اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




دُنیا کو آزادی دینے والا نبی


( حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ)

مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ مَیں بھی الفضل کے خاص نمبر کیلئے مضمون لکھوں اور مَیں سمجھتا ہوں کہ اس نمبر میں جو رسول کریم ﷺ کے اعلیٰ درجہ اور ارفع شان کے اظہار کیلئے شائع ہونے والا ہے مضمون لکھنا ایک ثواب کا کام ہے۔ پس باوجود اسکے کہ ان دنوں  میں سخت عدیم الفرصت ہوں اور پھر ساتھ ہی بیمار بھی ایک مختصر سا مضمون لکھنا ضروری سمجھتا ہوں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر پہلو ایسا شاندار ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ مَیں کس پہلو کو اختیار کروں اور کس کو چھوڑوں اور انتخاب کی آنکھ خیرہ ہو کر رہ جاتی ہے لیکن مَیں اس زمانہ کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مضمون کیلئے آپؐ کی زندگی کے احسن حصہ کو لیتا ہوں کہ کس طرح آپؐ نے دنیا کو اس غلامی سے نجات دلائی ہے جو ہمیشہ سے دنیا کے گلے کا ہار ہورہی تھی اور وہ عورتوں کی غلامی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے عورتیں ہر ملک میں غلام اور مملوک کی طرح تھیں اور ان کی غلامی مردوں پر بھی اثر ڈالے بغیر نہیں رہ سکتی تھی کیونکہ لونڈیوں کے بچے آزادی کی روح کو کامل طور پر جذب نہیں کر سکتے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیشہ سے عورت اپنی خوبصورتی یا خوب سیرتی کے زور سے بعض مردوں پر حکومت کرتی چلی آئی ہے لیکن یہ آزادی حقیقی آزادی نہ تھی کیونکہ یہ بطور حق کے حاصل نہ تھی بلکہ بطور استثناء کے تھی اور ایسی استثنائی آزادی کبھی صحیح جذبات کے پیدا کرنے کا موجب نہیں ہو سکتی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے ہوئی ہے اس وقت تک کسی مذہب اور قوم میں عورت کو ایسی آزادی حاصل نہ تھی کہ اسے بطور حق کے وہ استعمال کر سکے۔ بیشک بعض ملک جہاں کوئی بھی قانون نہ تھا وہ ہر قسم کی قیود سے آزاد تھے لیکن اسے بھی آزادی نہیں کہا جا سکتا اسے آوارگی کہا جائیگا۔ آزادی وہ ہے جو تمدن اور تہذیب کے قواعد کو پورا کرتے ہوئے حاصل ہو ان قواعد کو توڑ کر جو حالت پیدا ہو وہ آزادی نہیں کہلاسکتی کیونکہ وہ بلندہمتی پیدا کرنے کا موجب نہیں بلکہ پست ہمتی پیدا کرنے کا موجب ہوتی ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور اس سے قبل عورت کی یہ حالت تھی کے وہ اپنی جائیداد کی مالک نہ تھی اس کا خاوند اس کی جائیداد کا مالک سمجھا جا تا تھا اسے اسکے باپ کے مال میں سے حصہ نہ دیا جاتا تھا ۔ وہ اپنے خاوند کے مال کی بھی وارث نہیں سمجھی جاتی تھی گو بعض ملکوں میں اس کی حین حیات وہ اس کی متولی رہتی تھی ۔ اسکا نکاح جب کسی مرد سےہوجاتا تھا تو یا تو وہ ہمیشہ کیلئے اسکی قرار دے دی جاتی تھی اور کسی صورت میں اس سے علیحدہ نہیں ہو سکتی تھی اور یاپھر اس کے خاوندکو تو اختیار ہوتا تھا کہ اُسے جدا کر دے لیکن اُسے اپنے خاوند سے جدا ہونے کا کوئی حق حاصل نہ تھا۔ خواہ اسے کس قدر ہی تکلیف کیوں نہ ہو۔ خاوند اگر اس کو چھوڑ دے اور اس سے سلوک نہ رکھےیا کہیں  بھاگ جائے تو اس کے حقوق کی حفاظت کا کوئی قانون مقرر نہ تھا۔ اس کا فرض سمجھا جاتاتھا کہ وہ اپنے بچوں کو اور اپنے آپ کو لے کر بیٹھی رہے اور محنت مزدوری کر کے اپنے آپ کو بھی پالے اور بچوں کو بھی پالے ۔ خاوند کا اختیار سمجھاجاتا تھا کہ وہ ناراض ہو کر اسے مارپیٹ لے اور اس کے خلاف وہ آواز نہیں اٹھا سکتی تھی ۔ اگر خاوند فوت ہو جائے تو بعض ملکوں میں وہ خاوند کے رشتہ دار وں کی ملکیت سمجھی جا تی تھی وہ جس سے چاہیں اس کا رشتہ کر دیں خواہ بطور احسان کے یاقیمت لے کر بلکہ بعض جگہ وہ خاوند کی جائیداد سمجھی جا تی تھی ۔ بعض  خاوند بیویوں کو فروخت کر دیتے تھے یا جوئے اور شرطوں میں ہار دیتے تھے اور وہ بالکل اپنےا ختیارات کے دائرہ میں سمجھے جاتے تھے۔ عورت کا بچوں پر کوئی اختیار نہ سمجھا جاتا تھا نہ خاوند کا زوجیت کی صورت میں نہ اس سے علیحدگی کی صورت میں ۔ عورت گھر کے معاملہ میں کوئی اختیار نہیں رکھتی تھی اور دین میں بھی خیال کیا جاتا تھا کہ وہ کوئی درجہ نہیں رکھتی۔ دائمی نعمتوں میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ خاوند عورتوں  کی جائیداد کو اڑادیتے تھے اور اسکو بغیر کسی گذارہ کے چھوڑ دیتے تھے ۔ وہ بیچاری اپنے مال میں سے صدقہ خیرات یا رشتہ داروں کی خدمت کرنے کی مجاز نہ تھی جب تک کہ خاوند کی مرضی نہ ہو اور وہ خاوند جس کے دانت اسکی جائیداد پر ہوتے تھے کبھی اس معاملہ میں  راضی نہ ہوتا تھا۔ ماں باپ جن کا نہایت ہی گہرا اور محبت کا رشتہ ہے ان کے مال سے وہ محروم کردی جاتی تھی حالانکہ جس طرح لڑکے ان کی محبت کے حقدار ہوتے ہیں اسی طرح لڑکیاں ہوتی ہیں جو ماں باپ اس نقص کو دیکھ کر اپنی لڑکیوں کو اپنی زندگی میں کچھ دیدیتے تھے ان کے خاندانوں میں فساد پڑ جاتا تھا کیونکہ لڑ کے یہ تو نہ سوچتے تھے کہ باپ ماں کر مرنے کے بعد وہ ان کی سب جائیداد کے وارث ہو ں گے ہاں یہ ضرور محسوس کرتے تھے کہ ان کے ماںباپ ان کی نسبت لڑکیوں کو زیادہ دیتے ہیں ۔ اسی طرح خاوند جس سے کامل اتحاد کا رشتہ ہو تا تھا اس کے مال سے بھی اسے محروم رکھا جاتا خاوند کےدُور دُور کے رشتہ دار تو اس کی جائیداد کے وارث ہو جاتے اور وہ عورت جو اسکی محرم راز اور عمربھر کی ساتھی ہوتی جسکی محنت اور جس کے کام کا بہت سادخل خاوند کی کمائی میں تھا وہ اس کی جائیداد سے محروم کر دی جاتی تھی یا پھر وہ خاوند کی ساری ہی جائیداد کی نگران قرار دے دیجاتی لیکن وہ اس کے کسی حصہ میں تصرف سے محروم تھی وہ اس کی آمد کو تو خرچ کر سکتی تھی لیکن اس کے کسی حصہ کو استعمال نہیں کر سکتی تھی اور اس طرح بہت سے صدقات جاریہ میں اپنی خواہش کے مطابق حصہ لینے سے محروم رہتی تھی ۔ خاوند اس پر خواہ کس قدر ہی ظلم کرے وہ اس سے جدا نہیں ہو سکتی تھی یا جن قوموں میں جدا ہو سکتی تھی ایسی شرائط پر کہ بہت سی شریف عورتیں اس جدائی سے موت کو ترجیح دیتی تھیں ۔ مثلاً جدائی کی یہ شرط تھی کہ خاوند یا عورت کی بدکاری ثابت کی جائے اور پھر اس کے ساتھ ظلم بھی ثابت کیا جائے اور اس سے بڑھ کر ظلم یہ تھا کہ بہت سی صورتوں میں جب عورت کا خاوند کے ساتھ رہناناممکن ہو تا تھا تو اسے کامل طور پر جدا کرنیکی بجائے صرف علیحدہ رہنے کا حق دیا جاتا تھا جو خود ایک سزا ہے کیونکہ اس طرح وہ اپنی زندگی کو بے مقصد بسر کرنے پر مجبور ہوتی ہے یا پھر یہ ہوتا تھا کہ خاوند جب چاہے عورت کو جداکر دے لیکن عورت کو اپنی علیحدہ گی کامطالبہ کرنے کا کسی صورت میں اختیار نہ تھا۔ اگر خاوند اسے معلقہ چھوڑ دیتا یا ملک چھوڑ جاتااور خبر نہ لیتا تو عورت کو مجبور کیاجا تا کہ وہ اس کا انتظار عمر بھر کرتی رہےاور اسے اپنی عمر کو ملک اور قوم کیلئے مفید طور پر بسر کرنے کا اختیار نہ تھا ۔ شادی کی زندگی بجائے آرام کے اس کیلئے مصیبت بنجاتی تھی۔ اس کا کام ہوتا کہ وہ خاوند اور بیوی دونوں کا کام بھی کرے اور خاوند کا انتظار بھی کرے۔ خاوند کا فرض یعنی گھر کے اخراجات کیلئے کمانا بھی اسکے سپردہو جاتا اور عورت کی ذمہ واری کہ بچوں کی نگہداشت اور ان کی پرور ش کرے یہ بھی اسکے سپرد رہتا ۔ ایک طرف قلبی تکلیف دوسری طرف مادی ذمہ واریاں ۔ یہ سب اس بیکس جان کیلئے روارکھی جاتی تھیں۔ عورتوں کو مارا پیٹا جاتا اور اسے خاوند کا جائز حق تصور کیا جاتا۔ خاوند وں کے مرنے کے بعد عورتوں کا زبردستی خاوند کے رشتہ داروں سے نکاح کردیا جاتا تھا یا اور کسی شخص کے پاس قیمت لیکر بیچ دیا جاتا بلکہ خاوند خود اپنی عورتوں کو بیچ ڈالتے ۔ پانڈوں جیسے عظیم الشان شہزادوں نے اپنی بیوی کو جوئے میں ہاردیا اور ملک کے قانون کےسامنے دروپدی جیسی شریف شہزادی اُف نہ کر سکی ۔ بچوں کی تعلیم یا پرورش میں  ماؤں کی رائے نہ لیجاتی تھی اور ان کا بچوں پر کوئی حق نہ تسلیم کیا جاتا تھا۔ اگر ماں اور باپ میں جدائی واقع ہو تو بچوں کو باپ کے سپرد کیا جاتا تھا ۔ عورت کا گھر سے کوئی تعلق نہ سمجھا جاتا تھا نہ خاوند کی زندگی میں نہ بعد۔ جب چاہتا خاوند اسے گھر سے نکال دیتا تھا اور وہ بے خانمان ہو کر اِدھر اُدھر پھرتی رہتی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ان سب ظلموں کو یک قلم مٹا دیا گیا۔ آپؐنے یہ فیصلہ فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے عورتوں کے حقوق کی نگہداشت خاص طور پر سپرد فرمائی ہے ۔ مَیں خدا تعالیٰ کی طرف سے اعلان کرتا ہوں کہ مرد اور عورت بلحاظ انسانیت برابرہیں اور جب وہ ملکر کام کریں تو جس طرح مرد کو بعض حقوق عورت پر حاصل ہوتے ہیں  اُسی طرح عورت کو مرد پر بعض حقوق حاصل ہوتے ہیں۔عورت اسی طرح جائیداد کی مالک ہو سکتی ہے جس طرح مرد ہو سکتا ہے اور خاوند کا کوئی حق نہیں کہ عورت کے مال کو استعمال کرے جب تک کہ عورت خوشی سے بطور ہدیہ اسے کچھ نہ دے ۔ اس سے جبراً مال لینا یا اس طرح لینا کہ شبہ ہو کہ عورت کی حیا انکار سے مانع رہی ہے نادرست ہے ۔ خاوند بھی جو بھی کچھ بطور ہدیہ اسے دے وہ عورت کا ہی مال ہوگا اور خاوند اسے واپس نہیں لے سکے گا۔ وہ اپنی ماں اور اپنے باپ کے مال کی اسی طرح وارث ہوگی جس طرح کہ بیٹے اپنے ماں باپ کے وارث ہو تے ہیں ۔ ہاں چونکہ خاندانی ذمہ داریاں مرد پر ہوتی ہیں اور عورت پر صرف اپنی ذات کا بار ہوتا ہے اس لئے اسے مرد سے آدھا حصہ ملے گا۔ اسی طرح ماں بھی اپنے بیٹے کے مال سے اسی طرح حصے پائیگی جس طرح باپ ۔ گو مختلف حالات اور ذمہ داریوں کے لحاظ سے کبھی باپ کے برابر اور کبھی کم حصہ اسے ملے گا ۔ وہ اپنے خاوند کے مرنےپر اس کے مال کی بھی وارث ہوگی خواہ اولاد ہویا نہ ہو کیونکہ اسے دوسرے کا دست نگر نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کی شادی بےشک ایک پاک اور مقدس عہد ہے جس کا توڑ نابعد اسکے کہ مرد اور عورت نے ایک دوسرے سے انتہائی بے تکلفی پیدا کرلی نہایت معیوب ہے لیکن یہ نہیں کہ اگر عورت اور مرد کی طبیعت میں خطرناک اختلاف ثابت ہویا مذہبی ، جسمانی ، مالی ، تمدنی ،طبعی مغائرت کے باوجود انہیں مجبور کیا جائے کہ وہ اس عہد کی خاطر اپنی عمر کو برباد کردیں اور اپنی پیدائش کے مقصد کو کھو دیں ۔ جب ایسے اختلافات پیدا ہوجائیں اور مرد اور عورت متفق ہوں کہ اب وہ اکٹھے نہیں رہ سکتے تو وہ اس معاہدہ کو بہ رضا مندی باطل کردیں اور اگر مرد اس خیال کا ہو اور عورت نہ ہو تو آپس میں اگر کسی طرح سمجھوتا نہ ہو سکے تو ایک پنچایت ان کے درمیان فیصلہ کرے جس کے دو ممبر ہوں ایک مرد کی طرف سے اور ایک عورت کی طرف سے ۔ پھر اگر وہ فیصلہ کریں کہ ابھی عورت اور مرد کو اور کچھ مدت ملکر رہنا چاہئے تو چاہئے کہ ان کے بتائے ہوئے طریق پر مرد اور عورت ملکر رہیں لیکن جب اس طرح بھی اتفاق نہ پیدا ہو تو مرد عورت کو جُدا کر سکتا ہے لیکن اس صورت میں اس نے جو مال اسے دیا ہے وہ اسے واپس نہیں لے سکتا بلکہ مہر بھی اسے پورا ادا کرنا ہوگا۔ برخلاف اس کے اگر عورت مرد سے جُدا ہونا چاہے تو وہ قاضی سے درخواست کرے اور اگر قاضی دیکھے کہ کوئی بد اخلاقی کا محرک اسکے پیچھے نہیں ہے تو وہ اسے اس کی علیحدگی کا حکم دے اور اس صورت میں اسے چاہئے کہ خاوند کا ایسامال جو اسکے پاس محفوظ ہو یا مہر اسے واپس کردےاور اگر عورت کا خاوند اس کے حقوق مخصوصہ کو ادا نہ کرے یا اس سے کلام وغیرہ چھوڑ دے یا اس کو الگ سلائے تو اسکی مدت مقرہونی چاہئے اور اگر وہ چار ماہ سے زائد اس کام کا مرتکب ہو تو اسے مجبور کیا جائے کہ یا اصلاح کرے یا طلاق دےاور اگر وہ اس کو خرچ وغیرہ دینا بند کردے یا کہیں چلاجائے اور اس کی خبر نہ لے تو اس کا نکاح فسخ قرار دیا جائے (تین سال تک کی مدت فقہائے اسلام نے بیان کی ہے)اور اسے آزاد کیاجائے کہ وہ دوسری جگہ نکاح کر لے اور ہمیشہ خاوند کو اپنی بیوی اور بچوں  کے خرچ کا ذمہ دار قرار دیا جائے ۔ خاوند کو اپنی بیوی کو مناسب تنبیہ کا اختیار ہے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ جب وہ تنبیہ سزا کا رنگ اختیار کرے تو اس پر لوگوں کو گواہ مقرر کرے اورجرم کو ظاہر کرے اور گواہی پر اسکی بنیاد رکھے اور سزا ایسی نہ ہو جو دیرپا اثر چھوڑ نے والی ہو ۔ خاوند اپنی بیوی کامالک نہیں وہ اسے بیچ نہیں سکتا نہ اسے خادموں کی طرح رکھ سکتا ہے اسکی بیوی اس کے کھانے پینے میں اس کے ساتھ شریک ہے اور اس کے ساتھ سلوک اپنی حیثیت کے مطابق اسے کرنا ہوگا اور جس طبقہ کا خاوند ہے اس سے کم سلوک اسے جائز نہ ہوگا۔ خاوند کے مرنے کے بعد اسکے رشتہ دار وں کو بھی اس پر کوئی اختیار نہیں وہ آزاد ہے۔ نیک صورت دیکھ کر اپنا نکاح کر سکتی ہے اس سے اسے روکنے کا کسی کو حق نہیں نہ اسے مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ ایک خاص جگہ پر رہے۔ صرف چار ماہ دس دن تک اسے خاوند کے گھر ضرور رہنا چاہئے تا اس وقت تک وہ تمام حالات ظاہر ہو جائیں جو اسکے اور خاوند کے دوسرے متعلقین کے حقوق پر اثر ڈال سکتے ہیں ۔ عورت کو اسکے خاوند کی وفات کے بعد سال بھر تک علاوہ اسکے ذاتی حق کے خاوند کے مکان میں سے نہیں نکالنا چاہئے تا اس عرصہ میں وہ اپنے حصہ سے اپنی رہایش کا انتظام کر سکے۔ خاوند بھی ناراض ہو تو خود گھر سے الگ ہو جائے عورت کو گھر سے نہ نکالے کیونکہ گھر عورت کے قبضہ میں سمجھا جاتا ہے ۔ بچوں کی تربیت میں عورت کا بھی حصہ ہے اس سے مشورہ لے لینا چاہئے اور اسے بچہ کے متعلق کوئی تکلیف نہیں دینی چاہئے ۔ دودھ پلوانے ، نگرانی وغیرہ بچہ کے متعلق تمام امور میں اس سے پوچھ لینا چاہئے اور اگر عورت اور مرد آپس میں نبھاؤ کوناممکن پا کر جدا ہونا چاہیں تو چھوٹے بچے ماں ہی کے پاس رہیں ۔ ہاں جب بڑے ہو جائیں تو تعلیم وغیرہ کیلئے باپ کے سپرد کردیئے جائیں جب تک بچے ماں کے پاس رہیں ان کا خرچ باپ دے بلکہ ماں کو ان کیلئے جو وقت خرچ کرنا پڑے اور کام کرنا پڑے تو اس کی بھی مالی مدد خاوند کو کرنی چاہئے ۔ عورت مستقل حیثیت رکھتی ہے اور دینی انعامات بھی وہ ہر قسم کے پاسکتی ہے ۔ مرنے کے بعد بھی وہ اعلیٰ درجہ کے انعامات پا ئیگی اور اس دنیا میں بھی حکومت کے مختلف شعبوں میں وہ حصہ لے سکتی ہے اور اس صورت میں اسکے حقوق کا ویسا ہی خیال رکھا جائے گاجس طرح کہ مردوں کے حقوق کا ۔
