اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




مسلمانوں نے غلاموں کی آزادی کی تعلیم پرکس طرح عمل کیا
آزاد شدہ غلاموں کیلئے تمام ترقی کے دروازے کھلے تھے

سیرت خاتم النّبیینﷺ
(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

مسلمانوں نے غلاموں کی آزادی کی تعلیم پرکس طرح عمل کیا

اب صرف یہ سوال رہ جاتا ہے کہ ان سفارشات اوران کفارہ جات اورجبری آزادیوں اوراس انتظام مکاتبت کے نتیجے میں غلاموں کی آزادی عملاًبھی وقوع میں آئی یا نہیں؟سو اس کاجواب یہ ہے کہ جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے اس زمانہ میں غلام نہایت کثرت کے ساتھ پائے جاتے تھے۔حتّٰی کہ بعض ممالک میں بعض اوقات غلاموں کی تعداد اصل آبادی سے بھی زیادہ ہوجاتی تھی۔پس اس غیر متناہی ذخیرہ کوختم کرنا کوئی آسان کام نہیںتھا اورنہ ہی یہ سارے غلام محدود اسلامی سلطنت اورمحدودترمسلمان مالکوں کے ماتحت تھے۔پس لازماًیہ آزادی کی تحریک آہستہ آہستہ ہی چل سکتی تھی،لیکن تاریخ سے ثابت ہے کہ جہاں تک صحابہ اوران کے متبعین کی کوشش کاتعلق تھاانہوں نے غلاموں کے آزاد کرنے اور آزاد کرانے میں اپنی پوری توجہ اورپوری سعی سے کام لیا اوروہ نمونہ دکھایا جویقینا تاریخ عالم میں اپنی نظیر نہیں رکھتا۔چنانچہ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ اس زمانہ میں مسلمان نہ صرف اپنے ہاتھ میں آئے ہوئے غلاموں کو کثرت سے آزاد کرتے رہتے تھے بلکہ خاص اس نیت اوراس ارادے سے غلام خریدتے بھی تھے کہ انہیں خریدکرآزاد کردیں اوراس طرح بے شمار غلام مسلمانوں کی مساعی جمیلہ سے داغ غلامی سے نجات پاگئے۔چنانچہ مندرجہ ذیل فہرست جویقینا مکمل نہیں ہے اور جس میں نمونہ کے طور پر صرف چند صحابیوں کانام لیا گیا ہے ہمارے اس دعویٰ کوثابت کرنے کیلئے کافی ہے ۔ سُبُلُ السَّلام میںروایت آتی ہے کہ:
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نےتریسٹھ غلام آزاد کئے
حضرت عائشہؓ نےسٹرسٹھ غلام آزاد کئے
حضرت عباسؓ نےسترغلام آزاد کئے
حکیم بن حزام نےیکصدغلام آزاد کئے
عبداللہ بن عمر نےایک ہزارغلام آزاد کئے
عبدالرحمن بن عوف نےتین ہزارغلام آزاد کئے
حضرت عثمان بن عفان نےبیس ہزارغلام آزاد کئے صرف ایک دن میں جوان کی شہادت کا دن تھا وَاِلّا ان کی مجموعی تعداد بہت زیادہ تھی
ذوالکلاع الحمیری نےآٹھ ہزارغلام آزاد کئےصرف ایک دن میں
میزان بتیس ہزار تین سو بیس
جیسا کہ ہم نےاوپر بیان کیاہے اس روایت میں بطور نمونہ صرف چند صحابہ کا نام لیا گیا ہے اور اگر اسی نسبت سے دوسرے کثیرالتعداد صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین کے متعلق قیاس کیا جاوے تو یہ تعداد یقینا کروڑوں سے اوپر پہنچتی ہے،لیکن حق یہ ہے کہ اس روایت میں جو تعدادمذکورہ بالاصحابہ کے آزاد کردہ غلاموں کی بیان کی گئی ہے وہ بھی درست نہیں بلکہ اصل تعداداس سے بہت زیادہ ہے۔ مثلاًحضرت عائشہ کے متعلق ایک روایت سے ثابت ہے کہ انہوں نے صرف ایک موقع پر چالیس غلام آزاد کئے تھے اور دوسری روایت سے پتہ لگتا ہے کہ انکا یہ طریق تھا کہ وہ نہایت کثرت کے ساتھ غلام آزاد کیا کرتی تھیں۔پس ان کے متعلق یہ خیال کرنا کہ انہوں نے ساری عمر میں صرف سڑسٹھ غلام آزاد کئے تھے یقینا درست نہیں۔ اسی طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق جو تعداد بتائی گئی ہے وہ گو آپؐکی ذاتی حیثیت میں درست ہو کیونکہ آپؐکی ذاتی مالی حالت اچھی نہیں تھی اور آپؐان احکامات کے جاری ہونے کے بعد زندہ بھی بہت تھوڑا عرصہ رہے تھے،لیکن یقینا اس تعداد میں وہ غلام شامل نہیں ہیں جوآپؐنے اسلامی حکومت کے ہیڈ ہونے کی حیثیت میں آزاد کئے اور جن کی تعداد بہت زیادہ تھی۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق ایک اور بات بھی یاد رکھنی چاہئے اوروہ یہ کہ آپ کے متعلق بہت سی روایات سے ثابت ہے کہ کبھی کوئی ایک غلام بھی آپؐ کے قبضہ میںنہیں آیا کہ اسے آپ نے آزاد نہ کردیا ہو۔چنانچہ مندرجہ ذیل روایت میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔
عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ اَخِیْ جُوَیْرِیَۃَ اُمِّ الْمُؤمِنِیْنَ قَالَ مَاتَرَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَ مَوْتِہٖ دِرْھَمًا وَلَا دِیْنَارًا وَلَا عَبْدًا وَلَا اَمَۃً
یعنی’’عمرو بن الحارث سے روایت ہے جوام المؤمنین جویریہؓ کے حقیقی بھائی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سالے تھے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی موت کے وقت کوئی درہم کوئی دینار کوئی غلام اورکوئی لونڈی اپنے پیچھے نہیں چھوڑی۔‘‘
الغرض اسلام کی یہ تعلیم جواس نے غلاموں کے متعلق دی صرف کاغذوں کی زینت نہیں تھی بلکہ یہ تعلیم اسلامی تہذیب وتمدن اوراسلامی طریق معاشرت کاایک ضروری جزو بن گئی تھی اورافراد وحکومت دونوں پورے شوق کے ساتھ اس پر عمل پیرا تھے۔

