو خاندان اور خاوند کی عزت کو بٹہ لگانے والی ہو تو تمہارا کام ہے کہ تم اپنی حیثیت کے مطابق ان کی خوراک اور لباس وغیرہ کا انتظام کرو۔ اور یاد رکھو کہ ہمیشہ اپنی بیویوں سے اچھا سلوک کرنا کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کی نگہداشت تمہارے سپرد کی ہے۔عورت کمزور جو ہوتی ہے اور وہ اپنے حقوق کی خود حفاظت نہیں کر سکتی۔تم نےجب ان کے ساتھ شادی کی تو خدا تعالیٰ کو ان کے حقوق کا ضامن بنایا تھااور خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت تم ان کو اپنے گھر وں میں لائے تھے(پس خدا تعالیٰ کی ضمانت کی تحقیر نہ کرنا اور عورتوں کے حقوق کے ادا کرنے کا بھی ہمیشہ خیال رکھنا)اے لوگو تمہارے ہاتھوں میں ابھی کچھ جنگی قیدی بھی باقی ہیں ۔ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ان کو وہی کچھ کھلانا جو تم خود کھاتے ہو اور ان کو وہی کچھ پہنانا جو تم خود پہنتے ہو۔اگر ان سے کوئی ایسا قصور ہو جائے جو تم معاف نہیں کر سکتے تو ان کو کسی اور کے پاس فروخت کر دو کیونکہ وہ خدا کے بندے ہیں اور ان کو تکلیف دینا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ۔ اے لوگو جو کچھ میں تم سے کہتا ہوں سنو اور اچھی طرح اس کو یاد رکھو۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہےتم سب ایک ہی درجہ کے ہو ۔ تم تمام انسان خواہ کسی قوم اور کسی حیثیت کے ہو انسان ہونے کے لحاظ سے ایک درجہ رکھتے ہو ۔ یہ کہتے ہوئے آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اُٹھائے اور دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ملا دیں اور کہا جس طرح ان دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں برابر ہیں اسی طرح تم بنی نوع انسان آپس میں برابر ہو ۔ تمہیں ایک دوسرے پر فضیلت اور درجہ ظاہر کرنے کا کوئی حق نہیں۔ تم آپس میں بھائیوں کی طرح ہو ۔ پھر فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے آج کون سا مہینہ ہے ؟ کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ علاقہ کون سا ہے؟ کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ دن کونسا ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں ! یہ مقدس مہینہ ہے، یہ مقدس علاقہ ہے اور یہ حج کا دن ہے ۔ ہر جواب پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے جس طرح یہ مہینہ مقدس ہے ،جس طرح یہ علاقہ مقدس ہے جس طرح یہ دن مقدس ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی جان اور اس کے مال کو مقدس قرار دیا ہے اور کسی کی جان اور کسی کے مال پر حملہ کرنا ایسا ہی ناجائز ہے جیسے کہ اس مہینے اور اس علاقہ اور اس دن کی ہتک کرنا ۔ یہ حکم آج کیلئے نہیں ، کل کیلئے نہیں بلکہ اس دن تک کیلئے ہے کہ تم خدا سے جاکر ملو۔ پھر فرمایا یہ باتیں جو میں تم سے آج کہتا ہوں ان کو دنیا کے کناروں تک پہنچادو کیونکہ ممکن ہے کہ جو لوگ آج مجھ سے سن رہے ہیں ان کی نسبت وہ لوگ ان پر زیادہ عمل کریں جو مجھ سے نہیں سن رہے۔ ‘‘(بخاری ،کتاب المغازی، باب حجۃ الوداع)
