اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-07-20

تمام غلاموں کویکلخت کیوں نہ آزاد کردیا گیا
سیرت خاتم النّبیینﷺ
(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

تمام غلاموں کویکلخت کیوں نہ آزاد کردیا گیا

پیشتر اسکے کہ ہم اس بحث کو ختم کریں اس سوال کا جواب دینا ضروری ہے کہ جب اسلام غلاموں کی آزادی اور رستگاری کاپیغام لے کرآیا تھا توآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کیوں نہ تمام حاضر الوقت غلاموں کو یکلخت حکماً آزاد کروادیا؟سو اس کا مختصراورسادہ جواب تو صرف اس قدر ہے کہ آپؐنے اس لئے ایسا نہیں کیاکہ آپؐغلاموں کے حقیقی دوست تھے اور آپؐکاکام اصلاح کرنا تھانہ کہ نمائش۔پس آپؐنے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جو بظاہر تو دوستی کا رنگ رکھتا ہو،لیکن حقیقتاً وہ غلاموں کیلئے نقصان دہ اورملک کی ترقی اورتمدن کیلئے ضرررساں ہو۔ہرایک عقل مند شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس وقت کے حالات کے ماتحت لاکھوں غلاموں کا یکلخت آزاد ہوجانا غلاموں کو ایک ایسی بے سہارا اورغیر محفوظ حالت میں چھوڑ دیتاجو ان کیلئے کئی لحاظ سے خطرناک ہوسکتی تھی اوراس زمانہ کے حالات کے ماتحت اس فوری اور عالمگیر آزادی کانتیجہ یقینا یہ ہوتا کہ ان آزاد شدہ غلاموں میں سے اگر ایک حصہ غربت کی حالت میں فاقوں سے مرتا تو دوسرا حصہ بیکاری اور ارتکاب جرائم کی طرف مائل ہوکر اپنی اخلاقی تباہی اور ملک وقوم کی بے چینی اور بدامنی کاباعث بن جاتا۔انقلابی تجاویز خواہ بعض اوقات جذباتی رنگ میں کیسی ہی دل خوشکن نظر آئیں مگر حقیقتاً وہ اکثر صورتوں میں نفع مند ثابت نہیں ہوتیںبلکہ بعض صورتوں میں تو ان سے افراد کے عادات وخصائل اورقوم کی اجتماعی زندگی اور تمدن پرخطرناک اثر پڑتا ہے۔پس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جو ایک حقیقی مصلح تھے اور غلاموں کیلئے وہ کام کرنا چاہتے تھے جوان کیلئے فی الواقع مفید اور بابرکت ہو،ایسے رستہ پر قدم زن نہیں ہوئے جو عرب کی سوسائٹی میں ایک تباہ کن زلزلہ پیدا کرنے والا ثابت ہوتااور غلاموں کو اس سے بجائے فائدہ کے نقصان پہنچتا۔خوب سوچ لو کہ اس زمانہ کے حالات کے ماتحت لاکھوں غلاموں کوبغیر کسی دوراندیشانہ انتظام کے یکلخت آزاد کردینے کے یقینا یہ معنے تھے کہ ان غلاموں کی دنیا بھی تباہ ہوتی اور دین بھی۔یعنی دنیا کے لحاظ سے ان میںسے اکثر نہ صرف بالکل بے سہارا اوربے ذریعہ معاش رہ جاتےبلکہ ان کیلئے کسب سیکھنے کے موقعے بھی میسر نہ رہتے اور دینی لحاظ سے ان کی یہ فوری اور عالمگیر آزادی ان کے اخلاق وعادات پرایک نہایت ضرررساں اثر پیدا کرتی خصوصاًجبکہ ایک بہت لمبے عرصے کی ظالمانہ غلامی کے نتیجہ میں ان کے اندر دنایت اور سنگدلی اوراسی قسم کے دوسرے مذموم اخلاق پیدا ہوچکے تھے جو فوری آزادی کے نتیجہ میں نہ معلوم کس رستے پر پڑ کرکیا کیا رنگ لاتے اوراس عالمگیر آزادی کے نتیجے میں جو دوسرے مضر اثرات سوسائٹی پر پڑ سکتے تھے وہ مزید براں تھے۔