اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-06-29

موجود الوقت غلاموں کی آزادی کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم

سیرت خاتم النّبیینﷺ
(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

اب ہم اس سوال کے دوسرے حصہ کو لیتے ہیں جو حاضر الوقت غلاموں کی آزادی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور جو اسلام اور بانی ٔاسلام کااصل نصب العین تھا۔سوجاننا چاہئے کہ اس کے متعلق اسلام میں دو طریق اختیار کئے گئے اول سفارشی طریق اور دوسرے جبری طریق اوران دونوں طریقوں کے متحدہ اثر کے ماتحت آزادی کی تحریک کو تقویت پہنچائی گئی۔پہلے ہم سفارشی طریق کو لیتے ہیں۔ سب سے پہلے جبکہ ابھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دعویٰ کی ابتداء ہی تھی اورآپؐمکہ میں مقیم تھے آپؐپر یہ خدا کی وحی نازل ہوئی:
وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الْعَقَبَۃُ۝ فَكُّ رَقَبَۃٍ
یعنی ’’اے رسول !کیا تم جانتے ہو کہ دین کے راستے میں ایک بڑی گھاٹی والی چڑھائی کون سی ہے جس پر چڑھ کر انسان قربِ الہٰی کی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے؟اگر تم نہیں جانتے تو ہم بتاتے ہیں کہ وہ غلام کاآزاد کرنا ہے۔‘‘
پھر فرمایا:
وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ … وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّہٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ۝۰ۙ وَالسَّاۗىِٕلِيْنَ وَفِي الرِّقَابِ
یعنی اللہ کے نزدیک بہت بڑی نیکی یہ ہے کہ انسان خدا پر ایمان لائے …اوراسکی محبت میں مال خرچ کرے رشتہ داروں پر یتیموں پر اور مسکینوں پر اور مسافروں پر اور غلاموں کے آزاد کرنے پر۔
اورحدیث میں آتا ہے:
عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ اِعْتَقَ رَقَبَۃً مُسْلِمَۃً اِعْتَقَ اللّٰہُ بِکُلِّ عُضْوٍمِنْہُ عُضْواً مِنَ النَّارِ
یعنی’’ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ جو کوئی مسلمان غلام آزاد کرے گا۔اللہ تعالیٰ اسے دوزخ سے کلی نجات عطا کر دے گا۔‘‘
پھر حدیث میں آتا ہے:
عَنْ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ جَائَ اَعْرَابِیُّ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عَلِّمْنِیْ عَمَلاً یَدْخُلُنِیْ الْجَنَّۃَ قَالَ لِاَنْ کُنْتَ اقْتَصَرْتَ الْخُطْبَۃَ لَقَدْاَعْرَضْتَ الْمُسْئَلَۃَ اِعْتِقِ النِّسْمَۃَ وَفَکِّ الرَّقَبَۃَ
یعنی’’براء بن عازب روایت کرتے ہیں کہ ایک اعرابی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا۔یارسول اللہ!مجھے آپؐکوئی ایسا عمل بتائیں کہ بس میں اس سے سیدھا جنت میں چلاجائوں۔آپؐنے فرمایا تم نے لفظ تو مختصرکہے ہیں،مگر بات بہت بڑی پوچھی ہے۔تم ایسا کرو کہ غلام کوآزاد کرو اور اگر خود اکیلے آزاد نہ کرسکو تو دوسروں کے ساتھ مل کرآزاد کرو۔‘‘
پھر حدیث میں آتا ہے:
عَنْ اَبِی بُرْدَۃَ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَیُّمَا رَجُلٍ کَانَتْ عِنْدَہٗ وَلِیْدَۃٌ فَعَلَّمَھَا فَاَحْسَنَ تَعْلِیْمَھَا وَاَدَّبَھَا فَاَحْسَنَ تَادِیْبَھَا ثُمَّ اعْتَقَھَا وَتَزَوَّجَھَا فَلَہٗ اَجْرَانِ
یعنی’’ابوبردہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی کے پاس ایک لونڈی ہو اور وہ بہت اچھی طرح اسے تعلیم دے اور بہت اچھی طرح اس کی تربیت کرے اورپھراسے آزاد کرکے اس کے ساتھ خود شادی کرے تو ایسا شخص خدا کے حضور دوہرے ثواب کا مستحق ہوگا۔‘‘
ان پُرزور سفارشات کے علاوہ اسلامی تعلیم میں بعض غلطیوں اورگناہوں کے کفارہ میں غلام کے آزاد کرنے کا قاعدہ مقرر کیا گیا ہے۔جسے گویا سفارشی اورجبری طریق کے بین بین سمجھنا چاہئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے:
وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَــــًٔا فَتَحْرِيْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَّدِيَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰٓى اَھْلِہٖٓ اِلَّآ اَنْ يَّصَّدَّقُوْا … فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَہْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ
یعنی’’کوئی شخص کسی مومن کو یونہی غلطی سے قتل کر دے تو اسکی سزا یہ ہے کہ وہ ایک مسلمان غلام آزاد کرے اور مقتول کے وارثوں کوخون بہا بھی ادا کرے سوائے اس کے کہ اسکے ورثاء اسے یہ خون بہا خود بخود معاف کردیں …اور اگر ایسے شخص کو کوئی غلام آزاد کرنے کیلئے نہ ملے تو دو ماہ کے لگاتار روزے رکھے۔‘‘
