اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




سیرت آنحضرت ﷺ 

قیام امن کی روشنی میںآنحضرت ﷺ کی تعلیمات اور آپؐکا اُسوہ ٔحسنہ

تقریر جلسہ سالانہ قادیان 2022ء

(محمد انعام غوری ، ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ قادیان )

يَّہْدِيْ بِہِ اللہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُـبُلَ السَّلٰمِ وَيُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِـاِذْنِہٖ وَيَہْدِيْہِمْ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ(سورۃ المائدہ :17)
ترجمہ: اللہ اسکے ذریعہ (یعنی کتابٌ مبین، روشن کتاب قرآن کریم کے ذریعے) جو اُس کی (یعنی اللہ کی )رضا کی پیروی کریں ،سلامتی کی راہوں کی طرف ہدایت دیتا ہے اور اپنے اذن سے انہیں اندھیروں سے نورکی طرف نکال لاتا ہے اور انہیں صراط مستقیم کی طرف ہدایت دیتاہے ۔
اسلام کے معنے ہی امن وسلامتی کے ہیں اور بانیٔ اسلام حضرت اقدس محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم عالمگیر امن وسلامتی کے پیغامبر ہیں ۔
یاد رکھنا چاہئے کہ امن ،سکھ ،چین بنیادی طور پردو طرح کا ہوتا ہے :
(1)انفرادی امن(2)اجتماعی امن
انفراد ی نوعیت کا امن وسکون انسان کی اپنی ذات،اسکے دل ،دماغ اور جسمانی صحت نیز اپنے اہل وعیال سے متعلق اور افراد خاندان کے حوالے سے اور اپنی ذمہ داریوں کے لحاظ سے یا اپنے دائرہ ٔ کار کے لحاظ سے تعلق رکھتا ہے ۔
اوراجتماعی امن انسان کی معاشرتی زندگی یعنی اپنے محلہ اپنے شہر یا اپنے ملک یا روئے زمین کے مجموعی امن وامان سے تعلق رکھتا ہے ۔
ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ امن وسکون کی زندگی گزارے ،اُ سکی اپنی صحت اچھی رہے ،مناسب خوراک ملے ، رہائش کا مناسب انتظام ہو،اچھی بیوی ملے، نیک وصالح اولاد عطا ہو۔خاندان کے افراد والدین، بھائی بہن اور دیگر اقارب دورونزدیک کے، سب خیریت سے رہیں ۔آپس میں لڑائی جھگڑا وغیرہ نہ ہو ۔
ہرمتمدّن معاشرہ کے ہر فرد کی یہی خواہش ہوتی ہے خواہ پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ ہو۔مالدار ہو یا غریب ہو ۔ گورا ہو یا کالا ہو،عربی ہو یا عجمی ہو،مشرقی ہویا مغربی کہ اُس کو امن وسکون اورسُکھ چین کی زندگی نصیب ہو۔
خواہ اس کیلئے دوسرے شخص کو تکلیف میں مبتلا کرنا پڑے اور ذاتی مفاد کے حصول کیلئے دوسروں کو نقصان پہنچانے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا اور جب دوسرا شخص اپنے امن کے حصول کیلئے ،اپنی تکلیف کے ازالہ کیلئے ،اپنے نقصان کی تلافی کیلئے وہی سلوک کرتا ہے جو پہلے شخص نے اسکے ساتھ روا رکھا تھا تو پھر دوطرفہ بدامنی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔
اور یوں شخصی بے چینی اور بدامنی کا دائرہ گھر سے نکل کر محلہ تک اور محلہ سے شہر اورشہر بہ شہر ہوتے ہوئے پورے ملک کو اپنی چپیٹ میں لے لیتا ہے اوربالآخر یہی گردشِ ایام بین الاقوامی بدامنی پر منتج ہوتی ہے ۔
یہ کوئی فرضی داستان یاکہانی نہیں ہے آج کی دنیا کے مشرق ومغرب ،شمال وجنوب میں نظر دَوڑا کر دیکھ لیں ۔عالمی بے چینی اور بدامنی جس نے دن کا چین اور راتوں کی نیند اُڑا رکھی ہے ایک ایسی ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ جس کا اعتراف زبان زد عام ہے اور پرنٹ میڈیا ،الیکٹرانک میڈیا ،سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم پر اس کا شور ہے ۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ شخصی ،قومی اور بین الاقوامی امن کو کس طرح قائم کیا جاسکتا ہے اِسکا جواب یہ ہے کہ صرف اعلانات کرنے اور نعرے لگانے سے تو یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ۔عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور یہ سفر اپنے گھر سے شروع کرکے ہمسایوں،محلہ داروں ،شہریوں اور ملکی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک پہنچنے اور پہنچانے کی ضرورت ہے ۔
آیئے اس حوالے سے محسنِ انسانیت حضرت اقدس محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیّبہ پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں اور اسلامی تعلیمات اورآپؐ کے اُسوۂ حسنہ کا کچھ تذکرہ کرتے ہیں ۔

