اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-05-25

جنگ بدر

سیرت خاتم النّبیینﷺ
(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

جنگ بدر(بقیہ )

جب دوسرے کاموں سے فراغت حاصل ہوئی تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ رئوساء قریش کوایک جگہ جمع کر کے دفن کردیا جاوے۔چنانچہ ایک گڑھے میں چوبیس رئوساء کی لاشوں کو اکٹھا کرکے دفنا دیا گیا۔اور دوسرے لوگوں کو اپنی اپنی جگہ پردفن کردیا گیا کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کایہ عام طریق تھا کہ حتّی الوسع کسی لاش کوکھلا نہیں رہنے دیتے تھے خواہ وہ دشمن ہی کی کیوں نہ ہو۔ واپسی سے قبل آپؐاس گڑھے کے پاس تشریف لے گئے جس میں رئوساء قریش دفن کئے گئے تھے اورپھر ان میں سے ایک ایک کا نام لے کر پکارا اور فرمایا ھَلْ وَجَدْتُمْ مَاوَعَدَکُمُ اللّٰہُ حَقًافَاِنِّیْ وَجَدْتُ مَاوَعَدَنِیَ اللّٰہُ حَقًّا یعنی’’کیا تم نے اس وعدہ کو حق پایاجو خدا نے میرے ذریعہ تم سے کیا تھا۔تحقیق میں نے اس وعدہ کو حق پالیا ہے جو خدا نے مجھ سے کیا تھا۔ نیز فرمایا یَااَھلَ الْقَلِیْبِ بِئْسَ عَشِیْرَۃِ النَّبِّیِ کُنْتُمْ لِنَبِیِّکُمْ کَذَّبْتُمُوْنِیْ وَصَدَقَنِیَ النَّاسُ وَاَخْرَجْتُمُوْنِیْ وَآوَانِیَ النَّاسُ وَقَاتَلْتُمُوْنِیْ وَنَصَرَنِیَ النَّاسُ۔ یعنی’’اے گڑھے میں پڑے ہوئے لوگو!تم اپنے نبی کے بہت برے رشتہ داربنے۔تم نے مجھے جھٹلایا اور دوسرے لوگوں نے میری تصدیق کی۔تم نے مجھے میرے وطن سے نکالا اوردوسروں نے مجھے پناہ دی۔ تم نے میرے خلاف جنگ کی اوردوسروں نے میری مدد کی۔‘‘حضرت عمرؓ نے عرض کیا۔ یارسول اللہ! وہ اب مردہ ہیں وہ کیا سنیں گے۔آپؐنے فرمایا ’’میری یہ بات وہ تم سے بھی بہتر سن رہے ہیں۔‘‘ یعنی وہ اس عالم میں پہنچ چکے ہیں جہاں ساری حقیقت آشکارا ہو جاتی ہے اورکوئی پردہ نہیں رہتا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے یہ کلمات جواوپردرج کئے گئے ہیں اپنے اندر ایک عجیب درد واَلَم کی آمیزش رکھتے ہیں اوران سے اس قلبی کیفیت کاکچھ تھوڑا سااندازہ ہوسکتا ہے جواس وقت آپؐپر طاری تھی۔ ایسامعلوم ہوتا ہے کہ اس وقت قریش کی مخالفت کی گزشتہ تاریخ آپؐکی آنکھوں کے سامنے تھی اور آپؐعالمِ تخیل میں اسکا ایک ایک ورق الٹاتے جاتے تھے اورآپؐکادل ان اوراق کے مطالعہ سے بے چین تھا۔آپؐکے یہ الفاظ اس بات کا بھی یقینی ثبوت ہیں کہ اس سلسلۂ جنگ کے آغاز کی ذمہ داری کلیتہً کفار مکہ پر تھی۔جیسا کہ آپؐکے الفاظ قَاتَلْتُمُوْنِیْ وَنَصَرَنِیَ النَّاسُ سے ظاہر ہے۔ یعنی ’’اے میری قوم کے لوگو!تم نے مجھ سے جنگ کی اور دوسروں نے میری مدد کی اورکم از کم ان الفاظ سے یہ تو ضرور ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی جگہ یہی یقین رکھتے تھے کہ ان جنگوں میں ابتداء کفار کی طرف سے ہوئی ہے اورآپؐنے مجبور ہوکر محض خود حفاظتی میں تلوار اٹھائی ہے۔
