اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-04-13

جنگ بدر کے متعلق ایک ابتدائی بحث
(بقیہ)

اب صرف یہ سوال حل طلب رہ جاتا ہے کہ کیا یہ ممکن تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کولشکر قریش کی خبر مدینہ میں ہی مل جاتی اورپھر یہ کہ اگر آپؐ کویہ خبر مل گئی تھی توآپؐنے کیوں صرف بعض صحابہ کو اطلاع دی اوراکثر مسلمان اس سے بے خبر رہے؟سواس کا پہلاجواب تو یہ ہے کہ ہاں ایسا ممکن تھاکیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے نبی اوررسول تھے اورآپؐ پرخدا کا کلام نازل ہوتا تھااورتاریخ سے ثابت ہے کہ بسااوقات آپؐکوآئندہ ہونے والے واقعات یاغیب کی خبروں سے خدائی وحی کے ذریعہ اطلاع دی جاتی تھی۔پس اگر اس موقع پر بھی آپؐ کو خدائی الہام کے ذریعہ یہ اطلاع مل گئی ہو کہ قریش کاایک لشکر آرہا ہے تواس میں کوئی تعجب کی بات نہیں اورآپؐ کی زندگی کے واقعات کے لحاظ سے یہ ایک نہایت معمولی واقعہ سمجھا جائے گا۔اورچونکہ ایسا الہام جو کسی پیشگوئی کا حامل ہو بعض اوقات تاویل طلب ہوتا ہے اوراس کی پوری تفہیم بعض اوقات خود ملہم کوبھی واقعہ سے قبل نہیں ہوتی ۔اس لئے ممکن ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے احتیاطاًاس الٰہی خبر کی اطلاع صرف خاص خاص صحابہ کو دی ہواوراکثر مسلمانوں کواس کی اطلاع نہ دی گئی ہوتاکہ ان میں اس خبر سے کسی قسم کی بددلی نہ پھیلے جیسا کہ قرآن شریف سے بھی پتہ لگتا ہے کہ اسی جنگ میں دوسرے موقع پر بددلی کے سدباب کے لئے خدانے یہ تصرف فرمایا تھا کہ مسلمانوں کی نظروں میں کفار کا لشکران کی اصلی تعداد سے کم نظر آتا تھا۔دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ ظاہری حالات کے لحاظ سے بھی یہ بات بالکل ممکن تھی کہ آپؐ کو مدینہ میں ہی لشکر قریش کی اطلاع موصول ہوجاتی ۔کیونکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ جب ابوسفیان کا قاصد مکہ میں پہنچا توقریش نے تین دن تیاری میں صرف کئے۔ اورپھر بدر تک پہنچنے میں آٹھ یانودن مزید لگ گئے۔ یہ کل گیارہ یابارہ دن ہوئے۔ باوجود اس کے جب اسلامی لشکربدر میں پہنچا تولشکر قریش پہلے وہاں پہنچا ہواتھا اورچونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بدر میں سولہ رمضان کوپہنچے تھے اس لئے یہ مانناپڑے گاکہ قریش کالشکر غالباً پندرہ تاریخ کو وہاں پہنچ گیا ہوگا اب ان پندرہ دنوں میں سے گیارہ یابارہ دن تیاری اورسفر کے نکال دیں تو یہ یقینی نتیجہ نکلتا ہے کہ قریش نے تین یاچار رمضان کومکہ سے نکلنے کا ارادہ کیا تھا۔دوسری طرف اسلامی لشکر کے مدینہ سے نکلنے کی تاریخ عقلاًبھی اورروایتہ بھی بارہ رمضان ثابت ہوتی ہے۔ گویا قریش کی تیاری اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خروج از مدینہ کے درمیان پورے آٹھ یانودن کا وقفہ تھا۔اس عرصہ میں لشکر قریش کی اطلاع بڑی آسانی کے ساتھ مدینہ میں پہنچ سکتی تھی بلکہ یہ عرصہ ایک شخص کے مکہ سے مدینہ جانے اور مدینہ سے پھر مکہ واپس آجانے کے لئے بھی کافی تھا۔کیونکہ تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ ایک تیزروسوار جوہرقسم کے بوجھوں سے آزاد ہوتیسرے چوتھے دن مکہ سے مدینہ پہنچ جاتا تھا۔