یہ مختصر سا خطبہ بتاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی نوع انسان کی بہتری اور انکا امن کیسامد نظر تھا اور عورتوں اور کمزوروں کے حقوق کا آپ کو کیسا خیال تھا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم محسوس کر رہے تھے کہ اب موت قریب آرہی ہے شاید اللہ تعالیٰ آپؐکو بتاچکا تھا کہ اب آپ کی زندگی کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں ۔ آپ نے نہ چاہا کہ وہ عورتیں جو انسانی پیدائش کے شروع سے مردوں کی غلام قرار دی جاتی تھیں ان کے حقوق کو محفوظ کرنے کا حکم دینے سے پہلے آپ اس دنیا سے گزر جائیں ۔ وہ جنگی قید ی جن کو لوگ غلام کا نام دیا کرتے تھےاور جن پر طرح طرح کے مظالم کیا کرتے تھے آپ نے نہ چاہا کہ ان کے حقوق کو محفوظ کر دینے سے پہلے آپ اس دنیا سے گزر جائیں ۔ وہ بنی نوع انسان کا باہمی فرق اور امتیاز جو انسانوں میں سے بعض کو تو آسمان پر چڑھا دیتا تھا اور بعض کو تحت الثریٰ میں گرا دیتا تھا ۔ جو قوموں قوموں اور ملکوں ملکوں کے درمیان تفرقہ اور لڑائی پیدا کرنے اور اس کو جاری رکھنے کا موجب ہوتا تھا آپ نے نہ چاہا کہ جب تک اس تفرقہ اور امتیاز کو مٹا نہ دیں اس دنیا سے گزر جائیں۔ وہ ایک دوسرے کے حقوق پر چھاپے مارنا اور ایک دوسرے کی جان اور مال کو اپنے لئے جائز سمجھنا جو ہمیشہ ہی بد اخلاقی کے زمانہ میں انسان کی سب سے بڑی لعنت ہوتا ہے آپ نے نہ چاہا کہ جب تک اس روح کو کچل نہ دیں اور جب تک بنی نوع انسان کی جانوں اور ان کے مالوں کو وہی تقدس اور وہی حرمت نہ بخش دیں جو خدا تعالیٰ کے مقدس مہینوں اور خدا تعالیٰ کے مقدس اور بابرکت مقاموں کو حاصل ہے آپ اس دنیا سے گزر جائیں ۔ کیا عورتوں کی ہمدردی، ماتحت لوگوں کی ہمدردی ، بنی نوع انسان میں امن اور آرام کے قیام کی خواہش اور بنی نوع انسان میں مساوات کے قیام کی خواہش اتنی شدید دنیا کے کسی اور انسان میں پائی جاتی ہے ؟ کیا آدم سے لیکر آج تک کسی انسان نے بھی بنی نوع انسان کی ہمدردی کا ایسا جذبہ اور ایسا جوش دکھایا ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں آج تک عورت اپنی جائیداد کی مالک ہے جبکہ یورپ نے اس درجہ کو اسلام کے تیرہ سو سال بعد حاصل کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں داخل ہونے والا ہر شخص دوسرے کے برابر ہو جاتا ہے خواہ وہ کیسی ہی ادنیٰ اور ذلیل سمجھی جانے والی قوم سے تعلق رکھتا ہو۔ حریت اور مساوات کا جذبہ صرف اور صرف اسلام نے ہی دنیا میں قائم کیا ہے اور ایسے رنگ میں قائم کیا ہے کہ آج تک بھی دنیا کی دوسری قومیں اس کی مثال پیش نہیں کر سکتیں ۔ ہماری مسجد میں ایک بادشاہ اور ایک معزز ترین مذہبی پیشوا اور ایک عامی برابر ہیں ان میں کوئی فرق اور امتیاز قائم نہیں کر سکتا جبکہ دوسرے مذاہب کے معبد بڑوں اور چھوٹوں کے امتیاز کو اب تک ظاہر کرتے چلے آئے ہیں ۔ گو وہ قومیں شاید حریت اور مساوات کا دعویٰ مسلمانوں سے بھی زیادہ بلند آواز سے کر رہی ہیں۔ (از کتاب نبیوں کا سردار از قلم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ،صفحہ 239تا 243)
اس حجۃ الوداع کے خطبہ میں عالمگیر انسانی حقوق کا منشور قائم کیا گیا ہے۔ اسکے بغیر دنیا کی کوئی حکومت قائم نہیں رہ سکتی ۔ دنیا کی بقا اسی پر ہی قائم کی گئی ہے اور رہے گی (انشاءاللہ )U.N.Oکو اس معیار پر قائم ہونا لازماً پڑے گا۔ ورنہ دنیا ہلاکت میں خود اپنے آپکو جھونک دے گی۔ اللہ کرے یہ عقل و فہم دنیا کی حکومتوں کو نصیب ہو اور معصوم انسانیت زندہ باد کے نعرے لگا کر امن کے جھنڈے تلے راحت و سکون کی سانس لے سکے ۔ آمین۔
وقتاً فوقتاً خلفائے احمدیت نے سر براہان ممالک کو توجہ دلائی ہے اور فرزندان احمدیت کو بھی خصوصی دعائوں کی تحریک فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دعائوں کا صحیح حق ادا کرتے ہوئے اسلام و احمدیت کے غلبہ کے دن جلد سے جلد ہماری زندگیوں میں لائے۔ اللہ تعالیٰ ان پر سوز دعائوں کو جلد درجہ قبولیت عطا فرمائے۔ آمین!