پھرفرماتا ہے:
فَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَھُوَمُؤْمِنٌ فَتَحْرِيْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ…فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَہْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ
اگر مقتول ایسی قوم میں سے ہے جو مسلمانوں کی دشمن اوران سے برسرپیکار ہے،لیکن مقتول خود مومن ہو تو پھر قاتل کی صرف یہ سزا ہے کہ وہ ایک مسلمان غلام آزاد کرے … اور اگر وہ کوئی غلام نہ پاوے تودو ماہ کے لگاتار روزے رکھے۔‘‘
اِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍؚبَيْنَكُمْ وَبَيْنَھُمْ مِّيْثَاقٌ فَدِيَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰٓى اَھْلِہٖ وَتَحْرِيْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ۝۰ۚ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَہْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ
اوراگر مقتول کسی ایسی قوم میں سے ہو جن کے اور تمہارے درمیان عہدوپیمان ہے تو خواہ مقتول کافر ہی ہو۔اسکے قاتل کی سزا یہ ہے کہ وہ مقتول کے وارثوں کوخون بہا ادا کرے اور ایک مسلمان غلام آزاد کرے اور اگر کوئی غلام نہ پائے تو دوماہ کے لگاتارروزے رکھے۔‘‘
پھر فرماتا ہے:
فَكَفَّارَتُہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰكِيْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِيْكُمْ اَوْ كِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِيْرُ رَقَبَۃٍ۝۰ۭ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلٰــثَۃِ اَيَّامٍ
یعنی اگر کوئی شخص خدا کی قسم کھا کر پھر اسے توڑے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو اپنی حیثیت کے مطابق کھانا کھلائے یا دس مسکینوں کو لباس عطا کرے یاایک غلام آزاد کرے اور اگر کوئی غلام نہ پائے تو تین دن کے روزے رکھے۔‘‘
پھرفرماتا ہے:
وَالَّذِيْنَ يُظٰہِرُوْنَ مِنْ نِّسَاۗىِٕہِمْ ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْرِيْرُ رَقَبَۃٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَـمَآسَّا…فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَہْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ …فَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ فَاِطْعَامُ سِـتِّيْنَ مِسْكِيْنًا
یعنی جو لوگ اپنی بیویوں سے علیحدہ رہنے کا عہد کرلیتے ہیں لیکن پھر کسی وجہ سے انہی کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں تو انکا کفارہ یہ ہے کہ وہ ایک غلام آزادکریں … اور اگر کوئی غلام نہ پائے تو ایساشخص دومہینے کے لگاتار روزے رکھے …اوراگر روزوں کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔‘‘
یہ وہ مختلف صورتیں ہیں جواسلام نے کفارہ میں غلاموں کے آزاد کئے جانے کی بیان کی ہیں اور اسلام نے حسبِ عادت ان کے حالات کے اختلاف کوملحوظ رکھتے ہوئے دو دو تین تین مقابلہ کی صورتیں تجویزکرکے ان میں مسلمانوں کو اختیار دے دیا ہے کہ جو صورت آسانی کے ساتھ اور بہترطور پر اختیار کی جاسکے اسے اختیار کرلیا جاوے اور کمال حکمت کے ساتھ ان آیات میں خدا تعالیٰ نے جہاں جہاں بھی غلام کے آزاد کرنے کا ذکر ہے وہاں لازماً ساتھ ہی یہ الفاظ بھی زیادہ کردیئے ہیں کہ اگرکوئی غلام نہ پائے تو پھر یہ یہ صورت اختیار کی جاوے۔جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کا اصل منشاء یہ تھا کہ بالآخر غلامی کا سلسلہ بالکل مفقود ہوجانا چاہئے۔اس کے مقابلہ میں جب سورۃ مجادلہ کی آیت میں دو ماہ کے روزوں کے مقابلہ کی صورت تجویز کی گئی ہے تو وہاں یہ الفاظ رکھے گئے ہیں کہ اگراس کی طاقت نہ ہو تو پھر یوں کیا جاوے۔پس غلام کے آزاد کئے جانے کی صورت کے مقابلہ میں لازماًان الفاظ کاآنا کہ’’اگرکوئی غلام نہ پاوے‘‘اس بات میں کوئی شبہ نہیں چھوڑتا کہ اسلام کی انتہائی غرض موجودالوقت غلاموںکی کلی آزادی تھی۔
پھر حدیث میں آتا ہے:
عَنْ اَسْمَائَ بِنْتِ اَبِیْ بَکْرٍ قَالَتْ اَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْعِتَاقِ فِی کُسُوْفِ الشَّمْسِ
یعنی’’اسماء بنت ابی بکر روایت کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مسلمانوں کو حکم دیتے تھے کہ سورج گرہن کے موقع پر غلام آزاد کیا کریں۔‘‘
