اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-07-06

غلاموں کی آزادی کیلئے ایک مستقل انتظام

آزادشدہ غلاموں کے متعلق تعلیم

سیرت خاتم النّبیینﷺ
(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

غلاموں کی آزادی کیلئے ایک مستقل انتظام

یہ مختلف طریقے جبری آزادی کے تھے جو اسلام نے قائم کئے۔مگر ظاہر ہے کہ باوجود ان جبری آزادیوں کے پھر بھی بہت سے غلام ایسے رہ جاتے تھے جو ان صورتوں میں سے کسی صورت سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتے تھے اوردوسری طرف عام سفارشی رنگ میں ان کا آزادی حاصل کرنا یقینی نہیں تھا اس لئے ضروری تھا کہ کوئی ایسا مستقل اورپختہ انتظام کیا جاتاجس سے یہ موجود الوقت غلام خود بخود آزادی حاصل کرتے جاتے۔ سو اس کے متعلق اسلام نے وہ پُراز حکمت انتظام تجویز کیا جو مُکاتبت کے نام سے موسوم ہوتا ہے اورجس میں مالک اس بات پر مجبور ہوتا ہے کہ اگر غلام اپنے حالات کے لحاظ سے(جس کا فیصلہ حکومت یا عدالت کے ہاتھ میں ہوتا ہے نہ کہ مالک کے ہاتھ میں)آزادی کی اہلیت کوپہنچ چکا ہوتو وہ اس سے مناسب رقم پیدا کرنے کی شرط کرکے اسے آزاد کردے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَالَّذِيْنَ يَبْتَغُوْنَ الْكِتٰبَ مِمَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوْہُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِيْہِمْ خَيْرًا۝۰ۤۖ وَّاٰتُوْہُمْ مِّنْ مَّالِ اللہِ الَّذِيْٓ اٰتٰىكُمْ
یعنی’’اے مسلمانو!تمہارے غلاموں میں سے جوغلام تم سے مکاتبت کا عہد کرنا چاہیں تمہارا فرض ہے کہ ا ن سے مکاتبت کا عہد کرکے انہیں آزاد کردو بشرطیکہ وہ آزادی کے اہل بن چکے ہوں۔اورایسی صورت میں تمہارا یہ بھی فرض ہے کہ اس مال میں سے انہیں بھی حصہ دوجودراصل تو خدا کا ہے مگر خدا نے اس مکاتبت کے نتیجہ میں تمہیں عطا کیا ہے۔‘‘
یہ آیت غلاموں کی جبری آزادی کے انتظام کابنیادی پتھر ہے اوراسکے الفاظ بہت مختصر ہیں مگر اس کے معانی نہایت وسیع اورنہایت وقیع ہیں۔اس میں مسلمانوں کویہ حکم دیا گیا ہے کہ جو غلام ان کے ساتھ مکاتبت کا عہد کرکے آزاد ہونا چاہیں ان کا فرض ہے کہ انہیں آزاد کردیں بشرطیکہ وہ آزادی کے قابل بن چکے ہوں اور مکاتبت کے عہد سے یہ مراد ہے کہ غلام اور آقاکے درمیان یہ فیصلہ ہو جاوے کہ اگر غلام اپنے آقا کو اس قدر رقم ادا کردے گا تو وہ آزاد سمجھا جائے گااوراس کا طریق یہ تھا کہ اس قسم کے فیصلہ کے بعد غلام عملاًآزاد ہوجاتا تھااوراس نیم آزادی کی حالت میںوہ کوئی کام یا پیشہ از قسم تجارت یاصنعت وحرفت یازراعت یاملازمت وغیرہ اختیار کرکے مکاتبت کی رقم پوری کرنے کی کوشش کرتا تھااورجب یہ رقم پوری ہوجاتی تھی تووہ کلی طور پر آزاد سمجھا جاتا تھا اور مکاتبت کی رقم گومالک کے تصرف میں سمجھی جاتی تھی مگر مالک کایہ فرض تھاکہ اس میںسے مناسب حصہ غلام کو بھی دے۔