اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-04-27

سیرت خاتم النّبیینﷺ
(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

اب ہم تھوڑی دیر کے لئے لشکر قریش سے جدا ہوکر مدینہ کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ابوسفیان کے قافلہ کی خبر پاکر اپنے دو صحابی اطلاع حالات کے لئے روانہ فرمادیئے تھے لیکن ابھی وہ واپس نہیں لوٹے تھے کہ آپؐ کوکسی ذریعہ سے مخفی طورپر یہ اطلاع بھی پہنچ گئی کہ قریش کاایک جرار لشکر مکہ سے آرہا ہے۔اس وقت جو کمزورحالت مسلمانوں کی تھی اسے ملحوظ رکھتے ہوئے نیز جنگی تدابیر کے عام اصول کے مطابق آپؐ نے اس خبر کو مشتہر نہیں ہونے دیا تاکہ عامۃ المسلمین میں اس کی وجہ سے کسی قسم کی بددلی نہ پیدا ہو،لیکن ایک بیدار مغز جرنیل کی طرح آپؐ نے بغیر اس خبر کے اظہار کے ایسے رنگ میں صحابہ میں تحریک فرمائی کہ بہت سے صحابہ باوجود یہ خیال رکھنے کے کہ یہ مہم قافلہ کی روک تھام کی غرض سے اختیار کی جارہی ہے آپؐ کے ساتھ چلنے کوتیار ہوگئے حتّٰی کہ انصار بھی جو بیعت عقبہ ثانیہ کے معاہدے کے موافق صرف مدینہ پر حملہ ہونے کی صورت میں آپؐکی حفاظت کے ذمہ دار سمجھے جاتے تھے اورجو اس وقت تک کسی غزوہ یاسریہ میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ شریک جہاد ہونے کے لئے آمادہ ہوگئے۔ چنانچہ روایت آتی ہے کہ آپؐنے مدینہ میں ایک مجلس قائم کی اور صحابہ سے مشورہ دریافت فرمایا۔حضرت ابوبکروعمرنے جان نثارانہ تقریریں کیں مگر آپؐ نے ان کی طرف کچھ التفات نہ کیا جس پر رئوساء انصار سمجھ گئے کہ آپؐ کاروئے سخن ان کی طرف ہے۔ چنانچہ ان میں سے سعد بن عبادۃ رئیس خزرج نے جان نثارانہ تقریر کی اور عرض کیا یارسول اللہ!انصار ہرخدمت کے لئے حاضر ہیں اورجہاں بھی آپ ارشاد فرمائیں جانے کے لئے تیار ہیں۔اس کے بعد آپؐنے صحابہ میں عام تحریک فرمائی اور انصارومہاجرین کی ایک جمعیت آپؐکے ساتھ نکلنے کو تیار ہوگئی۔لیکن پھر بھی چونکہ عام خیال قافلہ کے مقابلہ کا تھا بہت سے صحابہ یہ خیال کرکے کہ محض قافلہ کی روک تھام کا معاملہ ہے جس کے لئے زیادہ لوگوں کا شامل ہونا ضروری نہیں ہے شامل نہیں ہوئے۔ دوسری طرف وہ بعض خاص صحابہ جن کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے لشکر قریش کی آمد کاعلم ہوگیا تھا مگر جن کو اخفاء راز کاحکم تھا وہ اپنی جگہ فکرمند تھے کہ دیکھئے اس موقع پر جبکہ لشکر قریش سے بھی مٹھ بھیڑ ہوجانے کا احتمال ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی حفاظت کی اہم ذمہ داری سے عہدہ براہوسکتے ہیں یا نہیں۔چنانچہ انہی لوگوں کومدنظر رکھتے ہوئے قرآن شریف فرماتا ہے  یعنی مدینہ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نکلنے کو مومنوں کاایک فریق(اپنی ظاہری طاقت کا خیال کرتے ہوئے)پسند نہیں کرتا تھااوراسے ایک مشکل اورنازک کام سمجھتا تھا۔ مگرچونکہ ان کے آقا کا یہی منشاء تھاوہ دلی جوش کے ساتھ لبیک لبیک کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس وقت تک گو وہ دوصحابی جن کو آپؐنے خبر رسانی کے واسطے بھیجا تھا واپس نہیں لوٹے تھے مگر چونکہ لشکر قریش کی اطلاع آچکی تھی آپؐنے مزید توقف کرنا مناسب خیال نہ کیا اور 12 رمضان کوبروز اتوار مدینہ سے انصار ومہاجرین کی ایک جمعیت کے ساتھ اللہ کانام لیتے ہوئے روانہ ہوگئے۔ اکابر صحابہ میں سے جولوگ اس غزوہ میں شامل نہیں ہوسکے ان میں سے حضرت عثمان بن عفان کانام خاص طورپر ذکر کیا گیا ہے۔ان ایام میں چونکہ ان کی زوجہ رقیہ بنت رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم سخت بیمار تھیں۔اس لیے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو خود حکم دیا تھا کہ وہ ان کی تیمارداری کے لیے مدینہ میں ہی ٹھہریں ۔اسی طرح قبیلہ خزرج کے رئیس اعظم سعد بن عبادۃ بھی عین وقت پر بیمار ہو جانے کی وجہ سے شامل نہیں ہو سکے۔قبیلہ اوس کے رئیس اسید بن الحضیر بھی کسی مجبوری کی وجہ سے شریک نہیں ہوئے۔طلحہ بن عبید اللہ اور سعید بن زید چونکہ ابھی تک خبر رسانی کی مہم سے واپس نہیں آئے تھے اس لیے وہ بھی لڑائی کی عملی شرکت سے محروم رہ گئے باقی اکثر اکابر صحابہ آپؐکے ہمرکاب تھے۔
مدینہ سے تھوڑی دور نکل کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ڈیرہ ڈالنے کا حکم دیا اور فوج کا جائزہ لیا۔کم عمربچے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہمرکابی کے شوق میں ساتھ چلے آئے تھے،واپس کئے گئے۔سعد بن ابی وقاص کے چھوٹے بھائی عمیر بھی کم سن تھے۔انہوں نے جب بچوں کی واپسی کاحکم سنا تو لشکر میں اِدھراُدھر چھپ گئے لیکن آخران کی باری آئی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی واپسی کا حکم دیا۔یہ حکم سن کر عمیر رونے لگ گئے اور آپؐنے ان کے غیرمعمولی شوق کو دیکھ کر انہیں اجازت دے دی۔ اب لشکر اسلامی کی تعداد کچھ اوپرتین سودس تھی۔ جن میں مہاجرین کچھ اوپرساٹھ تھے اورباقی سب انصار تھے۔مگربے سروسامانی کا یہ عالم تھاکہ ساری فوج میں صرف ستراونٹ اوردوگھوڑے تھے اورانہی پرمسلمان باری باری سوار ہوتے تھے حتیٰ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے بھی کوئی الگ سواری نہیں تھی یعنی آپؐ کو بھی دوسروں کے ساتھ باری باری سے چڑھنا اوراترنا پڑتا تھا۔آپؐ کے ساتھیوں نے بڑے اصرار سے عرض کیا کہ ہم پیدل چلتے ہیں حضور سوار رہیں،مگر آپؐ نے نہ مانا اورمسکراتے ہوئے فرمایا کہ میں تم سے چلنے میں کمزور نہیں ہوں اور ثواب کی خواہش بھی مجھے کسی سے کم نہیں پھر میں کیوں نہ باری میں حصہ لوں۔لشکر میں زرہ پوش صرف چھ سات تھے اورباقی سامانِ حرب بھی بہت تھوڑا اورناقص تھا۔