گھروں کاامن

سب سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ گھروں میں امن کس طرح قائم رہ سکتا ہے ۔اس کیلئے میاں بیوی کے حقوق اور فرائض کا خیال رکھنا ہوگا۔ایک دوسرے کے جذبات اور احساسات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے، اپنے آرام سے بڑھ کر اپنے ساتھی کے آرام کا خیال رکھنا ضروری ہے ورنہ آئے دن میاں بیوی کے درمیان لڑائی جھگڑوں سے گھر کاامن برباد ہوجاتا ہے ۔بچوں کی تربیت پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے اس کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پُرامن عائلی زندگی کے حوالے سے چند احادیث پیش کرتا ہوں ۔
ترمذی کی ایک حدیث ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتےہیں :
تم میںسے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ حسنِ سلوک میں بہتر ہے اورمَیں تم سب سے بڑھ کر اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنے والا ہوں ۔اور اس میں کیا شک ہے کہ آپؐکو تربیتی اور قومی ضروریات کے مدنظر متعدد شادیاں کرنی پڑیں اور بیک وقت نَو بیویاں آپ کے گھر میں رہیں ۔سب ہی آپ کے حسنِ سلوک اور عدل وانصاف سے مطمئن اور راضی خوش رہیں ۔
مسلم کی ایک حدیث پیش کرتا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایثار کا پہلو مدنظر رکھتے ہوئے میاں بیوی کو ایک دوسرے میں خوبیاں تلاش کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :
اگر تم میں سے کسی کودوسرے میں کوئی عیب نظر آتاہے یا اُسکی کوئی اداناپسند ہے تو کئی باتیں اُسکی پسند بھی ہوں گی جو اچھی بھی لگیں گی ،اُن کو مدنظر رکھ کر ایثار کا پہلو اختیار کرتے ہوئے موافقت کی فضا پیدا کرنی چاہئیے ۔
کسی نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا کہ آنحضرت ﷺگھر میں کیا کیا کرتے تھے ۔فرمانے لگیں آپ تمام انسانوں کی طرح ایک انسان تھے ۔کپڑے کو خود پیوند لگالیتے تھے ،بکری خود دوہ لیتے تھے اور ذاتی کام خود کرلیا کرتے تھے ۔(مسند احمد )
رات کو دیر سے گھر لوٹتے تو کسی کو زحمت دئیے یاجگائے بغیر کھانا یا دودھ خود تناول فرمالیتے ۔(مسلم )
اسی طرح حضرت عائشہ ؓ کی ہی گھریلو زندگی کے بارہ میں یہ شہادت ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ نرم خُو اور سب سے زیادہ کریم ،عام آدمیوں کی طرح بلا تکلف گھر میں رہنے والے تھے ۔ آپؐنے کبھی تیوری نہیں چڑھائی ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے ۔نیز آپؓفرماتی ہیں کہ اپنی سار ی زندگی میں آپؐنے کبھی اپنی کسی بیوی پر ہاتھ نہیں اُٹھایا اورنہ کبھی کسی خادم کو مارا۔(ترمذی )
ہمارے آقا ومطاع حضرت اقدس محمد مصطفےٰ  صلی اللہ علیہ وسلم کے حُسن واحسان کے اِن جلوؤں نے بلا شبہ آپؐکی اہلی زندگی کو نہایت پُرامن اور جنت نظیر بنادیا تھا یہی وجہ ہے کہ آپؐکی تمام بیویاں ہمیشہ آپؐ پر فدا ہوتی تھیں ۔

اَللَّھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ

محلہ داروں کا امن

گھر سے نکل کر دائیں بائیں آگے پیچھے کے پڑوسیوں،ہمسایوں سے تعلق کا مرحلہ آتا ہے ۔ قرآن کریم کا یہ تاکیدی حکم ہے کہ اپنے والدین سے نیک سلوک کرواسی طرح قریبی رشتہ داروں سے ، یتامیٰ  سے اور مسکینوں سے اور قریب کے ہمسایہ سے اوردوٗر کے ہمسایہ سے بھی نیز جس جگہ اکٹھے کام کرتے ہیں وہاں بھی ایک دوسرے سے نیک سلوک کرو۔(النساء :37)
اس سلسلہ میں چند احادیث بھی پیش کرتا ہوں:
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض  کیا ۔مجھے کس طرح معلوم ہو کہ مَیں اچھا کررہا ہوں یا بُرا کررہا ہوں ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم اپنے پڑوسیوں کویہ کہتے ہوئے سنو کہ تم بڑے اچھے ہو تو سمجھ لو کہ تمہارا طرزِ عمل اچھا ہے اور جب تم پڑوسیوں کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ تم بڑے بُرے ہو تو سمجھ لو کہ تمہارا رویّہ بُرا ہے ۔(ابن ماجہ )
حضرت ابن عمرؓ اور حضرت عائشہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔جبرئیل ہمیشہ مجھے پڑوسی سے حسنِ سلوک کی تاکید کرتا آرہا ہے۔ یہاں تک کہ مجھے خیال ہوا کہ کہیں وہ اُسے وارث ہی نہ بنادے ۔(بخاری )
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خداتعالیٰ کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہے ۔خدا تعالیٰ کی قسم وہ شخص مومن نہیں  ہے ۔خدا تعالیٰ کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہے ۔(تین مرتبہ یہی الفاظ آپؐنے دہرائے )آپؐسے پوچھا گیا ۔یا رسول اللہ !کون مومن نہیں ہے ؟آپؐنے فرمایا ،وہ جس کا پڑوسی اُسکی شرارتوں اوراُسکے اچانک واروں سے محفوظ نہ ہو ۔(بخاری )
اچانک حملے مختلف طریقوں سے ہوتے رہتے ہیں کبھی رات کے وقت ریڈیو ،ٹی وِی پر اونچی آواز سے پروگرام سنتے رہتے ہیں جس سے پڑوسی آرام کی نیند سونہیں سکتا ۔کبھی گھر کا کچرا ہمسایہ کے دروازے کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔
حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،اے ابوذر!جب بھی تم کبھی اچھا سالن پکاؤ تو اس کا شوربہ کچھ زیادہ کرلیا کرو اور اپنے پڑوسی کا بھی خیال رکھو یعنی کسی نہ کسی پڑوسی کو بھی سالن بھجوایا کرو۔(مسلم )
جب سب محلہ والے اپنے اپنے پڑوسیوں کا اسقدر خیال رکھ رہے ہوں گے اورہر قسم کی ایذاء رسانی سے اجتناب کررہے ہوں گے تو ظاہر ہے پورے محلہ میں امن وامان ہی رہے گا۔

