اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-06-01

جنگ بدر

سیرت خاتم النّبیینﷺ
(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

جنگ بدر(بقیہ )


مدینہ پہنچ کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قیدیوں کے متعلق مشورہ کیا کہ ان کے متعلق کیا کرنا چاہئے۔عرب میں بالعموم قیدیوں کو قتل کردینے یامستقل طورپر غلام بنالینے کا دستور تھا۔مگر آنحضرت ﷺ کی طبیعت پر یہ بات سخت ناگوار گزرتی تھی اورپھر ابھی تک اس بارہ میں کوئی الہٰی احکام بھی نازل نہیں ہوئے تھے۔حضرت ابوبکرؓنے عرض کیا کہ میری رائے میں تو ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ آخر یہ لوگ اپنے ہی بھائی بند ہیں اور کیا تعجب کہ کل کوانہی میں سے فدایانِ اسلام پیدا ہوجائیں۔مگر حضرت عمرؓ نے اس رائے کی مخالفت کی اور کہاکہ دین کے معاملہ میں رشتہ داری کاکوئی پاس نہیں ہونا چاہئے اوریہ لوگ اپنے افعال سے قتل کے مستحق ہوچکے ہیں۔پس میری رائے میں ان سب کو قتل کردینا چاہئے بلکہ حکم دیا جاوے کہ مسلمان خود اپنے ہاتھ سے اپنے اپنے رشتہ داروں کوقتل کریں۔ آنحضرت ﷺ نے اپنے فطری رحم سے متاثر ہو کر حضرت ابوبکر کی رائے کوپسند فرمایااورقتل کے خلاف فیصلہ کیا اورحکم دیا کہ جو مشرکین اپنا فدیہ وغیرہ ادا کردیں انہیں چھوڑ دیا جاوے۔ چنانچہ بعد میں اسی کے مطابق الٰہی حکم نازل ہوا۔ چنانچہ ہر شخص کے مناسب حال ایک ہزار درہم سے لے کر چار ہزار درہم تک اسکا فدیہ مقرر کردیا گیا۔ اس طرح سارے قیدی رہا ہوتے گئے۔ عباس جو آنحضرت ﷺکے حقیقی چچا تھے اور ان کو آپ سے اورآپ کو ان سے بہت محبت تھی ان کے متعلق انصار نے عرض کیا کہ یہ ہمارا بھانجہ ہے۔ ہم انہیں بغیر فدیہ کے چھوڑ دیتے ہیں،لیکن گوقیدی کو بطور احسان کے چھوڑ دینا اسلام میں جائز بلکہ پسندیدہ تھا مگر اس موقع پر عباس کے متعلق آنحضرت ﷺ نے نہیں مانااور فرمایا کہ عباس فدیہ ادا کریں توتب چھوڑے جائیں۔عباس کے متعلق یہ بھی روایت آتی ہے کہ جب وہ مسجد نبوی میں بندھے ہوئے پڑے تھے تو رات کے وقت ان کے کراہنے کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کونیند نہیں آتی تھی۔ انصار کو معلوم ہوا تو انہوں نے عباس کے بندھن ڈھیلے کردیئے۔ آنحضرت ﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی توآپؐنے فرمایااگر بندھن ڈھیلے کرتے ہو تو سب کے کرو۔عباس کی کوئی خصوصیت نہیں۔چنانچہ سارے قیدیوں کے بندھن ڈھیلے کردیئے گئے۔آنحضرت ﷺ کے دامادابوالعاص بھی اسیرانِ بدر میں سے تھے۔ ان کے فدیہ میں ان کی زوجہ یعنی آنحضرت ﷺ کی صاحبزادی زینب نے جو ابھی تک مکہ میں تھیں کچھ چیزیں بھیجیں۔ان میں ان کا ایک ہار بھی تھا۔یہ ہار وہ تھاجوحضرت خدیجہ نے جہیز میں اپنی لڑکی زینب کو دیا تھا۔ آنحضرت ﷺنے اس ہار کو دیکھا تو مرحومہ خدیجہؓ کی یاد دل میں تازہ ہوگئی اورآپؐچشم پُرآب ہوگئے اورصحابہ سے فرمایااگرتم پسند کروتوزینب کا مال اسے واپس کردو۔ صحابہ کو اشارہ کی دیر تھی زینب کا مال فوراًواپس کردیا گیا اورآنحضرت ﷺ نے نقد فدیہ کے قائم مقام ابوالعاص کے ساتھ یہ شرط مقرر کی کہ وہ مکہ میں جاکر زینب کو مدینہ بھجوادیں اوراس طرح ایک مومن روح دارِکفر سے نجات پاگئی۔ کچھ عرصہ بعد ابوالعاص بھی مسلمان ہوکر مدینہ میں ہجرت کرآئے اوراس طرح خاوند بیوی پھراکٹھے ہو گئے۔ حضرت زینب کی ہجرت کے متعلق یہ روایت آتی ہے کہ جب وہ مدینہ آنے کیلئے مکہ سے نکلیں تومکہ کے چند قریش نے ان کو بزور واپس لے جانا چاہا۔جب انہوں نے انکار کیا تو ایک بدبخت ھبار بن اسود نامی نے نہایت وحشیانہ طریق پران پرنیزے سے حملہ کیا جس کے ڈر اورصدمہ کے نتیجہ میں انہیں اسقاط ہوگیابلکہ اس موقع پر ان کو کچھ ایسا صدمہ پہنچ گیا کہ اسکے بعد ان کی صحت کبھی بھی پورے طورپر بحال نہیں ہوئی اور بالآخر انہوں نے اسی کمزوری اورضعف کی حالت میں بے وقت انتقال کیا۔
قیدیوں میں جو غریب لوگ تھے اورفدیہ ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتے تھے وہ آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے ماتحت یونہی بطور احسان رہا کردیئے گئے۔ مگر جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ان کی رہائی آنحضرتﷺ نے اس شرط کے ساتھ مشروط فرمائی کہ دس دس بچوں کو نوشت وخواند سکھادیں تورہا کئے جاویں۔چنانچہ زیدبن ثابت نے جوبعد میں آنحضرت ﷺ کے کاتبِ خاص کے فرائض سرانجام دیتے رہے ہیںاسی طرح لکھنا پڑھنا سیکھا تھا۔
قیدیوں میں سہیل بن عمروبھی تھا جورئوساء قریش میں سے تھا اورنہایت فصیح وبلیغ خطیب تھا اور عموماًآنحضرت ﷺکے خلاف لیکچر دیتا رہتا تھا۔جب وہ بدر میں قید ہوا تو حضرت عمرؓ نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ!سہیل بن عمروکے اگلے دانت نکلوا دیئے جاویں تاکہ وہ آپ کے خلاف زہر نہ پھیلاسکےمگر آپؐنے اس تجویز کو بہت ناپسند کیااور ساتھ ہی فرمایا کہ عمر تمہیں کیا معلوم ہے کہ خدا آئندہ اسے ایسے مقام پر کھڑاکرے جو قابل تعریف ہو۔چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر سہیل مسلمان ہوگیا اور آنحضرت ﷺ کی وفات پر اس نے متزلزل لوگوں کو بچانے کیلئے اسلام کی تائید میں نہایت پراثرخطبے دئیے جس سے بہت سے ڈگمگاتے ہوئے لوگ بچ گئے اوراسی سہیل کے متعلق روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں وہ اورابوسفیان اوربعض دوسرے رئوساء مکہ جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے تھے حضرت عمرؓ کوملنے کیلئے گئے۔ اتفاق سے اسی وقت بلالؓ اورعمارؓ اورصہیبؓ وغیرہ بھی حضرت عمرؓ سے ملنے کیلئے آگئے۔یہ وہ لوگ تھے جو غلام رہ چکے تھے اوربہت غریب تھے مگر ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے ابتداء میں اسلام قبول کیا تھا۔