یہ انتظام ایسا مبارک اور پُرحکمت تھاکہ اس کے نتیجہ میں غلاموں میںسے اہل لوگ نہ صرف خود بخود بطورحق کے آزاد ہوتے چلے جاتے تھے بلکہ بوجہ اس کے کہ انہیں مکاتبت کی رقم پوری کرنے کیلئے کسی آزادانہ کام میں پڑنا پڑتا تھااورایک سول معاہدہ کی ذمہ داری برداشت کرنی پڑتی تھی، ان میں آزاد زندگی گزارنے اور ملک کے مفید شہری بننے کی قابلیت بھی پیدا ہوجاتی تھی۔
مکاتبت کایہ انتظام مالک کی مرضی پرمنحصر نہیں تھا بلکہ جبری تھا۔یعنی غلام کی طرف سے مکاتبت کا مطالبہ ہونے پر مالک کوانکار کا حق نہیں ہوتا اوریہ کام عدالت یاحکومت کاتھا کہ وہ اس بات کا فیصلہ کرے کہ آیا غلام آزادی کے قابل ہوچکا ہے یانہیں۔چنانچہ روایت آتی ہے کہ:
اِنَّ سِیْرِیْنَ سَاَلَ اَنَسًا اَلْمُکَاتِبَۃَ وَکَانَ کَثِیْرَ الْمَالِ فَاَبٰی فَانْطَلَقَ اِلٰی عُمَرَفَقَالَ کَاتِبْہُ فَاَبٰی فَضَرَبَہٗ بِالدُّرَّۃِ وَیَتْلُوْ عُمَرُ فَکَاتِبُوْھُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْھِمْ خَیْرًا فَکَاتَبَہٗ
یعنی’’آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابی انسؓ کاایک غلام تھا جس کا نام سیرین تھا اس نے انس کے ساتھ مکاتبت کرنی چاہی مگر انس نے یہ خیال کرکے کہ میرے پاس بہت روپیہ ہے مجھے مکاتبت کے روپے کی ضرورت نہیں ہے۔مکاتبت سے انکار کردیا۔اس پر سیرین نے حضرت عمرؓکے پاس حضرت انسؓ کی شکایت کی۔حضرت عمرؓ نے سیرین کی شکایت سن کر انسؓ کوحکم دیا کہ وہ مکاتبت کریں،لیکن انس نے پھر بھی نہ مانا۔ جس پر حضرت عمرؓ نے انسؓکودُرّہ سے مارا اوریہ قرآنی آیت سنائی کہ’’اے مسلمانو!اگر تمہارے غلام تمہارے ساتھ مکاتبت کرنا چاہیںتوتمہارا فرض ہے کہ ان کے ساتھ مکاتبت کرو۔اس پر انس نے سیرین سے مکاتبت کاعہد کرلیا۔‘‘
مکاتبت کی فرضیت کادارومدار اس بات پر تھا کہ آیا کوئی غلام آزادی حاصل کرنے کا اہل بن چکا ہے یا نہیں۔چنانچہ یحییٰ بن کثیر سے روایت آتی ہے کہ:
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَکَاتِبُوْھُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْھِمْ خَیْرًا قَالَ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْھِمْ حِرْفَۃً وَلَاتُرْسِلُوْھُمْ کَلًّا عَلَی النَّاسِ
