اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-07-27

خاتم النّبیینﷺ

حسنِ یوسف دمِ عیسیٰ ید بیضا داری         آنچہ خوباں ہمہ دارند تُو تنہا داری
(حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ)

دنیا میں ہزاروں حسین گزرے اور ہزاروں موجود ہیں لاکھوں اہل علم گزرے اور لاکھوں موجود ہیں ۔ ہر طرح کی خوبیاں رکھنے والے بہت سے گذر چکے ہیں اور بہت سے موجود ہیں ۔ دیندار اور خدا سے تعلق رکھنے والے ہمیشہ سے چلے آئے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ بادشاہ ،فاتح ، موجد، فلاسفر، غرض ہر بات میں کمال رکھنے والے نہ کبھی مفقود ہوئے نہ ہونگے۔ مگر مجھے تو کسی ایسے شخص کی تلاش تھی جو تمام کے تمام کمالات انسانی اپنے اندر رکھتا ہو ۔ کوئی ایسا حسن نہ ہو جو اس میں بدرجہ کمال موجود نہ ہو ۔ پھر وہ ان تمام خوبیوں سے دوسروں کو بھی آراستہ کر سکتا ہو ۔ کنجوس حسین کے نام سے مجھے نفرت ہے ۔ اور بد شکل محسن سے بھی کوسوں بھاگتا ہوں ۔متکبر نہ ہو مجھے دیکھے تو مسکرائے بلکہ خود بلائے۔ اسکی صحبت سے میرا دل گرم اور سینہ منور ہو اور اسکے نام کی لذت سے میری زبان تمام اور لذات کو بھول جائے اور اس کی یاد سے میرا تاریک کنج دماغ روضہ من ریاض الجنہ بن جائے۔
ماضی اور حال دونوں زمانوں کو میرے علم اور نظر اور تخیل نے گھنگول ڈالا۔ جسے دیکھتا ہوں اس میں کہیں نہ کہیں کوئی نقص پاتا ہوں ۔ کوئی نہ کوئی کمی نظر آتی ہے۔ میں پہلے ہی اپنے دوستوں میں عیب چین مشہور ہوں ۔ جب نظر پڑتی ہے تو پہلے نقص پر ہی ۔ اس لئے جہاں اور لوگ ٹھہر گئے میں وہاں سے منہ بناتا ہوا آگے روانہ ہوا ۔ یا اللہ تمام دنیا میں کوئی ایسا حسین بھی ہوا ہےجو بے عیب ہو جس پر تمام انسانی کمالات ختم ہوں ۔ ہوگا تو سہی اور ضرور ہوگا ۔ بادشاہ دیکھے مگر عیاش اور حریص ۔ فلاسفر اور حکما ء دیکھے مگر نکمے۔ حسین دیکھے مگر بے ہودہ بہادر دیکھے مگر ظالم اور خود پرست شاعر دیکھے مگر یاوہ گو اور بزدل ، اہل قلم دیکھے مگر بے علم اور متخیل ، ریفار مر دیکھے مگر خشکی ،اہل اخلاق دیکھے مگر ناقص غرض بازار عالم میں ہر پھر کر سب کو دیکھا ۔ نا امید ی سی ہوگئی ۔ گو ہر مراد نہ ملا۔ اتنے میں کسی نے کہا ذرا زمرئہ انبیاء پر بھی تو نظر کرو ۔دنیا کی ظاہری ٹیپ ٹاپ پر نہ جائو۔ جب ان کو دیکھا تو وہ ناامیدی دور ہوئی۔ عجب لوگ نظر آئے۔ جن کا کام حسن ،کلام حسن، شکل اچھی ، اخلاق اچھے ، عادات پسندیدہ ، کوئی کونہ تاریک نہ تھا ۔ دل کو بڑی ڈھارس ہوئی ۔ ان سب کا جائزہ لیا۔آکر گوہر مراد مل گیا ۔ یعنی جسکی تلاش اور جستجو تھی وہ نکل آیااور نکلا بھی کہاں سے عرب کے جھلستے ریگستان اور بے آب و گیاہ کوہستان کی کان سے۔ جہاں نہ علم نہ عقل نہ ہدایت نہ تہذیب نہ تمدن نہ حکومت نہ سلطنت ،اور ملا بھی وہ جسے انسان کامل کہوں،سب سے بڑا آدمی کہوں سجھ میں نہیں آتا کیا کہوں آنکھیں اس کےحسن کو دیکھ کر خیرہ ہو گئیں اور حریص فطرت اس کے احسانات کو لے لیکر کمر شکستہ ۔ نام پوچھا تو محمد ؐ! سبحان اللہ ! میں بھی تو ’’ محمد ؐ ‘‘ ہی کی تلاش میں تھا ۔ یعنی جس میں کوئی نقص نہ ہو۔ سراسر خوبیاں ہی ہوں ۔ ہر تعریف کے لائق صفت موجود ہو۔ ہر حسن نمایا ں ہو ، کمالات انسانی کا خاتم۔ نہ ایسا کوئی ہوا نہ ہو۔ صدقے اس نام کے، نام بھی کسی نے چن کر ہی رکھا ۔

حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری             آنچہ خوباں ہمہ دارند تُو تنہا داری

کمال انسانیت کے معیار

میرا معیار دنیا کے سب سے بڑے انسان کیلئے کیا تھا ؟ وہ کن کمالات اور محاسن کا مجموعہ ہو؟ سنئے:
(1)کمال درجہ کا جسمانی حسن اور دماغ اور عقل رکھتا ہو (2)حسب و نسب کے لحاظ سے چوٹی کے شرفاء میں سے ہو (3)کمال اخلاق سے مزّین ہو اور ہر قسم کے اخلاق دکھانے کا اسے موقعہ بھی ملا ہو (4)کمال علم(5)کمال تعلیم یا اضافہ علم(6)کمال جذب اور قوت قدسی (7)کمال کامیابی (8)کمال شفقت اور خیر خواہی مخلوقات کیلئے رکھتا ہو (9)کمال محبت اور تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو(10)کوئی فرضی یا مجہول الاحوال انسان نہ ہوبلکہ ایسا ہو کہ اسکی ہر حرکت اور سکون ہر قول اور فعل اور زندگی کے ہر شعبہ کا مفصل علم بکثرت ثقہ راویوں کی معرفت ہم کو ملا ہو (11) مجسم زندگی ہواور دوسروں کو اپنے اثر سے زندہ کرتا ہو ۔ سفلی اور حیوانی زندگی نہیں بلکہ حیات ابدی اور ایسی زندگی جس میں روح القدس نازل ہوکر اس خاک تیرہ کو بقعۂ نور بناوے۔ سو یہ سب باتیں ہم نے محمد ؐاور صرف محمدؐ ہی میں پائیں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

حسن جسمانی

میانہ قد ، موزوں اندام، سرخ و سفید رنگ، چوڑی پیشانی ، ناک لمبی اور سیدھی ، گردن اونچی ، سر بڑا، سینہ کشادہ ، آنکھیں سیاہ ، پسینہ میں خوشبو، جلد نہایت نرم ، تیز رفتار، گفتگو نہایت شیریں اور دل آویز ، ٹھہر ٹھہر کر بات کرتے تھےایک ایک فقرہ الگ الگ ۔ آواز بلند، بے ضرورت گفتگو نہ فرماتے تھے۔ قہقہہ نہ مارتے تھے بلکہ مسکراتے تھے۔ ہمیشہ خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔خوش لباس تھے ،جامہ زیب تھے،خوشبو پسند فرماتے تھے۔ نہایت صاف و پاک رہتے تھے۔ ہمیشہ مسواک کرتے تھے۔ خوشی کے وقت چہرہ کندن کی طرح چمکنے لگتا ۔ ہمیشہ چست رہتے تھے۔ سر سے پیر تک جسم میں کوئی عیب نہ تھا بدبودار چیزوں سے سخت نفرت تھی۔عبد اللہ بن سلام یہودی نے جب پہلے پہل آپؐکو دیکھا تو بے اختیار بول اٹھے کہ ’’خدا کی قسم یہ جھوٹے کا چہرہ نہیں ہے۔‘‘ جابر کہتے ہیں آپؐکا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح تھا۔ براء ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کوئی شخص آپؐسے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا۔ انسؓ کہتے ہیں کہ میں نے دیبا اور حریر بھی آپؐکی جلد سے زیادہ نرم نہیں دیکھے۔ مشک اور عنبر میں بھی آپ کے بدن سے زیادہ خوشبو نہ تھی ۔ جس گلی کوچہ سے نکل جاتے وہ معطر ہوجاتا۔ خودآئینہ دیکھ کر دعا فرمایا کرتے تھے اَللّٰھُمَّ کَمَا اَحْسَنْتَ خَلْقِیْ فَاَحْسَنْ خُلْقِیْ۔ اے اللہ ! جس طرح تو نے میری بناوٹ اور جسم کو خوبصورت بنایا ہے اسی طرح میرے اخلاق بھی نہایت اعلیٰ کردے۔