شہر کا امن

عام شہریوں کے حقوق وفرائض کا جہاں تک تعلق ہے اس کا صحیح علم ہونا اور اسکے مطابق ادائیگی کی کوشش کرنا ،پورے شہر کو امن کا گہوارہ بنانے کا موجب ہوتا ہے اس ضمن میں چند ہدایات اور ارشادات سماعت فرمائیں ۔
ایک یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے سے جب بھی ملیں تو السلام علیکم کہا کریں یعنی تم پراللہ کی سلامتی ہو۔ہمارے یہاں ہندوستان میں مختلف مذاہب کے پیروکار اپنے اپنے طریق کے مطابق نمستے ۔ست سری اکال ۔گڈمارننگ وغیرہ کے الفاظ سے ایک دوسرے کو خیر سگالی کا پیغام دیتے ہیں ۔پھر آپس میں  مصافحہ کرتے ہیں ۔اس سے واقفیت اور محبت بڑھتی ہے اور نفرت وکدورت دور ہوتی ہے ۔
دوسرا یہ کہ راستوں میں گند نہ ڈالیں بلکہ راہ گیروں کو تکلیف دینے والی چیزیں ہٹانے دور کرنے کی کوشش کریں ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹانا بھی صدقہ ہے ۔
پھر یہ بھی ہدایت ہے کہ پبلک مقامات پر بلند آواز سے لڑنا جھگڑنا مناسب نہیں اس سے لوگوں  کے امن وآرام میں خلل پڑتا ہے جہاں بچے اور عورتیں بھی ہوتی ہیں ایسے واقعات سے اُنہیں بہت پریشانی اور گھبراہٹ ہوجاتی ہے ۔
راستہ کے درمیان حلقہ باندھ کر یا مجلسیں  لگاکر کھڑے ہونے سے پرہیز کرنا چاہئیے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِیَّاکُمْ وَالْجُلُوْسَ عَلَی الطُّرُقَاتِ خبردار !راستوں پر نہ بیٹھنا۔صحابہ ؓ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہمیں ان مجلسوں سے چارہ نہیں ۔ہم ان جگہوں پر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیںاور آپس میں مشورے کرتے ہیں ۔فرمایا،اگر تم رہ نہیں  سکتے تو پھر راستے کا حق ادا کرو۔صحابہ کرام ؓ نے سوال کیا کہ راستے کا حق کیاہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نگاہ نیچی رکھنا ،کسی کو ایذاء نہ دینا ،سلام کا جواب دینا، اچھی بات کی تلقین کرنا اور بُری بات سے روکنا۔‘‘ (متفق علیہ )
یہ بھی ہدایت ہے کہ بیماروں کی عیادت کی جائے اور اُن کو نیک مشوروں اورحوصلہ دینے کے ساتھ ساتھ اُن کی صحتیابی کیلئے دعا بھی کی جائے ۔
یہ بھی ہدایت ہے کہ جو فوت ہوجائیں اُن کی تجہیز وتدفین میں مدد دی جائے اوراپنے اپنے طریق کے مطابق میّت کے اعزاز واکرام کے ساتھ آخری رسوم ادا کی جائیں ۔ایک یہودی کا جنازہ گزررہا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر احتراماً کھڑے ہوگئے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ !یہ تو ایک غیر مسلم یہودی کاجنازہ ہے آپؐنے فرمایا کیا اُسکے اندر روح نہیں تھی ۔یعنی انسانیت کے لحاظ سے سب انسان ایک جیسے ہیں ۔
اس طرح کی بے شمار ہدایات ہیں جو شہریوں کوآرام پہنچانے اور ان کیلئے امن وامان کی فضا پیدا کرنے کیلئے ضروری ہیں خاکسار نے وقت کی رعایت سے صرف چند کا ذکر کیا ہے ۔اس ضمن میں چند احادیث مزید پیش کرتا ہوں۔
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ۔ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی غرض سے بڑھ چڑھ کر بھاؤ نہ بڑھاؤ۔ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو ۔ایک دوسرے سے پیٹھ نہ موڑو،یعنی بے تعلقی کا رویّہ اختیار نہ کرو ۔ایک دوسرے کے سودے پر سودا نہ کروبلکہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن کررہو۔(مسلم )
حضرت عَمروبن شعیبؓاپنے باپ اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اُس شخص کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں جوچھوٹے پر رحم نہیں کرتا اور بڑے کی عز ت نہیں کرتا۔(ترمذی)
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمام مخلوقات اللہ کی عیال (یعنی اللہ کاکُنبہ ) ہیں پس اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوقات میں سے وہ شخص بہت پسند ہے جو اُس کے عیال (مخلوق) کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے اور اُن کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے ۔(مشکوٰۃ )
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کی علامت یہ قرار دی ہے کہ اس سے کسی انسان کو بلاوجہ تکلیف نہ پہنچے ۔حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’مسلمان وہ ہے جسکی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں اور مومن وہ ہے جس سے لوگوں کے جان ومال کو کوئی خطرہ نہ ہو۔‘‘(ترمذی )
صرف انسانوں سے ہی نہیں ،جانوروں کو بھی تکلیف میں ڈالنے سے منع فرمایا گیا ہے ۔حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت کو بلّی کو تکلیف دینے کی وجہ سے سزا دی گئی اُس نے بلّی کو بند کرکے بھوکا ماردیا ۔نہ کھانا دیا نہ پانی اور نہ اُس کو چھوڑا کہ زمین کے چوہے وغیرہ کھاکر گزارہ کرسکے ۔اس ظلم کی وجہ سے وہ جہنم کی آگ میں ڈال دی گئی ۔(مسلم )
حضرت عبد اللہ ؓ بیان کرتےہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک سفر میں تھے ۔آپؐ کسی ضرورت کیلئے باہر تشریف لے گئے ۔ہم نے حُمرہ نامی ایک چڑیا دیکھی اسکے ساتھ دوبچے بھی تھے ۔ہم نے اسکے دونوں بچوں کوپکڑ لیا ۔حُمرہ نے سرپر منڈلانا شروع کردیا ۔اس دوران حضورؐ واپس تشریف لے آئے اورفرمایا کس نے اسے بچوں کی وجہ سے پریشان کیاہے ۔اسکے بچوں کو واپس لوٹا دو۔پھر آپؐنے دیکھا کہ کسی نے چیونٹیوں کے بِل کو جلایاہے ۔آپؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اَور کیلئے مناسب نہیں کہ وہ کسی جاندار کو آگ سے جلائے ۔(ابوداؤد)
بظاہر یہ چھوٹی اور معمولی ہدایات نظر آتی ہیں لیکن دوسرے انسانوں اور دیگر مخلوقات کو تکلیف سے بچانے اور اُنہیں آرام وراحت پہنچاکر اُن کیلئے امن قائم کرنے کے لحاظ سے بہت اہم اور بنیادی اہمیت کی حامل ہیں ۔