اوراگر یہ سوال ہوکہ مکہ سے اطلاع دینے والا کون تھا؟تواس کا جواب یہ ہے کہ علاوہ اس کے کہ ابھی تک مکہ میں بعض کمزور اورغریب مسلمان موجود تھے جواس قسم کے خطرات کی حالت میں خبر رسانی کاانتظام کرسکتے تھے۔ابھی تک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حقیقی چچاعباس بن عبدالمطلب بھی مکہ میںہی تھے اورتاریخ سے ثابت ہے کہ وہ ہرقسم کی ضروری خبریں مکہ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوبھجوایاکرتے تھے۔ چنانچہ غزوہ احد کے متعلق توخاص طورپر یہ ذکر آتا ہے کہ عباس نے اس موقع پر لشکر قریش کی خبر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو مخفی طورپربھجوائی تھی اورقاصد سے یہ شرط کی تھی کہ وہ تین دن کے اندر اندر یہ خبر مدینہ پہنچا دے گا۔چنانچہ یہ قاصد واقعی تین دن میں مدینہ پہنچ گیا تھا اورآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو لشکر قریش کی بروقت اطلاع ہوگئی اورآپؐ نے شروع شروع میں یہ خبر صرف خاص خاص صحابہ پرظاہر فرمائی اور بعد میں اعلان کیا۔ان حالات میں کیایہ قرین قیاس نہیں بلکہ میں کہوں گا کہ یہ اغلب نہیں ہے کہ بدر کے موقع پر بھی عباس کی کوئی مخفی تحریر آپؐکوپہنچ گئی ہو اور آپؐنے اس خیال سے کہ مسلمانوں میں بددلی نہ پیدا ہواس کا ذکر صرف خاص خاص صحابہ سے فرمایا اورعامۃ المسلمین سے اس خبر کو مخفی رکھا ہو؟بلکہ ان حالات کی وجہ سے جواوپر بیان ہوچکے ہیں بدر کے موقع پر اس قسم کاپردہ رکھنا زیادہ ضروری تھا اورپھر یہ راز داری بدر میں اُحد کی نسبت آسان بھی زیادہ تھی کیونکہ اس موقع پرقافلہ کی آمد کی خبر بھی ساتھ موجود تھی جس کی وجہ سے لشکر قریش کی خبر آسانی کے ساتھ اورآخر وقت تک پردہ میں رکھی جاسکتی تھی۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں اُحد کے موقع پر عباس کی چٹھی کی خبر ظاہرہوگئی۔کیونکہ گوشروع میں راز رکھا جاسکتا تھا،لیکن بالآخر اس کے اظہار کے بغیر چارہ نہیں تھا۔بدر کے موقع پر یہ خبر آخروقت تک بالکل پردہ میں رہی اورممکن ہے بلکہ اغلب ہے کہ خدائی منشاء کے ماتحت جس کا قرآن شریف میں بھی اشارہ پایا جاتا ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے آخری وقت تک یہ پردہ رکھنا ضروری خیال کیا ہو۔