حضرت عمرؓکو اطلاع دی گئی تو انہوں نے بلال وغیرہ کوپہلے ملاقات کیلئے بلایا۔ابوسفیان نے جس کے اندر غالباًابھی تک کسی قدر جاہلیت کی رگ باقی تھی یہ نظارہ دیکھا تو اسکے تن بدن میں آگ لگ گئی۔چنانچہ کہنے لگا ’’یہ ذلت بھی ہمیں دیکھنی تھی کہ ہم انتظار کریں اوران غلاموں کوشرفِ ملاقات بخشا جاوے۔‘‘ سہیل نے فوراً سامنے سے جواب دیا کہ’’پھر یہ کس کا قصور ہے؟محمد ﷺنے ہم سب کو خدا کی طرف بلایا لیکن انہوں نے فوراًمان لیا اور ہم نے دیر کی۔ پھر ان کو ہم پر فضیلت حاصل ہویانہ ہو؟ قیدیوں میں ایک شخص ولید بن ولیدتھاجومکہ کے رئیس اعظم ولید بن مغیرہ کالڑکا اورخالد بن ولید کا بھائی تھا۔ صحابہ نے اس سے چارہزار درہم فدیہ مانگا جواسکے بھائیوں نے ادا کردیا اورولید رہا ہوکر مکہ پہنچ گیا۔ مکہ میں پہنچ کر ولید نے اسلام کااظہار کردیا۔اسکے بھائی اس پر سخت ناراض ہوئے اورکہا کہ تو نے مسلمان ہی ہونا تھاتوفدیہ کیوں ادا کیا۔ولید نے جواب دیا کہ میں نے اس لئے فدیہ ادا کرنے کے بعد اسلام کا اظہار کیا ہے کہ تالوگ یہ خیال نہ کریں کہ میں فدیہ سے بچنے کیلئے مسلمان ہوا ہوں۔اسکے بعد مکہ والوں نے ولید کواپنے پاس قید کرلیا اور سخت تکالیف پہنچائیں مگر وہ ثابت قدم رہا اورآخر کچھ عرصہ کے بعد موقع پاکر مدینہ بھاگ آیا۔
مکہ میں جب لشکر قریش کی شکست اوررئوساء قریش کی ہلاکت کی خبر پہنچی توایک کہرام مچ گیا اس حالت کودیکھ کر ابوسفیان اوربعض دوسرے ذی اثر قریش نے اعلان کروایا کہ کوئی شخص اس وقت تک مقتولین بدر پر نوحہ نہ کرے جب تک کہ ہم لوگ مسلمانوں سے بدر کا بدلہ نہ لے لیں اوراس طرح عامۃ الناس کے جوش نوحہ کوانتقام کی تیاری میں لگا دیا گیا،مگر بدر کا صدمہ ایسا نہ تھا کہ عرب کی فطرت اسے آسانی سے دبا سکتی۔چنددن کے صبر وخاموشی کے بعد پھر گھر گھر سے صدائے ماتم بلند ہونی شروع ہوئی اوربدر کے مقتول مکہ کی گلی کوچوں میں برملا طورپر پیٹے جانے لگے۔عرب کی سی آتشی فطرت اورپھربدر کی سی تباہی اسکے نتیجہ میں جو ماتم بھی ہوسکتا تھا وہ ہوااوربرابر ایک ماہ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ شروع شروع میں جبکہ قریش اظہارِ ماتم سے رکے ہوئے تھے اورپھر جوشِ ماتم کودبا نہ سکنے کی وجہ سے پھوٹ پڑے اس وقت کی ایک مثال روایات میں خاص طورپر مذکور ہوئی ہے اور ناظرین کی بصیرت کیلئے ہم اسے یہاں درج کرتے ہیں۔اسود بن عبدیغوث مکہ کا ایک رئیس تھا۔ اسکے دو لڑکے اورایک پوتا جنگ بدر میں مارے گئے تھے مگر رئوساء قریش کے فیصلہ کی وجہ سے وہ خاموش تھا اور فرطِ غم سے اندر ہی اندرگھلا جاتا تھا۔ایک رات اس نے اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے باہر گلی میںسے رونے چلانے کی آواز سنی۔اس آواز نے اسے بے چین کردیااوراس نے اپنے نوکرکوبلا کرکہادیکھو تویہ آواز کیسی ہے۔شاید رئوساء قریش نے ماتم کرنے کی اجازت دے دی ہے۔اگر یہ درست ہے تو میرے سینے میں ایک آگ لگ رہی ہے میں بھی جی کھول کر رولُوں کہ دل کا کچھ بخار تو نکل جاوے۔نوکر گیا اورخبرلایا کہ ایک عورت کااونٹ کھویا گیا ہے اوروہ اس پر نوحہ کررہی ہے۔ شاعری عرب کی فطرت میں تھی اسود کے منہ سے بے اختیار یہ شعر نکلے اوردَبے ہوئے جذبات پھوٹ کر باہرآگئے۔