حکومت کے حقوق وفرائض

اب تک عام انسانوں کے باہمی تعلقات اور اُن کے حقوق وفرائض پر کچھ روشنی ڈالی گئی ہے ۔اب اسلامی تعلیم کی روشنی میں حکومت اور ریاست کے حقوق وفرائض کے متعلق بھی کچھ بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
سب سے پہلا فرض کسی بھی حکومت کا یہ ہے کہ رعایا کی بنیادی ضروریات جیسے انکی مناسب خوراک، مناسب لباس اور حکومت کے وسائل کے مطابق اُن کی رہائش کا انتظام کرنا ۔
چنانچہ ان بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی کے حوالے سے قرآن کریم نے یہ رہنما اصول بیان فرمایاہے کہ اِنَّ لَکَ اَلَّا تَجُوْعَ فِیْھَا وَلَا تَعْرٰی ۔ وَاَنَّکَ لَاتَظْمَئُوا فِیْھَا وَلَا تَضْحٰی( طٰہٰ: 119تا120)یعنی اَے انسان تیری یہ بنیادی ضرورت تسلیم کی گئی ہے کہ تُو نہ بھوکا رہے اور نہ بغیر لباس کے رہے اور نہ بغیر چھت کےکھلے آسمان تلے پڑا جلتا رہے ۔
اگرچہ بھوک ،پیاس اور لباس کی ضروریات کا امداد باہمی کے طورپرافراد بھی ایک دوسرے کا خیال رکھنے کی کوشش کرتےہیں اورمختلف تنظیمیں اور NGO بھی بنی نوع انسان کی ہمدردی میں جُٹی رہتی ہیں ۔
لیکن حکومت کی یہ اہم ذمّہ داری ہے کہ وہ اپنی رعایا کیلئے ایسے مستقل ذرائع اور وسائل مہیا کرنے کا انتظام کرے جن سے اُن کو ضرورت کے مطابق کھانا کپڑا اورمکان میسّر آجائے اور جسقدر کوئی حکومت اس اہم ذمہ داری کواداکرنے میں غفلت یا بدانتظامی کے سبب ناکام رہے اُسی کے مطابق رعایا میں بے چینی اور بدامنی پیدا ہوجاتی ہے اورپھر اسکے نتیجہ میں مختلف جرائم پنپنے لگتے ہیں ۔
اس سلسلہ میں یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ انسانوں کو اُن کے مناسب حال روزگار مہیا کیاجائے اوراُن کو اُن کی صلاحیتوں کے مطابق اپنے پیرو ں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جائے اور انہیں مانگنے اور سوال کرنے کی عادت سے بچایا جائے ۔اس ضمن میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض ارشادات اور آپؐکا عملی نمونہ پیش کرتاہوں ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ فرائض کی طرح محنت کی کمائی بھی فرض ہے۔(مشکوٰۃ )
حضرت مقداد بن معدیکرب ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے ہاتھ سے کمائی ہوئی روزی سے بہتر کوئی روزی نہیں ۔(بخاری )
اگرچہ آنحضرتﷺ مانگنے اور سوال کرنے کو پسند نہیں فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ اوپر والا ہاتھ یعنی دینے والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ (یعنی مانگنے والے کے ہاتھ ) سے افضل ہے ۔تاہم کوئی حقیقی ضرورت مند سائل آپ کے دربار سے خالی ہاتھ نہیں لوٹایا جاتا تھالیکن اگر کسی کے سوال کوردّ فرماتے تو پھر اُس کیلئے بہتر متبادل کا انتظام بھی فرمادیتے تھے۔
