اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-01-11

مورخہ 11؍ستمبر 2023ء(بقیہ رپورٹ)

سیدنا حضرت امیر المومنینخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورہ جرمنی(اگست،ستمبر 2023ء)

یہ مسجد جس کا نام مسجد خبیر رکھا گیا ہے ، یہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے

اللہ تعالیٰ ہمارے ہر عمل سے باخبر ہے،اس لئےجو کام ہم کرتے ہیں اس لئے کرتے ہیں تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کر سکیں

ایک مذہبی جماعت کی حیثیت سے ہمارا سب سے بڑا کام یہی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کریں

ایک سڑک نہیں بلکہ ہر گھر، ہر محلہ ، ہر شہر اور ہر ملک کو آج ضرورت ہے کہ وہاں امن قائم ہو اور یہی میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امن کو ہمیشہ قائم رکھے

جہاںہمیں یہ حق ہے ہم اپنے مذہب کی خوبیاں دوسروں کو بتائیں وہاں ہمیں یہ حق نہیں کہ

دوسرے مذہب کی برائیاں بیان کریں اور فساد پیدا کیا جائے اور مساجد اسی امن کو قائم کرنے کا ذریعہ ہیں

ہم توہر ملک کے قانون کی عزت واحترام کرنے والے اور محبت اور پیار پھیلانے والے لوگ ہیں 

ہم حضرت محمد ﷺکے اس ارشاد پر عمل کرنے والے ہیں کہ ملک کی محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے

مسجد بیت الخبیر(Pfungstadt) کی افتتاحی تقریب کے موقع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بصیرت افروز خطاب

پہلی بار مجھے خلیفۃ المسیح کو اس طرح سے ملنے کا موقع ملا، آپ بہت ہی متاثر کن شخصیت ہیں آپ نے نہایت ہی پر حکمت اور واضح طور پر پیغام ہمارے سامنے رکھا

(Heike Hofmann، صوبائی پارلیمنٹ Hessen کی vice president)

مَیں نے پہلی مرتبہ خلیفۃ المسیح کو دیکھا اور مجھے یہ بات تسلیم کرنی ہو گی کہ بہت ہی متاثر کن اور بارعب شخصیت ہیں، آپ نے بہت ہی خوبصورت باتیں بیان کیں

(Dominik Stadler،میئر Babenhausen )

خلیفہ کے بارہ میں کچھ بیان کرنا نہایت ہی مشکل امر ہے کیونکہ میں نے ان جیسی شخصیت کو اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا ایڈریسز بہت اچھے اور دلچسپ تھے جن میں بہت گہرے موضوعات کا ذکر ہوا

(ایک مہمانGabriel Smolek)

حضور کو دیکھنا ایک نہایت ہی غیر معمولی عمل تھا، حضور کی شخصیت بہت ہی متاثر کن تھی اور آپ میں ایک مزاح کی حس بھی پائی جاتی ہے،حضور کے الفاظ کا اثر بہت اچھا تھا اور آپ کی موجودگی کا ایک احساس تھا

(ایک مہمانAndreas Fitzel)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطاب سننے کے بعد غیر از جماعت مہمانان کے ایمان افروز تاثرات

 

مورخہ 11؍ستمبر 2023ء(بقیہ رپورٹ)