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ’’رحمۃللعلمین‘‘

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بابرکت وجود دنیا کے ہر شخص کیلئے مجسم رحمت تھا ۔ کیا امیر ،کیا غریب ،کیا مرد ،کیا عورت ،کیا بچہ ،کیا بڑا، کیا آقا ، کیا غلام اور کیا انسان اور کیا جانور غرض تمام موجودات کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سراپا رحمت و شفقت تھے۔

غلاموں کیلئے رحمت

غلاموں کا اس درجہ خیال ہمارے آقا سرور دو جہان صلی اللہ علیہ وسلم کو تھا کہ حضرت علی ابن ابی طالبؓ اور حضرت انس بن مالکؓسے روایت ہے کہ آخری الفاظ جو آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے وفات کے وقت سنے جا سکے وہ یہ تھے الصَّلٰوۃُ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ(سنن ابن ماجہ، کتاب ماجاء فی الجنائز) اَے مسلمانو ! نماز اور غلاموں کے متعلق میری تعلیم نہ بھولنا اللہ اللہ کتنا درد تھا غلاموں کا آپؐ کو۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ۔

غرباء کیلئے رحمت

آپؐ نے غرباء کی عزت و احترام کوسوسائٹی میں قائم کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐکو بادشاہت عطا فرمائی۔ دولت آپؐ کے قدموں پر نثار ہوئی لیکن آپؐسب کچھ غرباء میں تقسیم فرمادیتے تھے اور ساتھ ہی عزت نفس کا سبق بھی ان کو دیتے تھے اور سوال کرنے سے منع فرماتے تھے۔امت محمدیہ کو یہ تعلیم دی کہ تم خود غرباء کا خیال رکھو اور ان کو بتا دیا کہ وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ(الذٰریٰت:20)کہ غرباء کا ان کے مالوں میں حق ہے ان لوگوں کا بھی حق ہے جو اپنی حاجات کا اظہار کر دیں اور محروم یعنی مسکین کا بھی۔ اور مسکین کی تعریف آپؐنےیہ بیان فرمائی کہ مسکین وہ ہے کہ خواہ کتنی بھی تکلیف اٹھائے سوال نہ کرے ۔

یتیموں کیلئے رحمت

یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کی بے انتہا تاکید فرمائی ۔ یتیموں کے متعلق دنیا کو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی اطلاع دی فَأَمَّا الْيَتِيْمَ فَلَا تَقْهَرْ (سورۃالضحیٰ: 10)یتیموں کی پرورش اس طرح کیا کرو کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم لوگوں کے صدقوں پر پل رہے ہیں جس سے ان کی ہمتیں مرجائیں بلکہ انکو اپنے عزیزوں کی طرح پالو جس سے ان کی ہمتیں بلند ہوں۔