یہ وہ تعلیم ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت دی جب اسکے بالکل برعکس خیالات دنیا میں  رائج تھے ۔ آپ نے ان احکام کے ذریعہ عورت کو اس غلامی سے آزاد کرادیا ۔ جس میں وہ ہزاروں سال سے مبتلا تھی جس میں وہ ہر ملک میں پابندکی جاتی تھی جس کا طوق ہر مذہب اسکی گردن میں ڈالتا تھا۔ ایک شخص نے ایک ہی وقت میں ان دیرینہ قیود کو کاٹ دیااور دنیا بھر کی عورتوں کو آزاد کردیا اور ماؤں کو آزاد کرکے بچوں کو بھی غلامی کے خیالات سے محفوظ کرلیا اور اعلیٰ خیالات اور بلند حوصلگی کے جذبات کے ابھرنے کے سامان پیدا کردیئے ۔
مگر دنیا نے اس خدمت کی قدر نہ کی ۔اس نے وہی بات جو احسان کے طور پر تھی اسے ظلم قرار دیا ۔ طلاق اور خلع کو فساد قرار دیا ۔ورثہ کو خاندان کی بربادی کا ذریعہ۔ عورت کے مستقل حقوق کو خانگی زندگی کا تبہ کرنے والا اور وہ اسی طرح کرتی چلی گئی اور کرتی چلی گئی اور تیرہ سو سال تک وہ اپنی نابینائی سے اس بینا کی باتوں پر ہنستی چلی گئی اور اس کی تعلیم کو خلاف اصول فطرت قرار دیتی چلی گئی یہاں تک کہ وقت آگیا کہ خدا کے کلام کی خوبی ظاہر ہو اور جو تہذیب وشائستگی کے دعویدار تھے وہ رسول کریم صلعم کے تہذیب سکھانے والے احکام کی پیروی کریں۔ ان میں سے ہر ِاِک حکومت ایک ایک کر کے اپنے قوانین کو بدلے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اصول کی پیروی کرے۔
انگریزی قانون جو طلاق اور خلع کیلئے کسی ایک فریق کی بدکاری اور ساتھ ہی ظلم اور مارپیٹ کو لازمی قرار دیتا تھا 1923ء میں بدل دیا گیا اور صرف بدکاری بھی طلاق اور خلع کا موجب تسلیم کرلی گئی۔
نیوزی لینڈ میں 1912ءمیں فیصلہ کردیا گیا کہ سات سالہ پاگل کی بیوی کا نکاح فسخ کیا جا سکتا ہے اور 1925ء میں فیصلہ کیا گیا کہ اگر خاوند یا بیوی عورت اور مرد کے حقوق کو ادا نہ کریں تو طلاق یا خلع ہو سکتا ہے اور تین سال تک خبر نہ ملنے پر طلاق کو جائز قرار دیا گیا (بالکل اسلامی فقہا کی نقل کی ہے مگر تیرہ سو سال اسلام پر اعتراض کرنے کے بعد)
آسٹریلیا کی ریاست کوئنزلینڈ میں پانچ سالہ جنون کو وجہ طلاق تسلیم کر لیا گیا ہے۔ ٹسمانیا میں 1919ء میں قانون پاس کر دیا گیاکہ بدکاری ، چار سال تک خبر نہ لینا، بدمستی اور تین سال تک عدم توجہی ، قید ، مارپیٹ او ر جنون کو وجہ طلاق قرار دیا گیاہے۔ علاقہ وکٹوریا میں 1923ء میں قانون پاس کردیا گیا ہے کہ خاوند اگر تین سال خبر نہ لے ، بدکاری کرے، خرچ نہ دے یا سختی کرے ، قید ، مارپیٹ یا عورت کی طرف سے بدکاری یا جنون یا سختی اور فساد کا ظہور ہو تو طلاق اور خلع ہو سکتا ہے۔