پس اسلام نے کمال دانش مندی سے یہ تجویزاختیار فرمائی کہ ایک طرف تو آئندہ کیلئے غلامی کے ظالمانہ طریقوں کوبندکرکے اس حلقہ کی مزید وسعت کو روک دیاجیسا کہ آگے چل کراسکی بحث آئے گی اور دوسری طرف وقتی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے موجود الوقت غلاموں کی اخلاقی اورمعاشرتی اور اقتصادی اصلاح وبہبودی کیلئے عملی تدابیر اختیار فرمائیں اورساتھ ہی یہ انتظام فرمایا کہ جوں جوں یہ غلام آزادزندگی کو مفید طورپر بسرکرنے کے قابل ہوتے جائیں تُوں تُوںوہ لازماً آزاد ہوتے جائیں اور یہی وہ حقیقی اصلاح کاطریق تھا جو اس زمانے کے حالات کے ماتحت بہترین نتائج کی امید کے ساتھ اختیار کیا جاسکتا تھا بلکہ اس انتظام کا تفصیلی مطالعہ اس بات میں ذرابھی شک نہیں رہنے دیتا کہ یہ ایک عدیم المثال نظام تھا جس کی نظیر نہ تو اس سے پہلے کسی زمانہ میں نظر آتی ہے اورنہ اسکے بعدآج تک ایسا نمونہ کسی قوم نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔
اگراس جگہ کسی کو یہ شبہ پیدا ہوکہ گزشتہ صدی کے دوران بہت سے یورپین اور امریکن مصلح ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اپنی زندگیوں کوغلاموں کی آزادی کی تحریک میں گویا وقف کردیا تھا اوران کی کوششوں کے نتیجے میں دنیا کے بیشتر ممالک میں غلامی کاسلسلہ یکلخت منسوخ ہوگیا تھا۔مثلاً ابراہام لنکن نے جو اپنے وقت میں امریکہ کی جمہوری سلطنت کاصدر تھا۔امریکہ کے لاکھوں حبشی غلاموں کو یکلخت آزادی دلادی اوراس فوری اورعالمگیرآزادی کاکوئی برا نتیجہ نہیںنکلا بلکہ ابراہام لنکن کی یہ خدمت انتہائی تحسین کی نظر سے دیکھی جاتی ہے۔ تواس کا جواب یہ ہے کہ اول تو آج سے چودہ سو سال قبل کے زمانہ اورآج کے زمانہ کے حالات میں زمین وآسمان کا اختلاف ہے اور چونکہ اسلام کی یہ تعلیم جواس زمانہ کے غلاموں کی تدریجی آزادی کے متعلق دی گئی تھی اُس زمانہ کے حالات کے ماتحت تھی اورمستقل تعلیم اسلام کی اس بارے میں اور تھی جن کا ذکر آگے آتا ہے اس لئے عقلاًیہ مقابلہ کسی صورت درست نہیں سمجھا جاسکتا۔پس اگر موجودہ زمانہ کے حالات میں فوری اورعالمگیر آزادی مضر ثابت نہیں ہوئی تو اس سے لازمی طورپر یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ آج سے پہلے زمانوں اورآج کی نسبت دوسری قسم کے حالات میںبھی یہ طریق ضرر رساں ثابت نہ ہوتا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں غلاموں کی اخلاقی اور معاشرتی حالت نہایت درجہ پست تھی اور دوسری طرف دنیا کاتہذیب وتمدن بھی اس تہذیب وتمدن سے بالکل جدا تھاجو آج کل دنیا میںپایا جاتا ہے۔