یعنی’’ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ یہ جو قرآن شریف میں آتا ہے کہ’’اگر تم غلاموں میںبھلائی پائو توتمہارا فرض ہے کہ تم مکاتبت سے انکار نہ کرو۔اس میں بھلائی سے مراد پیشہ وغیرہ کی اہلیت ہے یعنی مقصود یہ ہے کہ ایسے غلاموں کے ساتھ مکاتبت ضروری ہوجاتی ہے جو کوئی پیشہ یاکام وغیرہ جانتے ہوں یاجلد سیکھ سکتے ہوں تاکہ وہ آزادی حاصل کرنے کے بعد سوسائٹی پرکسی قسم کے بوجھ کاباعث نہ بنیں۔‘‘
اوریہ اوپر بتایا جاچکا ہے کہ اس بات کافیصلہ کہ کوئی غلام اس بات کی اہلیت کو پہنچا ہے یا نہیں حکومت کے ہاتھ میںتھانہ کہ مالک کی مرضی پر۔یہ حدیث اس بات کو بھی واضح کرتی ہے کہ دراصل اسلامی تعلیم کا اصل منشاء یہی تھا کہ موجود الوقت غلاموں کی حالت کو بہتر بناکر انہیں آزادی کے قابل بنایا جاوے اور جوں جوں یہ غلام آزادی کے قابل ہوتے جائیں تُوں تُوں انہیں آزادی ملتی جاوے۔
یہ مکاتبت کا طریق چونکہ غلاموں کی آزادی کے انتظام کابنیادی پتھرتھا اس لئے اسلام میں اسے نہایت پسندیدہ سمجھا گیا ہے۔چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلَا ثَۃُ حَقٍّ عَلَی اللّٰہِ عَوْنُہُمْ اَلْمُکَاتِبُ الَّذِیْ یُرِیْدُ الْاَدَاءَ وَالنَّاکِحُ الَّذِیْ یُرِیْدُ الْعِفَافَ وَالْمُجَاھِدُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ
یعنی’’ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی نصرت کواپنے اوپرایک حق کے طورپرقرار دے لیا ہے۔اول مکاتب غلام جو اپنی مکاتبت کی رقم کی ادائیگی کی فکر میں ہے۔ دوسرے وہ شادی کرنے والا شخص جواپنی عفت کے بچانے کی نیت رکھتا ہے اورتیسرے مجاہد فی سبیل اللہ۔‘‘
غلاموں کی آزادی کی تحریک صرف افراد تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ اسلامی سلطنت کابھی یہ فرض قرار دیا گیا تھا کہ وہ قومی بیت المال میںسے ایک معتدبہ حصہ غلاموں کے آزاد کرانے میں صرف کرے۔چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۝۰ۭ فَرِيْضَۃً مِّنَ اللہِ
یعنی’’زکوٰۃ کے اموال فقراء اورمساکین پرخرچ ہونے چاہئیں اور محکمہ زکوٰۃ کے عاملین پراورکمزور نومسلموں پراورغلاموں کے آزاد کرنے میں۔اور مقروضوں کے قرض کی ادائیگی میں اور اشاعت دین کیلئے اورمسافروں کو آرام پہنچانے کیلئے۔یہ ایک فرض ہے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا۔‘‘
اس آیت کی رو سے اسلامی سلطنت کافرض مقرر کیا گیا ہے کہ وہ زکوٰۃ کے محاصل میں سے غلاموں کی آزادی پر روپیہ خرچ کرے۔