عقل کا کمال

اگر چہ عقل کا کمال اخلاق کے اظہار سے ظاہر ہوتا ہےاور جس کے اخلاق نہایت اعلیٰ ہوں ،اس عقل بہر حال نہایت بہرحال اعلیٰ تسلیم کرلینی پڑیگی ۔ مگر اور دنیا کی باتوں میں بھی آپ کی عقل عجیب ممتاز نظر آتی ہے۔ مثلاً آپ کی دنیا سے بے تعلقی آپ کے کمال عقل پر دلالت کرتی ہے۔لاکھوں جاں نثار موجود ہیں۔ تمام عرب زیرنگین ہے۔ فتوحات وغیرہ کا مال چلا آتا ہے۔ مگر انتقال ہوا تو کھدر کی ایک تہ بند اور پیوند لگا ہوا ایک کمبل آپ کے اوپر تھا۔ زرہ ایک یہودی کے ہاں گروی پڑی تھی۔ترکہ میں نہ کوئی لونڈی چھوڑی نہ غلام،نہ روپیہ نہ پیسہ ،دو دو مہینے گھروں میں آگ نہ جلتی تھی ۔ کبھی نفیس اور امیرانہ کھانے عادتاً نہ کھاتے تھے ۔ تمام عمر نہایت سادہ اور زاہدانہ طور سے زندگی بسر کر دی یہ کمال عقل کی دلیل ہے۔
ایک نمونہ آپ کے کمال عقل کا آپ کی سپہ سالاری اور فوج کا انتظام ہے۔ ہمیشہ میدان جنگ میں فوج کو اس ترتیب سے جماتے اور اس طرح لڑاتے کہ باوجود دشمن کی کثرت اور اپنی قلت کے ہمیشہ فتح آپ کو ہی ہوتی تھی۔ صرف احد میں کچھ چشم زخم پہنچا۔ وہ بھی آپ کے حکم کی نافرمانی کی وجہ سے ۔
پھر آپ کے عقل کا کمال یہ ہے کہ اکیلے اٹھے اور باوجود ہر قسم کی مخالفتوں کے اکیلے ہی تمام عرب پر غالب آگئے اور جب وفات پائی تو تمام عرب شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک آپ کے زیر نگین تھا۔
پھر آپ کے عقل کا کمال یہ ہے کہ آپ نے جنگ کرکے نہیں بلکہ ہمیشہ صلح کے طریقوں سے اس ملک اور اس قوم کو مغلوب کیا ۔ حکمت عملی سے تمام فتوحات آپ کی ہوئیں ۔ بغیر جنگ کے فتح مکہ، رشتہ داریوں کی وجہ سے قوموں کا مطیع ہونا ۔ معاہدات کی وجہ سے اسلام کو امن ملنا ۔ یہ سب نمونے آپکی عقل و فراست کے ہیں۔
اسی طرح مختلف ضروریات کے پورا کرنے اور موزوں لوگوں کا انتخاب ۔ یہودیوں اور منافقین کی کاروائیاں اور فسادات مٹانے کیلئے باموقعہ تجاویز ۔ مئولفۃ القلوب لوگوں کا خاص خیال اور یہ سب باتیں ایک ایسے ملک میں جس میں کوئی سیاست کوئی اتحاد ، کوئی گورنمنٹ نہ تھی، آپ کی فراست اوردور اندیشی پر دلیل ہیں۔
حدیبیہ میں 1400دماغ آپ کی رائے سے مخالف تھے۔ ایک ایک نے اس وقت درخت کے نیچے اپنی جان دینے پر بیعت کی تھی۔اور دب کر صلح کر لینا اسلام کی تباہی کے مترادف سمجھتے تھے۔ مگر ایک اور صرف ایک صحیح عقل والا دماغ تھا جس نے سب کی مخالفت کی اور بظاہر گویا ہر طرح دب کر صلح کی ۔ پھر واقعات نے بتا دیاکہ وہ ذلت نہیں تھی بلکہ اسلام کی فتح اور حقیقی عزت اور ظہور کا آغاز وہی عہدنامہ تھاجس کے سبب مذہبی آزادی فریقین کو ملی اور اسلام اپنے عقلی دلائل اور سچے روحانی اثر سے ایک سیلاب کی طرح پھیلنا شروع ہوگیا۔
عمر خطابؓجیسا مدبر اور عقلمند شخص بھی کوئی گذرا ہے مخالفین اسلام سے پوچھو ۔ وہ متفق اللفظ ہیں اس بات پر کہ عمرؓدنیا کے بے نظیر مدبروں اور عقلمندوں میں ایک درخشندہ گوہر تھا۔ پھر اسی عمرؓکو آنحضرتؐکی مجلسوں میں بار ہا غلطیاں کرتے اور عقل سیکھتے دیکھو پھر استاد اور شاگرد کا مقابلہ کرو تو معلوم ہوگا کہ عمرؓایک قطرہ تھا اس سمندر کے آگے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔

نسب کے لحاظ سے چوٹی کے شرفا میں سے تھے

اعلیٰ نسب بھی آدمی کا ایک بڑا حسن ہے ۔ جسمانی اور اخلاقی محاسن بہت سے نسباً انسان کو حاصل ہوتے ہیں۔ابراہیمؑ اللہ کا خلیل ، انبیاء کا باپ اور مذہبی اقوام کا مورث اعلیٰ پھر اسکے خاندان کی بڑی شاخ یعنی اسماعیل کی نسل، پھر اس نسل میں سب سے معزز قوم قریش۔ پھر قریش میں سب سے عزت دار بنو ہاشم پھر اس میں عبد المطلب جیسے سردار کا پوتا عبد اللہ کا بیٹا اور آمنہ کا لخت جگر، کیوں کر نہ تمام دنیا میں سب سے زیادہ نسباً شریف ہو ۔ قوم آزاد ، ملک آزاد، حرم خداوندی کے سایہ میں پلنے والا، شکل و صورت میں ابراہیم سے ہوبہو مشابہ ، کریم ابن کریم ابن کریم،’’وہ نبی‘‘ دعائے خلیل مثیل موسیٰ، نوید مسیحا، صلی اللہ علیہ وآلہ سلم، غرض اس نے جو یہ کہا ’’انا سید ولد آدم‘‘۔ تو درحقیقت سچ کہا۔

اعلیٰ ترین اخلاق

خود دعویٰ کیا کہ بُعِثْتُ لِاُ تَمِّم مَکَا رِمَ الْاَخْلَاقِکلام خداوندی نے تصدیق کی کہ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقِ عَظِیْم۔اوائل عمر میں حضرت خدیجہ ؓ نے گواہی دی کہ تو وہ شخص ہے جو صلہ رحمی اور مہمان نوازی کرتا ہے۔ اور جو نایاب اخلاق ہیں وہ تجھ میں پائے جاتے ہیں ۔ اور ہر مصیبت کے وقت لوگوں کیلئے سینہ سپر ہوکر کھڑا ہو جاتا ہے۔ کیا تُو کہیں ہلاک ہو سکتا ہے؟مرنے کے بعد راز دار عائشہؓنے گواہی دی کہ ’’کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنُ ‘‘ وہ تمام باتیں جنہیں قرآن نےبُرا کہا ہے آپؐمیں نہ تھیں اور جس کے کرنے کا حکم دیا ہے وہ سب آپ کیا کرتے تھے۔پھر تمام قوم نے آپ کو صادق اور امین کا خطاب دے رکھا تھا۔ قرآن نے آج تک دنیا کو چیلنج دے رکھا ہے فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُـرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ کوئی گناہ یا عیب میرا نبوت کے دعویٰ سے پہلے ثابت کرو قیصر کے دربار میں کفار کا لیڈر اور قریش کی فوج کا جرنیل ابوسفیان اقرار کرتا ہے کہ ہم نے کبھی آج تک اس شخص کو جھوٹ بولتے نہیں سنا۔
ایک ایک خلق بیان کروں تو ایک کتاب بن جائے۔ صرف دو تین پر اکتفا کرتا ہوں :

شجاعت

حنین کے موقعہ پر مخالف تیر اندازوں کے حملہ سے ساتھی سب علیحدہ ہو جاتے ہیں مگر وہ اکیلا دشمنوں کے سامنے آگے بڑھتا جاتا ہےاور پکار کر کہتا جاتا ہے میں وہ نبی ہوں ۔ اس میں جھوٹ نہیں ۔ عبدالمطلب کا بیٹا ہی ہوں۔ایک غزوہ میں آپ اکیلے ایک جگہ سوجاتے ہیں ۔ دشمن کا سردار سر پر پہنچ جاتا ہےاور تلوار سونت کر جگاتا ہے اور کہتا ہے بتا اب اس وقت کون تجھے بچا سکتا ہے۔ وہ شجاعت مجسم لیٹے لیٹے ہی کہتا ہے ۔ اللہ۔ اور اس دبدبہ اور رعب اور ہیبت سے کہتا ہے کہ دشمن کے ہاتھ سے ڈر کے مارے تلوار گر پڑتی ہے۔
علیؓشیر خدا جیسا بہادر انسان فرماتا ہے کہ آنحضرت ؐہمیشہ لڑائی میں سب سے زیادہ خطرناک مقام پر ہوا کرتے تھے اور آپ کے ارد گرد وہی لوگ کھڑے ہوسکتے تھےجو بڑے بہادر ہوں اور دشمن کی سخت پورش کے وقت ہم آپ کی پناہ لیا کرتے تھے۔