پس اُس زمانہ کے حالات کے ماتحت یہی مناسب تھا کہ بجائے فوری اور عالمگیر آزادی کے تدریجی آزادی کے طریق کو اختیارکیا جاتاورنہ نتیجہ بجائے مفید ہونے کے یقینا مضر ہونا تھا۔یہ ایک اصولی جواب ہے جو اس اعتراض کادیا جاسکتا ہے۔ مگرحق یہ ہے کہ جو تجاویز اسلام نے اختیار کیںوہ بہرحال زیادہ مفیداور نفع مندتھیںاورہر غیر متعصب شخص جو ٹھنڈے طورپراس مسئلہ کے متعلق غور کرے گا وہ اسی نتیجہ پر پہنچے گاجو ہم نے بیان کیا ہے۔حضرت مسیح ناصری کاایک نہایت سچا مقولہ ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچاناجاتا ہے۔پس ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ان دونوں قسم کے طریقوں میںسے کس طریق کے نتائج زیادہ مفید اور زیادہ نفع مند ثابت ہوئے ہیں۔ آیا اُس طریق کے جواسلام نے آج سے چودہ سوسال قبل اختیار کیا تھایااُس طریق کے جو موجودہ زمانہ میں بعض یورپین اورامریکن مصلحین نے اختیار کیا ہے؟اس جگہ ہم کسی تفصیلی بحث میںداخل نہیں ہوسکتے،صرف موٹے طورپر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان ہر دو طریقوں کے نتائج کی نسبتی خوبی کادوطرح پر امتحان کیا جاسکتا ہے۔
اوّل اس پہلوسے کہ ان طریقوں میںسے کس طریقہ کے نتیجہ میں زیادہ حقیقی آزادی قائم ہوئی۔ دوسرے اس پہلو سے کہ ان میں سے کس طریقہ کے نتیجہ میں آزاد شدہ غلاموں نے زیادہ ترقی کی۔اورہم دعویٰ کے ساتھ کہتے ہیں کہ ان دونوں پہلوئوں کے لحاظ سے وہ طریقہ جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو برس قبل اختیار کیا تھااس طریق سے بدرجہابہتر تھا،جوبعض مغربی مصلحین نے اس زمانہ میں اختیار کیا ہے۔ظاہر ہے کہ صرف نام کے طور پر کسی غلام کوآزاد کردینا مگرغلامی کی اصل روح کونہ مارنا ہرگز حقیقی آزادی کا فعل نہیں سمجھا جاسکتا۔لیکن غور سے دیکھاجائے تو جو اصلاح مغربی مصلحین نے کی ہے وہ کسی صورت میں بھی اس نام نہاد اصلاح سے بڑھ کر نہیں۔بیشک انہوں نے لاکھوں غلاموں کو آزاد کیااوریکلخت حکماًآزاد کیا،مگروہ غلامی کی روح کو نہیں مار سکے بلکہ اس آزادی کے بعد بھی آزاد کرنے والوں اورآئندہ آزاد ہونے والوں کے دل ودماغ میں غلام بنانے اورغلام بننے کی روح اسی طرح زندہ رہی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حقیقی طور پر غلامی بھی نہ مٹی اورآقائوں اورغلاموں کے تعلقات بھی سخت کشیدہ ہوگئے۔امریکہ کی ہی مثال لے لو۔بیشک ریاست ہائے متحدہ میں بظاہر لاکھوںحبشی غلاموں نے یکلخت آزادی حاصل کرلی مگر قطع نظراس کے کہ اس عالمگیر آزادی کی وجہ سے ملک ایک خطرناک خانہ جنگی کی آگ سے شعلہ بار ہوگیا تھا۔