اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-04-06

جنگ بدر کے متعلق ایک ابتدائی بحث

سیرت خاتم النّبیینﷺ
(از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے.رضی اللہ عنہ )

 

ان قرآنی آیات سے جو مسلمہ طور پر جنگ بدر کے متعلق تسلیم کی گئی ہیں اور جن کے ترجمہ کی تشریح کیلئے میں نے بعض الفاظ زائد کر دئیے ہیں مندرجہ ذیل یقینی نتائج پیدا ہوتے ہیں۔
اوّل- جس وقت آپؐمدینہ سے نکلے اس وقت مومنوں میں سے بعض لوگ آپؐکے نکلنے کو ایک مشکل اورنازک کام سمجھتے تھے۔
دوم-مومنوں کی(مگریہ نہیں کہہ سکتے کہ سب کی یااکثر کی۔مگرغالباً اکثر کی) یہ خواہش تھی کہ قافلہ کے ساتھ مقابلہ ہو۔
سوم-یہ خواہش اس لئے نہیں تھی کہ انہیں قافلہ کے اموال واَمتعہ کا خیال تھا بلکہ اس لئے تھی کہ قافلہ والوں کی تعداد تھوڑی تھی اوران کا سامانِ حرب بھی کم تھااس لئے اس کے مقابلہ میں کم تکلیف اور کم مشکل پیش آنے کا احتمال تھا۔
چہارم-مگر اللہ تعالیٰ کا شروع سے ہی یہ ارادہ تھا کہ مسلمانوں کا مقابلہ لشکر قریش کے ساتھ ہوتا کہ وہ اَئمۃ الکفرجواپنے مظالم اورسرکشیوں اورخونی کارروائیوں کی وجہ سے ہلاک کئے جانے کے سزاوار ہوچکے تھے ایک خدائی نشان کے طور پر کمزور لوگوں کے ہاتھ سے ہلاک کردیئے جائیں اور وہ پیشگوئی پوری ہو جو ان کی ہلاکت کے متعلق پہلے سے کی جاچکی ہیں۔
پنجم-اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسا تصرف کیا کہ باوجود اس کے کہ مسلمانوں کا میلان قافلہ کے مقابلہ کی طرف تھا قافلہ توبچ کر نکل گیااورلشکر قریش سے ان کا اچانک سامنا ہوگیا۔
ششم-یہ تصرف اس لئے کیا گیا کہ مسلمانوں کی حالت اس وقت ظاہری اسباب کے ماتحت اتنی کمزور تھی کہ اگر خود ان پر اس لڑائی کے وقت کی تعیین چھوڑدی جاتی توان میں سے ایک فریق ضرور اس مقابلہ کے وقت کو پیچھے ڈالنے کی کوشش کرتا حالانکہ اللہ کا منشاء یہ تھا کہ ابھی مقابلہ ہواورفیصلہ ہوجائے۔
ہفتم-یہ خدائی تصرف لشکرقریش اورمسلمانوں کے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوجانے کے وقت تک بھی جاری رہا۔چنانچہ خدائی تصرف کے ماتحت دونوں فوجیں ایسے طور پر ایک دوسرے کے سامنے آئیں کہ دونوں ایک دوسرے کوان کی اصلی تعداد سے کم نظر آتے تھے اوریہ اس لئے کیا گیا کہ تا مسلمانوں میں بددلی نہ پیدا ہواورقریش بھی جرأت کے ساتھ آگے بڑھیں اور مقابلہ ہوجاوے۔
یہ وہ سات باتیں ہیں جوامرزیربحث کے متعلق قرآن شریف سے یقینی طورپر پتہ لگتی ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ سوائے نمبراول کے یہ ساری باتیں تاریخی بیان کے عین مطابق ہیں اوران میں وہی حالات بیان کئے گئے ہیں جوصحیح تاریخی روایات اوراحادیث میں مذکور ہوئے ہیں۔پس کوئی وجہ نہیں کہ ہم تاریخی بیان کو رد کردیں کیونکہ نہ صرف یہ کہ وہ قرآنی بیان کے مخالف نہیں ہے بلکہ اس کے رد کرنے سے قرآنی بیان کارد لازم آتا ہے۔غور کا مقام ہے کہ تاریخی روایات سوائے اس کے اورکیا کہتی ہیں کہ مسلمانوں کا لشکر قافلہ کے خیال سے نکلا تھا،مگر اچانک اس کا مقابلہ لشکر قریش سے ہوگیا۔ مگر کیا قرآن شریف بھی یہی نہیں کہتا کہ مسلمانوں کو قافلہ کی خواہش تھی،مگر خداتعالیٰ نے اس کا مقابلہ اچانک لشکرقریش سے کرادیا؟اور قرآن شریف اس کی وجہ بھی بتاتا ہے کہ خدا نے یہ کام اپنے خاص تصرف کے ماتحت اس لئے کیا کہ تابطورایک خدائی نشان کے اَئمۃ الکفر مسلمانوں کے ہاتھ سے ہلاک کروا دیئے جائیںاوروہ پیشگوئی پوری ہوجوان کی ہلاکت کے متعلق پہلے سے کی جاچکی تھی۔ اندریں حالات اس بات کے ثابت کرنے کی کوشش کرنا کہ مسلمان مدینہ سے ہی لشکر قریش کے مقابلہ کے لئے نکلے تھے اس بات کے ہم معنی ہے کہ نہ صرف یہ کہ تاریخ واحادیث کی کثیرالتعداد مضبوط اور صحیح روایات کو بالکل ردی کی طرح پھینک دیا جاوے ،بلکہ اس قرآنی بیان کو بھی غلط قراردیاجاوے جسے خداتعالیٰ نے بدر کے قصہ میں بطور مرکزی نقطہ کے رکھا ہے۔