عفو اور رحم

21 سال کے دن رات مظالم سہنے کے بعد آپ مکہ میں فاتحانہ حیثیت سے داخل ہوتے ہیں۔ کعبہ کے صحن میں کھڑے ہیں ۔ بڑے بڑے رؤساء اور اکابر کفار پیش ہوتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہےبتاؤ تم سے اب کیا سلوک کیا جائے ۔ وہ اپنی بے بسی دیکھ کر یہی کہتے ہیں کہ آپ شریف اور کریم ہیں جو کریں گے بہتر کریں گے ۔ حکم ہوتا ہے جاؤ تم سب آزاد ہو ۔ نہ صرف یہ کہ کوئی سزا نہ ملے گی بلکہ تمہارے کئے پر ملامت بھی نہیں کروں گادشمن جانی ابوجہل کا بیٹا مسلمان ہوکر آیا تو حکم دیا کہ اس کے باپ کا ذکر برے الفاظ میں کوئی نہ کرے کیونکہ طبعاً اس سے بیٹے کو رنج پیدا ہوگا ۔ چاہتے تو ایک ایک کی گردن اڑوادیتے مگر باوجود اختیار ہونے کے اور حق کے ہونے کے پھر وہ نمونہ عفو اور کرم کا دکھایا کہ دنیا اس کا مثل لانے سے عاجز ہے ۔
طائف کے اوباش کئی میل تک پتھراؤ کرتے چلے آئے ۔فرماتے کہ مجھے ہوش نہ تھا کہ کدھر جارہا ہوں ۔ سر سے پیر تک لہولہان تھا۔ حکم الٰہی آیا کہ اگر چاہو تو ابھی عذاب نازل کر دوں ۔ فرمایا نہیں مجھے امید ہے کہ ان کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو ایک خدا کی عبادت کریں گے۔
احد کا میدان ہے ۔ سر زخمی ہوگیا ۔ چہرہ میں زرہ گھس گئی ۔ چار دانت سامنے کے ٹوٹ گئے ۔ اس وقت دعا ہورہی ہے کہ اَے ربّ میری اس قوم کو بخش دے کیونکہ یہ نادانی سے مخالفت کر رہے ہیں۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں ساری عمر کبھی آپؐنے اپنی ذات کی خاطر کسی سے انتقام نہیں لیا۔
آپ پر دونوں قسم کے زمانے آئے۔ پہلا جوانی، مغلوبیت، مصیبت ،مخالفت اور مفلسی کا۔ پھر حکومت فتوحات، بادشاہی، عزت اور دولت کا ۔دونوں زمانوں میں آپ نےوہ کمال اخلاق کا دکھایا کہ دنیا حیرت سے انگشت بدندان ہے ۔ پہلے زمانہ میں حیا ، عفت، صدق، امانت ، صبر، وقار، قناعت، استقلال اور استقامت۔ بیخوف تبلیغ، اولوالعزمی وغیرہ اخلاق نہایت نمایاں طور پر ظاہر ہوئےاور دوسرے زمانہ میں رحم ، کرم ، عفو، بخشش، سخاوت، ثابت قدمی، ایثار، چشم پوشی، شجاعت، اطاعت قانون، پابندی عہد ، حلم ، خاکساری اور دنیاوی راحت و آرام سے کنارہ کشی ۔ حسن معاشرت غرض کہاں تک بیان ہوسکے۔

کمالِ علم

علم انسان کی بہترین زینت بلکہ مدعائے انسانیت ہے ۔آدم کا کمال اس کا علم ہے۔ علم کی اتنی پیاس کہ تمام عمر خدا سے رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا کا ہی سوال رہا ۔ اگر علم کا اتھاہ سمندر دیکھنا ہو تو قرآن اور احادیث کا مطالعہ کرو۔ پھر ان جوامع الکلم کو دیکھو جو آپ نے بیان فرمائے ہیں اور جن میں ایک ایک فقرہ میں علوم کے خزانے ہیں۔ پھر آپ کی زندگی کو دیکھو کہ بے نظیر جرنیل ، بے نظیر خطیب، بے نظیر مرشد، بے نظیر مفتی، بے نظیر مجسٹریٹ، بے نظیر مدرس، بے نظیر خاوند، بے نظیر باپ،بے نظیر دوست، بے نظیر مدبر، بے نظیر مبلغ ، غرض کوئی شعبہ زندگی کا ایسا نہ تھا جس میں آپ کا کمال حسن ظاہر نہ ہو۔پھر ہر حکم جو دیا اس میں حکمت تھی ۔ پھر علم کا وہ سمندر کہ اسلام کا ہر شعبہ آپ کے اقوال اور افعال کی بنا پر قائم ہوا ۔ پھر آج تک پیشگوئیاں آئندہ کی پوری ہوتی چلی آرہی ہیں۔ پھر قیامت ، برزخ ، حشر، نشر، جنت ،دوزخ کا تفصیلی علم ۔ پھر سب سے زیادہ ضروری اللہ تعالیٰ کی صفات اور اسماء کا علم جو گویا دنیا میں بالکل موجود ہی نہ تھا۔