اَتَبْکِیْ اَنْ یُضِلَّ لَھَا بَعِیْرُ
وَیَمْنَعُھَا مِنَ النَّوْمِ السُّھُوْدُ
فَلَا تْبکِیْ عَلٰی بَکْرٍ وَلٰکِنْ
عَلٰی بَدْرٍ تَقَاصَرَتِ الْجُدُوْدُ
وَبَکِّیْ اِنْ بَکَیْتِ عَلٰی عَقِیْلٍ
وَبَکِّیْ حَارِثًا اَسَدِ الْاُسُوْدِ
یعنی’’کیا وہ عورت اس بات پر رورہی ہے کہ اس کا ایک اونٹ کھوگیاہے اوراس نقصان کا غم اسے رات کو سونے نہیں دیتا۔اے عورت!تواس اونٹ پر کیا روتی ہے۔ روبدرپرجہاں کہ ہماری قسمت نے یاوری نہ کی۔ہاں!اگر تو نے رونا ہے تو رومیرے عقیل پراوررومیرے حارث پر جو شیروں کا شیر تھا۔‘‘
غرض اس طرح ماتم کے رکے رہنے کا اعلان دھرے کا دھرا رہ گیا اورایک ایک کر کے سارے قریش ماتم کی رَو میں بہ گئے۔صرف ایک گھر تھا جوخاموش تھا اوروہ ابوسفیان کاگھر تھا۔ابوسفیان کی بیوی ہند قریش کے رئیس اعظم عتبہ بن ربیعہ کی لڑکی تھی اوریہ بیان کیا جاچکا ہے کہ بدر کے میدان میں عتبہ اوراس کا لڑکا ولید اوراس کا بھائی شیبہ سب خاک میں مل چکے تھے،مگر مردانہ صفت ہند نے ایک لفظ بھی نوحہ کااپنے منہ سے نکلنے نہیں دیا۔ لوگ آآکر اس سے پوچھتے تھے کہ اے ہند!توکیوں خاموش ہے۔ہند جواب دیتی تھی کہ ’’اگرآنسو میرے غم کی آگ کوبجھا سکتے تو میں بھی روتی لیکن میںجانتی ہوں کہ آنسو میری آگ کو نہیںبجھا سکتے۔ اب یہ آگ اس وقت بجھے گی کہ تم لوگ پھر محمد کے خلاف میدان میں نکلو اور بدر کا بدلہ لو۔
جنگِ بدر کااثر کفار اورمسلمانوں ہردو کیلئے نہایت گہرا اوردیر پا ہوا اوراسی لئے تاریخ اسلام میں اس جنگ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے حتّٰی کہ قرآن شریف میں اس جنگ کا نام یوم الفرقان رکھا گیا ہے۔یعنی وہ دن جبکہ اسلام اورکفر میں ایک کھلا کھلا فیصلہ ہوگیا۔ بے شک جنگِ بدر کے بعد بھی قریش اور مسلمانوں کی باہم لڑائیاں ہوئیں اور خوب سخت سخت لڑائیاں ہوئیں اور مسلمانوں پر بعض نازک نازک موقعے بھی آئے،لیکن جنگ بدر میں کفار مکہ کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی جسے بعد کا کوئی جراحی عمل مستقل طورپر درست نہیں کرسکا۔تعداد مقتولین کے لحاظ سے بے شک یہ کوئی بڑی شکست نہیں تھی۔قریش جیسی قوم میںستر بہتر سپاہیوں کامارا جانا ہرگز قومی تباہی نہیںکہلاسکتا۔جنگ احد میں یہی تعداد مسلمان مقتولین کی تھی،لیکن یہ نقصان مسلمانوں کے فاتحانہ رستہ میں ایک عارضی روک بھی ثابت نہیںہوا۔پھروہ کیا بات تھی کہ جنگِ بدر یوم الفرقان کہلائی؟