کیا اس وقت امریکہ کا حبشی غلام واقعی آزاد ہوگیا تھا؟بلکہ ہم پوچھتے ہیںکہ کیااس وقت تک بھی ملک کاکوئی قانون امریکہ کے حبشی غلام کو حقیقی آزادی دلاسکا ہے؟کیا امریکہ کاگورا آدمی اپنے آزاد کردہ حبشی غلام کو آج تک دنیا کے بدترین غلاموںسے عملاًبدتر نہیںسمجھتا؟ پھرکیا یہ آزاد شدہ حبشی اپنے آپ کو حقیقی طورپر امریکہ میں آزاد سمجھتا ہے؟یقینا امریکہ میں آزاد کرنے والے گورے لوگوں اورآزاد ہونے والے کالے حبشیوں کے تعلقات بین الاقوام تعلقات کی بدترین مثال ہیںجو اس وقت دنیا میں پائی جاتی ہے اوریہ حالت اس بات کا نتیجہ ہے کہ ان غلاموں کے آزاد کرنے میںوہ طریق اختیار کیا گیا ہے جس سے غلام لوگ نام کو تو بیشک آزادہوگئے مگر ان کو حقیقی آزادی نہیں مل سکی اورآزاد کرنے والوں اورآزاد ہونے والوں کی ذہنیتوں میں کوئی اصلاح نہیں ہوئی۔اس کے مقابلہ میں اسلامی طریق پرجولوگ آزاد کئے گئے وہ گو تدریجی طورپر آزاد ہوئے مگرآزاد ہونے کے بعد وہ حقیقتاًآزاد تھے۔یعنی ان کے جسم بھی آزاد تھے، ان کی روحیں بھی آزاد تھیں،ان کے خیالات بھی آزاد تھے،ان کی ذہنیتیں بھی آزاد تھیں اوران آزاد شدہ غلاموں اوران کے آزاد کرنے والے لوگوں کے درمیان وہ محبت واخلاص کے تعلقات قائم ہوگئے تھے کہ آج کی حقیقی اخوت بھی ان کے سامنے شرماتی ہے۔میںجب اس زمانہ کے امریکن حبشی ٹام اورآج سے چودہ سوسال قبل کے عربی حبشی بلالؓکے حالات پرنگاہ کرتا ہوں توایک عجیب منظرنظر آتا ہے۔ باوجود اس کے کہ یہ دونوں شخص حبشی ہیں اوردونوں آزاد شدہ غلام ہیں۔عربی غلام (یعنی بلالؓ)جب بادشاہ وقت(یعنی عمربن الخطاب)سے ملنے کیلئے جاتا ہے توباوجود اسکے کہ اس وقت بڑے بڑے رئوساء عرب بادشاہ کی ملاقات کے انتظار میں دروازے پر بیٹھے ہوتے ہیں۔ بادشاہِ وقت بلالؓ کی خبر پاکران رئوساء عرب کو جو وہ بھی مسلمان ہی تھے نہیں بلاتااوربلالؓ کو فوراً بلا لیتا ہے اورجب بلالؓ ملاقات سے فارغ ہوکر چلا جاتا ہے توپھر اس کے بعد ان رئوساء عرب کی باری آتی ہے اورجب اس بادشاہ کی مجلس میں بلال کاذکر آتاہے تو بادشاہ کہتا ہے’’بلال ہمارا سردار ہے۔‘‘ لیکن اس کے مقابلہ میں امریکہ کے آزادشدہ حبشی ٹام کی کیا حیثیت ہے؟دنیا جانتی ہے کہ وہ اپنے آزاد کرنے والوں کے پائوں کی ٹھوکریں کھاتا اورمجلسوں میں ذلت کی جگہوں میں بٹھایا جاتا اورہر قسم کے مظالم سہتا اوردم نہیں مار سکتا۔یہ اختلاف کیوں ہے؟یقینا اس کی وجہ یہی ہے کہ اسلام نے جو طریق غلاموں کی آزادی کا اختیار کیا،وہ حقیقی اصلاح کا طریق تھا۔پس اس کے نتیجہ میں حقیقی آزادی پیدا ہوئی،لیکن مغربی مصلحین کی اصلاح ناقص اوران کا طریق غلط تھا۔پس اس کے نتیجہ میں بیشک نام کو تو آزادی مل گئی،مگرغلامی کی روح پرموت نہیں آئی اورذہنیتیں وہی کی وہی رہیں۔