اب ہم جبری آزادی کے طریق کو لیتے ہیں۔سو اسکے متعلق اسلام نے مختلف صورتیں تجویز کی ہیں۔چنانچہ حدیث میںآتا ہے:
عَنْ سُوَیْدِ بْنِ مُقْرَنٍ قَالَ لَقَدْرَ أْیْتُنِیْ وَاِنِّیْ سَابِعُ اِخْوَۃٍ لِیْ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَالَنَا خَادِمٌ غَیْرَ وَاحْدٍ فَعَمَدَ اَحَدُنَا فَلَطَمَہٗ فَاَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ نَعْتِقَہٗ
یعنی’’سوید صحابی روایت کرتے ہیں کہ ہم سات بھائی تھے اور ہمارے پاس صرف ایک غلام تھا۔ہم میںسے ایک کو کسی بات پر غصہ آیاتو اس نے اس غلام کو ایک طمانچہ رسید کردیا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوعلم ہوا تو آپؐنے ہمیں حکم دیا کہ ہم اس غلام کوآزاد کردیں۔‘‘
یہی حدیث ابن عمر سے بھی مروی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے غلام کو مارے اورپھر اسے آزاد کردے تو اسے اسکے فعل کا کوئی ثواب نہیں ہوگا کیونکہ غلام کاآزاد کیا جانا اسلام میں مالک کے مارنے کے فعل کی سزا قرار پاچکا ہے۔گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے غلاموں کو جبری طور پر آزاد کرنے کا ایک طریق یہ اختیار کیا کہ مالک کیلئے غلام کومارنے کی سزایہ مقرر کردی کہ وہ اسے فوراًآزاد کردے۔
پھر حدیث میں آتا ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ مَلَکَ ذَارِحْمٍ مُحَرَّمٍ فَھُوَحُرٌّ
یعنی’’ابن عمرروایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہے کہ اگر کسی شخص کے قبضہ میں کوئی ایسا غلام آجاوے جو اس کا قریبی رشتہ دارہے تو وہ غلام خود بخود آزاد سمجھا جائے گا۔‘‘
پھرحدیث میں آتا ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنِ اعْتَقَ شِرْکًالَّہٗ فِیْ مَمْلُوْکٍ فَعَلَیْہِ عِتْقَہٗ کُلَّہٗ اِنْ کَانَ لَہٗ مَالٌ یَبْلُغُ ثَمَنَہٗ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ وَاِلَّاقُوِّمَ عَلَیْہِ فَاسْتَسْعیٰ بِہٖ غَیْرَ مَشْقُوْقٍ عَلَیْہِ
یعنی’’ابن عمراور ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی غلام کی ملکیت میںد وسروں کے ساتھ حصہ دار ہو اور وہ اپنے حصہ میں غلام کوآزاد کردے تو اسکا یہ فرض ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے مال میںسے دوسرے حصہ داروں کو بھی روپیہ دے کر غلام کو کلیتہً آزاد کرادے اور اگر اسکے پاس اتنا روپیہ نہ ہو توپھر بھی غلام کوعملاًآزاد کردیا جائے گا تاکہ وہ خوداپنی کوشش سے بقیہ رقم پیدا کرے اوردوسرے مالکوں کو ادا کرکے کلی طور پر آزاد ہوجاوے اوراس معاملہ میں غلام کوہر قسم کی سہولت دی جائے گی۔‘‘
پھر حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ مشرکین مکہ کے بعض غلام بھاگ کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آگئے جس پر مشرکوں نے آپؐسے درخواست کی کہ وہ غلام انہیں واپس دے دیئے جائیں اور بعض مسلمانوں نے بھی ان کی سفارش کی،مگراس پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے۔چنانچہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
غَضِبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلِی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاَبِیٰ اَنْ یَرُدَّھُمْ وَقَالَ ھُمْ عُتَقَائُ اللّٰہِ
یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اس موقع پر سخت ناراض ہوئے اور غلاموںکے واپس کرنے سے انکار کردیااور فرمایا کہ یہ تو خدا کے آزاد کردہ غلام ہیں۔کیا میں انہیں پھر غلامی اور شرک کی طرف لوٹادوں۔‘‘
پھر حدیث میںآتا ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَیُّمَا رَجُلٍ وَلَدَتْ اَمَتُہٗ مِنْہُ فَھِیَ مُعْتَقَۃٌ عَنْ دُبُرٍمِنْہُ۔ وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اُمُّ الْوَلَدِ حُرَّۃٌ وَاِنْ کَانَ سَقْطًا۔
یعنی ’’ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص اپنی لونڈی کے ساتھ رشتہ کرلے اور اسے آزادنہ بھی کرے تو پھر بھی اگر اس لونڈی کے بطن سے اس کے ہاں کوئی اولاد ہوجاوے تو اس کے بعد وہ لونڈی خود بخود آزادسمجھی جائے گی اور ایک روایت میں یوں ہے کہ اُمِّ وَلَد بیوی بہرحال آزاد سمجھی جائے گی خواہ بچہ کی پیدائش اسقاط کی صورت میں ہی ہو۔‘‘

(سیرت خاتم النّبیین صفحہ 386تا 391،مطبوعہ قادیان2011)