مغربی آسٹریلیا میں علاوہ اوپر کے قوانین کے حاملہ عورت کی شادی کو بھی فسخ قرار دیا گیا ہے(اسلام بھی اسے ناجائز قرار دیتا ہے)
کیوبا جزیرہ میں 1918ء میں فیصلہ کردیا گیا ہے کہ بدکاری پر مجبور کرنا ، مارپیٹ ، گالی گلوچ ، سزایافتہ ہونا ، بدمستی ، جوئے کی عادت ، حقوق کا ادا نہ کرنا ، خرچ نہ دنیا ، متعدی بیماری یا باہمی رضامندی کو طلاق یا خلع کی کافی وجوہ تسلیم کر لیا گیا ہے۔
اٹلی میں 1919ءمیں قانون بنادیا گیا ہے کہ عورت اپنے مال کی مالک ہوگی اور اس میں سے صدقہ خیرات کر سکے گی یا اسے فروخت کر سکے گی (اس وقت تک یورپ میں عورت کو اس کے مال کامالک نہیں مانا جاتا تھا)
میکسیکو امریکہ میں بھی اوپر کے بیان کردہ وجوہ کو طلاق وخلع کیلئے کافی وجہ تسلیم کر لیا گیا ہے اور ساتھ ہی باہمی رضامندی کو بھی اس کے جواز کیلئے کافی سمجھا گیا ہے ۔ یہ قانون 1917ء میں پاس ہوا ہے۔
پرتگال میں 1915ء میں ، ناروے میں  1909ء میں ، سویڈن میں 1920ء اور سوئٹزرلینڈ  میں 1912ء میں ایسے قوانین پاس کر دیئے گئے کہ جن سے طلاق اور خلع کی اجازت ہو گئی ہے ۔ سویڈن میں باپ کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اٹھارہ سال تک کی عمر تک بچہ کے اخراجات ادا کرے۔
یونائیٹڈ اسٹیٹس امریکہ میں گوقانون اب تک یہی کہتا ہے کہ بچہ پر باپ کا حق ہے لیکن عملاً اسلامی طریق پر اصلاح شروع ہو گئی اور جج ،عورت کے احساسات کو تسلیم کرنے لگے ہیں اور مرد کو مجبور کر کے خرچ بھی دلوایا جاتا ہے لیکن ابھی تک اس قانون میں بہت کچھ خامیاں ہیں گو مرد کے حقوق کی حفاظت زیادہ سختی سے کی گئی ہے عورت کو اس کے مال پر تصرف بھی دلایا جا رہاہے لیکن ساتھ ہی بعض ریاستوں میں یہ بھی قانون پاس کردیا گیا ہے کہ اگر خاوند اپاہچ ہو جائے تو بیوی پر بھی اس کے اخراجات کا مہیا کرنا لازمی ہوگا۔
عورتوں کو ووٹ کے حقوق دیئے جا رہے ہیں  اور ان سے قومی امور میں مشورہ لینے کیلئے بھی راہیں  کھولی جا رہی ہیں لیکن یہ سب باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے پورے تیرہ سو سال کےبعد ہوئی ہیں اور ابھی کچھ ہونی باقی ہیں ۔بہت سے ممالک میں ابھی عورت کو باپ اور ماں اور خاوند کے مال کا وارث نہیں قرار دیا گیا اور اسی طرح اور کئی حقوق باقی ہیں جن میں اسلام اب بھی باقی دنیا کی رہنمائی کررہاہے لیکن ابھی اس نے اسکی راہنمائی کو قبول نہیں کیا لیکن وہ زمانہ دُور نہیں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی کو ان معاملات میں بھی دنیا قبول کریگی جس طرح اس نے اور معاملات میں قبول کیا اور آپ کا جہاد عورتوں کی آزادی کے متعلق اپنے پورے اثرات اور نتائج ظاہر کریگا۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ

مرزا محمود احمد
(بحوالہ الفضل قادیان 12؍جون 1928ء)
…٭…٭…٭…