اپنے مقتولین کی دیکھ بھال ہوئی تو معلوم ہواکہ کل چودہ آدمی شہید ہوئے ہیں۔جن میں سے چھ مہاجرین میں سے تھے اورباقی انصار تھے۔انہیں میں وہ مخلص بچہ عمیروقاص بھی تھا،جس نے رو کر ساتھ آنے کی اجازت حاصل کی تھی ۔اسکے علاوہ زخمی تو بہت سے صحابہ ہوئے تھے،لیکن یہ نقصان ایسا نہیں تھا کہ اس عظیم الشان دینی فتح کی خوشی کو مکدر کرسکتا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور جملہ مسلمان شکروامتنان کے جذبات سے معمور تھے۔تین دن تک آپؐنے بدر کی وادی میں قیام فرمایا اور یہ وقت اپنے شہداء کی تکفین وتدفین اور اپنے زخمیوں کی مرہم پٹی میں گزرا۔اورانہی دنوں میں غنیمت کے اموال کو جمع کرکے مرتب کیا گیا اور کفار کے قیدیوں کو جن کی تعداد ستر تھی محفوظ کرکے مختلف مسلمانوں کی سپردگی میں دے دیا گیا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں کوتاکید کی کہ قیدیوں کے ساتھ نرمی اور شفقت کا سلوک کریں اوران کے آرام کا خیال رکھیں۔صحابہؓ نے جن کو اپنے آقا کی ہر خواہش کے پورا کرنے کا عشق تھاآپؐکی اس نصیحت پر اس خوبی کے ساتھ عمل کیا کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔چنانچہ خود ان قیدیوں میں سے ایک قیدی ابوعزیز بن عمیرکی زبانی روایت آتی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم کی وجہ سے انصار مجھے تو پکی ہوئی روٹی دیتے تھے،لیکن خود کھجور وغیرہ کھا کرگزارہ کرلیتے تھے اور کئی دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ ان کے پاس اگر روٹی کا چھوٹا ٹکڑا بھی ہوتا تھا تو وہ مجھے دے دیتے تھے اور خود نہیں کھاتے تھے اوراگر میں کبھی شرم کی وجہ سے واپس کردیتا تھاتووہ اصرار کے ساتھ پھرمجھی کو دے دیتے تھے۔ جن قیدیوں کے پاس لباس کافی نہیںتھاانہیں کپڑے مہیا کردیئے گئے تھے۔چنانچہ عباس کو عبداللہ بن ابیّ نے اپنی قیمص دی تھی۔
سرولیم میور نے قیدیوں کے ساتھ اس مشفقانہ سلوک کا مندرجہ ذیل الفاظ میں اعتراف کیا ہے۔
’’محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) کی ہدایت کے ماتحت انصارومہاجرین نے کفار کے قیدیوں کے ساتھ بڑی محبت اورمہربانی کاسلوک کیا۔چنانچہ بعض قیدیوں کی اپنی شہادت تاریخ میں ان الفاظ میں مذکور ہے کہ ’’خدا بھلا کرے مدینہ والوں کاوہ ہم کوسوار کرتے تھے اور آپ پیدل چلتے تھے۔ہم کو گندم کی پکی ہوئی روٹی دیتے تھے اورآپ صرف کھجوریں کھا کر پڑ رہتے تھے۔ اس لئے(میور صاحب لکھتے ہیں)ہم کویہ معلوم کرکے تعجب نہ کرنا چاہئے کہ بعض قیدی اس نیک سلوک کے اثر کے نیچے مسلمان ہوگئے اور ایسے لوگوں کو فوراًآزاد کردیا گیا … جوقیدی اسلام نہیں لائے ان پر بھی اس نیک سلوک کا بہت اچھااثر تھا۔‘‘