مسجد بیت الخبیر کی افتتاحی تقریب

’’مسجد بیت الخبیر‘‘ کے افتتاح کے حوالہ سے ایک تقریب کا اہتمام مسجد کے بیرونی احاطہ میں ایک بڑی مارکی لگا کر کیا گیا تھا ۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 6بجکر 15 منٹ پر اس مارکی میں تشریف لے آئے ۔
حضور انور کی آمد سے قبل اس تقریب میں شامل ہونے والے مہمان اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے ۔آج کی اس تقریب میں شامل ہونے والے مہمانوں میں صوبائی ممبر پارلیمنٹ ،میئر ز،مقامی اور صوبائی سیاستدان مختلف حکومتی محکموں سے تعلق رکھنے والے افراد اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ جو حسن سلیمانی صاحب نے کی اور اسکا جرمن ترجمہ ظفر کھوکھر صاحب نے پیش کیا۔
بعد ازاں مکرم امیر صاحب جماعت جرمنی عبد اللہ واگس ہاؤزر صاحب نے اپناتعارفی ایڈریس پیش کیا اور شہر Pfungstadtکی مختصر تاریخ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ یہ شہر جو Hessenکے درمیان میں واقع ہے پچیس ہزار کی آبادی پر مشتمل ہے۔ تاریخ میں اس شہر کا ذکر 785ء میں ملتا ہے۔ اس شہر کے ارد گرد کا علاقہ خوبصورت قدرتی مناظر پر مشتمل ہے۔
امیر صاحب نے کہا کہ کچھ ماہ قبل اس شہر کیلئے ایک قابل ذکر موقع میسر آیا جب شہر Hessenکیلئے مرکز نگاہ بن گیا اور یہاں Hessentagمنعقد ہوااور ہزاروں لوگ یہاں آئے ۔
اس شہر میں جماعت احمدیہ کا آغاز 1989ء میں ہوا تھا ۔یہاں کی جماعت نے خدمت خلق کے بہت سے کام کئے جن میں خاص کر نئے سال کے موقع پر شہر کی صفائی ، چیرٹی واک اور بے گھر لوگوں کو کھانا وغیرہ مہیا کرنا شامل ہیں۔
مسجد کا سنگ بنیاد سال 2016ء میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہاں تشریف لا کر رکھا۔ اس موقع پر حضور انور نے اس بات کا ذکر فرمایا کہ مسجد ایک امن کی جگہ ہے ۔ حضور انور نے اس بات کا بھی اظہار فرمایا تھا کہ یہ مسجد اس شہر کی مرکز نگاہ بن جائے گی۔ اس سال کے Hessentagپر ہم نے اس بات کا نظارہ کیا اور دیکھا کہ کس طرح حضور انور کے الفاظ پایہ تکمیل کو پہنچے اور ہمیں Hessentagکے دوران اس مسجد میں سات ہزار مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کا موقع ملا۔
امیر صاحب نے بتایا کہ مسجد کے سامنے جو سٹرک ہے اسکا نام تبدیل کرکے امن کی سٹرک Peace Street (Friedenstr)رکھا گیا ہے۔
مسجد کے کوائف کا ذکر کرتے ہوئے امیر صاحب نے بتایا کہ جولائی 2014ء میں یہ قطعہ زمین جس کا رقبہ 1225 مربع میٹر ہے خریدا گیا۔ اب یہاں جو تعمیرات ہوئی ہیں اس کا رقبہ 463مربع میٹر ہے اس میں مرد وخواتین کے نماز ہال اور ملٹی پرپز ہال کا رقبہ 376مربع میٹر ہے۔ مینار کی اونچائی 12میٹر اور گنبد کا قطر6میٹر ہے۔