پس حق یہی ہے کہ مسلمان قافلہ ہی کی روک تھام کے خیال سے نکلے لیکن جب بدرکے پاس پہنچے تو اچانک یعنی علیٰ غیرمیعاد لشکر قریش کاسامنا ہوگیا اور جیسا کہ ہم اوپر ثابت کرچکے ہیں قافلہ کی روک تھام کے لئے نکلنا ہرگز قابل اعتراض نہیں تھا۔کیونکہ اول تویہ مخصوص قافلہ جس کے لئے مسلمان نکلے تھے ایک غیر معمولی قافلہ تھا جس میں قریش کے ہر مردوعورت کاتجارتی حصہ تھا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے متعلق روساء قریش کی یہ نیت تھی کہ اس کا منافع مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے میں استعمال کیا جائے گا۔چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ یہی منافع جنگ اُحد کی تیاری میں صرف کیا گیا ۔ پس اس قافلہ کی روک تھام تدابیر جنگ کا ضروری حصہ تھی۔دوسرے عام طور پر بھی قریش کے قافلوں کی روک تھام اس لئے ضروری تھی کہ چونکہ یہ قافلے مسلح ہوتے تھے اور مدینہ سے بہت قریب ہوکرگزرتے
تھے ان سے مسلمانوں کوہروقت خطرہ رہتا تھاجس کا سدباب ضروری تھا۔تیسرےیہ قافلے جہاں جہاں سے بھی گزرتے تھے مسلمانوں کے خلاف قبائل عرب میں سخت اشتعال انگیزی کرتے پھرتے تھے جس کی وجہ سے مسلمانوں کی حالت نازک ہورہی تھی۔پس ان کا راستہ بند کرنادفاع اورخود حفاظتی کے پروگرام کا حصہ تھا۔چوتھےقریش کا گزارہ زیادہ ترتجارت پر تھااس لئے ان قافلوں کی روک تھام ظالم قریش کوہوش میں لانے اوران کو ان کی جنگی کارروائیوں سے باز رکھنے اورصلح اورقیامِ امن کے لئے مجبور کرنے کا ایک بہت عمدہ ذریعہ تھی اور پھران قافلوں کی روک تھام کی غرض لوٹ مار نہیں تھی بلکہ جیسا کہ قرآن شریف صراحتاً بیان کرتا ہے خود اس خاص مہم میں مسلمانوں کوقافلہ کی خواہش اس کے اموال کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ اس وجہ سے تھی کہ اس کے مقابلہ میں کم تکلیف اورکم مشقت کا اندیشہ تھا۔
اب رہی وہ بات جوقرآن شریف میں تاریخی بیان سے زائد پائی جاتی ہے سووہ بھی تاریخ کے مخالف نہیں کہلا سکتی کیونکہ تاریخی بیان میں کوئی ایسی بات نہیں جو اس کے خلاف ہوالبتہ یہ ایک زائد علم ہے جو ہمیں قرآن شریف سے حاصل ہوتا ہے اوربعض تاریخی روایات میں بھی اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے مگر بہرحال یہی ایک بات ہے جو تاریخی نکتہ نگاہ سے قابل تشریح سمجھی جاسکتی ہے اوریہ بات قرآنی بیان کے مطابق یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ سے نکلے تو اس وقت بعض مسلمان آپؐکی اس مہم کو ایک مشکل اورنازک کام سمجھتے تھے۔ اس پر طبعاًیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا بات تھی جس کی وجہ سے صحابہ کے دل میں یہ احساس تھا۔ اگر محض قافلہ کی روک تھام کا خیال ہوتا تو تین سوجانثاروں سے زائد کی جمعیت کے ہوتے ہوئے یہ احساس ہرگز نہیں ہونا چاہئے تھا۔پس معلوم ہوا کہ قافلہ کی خبر کے ساتھ ساتھ کوئی اورخیال بھی تھا جوبعض مسلمانوں کو فکر مندکررہا تھا۔یہ خیال کیا تھا؟اس سوال کا جواب تاریخ سے واضح طور پر نہیںملتا اورنہ ہی قرآن شریف نے اسے صراحتاً بیان کیا ہے۔