یہ بھی روایت آتی ہے کہ جب یہ قیدی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے توآپ نے فرمایاکہ اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور مجھ سے ان لوگوں کی سفارش کرتا تو میں ان کو یونہی چھوڑ دیتا۔ مطعم پکا مشرک تھااوراسی حالت میں وہ مرا لیکن طبیعت میں شرافت کامادہ رکھتا تھا۔ چنانچہ قریش کا ظالمانہ صحیفہ جس کی وجہ سے مسلمان شعبِ ابی طالب میں محصور کردیئے گئے تھے اسے مطعم نے ہی چاک کیا تھا اور جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم طائف سے واپس آئے تھے تو اس وقت بھی مطعم نے ہی آپؐکو اپنی پناہ میں لے کر مکہ میں داخل کیا تھا۔یہ اسی احسان کی یاد تھی جس سے متأثر ہو کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ الفاظ فرمائے۔دراصل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ ایک نمایاں خصوصیت تھی کہ جب کبھی کوئی شخص آپؐ کے ساتھ ذرا سابھی نیک سلوک کرتا تھاتو آپؐاسکے احسان کو کبھی نہیں بھولتے تھے اورآپؐکی ہمیشہ یہ خواہش رہتی تھی کہ آپؐکواسکے احسان کا عملی شکریہ ادا کرنے کا موقع ملتا رہے اور یہ نہیں تھاکہ دنیاداروں کی طرح جب آپؐایک دفعہ کسی کے احسان کے جواب میں نیک سلوک کرلیتے تھے تو پھر یہ کہنے لگ جاتے تھے کہ بس اب احسان کابدلہ اتر گیا ہے۔بلکہ جب کبھی کوئی شخص آپؐکے ساتھ نیک سلوک کرتا تھاتو پھر وہ ہمیشہ کیلئے آپؐکواپنا خاص محسن بنا لیتا تھااورآپؐکبھی بھی اسکے احسان کواترا ہوا نہیں سمجھتے تھے اور دراصل اعلیٰ اخلاق کایہی تقاضا ہےکیونکہ جس احسان کے نیچے انسان ایک دفعہ آجاوے پھر اسکے متعلق یہ سمجھنا کہ کسی جوابی احسان سے اسکا بدلہ اتر سکتا ہے ایک تجارتی لین دین توکہلا سکتا ہے مگر ایک اخلاقی ذمہ داری سے عہدہ برآئی ہرگز نہیں سمجھا جاسکتا۔
جولوگ قید ہوئے تھے ان میں سے بعض رئوساء قریش میںسے تھے۔چنانچہ النضربن الحارث اور سہیل بن عمرو مکہ کے بڑے لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔بعض قیدی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نہایت قریبی رشتہ دارتھے مثلاًعباس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا تھے۔عقیل آپؐکے چچازاد بھائی اور حضرت علی کے حقیقی بھائی تھے۔ابوالعاص بن ربیع تھے جو آپؐکی صاحبزادی زینب کے خاوند یعنی آپؐ کے داماد تھے۔بعض مؤرخین نے قید ہونے والے رئوساء میں عقبہ بن ابی معیط کا نام بھی بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ بعد میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم کے ماتحت حالت قیدمیں قتل کردیا گیا تھا۔مگر یہ درست نہیں ہے۔ حدیث اورتاریخ میںنہایت صراحت کے ساتھ یہ روایت آتی ہے کہ عقبہ بن ابی معیط میدانِ جنگ میں قتل ہوا تھااوران رئوساء مکہ میں سے تھا جن کی لاشیں ایک گڑھے میں دفن کی گئی تھیں۔