کمال تعلیم

جو تعلیم اور شریعت آپ دنیا کیلئے لائے اس میں ایسی خصوصیات ہیں جو کسی اور تعلیم میں نہیں ہیں وہ آسان ہے، وہ عالمگیر ہے، وہ مکمل ہے، وہ مدلل ہے۔ یہ چاروں باتیں دنیا کی کسی بہتر سے بہتر شریعت یا تعلیم میں بھی پائی نہیں جاتیں یا تو ان میں مشکل اور ناقابل عمل باتیں ہیں یا وہ مختص القوم یا مختص الملک ہیں، یا وہ غیر مکمل ہیں یا وہ بے دلیل زبردستی منوائی جاتی ہیں ۔ ان کے ساتھ عقلی دلائل نہیں بیان کئے گئے۔

کمال جذب یعنی قوت قدسی

فَاذْہَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰہُنَا قٰعِدُوْنَ حضرت موسیٰ کے ماننے والوں نے کہا اور 30روپیہ کے بدلہ اپنے خداوند کو پکڑ وا دینا اور چار سپاہیوں کے ڈر سے تین دفعہ مسیح ناصری پر لعنت کرنا، یہ نمونہ ہے جو دنیا کے دو بڑے مقتدر رہنماؤں کے صحبت یافتہ اصحاب نے دنیا کو دکھایا ۔ باقی سب ان کے نیچے ہی ہیں ۔ مگر جو نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب نے سچی قربانیوں اور جاں نثاروں کا پیش کیا ہے اس کا ہزارواں حصّہ بھی ہمیں تاریخ میں کسی جگہ نظر نہیں آیا۔
عبداللہ ابن سلول منافق نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی میں کچھ باتیں کہیں ۔ اس کے لڑکے کو اس کا علم ہوا تو حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ ! اگر آپ حکم دیں تو میں خود اپنے باپ کا سر اڑا دوں۔ حالانکہ میں اپنے باپ کا بڑا خدمت گزار ہوں۔ احد کی جنگ میں صحابہ نے جو جاں نثاری کے نمونے آپ کی تصدق ہونے کے پیش کئے وہ تاریخ عالم میں آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ ایک دفعہ حضرت عمر کو معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپؐکی بیویوں نے ناراض کیا ہے ۔ آپؐاس وقت الگ بالا خانہ پر تھے۔ حضرت عمر مزاج پرسی کو گئے ۔ دربان نے انکو اندر نہ جانے دیا ۔ وہیں سے آواز دی یا رسول اللہ ! عمر اپنی حصفہ کی سفارش کیلئے نہیں آیا ۔ اگر ارشاد ہو تو حفصہ کا سر کاٹ کر قدموں میںڈال دوں۔ غرض ایک شراب عشق محمدؐ تھی جو تمام صحابہ نے پی رکھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپکا ہر قول و فعل ہر حرکت و سکون انہوں نے عاشقانہ نظر سے دیکھا اور ہم تک پہنچایا۔ وہ شمع رسالت کے پروانے تھے اور آپ کی قوت قدسی کا نمونہ ۔ پس ثابت ہوا کہ جیسا کہ آپ کی جسمانی اور اخلاقی حالت نہایت خوب اور اعلیٰ تھی اسی طرح آپ کی روحانی قوت بھی کمال درجہ کا جذب اور اثر اپنے اندر رکھتی تھی۔
شراب عرب کی گھٹی میں پڑی تھی ۔ گھر گھر بنتی تھی اور کم از کم پانچ وقت پی جاتی تھی ۔آپ کا نقیب حکم پاکر نکلا اور اعلان کر دیا کہ آج سے شراب حرام ۔ اسی وقت مدینہ میں جتنی شراب تھی سب لنڈھا دی گئی ۔ گلیوں میں بارش کے پانی کی طرح بہتی تھی ۔ پھر پتہ نہ لگا کہ شراب کہاں گئی ۔ وہ عادی شراب کس طرح غائب ہوگئے ۔ لوگوں نے برتن تک توڑ دیئے جن کی رگوں میں بجائے خون کے شراب دوڑا کرتی تھی ۔ ان کے منہ سے پھر کسی نے اسکا نام بھی نہیں سنا۔ کیا یہ تعجب نہیں کہ ایک فرد واحد اَن پَڑھ نے عرب کے ان اُجڈوں ، گنواروں ، جاہلوں ، مشرکوں، توہم پرستوں ، جھوٹوں ، ڈاکوؤں ، قاتلوں، شرابیوں، چوروں، زانیوں، غاصبوں، خائنوں ، کینہ وروں، بےوفائوں ، مفلسوں ، مفسدوں، دہریوں، بے عزتوں اور فتنہ پردازوں کو تھوڑے عرصہ میں متقی، نیک، صالح، صدیق، عقلمند، عالم، عفیف،منتظم ، مدبر، امین، با حیا، دیندار، شجاع ، صاحب اخلاق حسنہ، امیر، حاکم، بادشاہ اور اہل اللہ بنا کر دنیا کا استاد ، فاتح اور مصلح بنا دیا۔ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