ہمسایوں کیلئے رحمت

ہمسایوں سے حسن سلوک کی آپؐ بہت نصیحت فرمایا کرتے تھے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبرائیل بار بار مجھے ہمسایوں سے نیک سلوک کرنے کی تاکید کرتا ہے یہاں تک کہ مجھے خیال آتا ہے کہ ہمسایہ کو شاید وارث ہی قرار دے دیا جائے گا۔ (بخاری و مسلم)

رشتہ داروں کیلئے رحمت

ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے نیک سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟ آپؐ نے فرمایا ’’تیری والدہ‘‘ اس نے دریافت کیا پھر اس کے بعد کون زیادہ مستحق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تیری والدہ‘‘ اس نے تیسری بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےیہی فرمایا ’’تیری والدہ‘‘پھر اس نے چوتھی مرتبہ یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’والدہ کے بعد تمہارا والد اس کا سب سے زیادہ مستحق ہے ۔‘‘ (مسلم، کتاب البروالصلۃ)

اولاد کیلئے رحمت

صرف اولاد کو ہی نبی کریم ﷺ نے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید نہیں فرمائی بلکہ ماں باپ کو بھی اولاد کی عزت ان کی اعلیٰ تربیت اور تعلیم کی تلقین فرمائی ہے۔ جیسا کہ فرماتے ہیں: اَکْرِمُوْ اَوْلَا دَ کُمْ(ابن ماجہ، کتاب الادب)

طبقہ نسواں کیلئے رحمت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طبقہ نسواں پر ان گنت احسانات ہیں۔ اس مضمون میں تفصیل بیان کرنا مشکل ہے ۔ آپؐنے اپنا عملی نمونہ پیش کیا کہ خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ وَ اَنَا خَیْرُکُمْ لِاَھْلِیْ(ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب حسن معاشرۃ النساء )
عورت کو اسکی جائیداد کا مالک قرار دیا ۔ مردوں کو نصیحت فرمائی کہ اگر تم ان میں سے کسی کو خزانہ بھی دے چکے ہو تو اس سے مت لو ۔ عورت کی تعلیم کی طرف توجہ دلائی کہ طَلَبَ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ وَّ مُسْلِمَۃٍ(سنن ابن ماجہ، کتاب المقدمہ) کہ ہر مسلمان مرد ، عورت پر علم حاصل کرنا فرض ہے۔

دشمنوں کیلئے رحمت

بے شک آپؐ نے جنگیں لڑیں لیکن مدافعانہ جنگیں تھیں اور آپؐ نے جو تعلیم دی وہ دنیا کی تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھے جانے کے قابل ہے تاریخ شاہد ہے کہ میدان جنگ میں کبھی کسی نے مقابل قوم کا خیال نہیں کیا ۔ سوائے مسلمانوں کے کیونکہ ان کو اپنے آقا اور سردار کا حکم تھا کہ جب جنگ کیلئے جائو تو بوڑھوں عورتوں اور بچوں کو دکھ نہ دینا ۔ فصلیں برباد نہ کرنا ۔ ان کے مذہبی لیڈروں اور معبودوں کو نہیں چھیڑنا۔درخت نہیں کاٹنا وغیرہ ۔ یہ خلاصہ ہے ان ہدایات کا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو دیں اور جن پر مسلمانوں نے عمل کیا اور جو ملک فتح کیا اس کو گلزار بنا دیا ، امن قائم رکھا۔عدل اور انصاف سے کام کیا۔
غرض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود تمام بنی نوع انسان کیلئے رحمت تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس رنگ میں انسانوں کی غمخواری مظلوموں کی حمایت ، بیکسوں کی فریادرسی اور محتاجوں کی حاجت براری کی اس کی مثال تاریخ عالم میں نظر نہیں آتی۔
پھر آپؐ صرف اپنے زمانے کے انسان کیلئے ہی رحمت نہیں تھےبلکہ اپنے سے پہلے زمانہ کیلئے بھی رحمت تھے۔ اپنے زمانہ میں ساری دنیا کیلئے رحمت تھے اور مستقبل کیلئے بھی رحمت تھے۔(ماخوذ از کتاب خطابات مریم، جلد اول ،صفحہ 262تا 275)