آزاد شدہ غلاموں کیلئے تمام ترقی کے دروازے کھلے تھے

یہ بتایا جاچکاہے کہ غلاموں کوآزادی اس اطمینان کے بعد دی جاتی تھی کہ وہ اخلاق وعادات اور روزی کمانے کی اہلیت کے لحاظ سے آزادی کے قابل ہوجائیں۔اب ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جو غلام آزاد کئے جاتے تھے وہ واقعی مفید شہری بن جاتے تھے اور اسلامی سوسائٹی میں ویسے ہی معزز ومکرم سمجھے جاتے تھے جیسے کہ دوسرے لوگ۔بلکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ طریق تھا کہ لوگوں کے پرانے خیالات کی اصلاح کی غرض سے آپ غلاموں اورآزاد شدہ غلاموں میںسے قابل لوگوں کی تعظیم وتکریم کاخیال دوسرے لوگوں کی نسبت بھی زیادہ رکھتے تھے۔چنانچہ آپ نے بہت سے موقعوںپر اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ اوران کے لڑکے اسامہ بن زید کو جنگی مہموں میں امیر مقرر فرمایااوربڑے بڑے صاحب عزت اورجلیل القدر صحابیوں کو ان کے ماتحت رکھااورجب ناسمجھ لوگوں نے اپنے پرانے خیالات کی بناء پر آپ کے اس فعل پراعتراض کیا توآپ نے فرمایا:
اِنْ تَطْعِنُوْا فِیْ اَمَارَتِہٖ فَقَدْکُنْتُمْ تَطْعِنُوْنَ فِیْ اَمَارَۃِ اَبِیْہِ مِنْ قَبْلُ وَاَیْمُ اللّٰہِ اِنْ کَانَ لَخَلِیْقًا لِلْاَ مَارَۃِ وَاِنْ کَانَ لَمِنْ اَحَبَّ النَّاسِ اِلَیَّ وَاِنَّ ھٰذَا لَمِنْ اَحَبَّ النَّاسِ اِلَیَّ بَعْدَہٗ
یعنی’’تم لوگوں نے اسامہ کے امیر بنائے جانے پر اعتراض کیا ہے اور اس سے پہلے تم اس کے باپ زید کی امارت پر بھی طعن کرچکے ہو،مگرخدا کی قسم جس طرح زید امارت کا حق دار اوراہل تھا اورمیرے محبوب ترین لوگوں میں سے تھااسی طرح اسامہ بھی امارت کااہل ہے اورمیرے محبوب ترین لوگوں میں سے ہے۔‘‘
پھراس سے بڑھ کرکیا ہوگا کہ آپؐنے اپنی حقیقی پھوپھی کی لڑکی زینب بنت جحش کو زید بن حارثہ سے بیاہ دیا اور عجیب کرشمہ یہ ہے کہ سارے قرآن میں اگر کسی صحابی کانام مذکور ہوا ہے تو وہ یہی زیدبن حارثہ ہیں۔پھرعلم وفضل میںبھی بعض آزاد شدہ غلاموں نے بہت بڑا رتبہ حاصل کیا۔ چنانچہ سالم بن معقل مولی ابی حذیفہ خاص الخاص علماء صحابہ میں سے سمجھتے جاتے تھے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قرآن شریف کی تعلیم کیلئے جن چار صحابیوں کو مقرر فرمایا تھا ان میں سے ایک سالم بھی تھے۔اورتقویٰ وطہارت کی وجہ سے تعظیم وتکریم کایہ حال تھا کہ حضرت عمرؓبلالؓ کے متعلق اکثر کہا کرتے تھے کہ وہ ہماراسردار ہے۔ پھرصحابہ کے بعدبھی بعض آزاد شدہ غلاموں نے اسلامی سوسائٹی میں بہت بڑا مرتبہ حاصل کیا۔چنانچہ عطاء بن ابی رباح،مجاہدبن جبیر،نافع مولیٰ ابن عمر اور موسیٰ بن عقبہ بزرگ ترین تابعین میں سے سمجھے جاتے تھے۔جن کے سامنے بڑے بڑے جلیل القدر لوگ زانوئے تلمیذی طے کرتے تھے۔

(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ 396تا399،مطبوعہ قادیان2011)
…٭…٭…٭…