دوسرا طریق اس سوال پر غور کرنے کا یہ ہے کہ یہ دیکھا جاوے کہ ان طریقوں میں سے کس طریق کے نتیجہ میں آزاد شدہ غلاموں نے زیادہ ترقی کی۔سومذکورہ بالابحث کے بعداس سوال کا جواب بھی مشکل نہیںرہتا کیونکہ طبعاًوہی رستہ غلاموں کی زیادہ ترقی کاہونا چاہئے، جس میں انہیں زیادہ حقیقی آزادی حاصل ہو۔اوروہ وہی تھا جواسلام نے اختیار کیا۔مگر عملاًبھی ہم دیکھتے ہیں کہ اس جہت سے بھی اسلامی طریق زیادہ کامیاب اورزیادہ مفیدنظر آتا ہے کیونکہ اسلامی طریق پر آزاد ہونے والے لوگوں میںایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی نظر آتی ہے جوہرقسم کے میدان میں ترقی کے اعلیٰ ترین مقام پر پہنچے ہیں اورجنہوں نے مختلف شعبوں میں مسلمانوں میں لیڈرہونے کا مرتبہ حاصل کیا۔مثلاًجیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے۔صحابہ میں زید بن حارثہ ایک آزاد شدہ غلام تھے مگر انہوں نے اتنی قابلیت پیدا کی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی قابلیت کی وجہ سے بہت سی اسلامی مہموں میں انہیں امیرالعسکر مقرر فرمایااوربڑے بڑے جلیل القدرصحابی حتّٰی کہ خالدبن ولید جیسے کامیاب جرنیل بھی ان کی ماتحتی میں رکھے۔پھر سالم بن معقل تھے جوابو حذیفہ بن عتبہ کے معمولی آزادکردہ غلام تھے،مگروہ اپنے علم وفضل میں اتنی ترقی کرگئے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جن چار صحابیوں کو قرآن شریف کی تعلیم کیلئے مسلمانوں میں مقرر فرمایا تھا اور اس معاملہ میں گویا انہیں اپنا نائب بننے کے قابل سمجھا تھا،ان میں ایک سالم بھی تھے۔اسی طرح صحابہ کے بعد نافع مولیٰ ابن عمراور عکرمہ مولی ابن عباس اورمکحول بن عبداللہ اور عطاء بن ابی رباح اورعبداللہ بن مبارک اور محمد بن سیرین حدیث اور فقہ کے امام مانے جاتے تھے جن کی شاگردی کوبڑے بڑے جلیل القدر لوگ فخر خیال کرتے تھے۔پھر حسن بصری تصوف میں اور مجاہدبن جبیرعلم قرأت میں یکتائے زمانہ تھے اور موسیٰ بن عقبہ اورمحمدبن اسحاق علم تاریخ میں استاذ الکل تھے،جن کے علم کا لوہا دنیا مانتی تھی۔مگر یہ سب لوگ معمولی غلام سے اس مرتبہ کوپہنچے تھے۔ پھر ہندوستان کاخاندان غلاماں بھی جس کے بعض ممبروں نے سیاست اورملک داری میںکمال پیدا کیاکسی معرفی کا محتاج نہیں۔ یہ درخشندہ مثالیں جو صرف بطور نمونہ پیش کی گئی ہیں (ورنہ اسلام کی تاریخ اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے)اسلامی طریق آزادی کاثمرہ ہیں۔مگر اسکے مقابلہ میں مغربی مصلحین کی اصلاح کا ثمرہ کیا ہے؟کیا سارے یورپ وامریکہ اورسارے افریقہ وآسٹریلیامیں کوئی ایک مثال بھی ایسی نظر آتی ہے کہ کبھی کسی آزاد شدہ غلام نے کسی میدان میں ایسی لیڈری اورامامت کامرتبہ حاصل کیا ہو کہ آزادکرنے والی قوم بھی اسے اپنا مقتداء تسلیم کرنے لگ جاوے؟ ہمیں اقوام کی تاریخ کے عبورکادعویٰ نہیں ہے لیکن جہاں تک ہمارا علم ہے ہمیں مسیحی اقوام کے آزاد کردہ غلاموں میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ ان غلاموں میںسے کبھی کسی نے کوئی خاص نمایاں امتیاز پیدا کیا ہوبلکہ یہی نظر آتاہے کہ آزادہونے کے بعدبھی یہ لوگ معمولی درجہ کے انسان رہے ہیں۔جواس بات کا ثبوت ہے کہ اسلامی طریق آزادی یقینا بہت زیادہ نفع منداوربہت زیادہ بابرکت تھا۔اندریں حالات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اصلاح کے مقابلہ میں موجودہ زمانہ کے کسی مصلح کانام لینا صداقت کی ہتک کرنا ہے۔بیشک ہم ان لوگوں کے کام کوبھی قدر کی نظر سے دیکھتے ہیں اوران کی کوششوں کے مداح ہیں۔ مگر ہرشخص کی کوشش کاایک مرتبہ ہوتا ہے اورحق یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اصلاحات کاوہ مرتبہ ہے کہ اس کے مقابلہ میں کسی شخص کی کوشش کانام نہیں لیا جاسکتا۔ آج سے چودہ سوسال قبل جبکہ دنیا غلامی کو اپنا پیدائشی حق سمجھے ہوئے تھی اورغلاموں کی حالت جانوروں سے بدتر ہورہی تھی اس وقت آپ کا غلاموںکی حمایت میں آواز اٹھانا اورآئندہ کیلئے غلامی کے ظالمانہ طریقوں کو قطعی طورپر منسوخ کرکے موجود الوقت غلاموں کی حالت کی اصلاح کیلئے نہایت دانشمندانہ عملی تدابیر اختیار کرنا اور پھر ان غلاموں کی آزادی کے متعلق پُرزورسفارشات کرنے کے علاوہ ایک ایساپُرحکمت انتظام جاری کردینا کہ جس کے نتیجہ میں یہ غلام اپنی حالت کوبھی بہتر بناتے جائیں اور ساتھ ساتھ لازماًآزاد بھی ہوتے جائیں اورحکومت کایہ فرض مقررکرنا کہ وہ غلاموں کی حالت کی اصلاح اوران کی تدریجی مگرلازمی آزادی کے عمل کی سختی کے ساتھ نگرانی کرے اورپھر اس انتظام کو اس خوبی کے ساتھ چلانا کہ جو غلام آزاد ہوئے اوران کی تعداد کروڑوں تھی وہ نہ صرف حقیقی معنوں میں آزاد ہوئے بلکہ وہ ملک وقوم کے نہایت مفیدشہری بھی بن گئےاوران میںسے وہ لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے مسلمانوں میں امارت وامامت کامرتبہ حاصل کیاجن کے سامنے ان کے آزاد کرنے والوں کی گردنیں بھی جھک گئیں۔یہ وہ کام ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کیا اوریہ وہ کام ہے جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی پس عامی لوگوں کی طرح یہ اعتراض اٹھاناکہ ابراہام لنکن یادوسرے مغربی لوگوں کی طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے تمام غلاموں کویکلخت کیوں نہیں آزاد کردیا جذبات انسانی کاایک محض سطحی ابال ہے جس کے اندر کوئی بھی گہرائی نہیں۔

(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ 399تا404،مطبوعہ قادیان2011)