کمال کامیابی

آپ کی کامیابی بھی بے نظیر اور مستقل تھی ۔ آپ کے دعویٰ کے وقت تمام شہر، تمام قوم، اور تمام ملک آپ کا مخالف تھا۔ اور جو مظالم آپ پر یا آپ کے ماننے والوں پر کئے گئے وہ سنکر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مگر 23 سال کے قلیل عرصہ میں تمام ملک عرب نے آپ کے آگے اپنا سر نگوں کر دیا اور لا الہ الا اللہ کے سوا اور کوئی بت یا معبود اس سر زمین میں باقی نہ رہا ۔ مخالفین اور ان کے حمایتی جتنے معبود تھے سب ہار گئے اور پیروں میں آگرے ۔ یہ تو فوری کامیابی تھی۔
مستقل کامیابی یہ کہ اسلام تمام متمدن اور مہذب دنیا پر قلیل عرصہ میں پھیل گیااور جڑ ھ پکڑ گیا ۔ پھر کامیابی یہ کہ دنیا سے شرک کا نام اُٹھ گیا۔ اس وقت تمام مذہبی قومیںمؤحد ہونے کی مدعی اور ایک خدا کی قائل ہیں۔ اور یہ پھل اس لا الہ الا اللہ کی آواز کا نتیجہ ہے جو 1300 سال ہوئے عرب کے ریگستان سے بلند ہوئی تھی۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ علاوہ توحید کے اسلام کے دوسرے اصول اور مسائل علمی طور پر دوسری قومیں مفید سمجھ کر اپنے ہاں داخل کر رہی ہیں ۔ مثلاً طلاق، خلع، شراب اور نشوں کا ترک کرنا، مشورے سے کام کرنا، گوشت خوری سود پر روک تھام، مردوں عورتوں کا الگ الگ رکھناوراثت میں لڑکیوں اور عورتوں کو حصہ دینا ختنہ کرانا، حلال حرام کی تمیز ، رشتوں میں ، کھانوں میں ، کمائی میں وغیرہ وغیرہ۔
ایک عظیم الشان کامیابی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہوئی اور کسی انسان کو دنیا میں حاصل نہیں ہےوہ یہ کہ آپ پر کروڑوں انسان 1300 سال سے ہر روز ہر وقت اور ہر گھڑی زمین کے ہر ملک اور ہر حصہ میں درور بھیجتے ہیں اور آپ کیلئے خاص رحمتوں اور خاص برکتوں کی دعا کرتے ہیں۔ اگر دعا کوئی چیز ہے ، اگر اس کا کوئی اثر ہے اور انسان کی توجہ میں کوئی طاقت ہے اور کوئی خدا اس زمین و آسمان کا ہے جو دعاؤں کو سنتا اور انکو قبول کرتا ہے تو پھر یہ بھی یقینی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے برابر کوئی شخص ایسا نہیں جو اس فیض اور نعمت سے بہرہ یاب ہوا ہو۔ آپ کو دنیا میں سب سے افضل اور سب سے زیادہ مورد رحمت الٰہی ثابت کرنے کے لئے یہی اور صرف یہی ایک خصوصیت کافی تھی،اگر اور کوئی نہ بھی ہوتی ۔ پس جو شخص یا قوم یا مذہب دعا کا قائل ہے ، اسے اسکا بھی قائل ہونا پڑے گا کہ محمد رسول اللہ دنیا میں اکیلا انسان ہے جو خدا تعالیٰ کی خاص رحمتوں اور برکات کا مورد ہے ۔ اس کے برابر تو کیا کوئی اس کا پا سنگ بھی نہیں ہے۔

مخلوق پر کمال شفقت اور خالق سے کمال محبت

مضمون لمبا ہوگیا کیونکہ حکایت لذیذ بود ۔ در از تر گفتم ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخلوق پر شفقت پرلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَگواہ ہے۔ انسان تو انسان جانور تک آپ کی شفقت سے محروم نہیں رہے۔ زندہ درگور کرنا آپ نے بند کیا، عورتوں اور لڑکیوں کو آپ نے ورثہ دیا۔ مثلہ کرنا آپنے موقوف کیا ۔ غلاموں ، ادنیٰ قوموں ، عورتوں غرض ہر گرے ہوئے انسان کو اٹھا کر آپ نے آگے بڑھایا۔ پھر کفار کا یہ کہنا کہ محمد ؐ تُو اپنے ربّ کے عشق میں دیوانہ ہوگیا ہے ۔ اس محبت کے سمجھ لینے کو کافی ہےجو آپ کو اپنے خدا سے تھی۔ یہاں تک کہ دم وصال بھی بالرفیق الا علیٰ کے ہی کلمات منہ سے سنائی دیتے۔