پس اس کے متعلق لازماًقیاس کرنا ہو گااورخوش قسمتی سے یہ قیاس مشکل نہیں ہے کیونکہ تاریخ وقرآن شریف ہردو میں قافلہ کے ساتھ ساتھ لشکر قریش کا ذکر بھی چلتا ہے اوراس سارے قصہ میں اگر کوئی ایسی بات نظر آتی ہے جو مسلمانوں کے دلوں میں فکر پیدا کرسکتی تھی تووہ لشکر قریش کی اطلاع ہے۔پس ماننا پڑے گا کہ مدینہ میں ہی لشکر قریش کی خبر بھی پہنچ گئی ہوگی۔جس کی وجہ سے مسلمانوں کویہ فکر دامن گیر ہواہوگا کہ اگر لشکر سے مقابلہ ہوگیا توسخت مشکل کا سامنا ہوگا۔یہ وہ استدلال ہے جو اس آیت سے کیا گیا ہے اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ استدلال ایک عمدہ استدلال ہے جواس آیت کی روشنی میں یہ واقعی ماننا پڑتا ہے کہ قریش کی آمد آمد کی اطلاع مدینہ میں ہی پہنچ گئی ہوگی لیکن جو وسعت اس استدلال میں پیدا کرلی گئی ہے وہ ہرگز درست نہیں۔یعنی اس آیت سے یہ نتیجہ نکالنا کہ مدینہ میں ہی سارے یااکثر مسلمانوں کویہ اطلاع پہنچ گئی تھی اوروہ سب کے سب یاان میں سے اکثر اسی علم کے ماتحت مدینہ سے نکلے تھے۔یہ یقینا غلط ہے کیونکہ علاوہ اس کے قرآن شریف کا بقیہ بیان اورکثیر التعداد تاریخی روایات اسے قطعی طورپر غلط ثابت کرتی ہیں۔خود آیت زیربحث بھی اس وسعت کوقبول نہیں کرتی کیونکہ آیت میں یہ صاف طور پر موجود ہے کہ یہ احساس صرف بعض صحابہ کوتھا جیسا کہ فریقاً کے لفظ سے پایاجاتا ہے ۔یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نکلنے کے متعلق صرف بعض صحابہ فکر مند تھے سب یااکثر صحابہ فکر مند نہ تھے۔پس ثابت ہوا کہ قرآن شریف کی رو سے مدینہ میں لشکر قریش کی خبر صرف بعض صحابہ کو پہنچی تھی اوراکثر اس سے بے خبر تھے اور یہ وہ صورت ہے جو قرآن شریف کے بقیہ بیان اور تاریخی روایات کے مخالف نہیں ہے کیونکہ یہ بالکل قرین قیاس ہے کہ جب لشکر قریش کی خبر مدینہ میں پہنچی ہوتوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کسی مصلحت سے اس کی اطلاع صرف بعض خاص خاص صحابہ کو دی ہو اوراکثر مسلمان اس سے بے خبر رہے ہوں اور وہ اسی بے خبری کی حالت میں صرف قافلہ کے خیال سے مدینہ سے نکلے ہوں اورپھر بدر کے پاس پہنچ کر قریش سے اچانک ان کا سامنا ہوگیا ہو۔اور یہی صورت درست معلوم ہوتی ہے،کیونکہ قرآن شریف کا بقیہ بیان اس کی تائید میں ہے اورتاریخ وحدیث میں بھی اس کے متعلق اشارات پائے جاتے ہیں۔چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کامدینہ سے نکلنے سے قبل خاص طور پر صحابہ سے مشورہ کرنا اوراس مشورہ کو ایسے رنگ میں چلاناکہ انصار بھی آپؐ کے ساتھ چلنے کوتیار ہوجائیں تاکہ آپؐ کے ساتھ زیادہ جمعیت ہو۔ حالانکہ انصار اس سے پہلے کسی مہم میں شامل نہیں ہوئے تھے۔اورپھر جب بدر کے پاس پہنچ کر قریش کے ایک حبشی غلام کے ذریعہ لشکر قریش کی اطلاع ہوئی توصحابہ کا اس کے متعلق شک کرنا اوراسے جھوٹا سمجھنا مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا فوراًبلاتأمّل مان لینا اور فرمانا کہ یہ غلام سچ کہتا ہے۔ وغیرذالک۔یہ سب اس بات کی شہادتیں ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوپہلے سے ہی لشکر قریش کی آمدکی اطلاع تھی مگر صحابہ اس سے بے خبر تھے۔سوائے ان خاص خاص صحابہ کے جنہیں قرآنی بیان کے مطابق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے اس خبر کی اطلاع ہوگئی ہوگی۔

(سیرت خاتم النّبیینؐ،صفحہ 342تا345،مطبوعہ قادیان2011)