خلاصہ کلام یہ کہ قرآن شریف اورتاریخ و حدیث کے مطالعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ تو عام مؤرخین کایہ خیال درست ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورسارے کے سارے مسلمان محض قافلہ کے خیال سے مدینہ سے نکلے تھے اورلشکر قریش کی اطلاع سے وہ سب قطعی طورپر بے خبر تھے اور نہ ہمارے جدیدمحققین کی یہ رائے درست ہے کہ مدینہ میں ہی سارے مسلمانوں کو لشکر قریش کی آمد کی اطلاع ہوگئی تھی اوروہ اس اطلاع کے بعد مدینہ سے نکلے تھے بلکہ حق یہ ہے کہ پیشتر اس کے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ سے نکلتے لشکر اورقافلہ دونوں کی اطلاع آپؐ کوپہنچ چکی تھی۔مگر لشکر کی آمدمصلحتاً بصیغہ راز رکھی گئی اورسوائے بعض خاص خاص صحابہ کے جو غالباًصرف اکابرمہاجرین میں سے تھے باقی سارے مسلمان اس سے بالکل بے خبر رہے اوراسی بے خبری کی حالت میں وہ مدینہ سے نکلے حتّٰی کہ بدر کے پاس پہنچ کر لشکر قریش سے ان کا اچانک سامنا ہوگیا۔واللہ اعلم۔
یہ سوال کہ کفار کی طرف سے جنگ بدر کا سبب کیا تھا ۔یعنی لشکر قریش مکہ سے کس غرض وغایت کے ماتحت نکلا تھا۔ اس کے متعلق قرآن شریف مندرجہ ذیل صداقت پیش کرتا ہے۔
وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْ بَطَرًا وَّرِئَاۗءَ النَّاسِ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۭ وَاللہُ بِمَا يَعْمَلُوْنَ مُحِيْطٌ ’’یعنی اے مسلمانو!تم ان کفار کی طرح مت بنوجواپنے گھروںسے تکبر اورنمائش کا اظہار کرتے ہوئے نکلے تھے اوران کی غرض یہ تھی کہ اللہ کے دین کے رستے میں جبری طور پر روکیں پیدا کریں۔مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی کارروائیوں کامحاصرہ کرکے انہیں خائب وخاسر کردیا۔‘‘
اس آیت سے پتہ لگتا ہے کہ خواہ تحریکی سبب کوئی ہواہو اس مہم میں قریش مکہ کی اصل غرض وغایت ان کے ان خونی ارادوں پرمبنی تھی جو وہ شروع سے اسلام اوربانی ٔاسلام کے متعلق رکھتے تھے اور قافلہ کی حفاظت یا عمروبن حضرمی کے قتل کے انتقام کاخیال محض ایک آلہ تھاجس سے وہ عوام کو اشتعال دلانے اوران کے جوشوں کوقائم رکھنے کا کام لیتے تھے اورتاریخ سے بھی اسی کی تصدیق ہوتی ہے۔چنانچہ قافلہ کے خطرے کی اطلاع آنے پربجائے اس کے کہ قریش جلدی سے نکل کھڑے ہوتے ان کا پورے سازوسامان اورپوری تیاری کے ساتھ تین دن کے بعد نکلنااورراستہ میں قافلہ کے بچ کرنکل جانے کی اطلاع آجانے پربھی بڑی رعونت کے ساتھ آگے بڑھنے پراصرارکرنا اورپھر عین میدان جنگ میں پہنچ کر جب کہ بعض لوگو ں کی طرف سے جنگ کے روک دیئے جانے کی تحریک ہوئی ابوجہل وغیرہ کا نہایت سختی کے ساتھ لڑنے پراصرار کرنا اورسارے لوگوں کااسی کی تائید میں ہونا یہ سب اس بات کی یقینی شہادتیں ہیں کہ دراصل قافلہ کی حفاظت اورعمرو بن حضرمی کے قتل کے انتقام کاخیال ایک محض بہانہ تھا اوراصل غرض اسلام کو مٹانا اورمسلمانوں کونیست ونابود کرناتھی۔
اس اصولی بحث کے بعد ہم جنگ بدر کے حالات کابیان شروع کرتے ہیں۔مگر ہم ناظرین سے استدعا کریں گے کہ ہماری اس اصولی بحث کوبدر کے حالات کے مطالعہ کے بعد ایک دفعہ پھر ملاحظہ فرمائیں۔کیونکہ جنگ بدر کے حالات معلوم ہونے پر یہ بحث زیادہ آسانی کے ساتھ سمجھ آسکتی ہے۔
(باقی آئندہ)
(سیرت خاتم النّبیینؐ،صفحہ345تا348،مطبوعہ قادیان2011)