الغرض جائزہ وغیرہ کے کام سے فارغ ہوکر آپؐ آگے روانہ ہوئے۔ابھی تھوڑی دورہی گئے تھے کہ ایک شخص نے جو مشرک تھاآپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میں آپؐ کے ساتھ چل کر جنگ میں شریک ہونا چاہتا ہوں۔صحابہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے کیونکہ وہ شخص اپنی بہادری اورشجاعت میں شہرت رکھتا تھا۔مگرآپؐ نے یہ فرماکر اسے ردّ کردیا کہ میں اس موقع پر ایک مشرک سے مدد نہیں لینا چاہتا۔ تھوڑی دیر بعد وہ شخص پھرآیا،لیکن اِدھرسے پھروہی جواب تھا۔تیسری دفعہ وہ پھر حاضر ہوا اور اپنی خدمات پیش کیں اورساتھ ہی عرض کیا کہ میں اللہ اوراس کے رسول پرایمان لاتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا ہاں اب بڑی خوشی سے ہمارے ساتھ چلو۔
مدینہ سے نکلتے ہوئے آپؐنے اپنے پیچھے عبداللہ بن ام مکتوم کومدینہ کاامیر مقرر کیا تھا۔مگر جب آپؐ روحاء کے قریب پہنچے جومدینہ سے36میل کے فاصلہ پر ہے تو غالباً اس خیال سے کہ عبداللہ ایک نابینا آدمی ہیں اورلشکرقریش کی آمد آمد کی خبر کاتقاضا ہے کہ آپؐ کے پیچھے مدینہ کاانتظام مضبوط رہے آپؐنے ابولبابہ بن منذر کومدینہ کاامیر مقرر کر کے واپس بھجوادیا اور عبداللہ بن ام مکتوم کے متعلق حکم دیا کہ وہ صرف امام صلوٰۃ رہیں،مگر انتظامی کام ابولبابہ سرانجام دیں۔مدینہ کی بالائی آبادی یعنی قباء کے لئے آپؐنے عاصم بن عدی کوالگ امیر مقرر فرمایا۔اسی مقام سے آپؐ نے بسیس اور عدی نامی دو صحابیوں کو دشمن کی حرکات وسکنات کاعلم حاصل کرنے کے لئے بدر کی طرف روانہ فرمایا اور حکم دیا کہ وہ بہت جلد خبر لے کر واپس آئیں۔ روحاء سے آگے روانہ ہوکر جب مسلمان وادیٔ صفراء کے ایک پہلو سے گزرتے ہوئے زفران میں پہنچے جو بدر سے صرف ایک منزل ورے ہے تو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ قافلہ کی حفاظت کے لئے قریش کاایک بڑا جرار لشکر مکہ سے آرہا ہے۔ اب چونکہ اخفاء راز کا موقع گزرچکا تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کو جمع کرکے انہیں اس خبر سے اطلاع دی اورپھران سے مشورہ پوچھا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ظاہری اسباب کاخیال کرتے ہوئے تو یہی بہتر معلوم ہوتا ہے کہ قافلہ سے سامنا ہوکیونکہ لشکر کے مقابلہ کے لئے ہم ابھی پوری طرح تیار نہیں ہیں۔مگر آپؐ نے اس رائے کوپسند نہ فرمایا۔ دوسری طرف اکابر صحابہ نے یہ مشورہ سنا تواٹھ اٹھ کرجاں نثارانہ تقریریں کیں اور عرض کیا ہمارے جان ومال سب خدا کے ہیں۔ہم ہر میدان میں ہر خدمت کے لئے حاضر ہیں۔ چنانچہ مقداد بن اسود نے جن کا دوسرا نام مقداد بن عمرو بھی تھا کہا’’یارسول اللہ!ہم موسیٰ کے اصحاب کی طرح نہیں ہیں کہ آپؐ کو یہ جواب دیں کہ جاتُو اورتیراخدا جاکر لڑو ہم یہیں بیٹھے ہیں بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ آپؐ جہاں بھی چاہتے ہیں چلیں ہم آپؐ کے ساتھ ہیں اور ہم آپؐ کے دائیں اور بائیں اور آگے اور پیچھے ہوکر لڑیں گے۔