البتہ نضر بن حارث کا حالت قید میں قتل کیا جانا اکثر روایات سے ظاہر ہوتا ہے اوراس کے قتل کی وجہ یہ تھی کہ وہ ان لوگوں میں سے تھا جوان بے گناہ مسلمانوں کے قتل کے براہ راست ذمہ دارتھے جومکہ میں کفار کے ہاتھ سے مارے گئے تھے اور اغلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ربیب حار ث بن ابی ہالہ جوابتداء اسلام میں نہایت ظالمانہ طورپر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی آنکھوں کے سامنے قتل کئے گئے تھے، ان کے قتل کرنے والوں میں نضر بن حارث بھی شامل تھا لیکن یہ یقینی ہے کہ نضر کے سوا کوئی قیدی قتل نہیں کیا گیا اورنہ ہی اسلام میں صرف دشمن ہونے اورجنگ میں خلاف حصہ لینے کی وجہ سے قیدیوں کے قتل کرنے کا دستور تھا۔چنانچہ اس کے متعلق بعد میں ایک معین حکم بھی قرآن شریف میں نازل ہوا۔یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ گو بہت سی روایات میں نضر بن حارث کے قتل کئے جانے کاذکر آتا ہے لیکن بعض ایسی روایتیں بھی پائی جاتی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ قتل نہیں کیا گیاتھابلکہ بدر کے بعد مدت تک زندہ رہا اور بالآخر غزوہ حنین کے موقع پر مسلمان ہوکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہوگیا تھا۔ مگر مقدم الذکر روایات کے مقابلہ میں یہ روایتیں عموماًکمزور سمجھی گئیں ہیں۔واللہ اعلم۔ بہرحال اگرقیدیوں میںسے کوئی شخص قتل کیا گیا تو وہ صرف نضر بن حارث تھا جو قصاص میں قتل کیا گیا تھااوراس کے متعلق بھی یہ روایت آتی ہے کہ جب اسکے قتل کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسکی بہن کے وہ دردناک اشعارسنے جن میں آپؐسے رحم کی اپیل کی گئی تھی توآپؐنے فرمایا کہ اگریہ اشعارمجھے پہلے پہنچ جاتے تو میں نضرکو معاف کردیتا۔ بہرحال نضر کے سوا کوئی قیدی قتل نہیں کیا گیابلکہ جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے تاکیدی حکم دیا تھا کہ قیدیوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا جاوے۔
بدرسے روانہ ہوتے وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ کومدینہ کی طرف روانہ فرمایا تاکہ وہ آگے آگے جاکر اہلِ مدینہ کو فتح کی خوشخبری پہنچاویں۔چنانچہ انہوں نے آپؐسے پہلے پہنچ کر مدینہ والوں کوفتح کی خبرپہنچائی۔جس سے مدینہ کے صحابہ کو اگر ایک طرف اسلام کی عظیم الشان فتح ہونے کے لحاظ سے کمال درجہ خوشی ہوئی تواس لحاظ سے کسی قدر افسوس بھی ہوا کہ اس عظیم الشان جہاد کے ثواب سے وہ خود محروم رہے۔اس خوشخبری نے اس غم کو بھی غلط کردیاجو زید بن حارثہ کی آمد سے تھوڑی دیر قبل مسلمانانِ مدینہ کوعموماً اورحضرت عثمانؓ کو خصوصاًرقیہ بنت رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات سے پہنچا تھا جن کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے پیچھے بیمار چھوڑ کر غزوہ بدر کیلئے تشریف لے گئے تھے اورجن کی وجہ سے حضرت عثمانؓ بھی شریک غزوہ نہیں ہوسکے۔

(سیرت خاتم النّبیین صفحہ 364تا 367 مطبوعہ قادیان2011)