زندہ نبی

کمال حسن وہی دل پسند ہے جو عارضی نہ ہو بلکہ دیر پا ہو ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ صرف حسن مجسم تھے ۔بلکہ احسان مجسم بھی تھے۔ آپ کی خوبیاں آپ تک ہی محدود نہ تھیں بلکہ ان میں یہ بھی کمال ہے کہ جو شخص جتنا جتنا آپ کی اتباع اور محبت کے ساتھ ان کو اختیار کرے اتنا اتنا وہ بھی مقبول بار گاہ الٰہی ہو جاتا ہے۔
جب سے اس جہان میں آپ کا ورود ہوا سنت اللہ یہی ہوگئی کہ درگاہ الوہیت میں داخلہ کیلئے پہلے یہی پوچھا جاتا ہے کہ تم محمد ؐ کی امت میں ہو یا نہیں۔دوسرا سوال یہ ہوتا ہے کہ محمدؐ سے کتنی مشابہت پیدا کی ہے ۔ ان دونوں سوالوں کے تسلی بخش جواب پر آستانہ احدیت میں داخلہ کی اجازت ہوتی ہے اور حسبِ مراتب جگہ ملتی ہے۔ تمام پہلی شریعتوںکے طومار لپیٹ دیئے گئے۔اور تمام گزشتہ انبیاء کا سکّہ منسوخ ہو چکا۔اب صرف ایک شریعت رائج الوقت اور ایک نبی زندہ نبی ہے اور تاقیامت زندہ رہے گا۔اور وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے۔ثبوت کیلئے یہی مشاہدہ کافی ہے کہ آپکی بعثت سے آج تک کسی اور نبی کے متبع نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ مجھے اپنے نبی کے فیض سے الٰہی کلام اور الہام کا شرف حاصل ہوا ہے ۔ یہ فیض آپ کے آنے کے بعد صرف امت محمدیہ سے ہی مخصوص اور محدود ہو گیا ہے۔ جس میں آج تک ہزاروں لاکھوں ایسے گذرے ہیں اور موجود ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کے طفیل دروازہ کلام الٰہی کاکھلا اور خدا تعالیٰ کا وصال اور قرب نصیب ہوا۔ پس اس طرح سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم زندہ نبی ہیں کہ آپ لوگوں کو خدا سے ملاتے اور ہمکلام کراتے ہیں اور آپ کی مماثلت ، آپ کی مشابہت ، آپ کی متابعت اور آپ کی محبت خدا تعالیٰ کے قرب کا وسیلہ ہے۔ جتنا جتنا کوئی اخلاق میں ،عادات میں ،عبادات میں ،علم میں ، محبت الٰہی میں آپ کا مشابہ ہوتا جاتا ہے، اتنا ہی خدا تعالیٰ کے ہاں اسکا درجہ بلند ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ آخر مقام وصل الٰہی یعنی اس دنیا میں اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف حاصل کرتا ہے ۔ اور یہی وہ شفاعت ہے جو دنیا میں انسانوں کیلئے آپ کے فیض سے جاری ہے اور آخرت میں یہی ایک بڑے پیمانہ پر ظاہر ہوگی ۔ کسی اور نبی کا اتباع اب کسی شخص کو اللہ تعالیٰ کا مقرب نہیں بنا سکتا نہ کسی اور شریعت پر عمل کرنا اسے کسی درجہ کاوارث کر سکتا ہے۔ اب یہ رتبہ محمدؐاور صرف محمدؐ میں ہوکر مل سکتا ہے ۔ جسے شوق ہو اور ضرورت ہو وہ اٹھے اور اسی دروازہ کے رستہ سے محبوب الٰہی کے دربار میں حاضر ہو ۔ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ ۔ہم خود گواہ ہیں اس زندہ نبی کے فیض سے یہ زمانہ بھی محروم نہیں رہا اورحضرت مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ظہور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کا پرتو بڑی شان اور تجلی سے دنیا میں ظاہر ہوا۔ والصلوٰۃ والسلام علےٰ محمد ؐوآلہ و اصحابہ وعلی المسیح الموعود۔

(بحوالہ الفضل قادیان 12؍جون 1928ء)
…٭…٭…٭…