اس مسجد کی تعمیر پر 16لاکھ یورو کے اخراجات آئے ۔ اس کا تیسرا حصہ مقامی جماعتPfungstadt نے ادا کیا جب کہ بقیہ رقم مرکز نے ادا کی۔ سنگ بنیاد کے موقع پر 223احمدی اس شہر میں رہتے تھے۔ آج افتتاح کے وقت تجنید 364 ہو چکی ہے۔
اسکے بعد Hofmannصاحبہ نے ایڈریس پیش کیا۔ موصوفہ صوبائی اسمبلی کی Vice President ہیں ۔ موصوفہ نے کہا کہ یقیناً یہ دن جماعت احمدیہ Pfungstadtبلکہ اس پورے علاقہ کیلئے ایک بہت بڑا دن ہے ۔ ہم نے ابھی ابھی اس جماعت کی تاریخ سنی ہے۔ یہ میرے لئے ایک خاص اعزاز کی بات ہے کہ مجھے آج اس مسجد کے افتتاح میں شامل ہونے کا موقع ملا ہے۔ میرا اس جماعت کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے۔ مجھے ابھی بھی وہ پرانی اچھی یادیں یاد ہیں جو نماز سینٹر سے وابستہ ہیں جہاں ہم اکھٹے بیٹھے ، عبادت کی اور بہترین گفتگو کرنے کا موقع ملا۔
موصوفہ نے کہا کہ یہاں بڑے بڑے حرفوں میں ایک آپ کا ماٹو بھی لکھا ہوا ہے ، جو دکھاتا ہے کہ احمدیوں کی کیا تعلیم ہے ۔ محبت سب کیلئے ، نفرت کسی سے نہیں ۔یہ ہمیں اپنے معاشرہ میں رائج کرنا چاہئے اور اس کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنی چاہئے اور آپ اس طرح اپنی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ آپ نے اس بات کا بھی تذکرہ کیا کہ میں اپنی پارٹی میں ترجمانی کا بھی کام کرتی ہوں اور جب ہمیں اس بات کا پتا چلتا ہے کہ مختلف فرقوں کو دھمکی آمیز خطوط موصول ہوتے ہیں تو مَیں سمجھتی ہوں کہ اگر ہم مذاہب کی آزادی کی حفاظت نہیں کر سکتے تو ہم پھر بنیادی آزادی کی ہی حفاظت نہیں کر سکیں گے۔ ہمیں مذہب کی آزادی کیلئے حفاظتی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
آخر پر موصوفہ نے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے سے محبت اور ایک دوسرے کی قدر کرتے ہوئے زندگی گزارنے کی ضرورت ہے اور مَیں امید کرتی ہوں کہ یہاں کی جماعت کا ایک بہترین مستقبل ہوگا بلکہ مَیں یقین رکھتی ہوں کہ ایساہی ہوگا۔ یہ ہر شہری کیلئے ایک بہت ہی خوشی کا دن ہے۔ مَیں آپ کی ہرکامیابی کیلئے دعا کرتی ہوں۔
بعد ازاں شہرPfungstadtکے میئر Patrick Kochصاحب نے اپنا ایڈریس پیش کیا میئر صاحب نے کہا:مَیں بھی بہت خوش ہوں کہ آج اس مسجد کا افتتاح ہو رہاہے ۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ ہم اس افتتاح کی تقریب کو ایک اہم دن پر منعقد کررہے ہیں کیونکہ آج سے 271سال قبل ایک سو موار کا ہی دن تھا کہ اس شہر میں ایک چرچ کا افتتاح ہوا تھا۔ یہ بے شک اتفاق ہے لیکن مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ آج یہاں مسجد کا افتتاح ہورہاہے۔