چنانچہ حضرت انس بن مالکؓبیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری سوالی بن کر آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔آپؐنے اُسے کچھ عطا فرمانے کی بجائے پوچھا تمہارے گھر میں کچھ ہے؟ اُس نے عرض کیا :ایک چادراور ایک چھاگل ہے۔ فرمایا دونوں چیزیں لے آؤ۔وہ دونوں چیزیں لے کر حاضر ہوگیا ۔ پھر آپؐنے اپنے صحابہ کے درمیان ان دونوں چیزوں کی نیلامی کروائی ۔ایک شخص نے کہا مَیں ایک درہم میں یہ دونوں چیزیںخریدتا ہوں دوسرے نے کہا میں دودرہم میں خریدتا ہوں ۔حضورؐ نے دودر ہم میں وہ دونوں چیزیں دے دیں اوراُس انصاری کوفرمایا یہ لو ایک درہم سے کھانے پینے کی چیزیں خرید کر گھر دے دو اور دوسرے درہم سے کلہاڑی خرید کر میرے پاس لے آؤ۔جب وہ کلہاڑی خرید کرلے آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں خود لکڑی کا دستہ ڈالا اور فرمایا جاؤ اس سے لکڑیاں کاٹ کاٹ کر فروخت کرواور پندرہ دن سے پہلے میں تجھے اِدھر آتا نہ دیکھوں چنانچہ وہ شخص لکڑیاں کاٹ کاٹ کر بیچتا رہا یہاں تک کہ جب وہ حضورؐ کے پاس آیا تو اُس نےدس درہم کمالئے تھے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ تیرے لئے خود کماکر کھانا اس بات سے زیادہ اچھا ہے کہ تو دردر مانگتا پھرے ۔(ابوداؤد)
مزدور کی مزدوری کے سلسلہ میں آنحضرت ﷺ کا ارشادہے کہ مزدور کا پسینہ سوکھنے سے پہلے اُس کی مزدوری اداکردی جائے ۔(ابن ماجہ)
نیز فرماتے ہیں جو شخص مزدور کواُسکا حق ادا نہیں کرتا قیامت کے دن مَیں اُس کی طرف سے جھگڑوں گا۔اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی مالک مزدور کی مزدوری نہ دے تو پھر حکومت کا فرض ہے کہ اُس کو دلوائے ۔
معزز حضرات!حکومت کا بنیادی فرض یہ بھی ہے کہ رعایا کے ساتھ عدل وانصاف کا سلوک روا رکھے اور ہر قسم کی ناانصافی اور ظلم کو مٹانے کی کوشش کرے ۔
عصرِ حاضر میں عدل وانصاف کا فقدان ہی تمام تر بدامنی اور بے چینی کاموجب اورعالمی بے سکونی کا سبب ہے ۔ اس ضمن میں حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز باربار دُنیا کے صاحبِ اقتدار لوگوں کو توجہ دلارہے ہیں۔چنانچہ آپ نے کیپٹل ہِل واشنگٹن ڈی سی میں سن 2012ء میں اپنے خطاب میں فرمایا :
’’قرآن کریم نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ تمام لوگ بحیثیت انسان برابر ہیں ۔آنحضرتﷺ نے اپنے آخری خطبہ میں تمام مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ ہمیشہ یادرکھیں کہ کسی عربی کو غیر عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے ۔نہ ہی کسی غیر عربی کو عربی پر کوئی برتری حاصل ہے ۔آپﷺ نے سکھایا کہ کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں ہے نہ ہی کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت ہے ۔چنانچہ اسلام کی یہ واضح تعلیم ہے کہ تمام قوموں اور نسلوں کے لوگ برابر ہیں ۔آپ نے یہ بھی واضح فرمایا کہ سب لوگوں کو بِلا امتیاز اور بِلا تعصب یکساں حقوق ملنے چاہئیں۔یہ وہ بنیادی اور سنہری اصول ہے جو بین الاقوامی امن اور ہم آہنگی کی بنیاد رکھتا ہے ۔‘‘