فتح مکہ اور لا تثریب علیکم الیوم کا اعلان

دنیا کی تاریخ میںکیا کوئی ایسا واقعہ ہوا ہے۔ یقیناً نہیں ہوا اور نہ ہی ہوگا حضرت یوسف علیہ السلام نے تو اپنے بھائیوں کو معاف کیا تھا ۔ یہاں سرور کائنات بادشاہ دو جہاں نے قوم کی قوم اور ٹھاٹھیں مارتا ہوا لشکرِ دشمنانِ اسلام کو معاف کیا۔ آپؐاور صحابہ کرامؓجس ظلم وستم کے دور سے گذرے ،اپنا وطن عزیز چھوڑا، شھادت کے اعلیٰ مقام پائے،ان تمام مظالم پر ساری حکومتیں قانونی طور پر ظلم اور قتل و غارت اور صلح کے مقدس معاہدے کو توڑنے جیسے گھنائونے جرم میں ملوث افراد کو واجب القتل قرار دیتی ہیں، لیکن ہمارے محبوب آقا مجسم رحمت نے لا تثریب علیکم الیوم کہہ کر معانی کا اعلان کردیا ۔ قربان جائیں اپنے محبوب آقاپر ۔
آخرت کے شفیع نے اس دنیا میں بھی شفاعت کا نمونہ دکھلا دیا۔سبحان اللہ

لیا ظلم کا عفو سے انتقام            علیک الصلوۃ علیک السلام

الغرض بنی نوع انسان سے آپ کی شفقت اور ہمدردی کی مثال دینا کی کوئی تاریخ نہیں پیش کرسکتی۔ خود اللہ تعالیٰ نے آپؐکے متعلق گواہی دی کہ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوْفٌ رَحِيمٌ(سورۃ التوبہ 129)اس آیت میں عزیز اور حریص کے الفاظ سے آپ کے مظہر صفت رحمان ہونے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ آپؐ رحمۃ للعٰلمین ہیں۔بنی نوع انسان اور تمام حیوانات تک کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود سراپا رحمت ہے۔ سیرت کے موہ لینے والے دلکش دلنشین پہلوئوں کی پاکیزہ جھلکیاں ہیں ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی محسن کی یادوں کو بھلا دیا جائے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ساری دنیا کو اس حسین یادوں کو اپنی زندگی کا اہم حصہ بنا نیکی توفیق بخشے ۔ نیز اللہ تعالیٰ ہم سب کو زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھنےکی توفیق بھی عطا فرمائے اور آپؐ کی محبت اور عقیدت میں بھی بڑھائے کیونکہ کیونکہ آپؐسے محبت ایمان کا حصہ ہے ۔ اسکے علاوہ رحمۃ اللعٰلمین نےمخلوق خدا کیلئے جو دعائیں فرمائی ہیں اورہم سبکی شفاعت کا آپؐ ہی ذریعہ ہیں،اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس میں سے وافر حصہ عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّد وَ بَارِکْ وَسَلَمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْد

قارئین کرام ! پیارے حضورحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ للہ تعالیی بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ آنحضرت ؐکے پیار و محبت کے اظہار میں اپنی دعائوں کو درود میں ڈھال دیں۔ آپ فرماتے ہیں:
’’ہمارا بھی کام ہے…کہ اپنی دعائوں کو درود میں ڈھال دیں اور فضا میں اتنا درود صدق دل کے ساتھ بکھیریں کہ فضا کا ہر ذرہ درود سے مہک اٹھے اور ہماری تمام دعائیں اس درود کے وسیلے سے خدا تعالیٰ کے دربار میں پہنچ کر قبولیت کا درجہ پانے والی ہوں ۔ یہ ہے اس پیار اور محبت کا اظہار جو ہمیں آنحضرت ﷺ کی ذات سے ہونا چاہئے اور آپؐکی آل سے ہونا چاہئے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 24 ؍فروری 2006 بحوالہ اخبار بدر 13 ؍اپریل 2006ء)

…٭…٭…٭…