آزادشدہ غلاموں کے متعلق تعلیم

غلاموں کی آزادی کے اس انتظام میں اس کو بھی مدنظر رکھا گیا تھا کہ آزاد ہونے کے بعد بھی آزادشدہ غلام بالکل بے سہارااوربے یارومددگار نہ رہیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایسا انتظام فرمایا تھا کہ مالک اور آزادشدہ غلام کے درمیان ایک قسم کارشتۂ اخوت مستقل طور پر قائم رہے۔چنانچہ آپؐکے حکم کے ماتحت مالک اورآزاد شدہ غلام ایک دوسرے کے’’مولیٰ‘‘ یعنی دوست اور مددگار کہلاتے تھے تاکہ آقا اورغلام دونوں کے دلوں میں یہ احساس رہے کہ ہم ایک دوسرے کے دوست ہیں اور بوقت ضرورت ہم نے ایک دوسرے کے کام آنا ہے اسی مصلحت کے ماتحت آزادشدہ غلام اور مالک کو ایک دوسرے کے متعلق حق موروثیت بھی عطاکیا گیا تھا۔یعنی اگر غلام بے وارث مرتا تھاتواس کا ترکہ اس کے سابقہ آقا کوجاتا تھااوراگر مالک بے وارث رہ جاتا تھا تو اس کا ورثہ اس کے آزاد کردہ غلام کوملتا تھا۔چنانچہ حدیث میں آتا ہے:
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّ الْوِلَاءَ لِمَنِ اعْتَقَ وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ رَجُلًا مَاتَ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یَدَعَ وَارِثًا اِلَّا عَبْدًا ھُوَ اِعْتَقَہٗ فَاَعْطَاہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِیْرَاثَہٗ
یعنی’’عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی آزاد شدہ غلام لاوارث مرجاوے تواس کا ترکہ اس کے سابق مالک کو ملے گا اورابن عباسؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص ایسی حالت میں مرگیا کہ اس کا کوئی وارث نہیں تھا۔البتہ اس کاایک آزاد شدہ غلام تھا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کا ترکہ اس کے آزاد شدہ غلام کو عطا فرمادیا۔‘‘
چونکہ اس حق موروثیت کی بنیاد مالی اوراقتصادی خیالات پر مبنی نہیں تھی بلکہ اصل منشاء مالک اور آزادشدہ غلام کے تعلق کو قائم رکھنا تھا اس لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ حکم جاری فرمایا کہ یہ حق موروثیت کسی صورت میںبھی بیع یاہبہ وغیرہ نہیں ہوسکتا۔چنانچہ ابن عمرؓ سے روایت آتی ہے کہ:
نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْعِ الْوِلَاءِ وَھِبَتِہٖ
یعنی’’ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے آزادشدہ غلام اورآقاکے حق موروث کی خرید وفروخت اوراس کے ہبہ وغیرہ سے منع فرمایا ہے:
پھرآزاد شدہ غلاموں کی عزت واحترام کے قیام کیلئے حدیث میں آتا ہے:
عَنْ عَائِذِ بْنِ عَمْرٍ واَنَّ اَبَاسُفْیَانَ اَتٰی عَلٰی سَلْمَانَ وَصُھَیْبٍ وَبِلَالٍ فِیْ نَفَرٍفَقَالُوْا وَاللّٰہِ مَااَخَذَتْ سُیُوْفُ اللّٰہِ مِنْ عُنُقِ عَدُوِّ اللّٰہِ مَأْخَذَھَا قَالَ فَقَالَ اَبُوْبَکْرٍ اَتَقُولُوْنَ ھٰذَا لِشَیْخِ قُرَیْشٍ وَسَیِّدِھِمْ فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاَخْبَرْہٗ فَقَالَ یَااَبَابَکْرٍلَعَلَّکَ اَغْضَبْتَھُمْ لَئِنْ کُنْتَ اَغْضَبْتَھُمْ لَقَدْ اَغْضَبْتَ رَبَّکَ فَاَتَاھُمْ اَبُوْبَکْرٍ فَقَالَ یَااِخْوَتَاہُ أَغَضَبْتُکُمْ قَالُوْا لَا یَغْفِرَاللّٰہُ لَکَ یَااَخِیْ
یعنی’’ایک دفعہ سلمان اورصہیب اوربلال وغیرہ جوآزاد شدہ غلام تھے ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے ان کے سامنے سے ابوسفیان گزرا تو انہوں نے آپس میں کہا کہ’’یہ خدا کا دشمن خدائی تلوار سے بچ گیا ہے۔‘‘حضرت ابوبکرؓ نے ان کی یہ بات سنی تو انہیں فہمائش کی اور کہا کہ کیا تم قریش کے سردار کے متعلق ایسی بات کہتے ہو؟اس کے بعد ابوبکرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؐسے سارا ماجرا عرض کیا۔آپؐ نے فرمایا ابوبکر! تم نے بلال وغیرہ کوکہیں ناراض تونہیں کردیا؟اگر تم نے انہیں ناراض کیا ہے تو ان کی ناراضگی میں خدا کی ناراضگی ہے۔حضرت ابوبکر فوراً بلال وغیرہ کے پاس واپس آئے اورکہا بھائیو!تم میری بات پرناراض تونہیں ہوئے۔انہوں نے کہا نہیںبھائی ہم ناراض نہیں ہوئے۔فکر نہ کرو۔‘‘

(سیرت خاتم النّبیین، صفحہ 392تا396،مطبوعہ قادیان2011)