اس سوال کے جواب میں بہترین الفاظ وہ ہیں جو قرآن شریف نے بیان فرمائے اور وہ یہ ہیں یَقْطَعَ دَابِرَ الْکَافِرِیْنَ۔ واقعی اس دن کفار کی جڑ کٹ گئی۔یعنی جنگ بدر کی ضرب کفار کی جڑ پر لگی اوروہ دوٹکڑے ہوگئی۔اگر یہی ضرب بجائے جڑ کے شاخوں پر لگتی توخواہ اس سے کتنا گنا زیادہ نقصان کرتی وہ نقصان اس نقصان کے مقابلہ میں ہیچ ہوتا،لیکن جڑکی ضرب نے ہرے بھرے درخت کو دیکھتے دیکھتے ایندھن کاڈھیر کردیا اور صرف وہی شاخیں بچیں،جو خشک ہونے سے پہلے دوسرے درخت سے پیوند ہوگئیں۔ پس بدر کے میدان میں قریش کے نقصان کا پیمانہ یہ نہیں تھا کہ کتنے آدمی مرے بلکہ یہ تھا کہ کون کون مرے اورجب ہم اس نقطۂ نگاہ سے قریش کے مقتولین پہ نظر ڈالتے ہیں تو اس بات میں ذرا بھی شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ بدر میں فی الواقع قریش کی جڑ کٹ گئی۔عتبہ اور شیبہ اور امیہ بن خلف اور ابوجہل اورعقبہ بن ابی معیط اور نضر بن حارث وغیرہ قریش کی قومی زندگی کی روح رواں تھے اوریہ روح بدر کی وادی میں قریش سے ہمیشہ کیلئے پرواز کرگئی اوروہ ایک قالب بے جان کی طرح رہ گئے۔یہ وہ تباہی تھی جس کی وجہ سے جنگِ بدر یوم فرقان کے نام سے موسوم ہوئی اورخود قریش بھی اس نقصان کے اندازہ کو خوب سمجھتے تھے۔چنانچہ قریش کا ایک معززشاعر بدر کے مقتولین کا نوحہ کرتا ہوا کہتا ہے اورکیا خوب کہتا ہے
اَلَا قَدْ سَادَ بَعْدَھُمْ اُنَاسٌ
وَلَوْلَا یَوْمُ بَدْرٍ لَمْ یَسُودُوْا
’’ان رئوساء قریش کے بعد کہ جو بدر کے دن مارے گئے ایسے لوگ قومی ریاست کے مسند پر بیٹھے ہیں کہ اگر بدر کادن نہ ہوتا تویہ لوگ ہرگزرئیس نہ بن سکتے۔ اللہ اللہ کیا تباہی تھی جو اس قوم پر آئی! بدر کی شکست کیا تھی کہ گویا قوم رانڈ ہوگئی۔بے شک رئوساء زادے اب بھی قریش میں کافی موجود تھے اوروہ لوگ بھی تھے جوریاست کی صف دوم میں شمار کئے جاسکتے تھے ،مگر وہ چوٹی کے سردار جو اسلام کے خلاف معاندانہ کارروائیوں کی روح رواں تھے اورجن کے پیچھے ان کی قوم باوجود عرب کی فطری آزادی کے اس معاملہ میں گویا بھیڑوں کی طرح چلتی تھی،سب کے سب خاک میں مل گئے تھے اورمعلوم ہوتا ہے کہ اس بارہ میں کوئی خاص تقدیر کام کررہی تھی کیونکہ ابولہب جوبدر کی جنگ میں شامل نہیں ہوا تھا مگر جو مخالفین اسلام کی صف اول میں تھا وہ بھی ہلاکت سے نہیں بچا کیونکہ بدر کے چند دن بعد ہی وہ مکہ میں ایک مکروہ بیماری میںمبتلا ہوا اورنہایت ذلت کی موت مرکر اپنے ان ساتھیوں سے جاملا جوبدر میں مارے گئے تھے۔ اب لے دے کہ صرف ایک ابوسفیان رہ گیا تھا جسے شاید اس کی قسمت نے فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہونے کیلئے بچا لیا تھااوربدر کے بعد اسی کے سر پر قریش کی سرداری کا تاج رکھا گیا تھا۔

(سیرت خاتم النّبیین صفحہ 367تا 372 مطبوعہ قادیان2011)