بین الاقوامی تعلقات

ملکی اورقومی حقوق وفرائض کے بعد اب بین الاقوامی تعلقات کے بارہ میں اختصار کے ساتھ کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں ۔بالخصوص موجودہ ماحول میں جبکہ ہربڑی طاقت چھوٹی طاقتوں کو دباتی چلی جارہی ہے اور مختلف حیلوں،بہانوں سے چھوٹی طاقتوں کا قافیہ حیات تنگ کرنے کے درپےہوگئی ہیں ۔اگر اس تمام لڑائی جھگڑے ،جنگ وجدال کے اسباب پرغور کیا جائے تو بڑی وجہ یہی سامنے آتی ہے کہ محض ایک دوسرے کے ملک پر طمع کی نظر رکھنے یا آپس میں ایک دوسرے سے ناجائز فائدہ اُٹھانے یا اُس کو زیر کرکے اپنی بالا دستی قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
اسلام اس خود غرضی کی بنیاد کو ختم کرنے کیلئے قرآن کریم کی سورۂ طٰہٰ کی آیت نمبر 132میں یہ حکم دیتا ہے کہ اپنی آنکھیں اس عارضی متاع (یعنی دنیاوی سازوسامان)کی طرف اُٹھا اُٹھا کرنہ دیکھو جو ہم نے اُن میں سے بعض قوموں کو دنیوی زندگی کی زینت کے طورپر عطا کی ہیں تاکہ ہم ان کے اعمال کی آزمائش کریں اور یاد رکھ کہ جو تیرے رب نے تجھے دیا ہے وہی تیرے لئے اچھا اور زیادہ دیر تک رہنے والا ہے۔
اور دوسرا بنیادی حکم سورۂ مائدہ کی آیت نمبر 9میںیہ دیا کہ اَے مومنو!کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم اُسکے ساتھ انصاف نہ کرو۔تم بہرحال انصاف کا معاملہ کرو یہ بات تقویٰ  کے سب سے زیادہ قریب ہے او راللہ سے ڈرو یقیناً اللہ اُس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔
آج دیکھ لیں مغربی طاقتیں بھی اورمشرقی طاقتیں بھی ،شمالی طاقتیں بھی اورجنوبی طاقتیں بھی ایک دوسرے کے ساز وسامان پر طمع ولالچ کی نظر رکھے ہوئے ہیں اور ملک گیری اور دوسروں کوزیر کرنے اور اپنی بالادستی قائم کرکے اپنے مفادات کا تحفّظ کرنے میں لگی ہوئی ہیں خواہ اسکے نتیجہ میں دوسری قوموں اور ملکوں کا جس رنگ میں بھی نقصان ہو اور جس رنگ میں بھی وہ ملک اور قومیں تباہ ہوتی رہیں اس کی کسی کو فکر نہیں ہے ۔
جماعت احمدیہ کے چوتھے امام حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے آج سے کئی سال قبل فرمایا تھا :’’آج کے زمانے میں سیاست گندی ہوچکی ہے ۔انصاف اورتقویٰ سے عاری ہے۔ وہ مسلم ریاستیں جو اسلام کے نام پر اپنی برتری کا دعویٰ کرتی ہیں اُن کی وفا بھی آج اسلامی اخلاق سے نہیں اوراسلام کے بلند وبالا انصاف کے اصولوں سے نہیں بلکہ اپنی اغراض کے ساتھ ہے…(دوسری طرف) غیر قومیں انصاف کے نام پر بڑے بڑے دعوے کررہی ہیں گویا وہی ہیں جو دنیا میں انصاف کو قائم رکھنےپر مامور کی گئی ہیں اور ان کے بغیر ،ان کی طاقت کے بغیر انصاف دنیا سے مٹ جائے گا۔مگر جب آپ تفصیل سے دیکھیں تو انصاف کا یعنی اُس انصاف کا جو قرآن کریم پیش کرتاہے ایک طرف بھی فقدان ہے اور دوسری طرف بھی فقدان ہے ۔‘‘(خلیج کا بحران ،صفحہ 14)