‘‘ آپؐ نے یہ تقریر سنی تو آپؐ کاچہرہ مبارک خوشی سے تمتمانے لگ گیا۔ مگر اس موقع پر بھی آپؐ انصار کے جواب کے منتظرتھے اورچاہتے تھے کہ وہ بھی کچھ بولیں۔کیونکہ آپؐ کویہ خیال تھا کہ شاید انصار یہ سمجھتے ہوں کہ بیعت عقبہ کے ماتحت ہمارا فرض صرف اس قدر ہے کہ اگرعین مدینہ پر کوئی حملہ ہوتو اس کا دفاع کریں۔چنانچہ باوجود اس قسم کی جاں نثارانہ تقریروں کے آپؐ یہی فرماتے گئے کہ اچھا پھر مجھے مشورہ دو کہ کیا کیا جاوے۔سعد بن معاذ رئیس اوس نے آپؐکا منشاء سمجھا اورانصار کی طرف سے عرض کیا ’’یارسول اللہ!شاید آپؐ ہماری رائے پوچھتے ہیں۔ خداکی قسم جب ہم آپؐ کو سچا سمجھ کر آپؐپر ایمان لے آئے ہیں اورہم نے اپنا ہاتھ آپؐ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا ہے توپھر اب آپؐجہاں چاہیں چلیں ہم آپؐ کے ساتھ ہیں اوراس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے،اگرآپؐ ہمیں سمندر میں کود جانے کو کہیں توہم کود جائیں گے اورہم میں سے ایک فرد بھی پیچھے نہیں رہے گا اورآپؐ انشاء اللہ ہم کو لڑائی میں صابر پائیں گے اورہم سے وہ بات دیکھیں گے جوآپؐ کی آنکھوں کوٹھنڈا کرے گی۔‘‘آپؐ نے یہ تقریر سنی تو بہت خوش ہوئے اور فرمایا۔سِیْرُوْا وَابْشِرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ قَدْ وَعَدَنِی اِحْدَی الطَّائِفَتَیْنِ وَاللّٰہِ لَکَاَنِّیْ اَنْظُرُاِلٰی مَصَارِعَ الْقَوْمِ۔ یعنی توپھر’’اللہ کا نام لے کر آگے بڑھو اور خوش ہوکیونکہ اللہ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ کفار کے ان دوگروہوں (یعنی لشکر اور قافلہ) میںسے کسی ایک گروہ پروہ ہم کو ضرور غلبہ دے گا۔اورخدا کی قسم میں گویا اس وقت وہ جگہیں دیکھ رہا ہوں جہاں دشمن کے آدمی قتل ہوہوکر گریں گے۔‘‘ آپؐ کے یہ الفاظ سن کر صحابہ خوش ہوئے مگر ساتھ ہی انہوں نے حیران ہوکر عرض کیا ھَلَّا ذَکَرْتَ لَنَاالْقِتَالَ فَنَسْتَعِدَ۔ یعنی ’’یارسول اللہ!اگرآپؐ کو پہلے سے لشکر قریش کی اطلاع تھی توآپؐ نے ہم سے مدینہ میں ہی جنگ کے احتمال کاذکر کیوں نہ فرمادیاکہ ہم کچھ تیاری توکر کے نکلتے۔‘‘مگر باوجود اس خبر اور اس مشورہ کے اور باوجود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے اس خدائی بشارت کے کہ ان دوگروہوں میں سے کسی ایک پر مسلمانوں کوضرور فتح حاصل ہوگی ابھی تک مسلمانوں کو معین طور پر یہ معلوم نہیں ہوا تھا کہ ان کا مقابلہ کس گروہ سے ہوگا اور وہ ان دونوں گروہوں میں سے کسی ایک گروہ کے ساتھ مٹھ بھیڑ ہوجانے کا امکان سمجھتے تھے اور وہ طبعاً کمزور گروہ یعنی قافلہ کے مقابلہ کے زیادہ خواہش مند تھے۔
(سیرت خاتم النّبیین صفحہ 352تا 355 مطبوعہ قادیان2011)