مذہبی تعلقات

پھر امن کے حوالے سے مذہبی تعلقات کا بھی بہت اہم عمل دخل ہے ۔آجکل مذہبی تعلیمات کو صحیح رنگ میں نہ جاننے اور نہ سمجھنے اور بانیانِ مذاہب کی اصل تعلیمات کو پسِ پشت ڈال کر نام نہاد مذہبی رہنماؤں کے ذاتی نظریات وخیالات کی اندھی تقلید کے نتیجہ میں مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان منافرت پھیلائی جارہی ہے اور یوں مذہبی آزادی اور رواداری کا فقدان لوگوں کے امن وسکون کو اسقدر بربادکررہا ہے کہ لوگ مذہب سے ہی بیزار اور برگشتہ ہوتے جارہے ہیں اورجو مذہب سے جُڑے ہوئے ہیں اُن میں سے بھی اکثر محض رسمی طورپر جُڑے ہوئے ہیں ورنہ اُنہیں اپنے مذہب کی صحیح تعلیمات اور عقائد کا بھی کچھ علم نہیں ہے ۔
اس سلسلہ میں اسلام کی امن بخش تعلیمات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوۂ حسنہ ایک الگ روشن باب ہے جسکی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں ہے ۔
مختصر طورپر اس قدر عرض کردیتاہوں کہ
قرآن کریم کی یہ تعلیم ہے کہ اللہ جو ربّ العالمین ہے و ہ صرف رب المسلمین نہیں ہے دلیل اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں اپنے ہادی اور پیغمبر بھیجے ہیں اسلئے کسی مذہب کو خواہ اُسکی اصل حالت کو تبدیل بھی کردیا گیا ہو لیکن کلّیۃً اُس مذہب کو خراب نہیں کہا جاسکتا ۔
پھر یہ کہ اپنے مذہب اور مسلک کو پھیلانے کیلئے کسی پر بھی زبردستی کرنا یا جنگ کرنا ہرگز جائز نہیں۔ قرآن کریم کا یہ واضح حکم ہے کہ لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ۔یعنی دین میں کسی قسم کا کوئی جبر جائز نہیں۔ پس یہ بالکل غلط الزام ہے کہ اسلام ،دین کو تلوار سے پھیلانے کی اجازت دیتاہے۔اسلامی جنگیں محض دفاعی جنگیں تھیں یا فتنہ وفساد کو دور کرنے اور امن وامان قائم کرنے کیلئے کی گئی تھیں ۔
اللہ تعالیٰ نے اس الزام کو عملی طورپر بھی دور کرنے کیلئے اِس زمانے میں آنحضرت ﷺ کے ایک عاشق صادق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کو بغیر تلوار کے دنیا میں بھیجا ہے تاآپ کے ذریعے اورآپ کے خلفاء کرام اور جماعت احمدیہ کے ذریعے اسلام کو دنیا میں پھیلاکر یہ ثابت کرے کہ اسلام اپنی امن بخش تعلیمات کے ذریعہ ہی پھیل سکتا ہے اُسکو کسی تلوار یا جنگ وجدال کی ضرورت نہیں ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری دنیاکیلئے ہادی اور رسول بناکر بھیجا ہے اور مرتبہ کے لحاظ سے خاتم النّبیین بناکر مبعوث فرمایا ہے اسکے باوجود آپؐنے یہ برداشت نہیں کیا کہ کوئی امتی آپؐکو دوسرے نبیوں سے افضل بتاکر امن کے ماحول کو خراب کرے ۔چنانچہ بخاری شریف میں ایک روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ ایک یہودی بازار میں سودا بیچ رہا تھا اُسے ایک مسلمان نے ایک چیز کی تھوڑی قیمت بتائی جو اُس یہودی کو ناگوار گزری اور اُس نے کہا اُس ذات کی قسم جس نے موسٰی کو تمام انسانوں پر فضیلت دی ہے ۔اس بات پر مسلمان کو غصہ آگیا اوراُس نے اُس یہودی کوتھپڑ ماردیا ۔وہ یہودی رسول کریم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کیا کہ ہم آپؐکی ذمہ داری اورامان میں ہیں اور اس مسلمان نے مجھے تھپڑ مارکر زیادتی کی ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا مجھے نبیوں کے مابین فضیلت نہ دیا کرو۔(بخاری )
بہرحال یہ حتمی اور یقینی بات ہے کہ جب تک بنی نوع انسان میں انفرادی اور قومی لحاظ سے تحمّل اور برداشت کا ظرف وسیع نہیں ہوگا۔جب تک دوسروں کو تکلیف سے بچانے اور آرام پہنچانے کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا۔جب تک دوسروں کو فائدہ پہنچانے کیلئے ذاتی مفاد کو قربان کرنے اور ایثار کا نمونہ دکھانے کا احساس پیدا نہیں ہوگا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب تک عدل وانصاف سے کام نہیں لیا جائے نہ گھروں میں امن قائم ہوسکتا ہے ۔نہ محلوں میں امن قائم ہوسکتا ہے ،نہ شہر میں امن قائم ہوسکتا ہے اور نہ ملک میں امن قائم ہوسکتاہے اور نہ بین الاقوامی امن قائم ہوسکتاہے ۔اور اس کیلئے آج نہیں تو کل ،کل نہیں تو پرسوں لازماً دنیا کو اسلام کی امن بخش تعلیمات اور محسنِ انسانیت ،رحمۃ للعالمین حضرت اقدس محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک نصائح اوراُسوۂ حسنہ کی پیروی کرنا ہوگااسکے بغیر دنیا امن وامان کامنہ نہیں دیکھ سکتی ۔
یہی پیغام ہے جو ہمارے موجودہ امام حضرت مرزا مسروراحمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دُنیا کے بڑے بڑے ایوانوں میں اور سربراہانِ مملکت کو پہنچارہے ہیں اوراُس عالمگیر تباہی سے جو نہ صرف دروازے پر کھڑی ہے بلکہ قوموں اورملکوں کے اندر داخل ہوچکی ہے متنبہ کرتے چلے جارہے ہیں۔ چنانچہ چندماہ قبل جماعت احمدیہ جرمنی کے جلسہ سالانہ سے اختتامی خطاب کرتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا ہے :
’’یہ تو ہم دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ امن بڑی اہم چیز ہے ۔امن کی باتیں ہوتی ہیں ،ہر کوئی کہتا ہے امن بہت اہم چیز ہے اور امن کی حالت ہی گھر کے سکون اور سلامتی کی بھی ضمانت ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی سکون وسلامتی کی ضمانت ہے اور خواہش بھی رکھتے ہیں کہ ہر سطح پر امن قائم ہو لیکن صرف خواہش امن پیدا نہیں کردیتی کیونکہ یہاں بھی امن کی خواہش خود غرضی لئے ہوئے ہوتی ہے اور یہی ہم دنیا میں دیکھتے ہیں۔‘‘
’’دُنیا میں یہی نظارے ہمیں نظر آتے ہیں عام لوگوں میں بھی اور لیڈروں میں بھی ۔سیاستدانوں کی آپس کی لڑائیاں اور اقتدار میں آنے پر ایک دوسرے پر ظلم جو اپنے ہی ملکوں میںہم دیکھ رہےہیں ،ایک دوسرے پر جو کررہے ہیں وہ اسی سوچ کا نتیجہ ہے۔ پس اگر صرف امن کی خواہش ہے تو وہ فساد کا ذریعہ ہوسکتی ہے کیونکہ اس میں خود غرضی شامل ہے کیونکہ جو لوگ امن چاہتے ہیں وہ اس رنگ میں امن کے متمنی ہیں کہ صرف انہیں اَور ان کے قریبیوں کو یا ان کی قوم کو امن حاصل رہے ۔ورنہ دوسروں کیلئے اور دشمنوں کیلئے وہ یہی چاہتے ہیں کہ اُنکے امن کو مٹادیں۔پس اگر اس اصول کو رائج کردیا جائے کہ اپنے لئے اَور معیار اور دوسرے کیلئے اَور تو دنیا میں جو بھی امن قائم ہوگا وہ چند لوگوں کا امن ہوگا ،ساری دنیا کا امن نہیں ہوگا …جو ساری دنیا کا امن نہ ہو وہ حقیقی امن نہیں کہلا سکتا ۔حقیقی امن تبھی ہوگا جو ذاتی ،خاندانی ،نسلی ،قومی ،ملکی ترجیحات سے بالاہوکر قائم کرنے کی کوشش کی جائے ،ایک مرکزی محور کے حصول کیلئے کی جائےاور یہ اسی صورت میں  ہوسکتا ہے جب انسان اس بات کو سمجھ لے اور اس کا فہم واِدراک پیدا کرلے کہ میرے اوپر ایک بالا ہستی ہے جو میرے لئے ہی امن نہیں چاہتی بلکہ تمام دنیا کیلئے امن چاہتی ہے ،جو میرے گھر اور ملک کیلئے ہی امن نہیں چاہتی بلکہ تمام ملکوں کیلئے امن چاہتی ہے ۔پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم امن کا نقطۂ محور ،یہ احساس ہے کہ ایک بالا ہستی مجھے دیکھ رہی ہے جس کیلئے میں نے اپنے قول وفعل کو ایک کرنا ہے ۔ہمیشہ اس اصول پر چلنے کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اِس سنہری اصول کو سامنے رکھنا ہوگا کہ دوسرے کیلئے بھی وہی پسند کروجو اپنے لئے پسند کرتے ہو۔
پس اگر اپنی دنیا وعاقبت سنوارنی ہے ،امن وسلامتی سے رہنا ہے تو ہمیں اللہ تعالیٰ کے اس کلام کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پراُترا ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے کہ یَھْدِیْ بِہِ اللہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ ،اس روشن کتاب کی ہدایت کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں ۔اس روشن کتاب کی ہدایت کو پڑھنا اور سامنے رکھنا چاہئے تبھی سُبُلَ السَّلٰم پر چلنے والے ہوں گے ۔سلامتی کے راستے پر چلنے والے ہوں گے ۔اس کتاب کا کوئی حکم بھی ایسا نہیں جو انسانی امن برباد کرنے والا ہے ۔پس یہ پیغام ہے جو اپنوں اور غیروں کو دینا ہمارا کام ہے آج اور یہی دنیا کے امن کی ضمانت ہے ۔
آج یہ کام مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے سپرد کیا گیا ہے ۔اگر ہم نے بھی گھریلو سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک اسکے مطابق اپنا کردار ادانہ کیا تو ہمارے امن وسلامتی میں رہنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے ،نہ ہی ہماری نسلوں کی امن وسلامتی میں رہنے کی کوئی ضمانت ہے اور نہ ہی دنیا کے امن وسلامتی کی کوئی ضمانت ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لے جانے کا ذریعہ بنائے ۔اللہ تعالیٰ احسن رنگ میں ہمیں یہ فرض اداکرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔‘‘(اختتامی خطاب برموقع جلسہ سالانہ جرمنی ستمبر 2022ء)

…٭…٭…