اس کے بعد میئر صاحب نے کہا کہ جس طرح Wagishauserصاحب نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ یہ ایک بہت لمبا سفر تھا اور 2009ء میں ہم نے اس سفر کا آغاز کیا تھا۔اس وقت سابقہ میئر میری جگہ پر تھے جو آج یہاں اپنی بیماری کی بناء پر نہیں آسکے۔ 2012ء میں ہمارے شہر نے فیصلہ کیا کہ یہ جگہ احمدیہ مسلم جماعت کو بیچی جائے گی۔ نیز 2014ء میں پھر سب تحریر میں لایا گیا۔ پھر ادائیگی میں وقت لگا اور بالآخر 2016ء میں اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا جس میں حضور انور نے شمولیت اختیار کی اور تب ایک بہت ہی دلکش پروگرام منعقد ہوا تھا اور آج بھی یہ ایک بہت ہی دلکش تقریب ہے۔ جون 2021ء میں اسکی تعمیر مکمل ہوئی اور اسکے بعد بھی دو سال گزرنے کے بعد آج ہم باقاعدہ اسکا افتتاح کررہے ہیں جس میں حضور انور نے شمولیت اختیار کی ہے۔ یہ اس چھوٹی سی جماعت کیلئے ایک بہت بڑا مشن تھا جو Pfungstadt میں موجود ہے لیکن مَیں سمجھتا ہوں کہ بہت بہترین طور پر آپ نے اسے سرانجام دیا اور جس خواہش کا آپ نے اظہار کیا تھا کہ سڑک کا نام بدل کر امن کی سڑک (Friedensstrasse) رکھا جائے ۔ مجھے خوشی ہے کہ ایسا ممکن ہو سکا۔ مَیں اسکا فیصلہ اکیلا نہیں کر سکتا بلکہ اسکا فیصلہ کرنا تو سٹی کونسل نے کرنا ہوتا ہے جو آج یہاں موجود بھی ہیں اور مَیں انکا بھی مشکور ہوں کہ ایسا ممکن ہو سکا۔
پھر موصوف نے کہا کہ یہ قسمت کی بات ہے کہ یہاں اس جگہ مسجد بن گئی ہے کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ قوانین میں بھی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ آج کے دور میں ہم ایسے industrialعلاقہ میں کوئی زمین مسجد کو نہیں دیں گے۔ اس کی وجہ مذہب نہیں بلکہ آجکل کے اقتصادی حالات یہ تقاضہ کرتے ہیں ۔ بہر حال بڑی خوش قسمتی ہے کہ یہاں ایک مسجد بن گئی ہے اور احمدیوں کو یہاں ایک نیا گھر میسر ہو گیا ہے ۔ آپ اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھ سکتے ہیں ۔ صحیح وقت پر آپنے اس زمین کو خرید لیا ۔ جس طرح کہ آپ نے پہلے ذکر کیا تھا کہ جماعت احمدیہ اپنے آپ کو اس معاشرہ کا حصہ سمجھتی ہے اور بناتی بھی ہے اور مدد بھی کرتی ہے۔ ابھی پچھلے سوموار کو بھی آپ لوگوں نے ایک پروگرام کے سلسلہ میں رضاکارانہ طور پر مدد کی تھی۔
اسکے بعد میئر صاحب نے کہا کہ مَیں  Pfungstadt کی طرف سے مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں کہ ہم یہاں یہ عبادت گاہ تعمیر کر سکے ہیں ۔ احمدیوں کو ان کے مذہب کی وجہ سے پاکستان میں آزادی میسر نہیں۔ ہمیں وہاں کے حالات سے بھی آگاہ کیا گیا اور مجھے بہت دکھ بھی ہوا ۔ یہ غیر انسانی حرکات ہیں ۔ ہمارا یہاں جرمنی میں یہ اعتقاد ہے کہ کوئی بھی اپنے مذہب ، معاشرہ یا پھر جنسی رجحان کی وجہ سے ظلم وستم کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔ ہم ایک روادار اور دنیا کیلئے ایک کھلا ملک ہیں اور اس پر ہمیں فخر ہے۔ ہم اپنی تمام قوت سے ان اقدار کا دفاع بھی کرتے ہیں ۔ اسی لئے ہم ان لوگوں کو جو ان وجوہات کی بنا پر ظلم وستم کا نشانہ بنائے جاتے ہیں اس ملک میں تحفظ عطا کرتے ہیں ۔ ہم انہیں یہاں ایک نئی زندگی کا موقع دیتے ہیں ، ان کے مستقبل بناتے ہیں اور آزادی فراہم کرتے ہیں ۔ ظاہرہے کہ اسکے ساتھ یہ بات لازمی ہے کہ وہ ہمارے معاشرہ کی عزت بھی کریں ۔ ہاں ، یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جو شخص ایک مکمل دوسرے معاشرے میں پلابڑھا ہو ، اس کیلئے ایک نئے معاشرہ میں گھلنا ملنا کافی مشکل ہو گا۔ یہ تو ایک انسانی فطرت ہے لیکن ایک دوسرے کی قدر کرنا اور باہم تعاون بہت ضروری ہے ۔ ہر ایک آپ کے سلوگن کے ساتھ متفق ہے۔ محبت سب کیلئے ، نفرت کسی سے نہیں ۔ مجھے خوشی ہو گی اگر ہم سب مل کر اس ماٹو پر عمل کریں ، خواہ ہمارا تعلق کسی بھی علاقہ ، معاشرہ یا مذہب سے ہو۔
مَیں امید کرتا ہوں کہ یہ سلوگن محبت سب کیلئے ، نفرت کسی سے نہیں ایسا ہی ہے اور اللہ کرے کہ مسجد ایک ایسی جگہ ہو جہاں آپ اپنے مذہب کے مطابق رہ سکیں ۔
اسکے بعد Gutaleصاحبہ نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ موصوفہ شہر کی Integrationکی نمائندگی کرتی ہیں ۔ انہوںنے کہا:مَیں آپ سب کو یہاں Pfungstadt میں خوش آمدید کہتی ہوں ۔ ہمارا یہ ایک بہت ہی دلنشیں شہر ہے۔ یہاں مسجد کی تعمیر اس بات کی گواہی ہے کہ ہمارا یہ شہر ایکmulticulturalشہر ہے۔ اس شہر میں 110سے زائدممالک کے لوگ رہائش پذیر ہیں ۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک ایسا شہر ہے جس کے دروازے سب کیلئے کھلے ہیں ۔جو بھی یہاں اسکا حصہ بننا چاہتا ہے اس کیلئے ہم دلی طور پر خوش آمدید کہنے والے ہیں ۔
اسکے بعد موصوفہ نے کہا کہ مسجد خبیر کا افتتاح آج ہمارے لئے ایک بہت اہمیت کا حامل ہے۔ احمدیہ مسلم جماعت سالوں سے بہترین کام کررہی ہے ۔ جب سے مَیں یہاں ہوں ،یہی دیکھا ہے کہ آپ لوگ ہمیشہ تعاون کرتے ہیں۔ یہ احمدیہ جماعت کی ایک خصوصیت ہے۔
پھر موصوفہ نے کہا کہ جب کوئی شخص اپنے آپ کو اس معاشرہ کا حصہ سمجھتا ہے تو وہ توقعات بھی رکھتا ہے ۔ ہمیں چاہئے کہ ہم سب اس multiculturalشہرکو اکٹھا آگے لے کر چلیں اور ترقی کرتے چلے جائیں۔
موصوفہ نے کہا کہ یہاں عورتوں کا بھی ہونا ضروری تھا ۔ ان کی کمی مجھے یہاں محسوس ہو رہی ہے ۔ یہاں میرا دل تھا کہ زیادہ عورتیں ہو تیں ۔ عورتیں معاشرے کا سب سے طاقتور حصہ ہیں جو ہمارے بچوں کی تربیت کرتی ہیں ۔ جو اس بات کو مد نظر رکھتی ہیں کہ ہمارا یہ شہر ہمارا یہ ملک ایسا ہو جیسا کہ آج ہم اسے دیکھتے ہیں ۔
آخر پر موصوفہ نے کہا کہ بہت ہی اچھی بات ہے کہ ہمارے پاس یہ مسجد ہے اور مَیں امید کرتی ہوں کہ باقی فرقے بھی ایسے ہی مثالی طور پر اپنا نمونہ دکھائیں گے جس طرح یہ احمدیہ جماعت ہمارے معاشرہ کا حصہ ہے۔ بہت شکریہ کہ آج مجھے یہاں آنے کا موقع ملا ۔
بعد ازاں پروگرام کے مطابق حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 6بجکر 25منٹ پر خطاب فرمایا۔

خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ 

تشہد وتعوذ اور تسمیہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
تمام معزز مہمانان ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! سب سے پہلےتو مَیں میئر صاحب ، ان کی کونسل اور شہر کے لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوںجنہوں نے ہمارے لئے اس شہر میں مسجد کی زمین کے حصول اور پھر اسکی تعمیر کیلئے سہولیات پیدا کیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے اللہ تعالیٰ ان سب کو جزادے۔ اس لحاظ سے مَیں بھی آپ کا شکر گزار ہوں اور یہاں رہنے والی جماعت بھی آپ کی شکر گزار ہے۔ امیر صاحب جرمنی نے شہر کے تعارف میں بتایا کہ یہ پرانا شہر ہے اور اس لحاظ سے اس کی تاریخی حیثیت ہے ۔ پرانے شہر کی جو روایات ہیں انہیں بھی ہمیں قائم رکھنا چاہئے۔ پرانے شہر کی تاریخ کو بھی ہمیں قائم رکھنا چاہئے اور ہم باقاعدہ اس کیلئے جو بھی ہو سکے کرتے ہیں ۔مقامی لوگوں کی جو روایات ہیں ان کو بھی ہم honourکرتے ہیں ۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس عالاقے میں مَیں نے دیکھا ہےبلکہ مسجد کے سامنے بھی کھیت نظر آتے ہیں ، شہر کے ارد گرد سارازرعی علاقہ ہے اور زراعت کا انحصار پانی پر ہوتا ہے ۔ اگر پانی نہ ہو، بارشیں  نہ ہوں ، خشک سالی ہو تو فصلیں خراب ہو جاتی ہیں۔ اب ذرا بھی گرمی یورپ میں زیادہ پڑی ہے تو بہت سارے ملکوں کے جنگلوں میں آگ لگ گئی۔ امریکہ میں تو ہر سال آگیں لگتی ہیں ، اس سال کینیڈا میں بھی بڑے وسیع پیمانے پر آگ لگی ، یورپ میں بھی بعض ملکوں میں آگ لگی۔ موسم میں ذرا سی تبدیلی سے نہ صرف یہ کہ زراعت میں کمی واقع ہوجا تی ہے بلکہ جوalreadyجنگلات اور سبزہ ہے اسے بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ زراعت کیلئے پانی ضروری ہے اور وہ پانی جو آسمان سے اترتا ہے ۔اسی طرح ہم یقین رکھتے ہیں کہ یہی مثال انسانوں کی روحانی زندگی میں بھی ہے ۔ اگر آسمان سے پانی نہ اترے تو روحیں مردہ ہو جاتی ہیں ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنا قانون قدرت یہ بنایا ہوا ہے کہ وقتاً فوقتاً قوموں میں انبیاء بھیجتا رہا۔ جب سے دنیا قائم ہے اور جو تاریخ ہمیں معلوم ہے ، ہمیں یہی پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء مختلف قوموں میں آتے رہے اور روحانی پانی بھی ہمیں پہنچاتے رہے اور اس کی وجہ سے قوموں میں روحانی زندگی بھی پیدا ہوتی رہی اور روحانی فصلیں بھی اگتی رہیں۔ اس لحاظ سے بھی ہمیں غور کرنا چاہئے کہ ہماری زندگیوں کا ایک مقصد ہے اور اگر ہمیں زندہ رہنا ہے تو روحانیت کیلئے بھی زندہ رہنا ہے۔ اپنے پیدا کرنے والے سے تعلق کو بھی زندہ رکھنا ہے۔ جو ہمارا پیدا کرنے والا ہے اس نے ہمیں اس طرف توجہ دلائی کہ مجھ سے اگر تعلق رکھنا ہے تو پھر میری مخلوق سے بھی تعلق رکھو۔ ان کے بھی حق ادا کرو ۔ پس جب ہم مسجد بناتے ہیں تو اس مقصد سے بناتے ہیں ، جہاں ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے والے ہوں جو روحانی پانی ہے اس سے فائدہ اٹھانے کیلئے دعا کرنے والے ہوں ، وہاں  بندوں کے حق بھی ادا کرنے والے ہوں اور بندوں کے حق ادا کرنا اس لئے ضروری ہے کیونکہ قرآن کریم میں بڑا واضح لکھا ہوا ہے کہ اگر تم ایک دوسرے کا حق ادا نہیں کروگے ،بندوں کے حقوق ادا نہیں کروگے، یتیموں کے حق ادا نہیں کروگے ، ضرورتمندوں کے حق ادا نہیں کروگے یا مذہبی آزادی کے حقوق غصب کروگے ، کسی بھی قسم کے حقوق غصب کرو گے تو تمہاری نمازیں تم پر الٹا دی جائیں گی ۔ ان کا کوئی فائد ہ نہیں ہو گا۔ وہ اللہ کے نزدیک قبول نہیں ہوں گی۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: پس یہ مسجد جس کا نام مسجد خبیر رکھا گیا ہے ، یہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ہر عمل سے باخبر ہے۔ اسکو پتا ہے کہ جو بھی ہم عبادت کرتے ہیں جو بھی ہم کام کرتے ہیں وہ کس نیت سے کررہے ہیں ، اسکے علم میں بھی ہے اور اس کو اس کی خبر بھی ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس کے نتائج پھر کیا ہوں گے۔ اس لئے جو کام ہم کرتے ہیں اس لئے کرتے ہیں تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کر سکیں اور اس کی باتوں پر عمل کر سکیں اور یہ تبھی ہوگا جب ہم اس کی مخلوق کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں گے۔ زراعت کی مَیں نے مثال دی ۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں  فرماتا ہے کہ اندھیروں میں تم دانہ ڈالتےہو۔ تمہیں نہیں پتا کہ اس نے اگنا ہے یا نہیں اگنا۔ ہزاروں دانے ڈالے جاتے ہیں اور ان میں چند فیصد دانے ہیں جو اگتے ہیں اور اس پربھی زمینداربہت خوش ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے خبر ہے کہ زمین کے اندھیروں میں کونسے دانے اگنے والے ہیں اور کون سے دانے اگنے والے نہیں ہیں۔ پس مجھے ہر چیز کی خبر ہے۔ مَیں ہر چیز کا علم بھی رکھنے والا ہوں اور مَیں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس کے بعد اس کے نتیجے کیا پید اہوں گے ۔ اسی لئے میں تمہیں کہتا ہوں کہ میری تعلیم پر تم بھی عمل کروتا کہ پھر میں بھی تمہیں وہ پھل لگاؤں جو میری رضا کے پھل ہوں ۔ ایک مذہبی جماعت کی حیثیت سے ہمارا سب سے بڑا کام تو یہی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کریں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ میری عبادت کرو اور میری عبادت کے ساتھ میرے بندوں کے حق ادا کرو تو میں وہ پھل لگاؤں گا جو تم چاہتے ہو ، جن سے تمہیں فائدہ ہو گا۔ جو تمہاری زندگی کو روحانی غذا مہیا کرینگے۔ پس یہ چیز ہے جس کے لیے ہم مساجد بناتے ہیں اور یہی چیز ہے اگر اس کا ادراک ہم میں سے ہر کسی کو حاصل ہو جائے تو پھر جہاں ہم اللہ کی عبادت کرنے والے بنیں گے وہاں اس کی مخلوق کا حق پہلے سے زیادہ ادا کرنے والے ہونگے۔ امیر صاحب نے بتایا کہ یہاں اس سڑک کا نام Peace Street رکھا گیا ہے۔ میری دعا ہے کہ اس نام کے ساتھ نہ صرف یہ سڑک، بلکہ اس شہر کی ہر سڑک جو ہے وہ امن کی طرف لے جانے والی ہو۔ اس شہر کا ہر گھر اور اس میں رہنے والوں کی سوچ امن، پیار اور محبت کی سوچ ہو، جس کی آج دنیا کو ضرورت ہے۔ پس ایک سڑک نہیں بلکہ ہر گھر، ہر محلہ ، ہر شہر اور ہر ملک کو آج ضرورت ہے کہ وہاں امن قائم ہو اور یہی میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امن کو ہمیشہ قائم رکھے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: پرونشل پارلیمنٹ کی وائس پریذیڈنٹ آئیں۔ انھوں نے بین المذاہب ڈائیلاگ کا ذکر کیا۔ یہ ضروری چیز ہے۔ ہم تو ہر مذہب کی عزت کرتے ہیں۔ بانی جماعت احمدیہ کا اپنے زمانہ میں ایک کا نفرنس میں ایک مضمون پڑھا گیا، جس میں ہر مذہب کے نمائندے شامل تھے۔ ہر مذہب کے ماننے والوں نے اپنے مضمون پڑھے۔ اور انھوں نے یہ شرط رکھی تھی کہ اگر یہ بین المذاہب کانفرنس کرنی ہے تو ہر کوئی اپنے مذہب کی خوبیاں تو بیان کرے ، دوسرے مذہب کی برائیاں بیان نہیں کرنی، تبھی دنیا میں امن، سلامتی اور پیار قائم رہ سکتا ہے۔ اس کے بغیر نہیں۔ پس جہاں ہمیں یہ حق ہے ہم اپنے مذہب کی خوبیاں دوسروں کو بتائیں وہاں ہمیں یہ حق نہیں کہ دوسرے مذہب کی برائیاں بیان کریں اور فساد پیدا کیا جائے اور مساجد اسی امن کو قائم کرنے کا ذریعہ ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: روایات میں آتا ہے کہ بانی اسلام حضرت محمدﷺ کے دور میں نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد انہیں ملنے کے لیے مدینہ آیا۔ مسجد نبوی میں بیٹھ کر بات ہو رہی تھی، کچھ عرصہ کے بعد ان میں تھوڑی سی بے چینی پیدا ہونی شروع ہوئی۔ تو آنحضرت ﷺنے ان سے پوچھا کہ تم بے چین ہو کیا وجہ ہے۔ انھوں نے کہا یہ ہماری عبادت کا وقت ہے اور ہم یہاں آپ کی مسجد میں بیٹھے ہیں۔ سمجھ نہیں آرہی ہم عبادت کہاں کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا، ہم سب خدائے واحد کو ماننے والے ہیں ، قرآن شریف میں بھی یہی لکھا ہے کہ اہل کتاب سے کہہ دو کہ ہم میں جو مشترک چیز ہے، اللہ تعالیٰ ، اسکی طرف آؤ، اختلاف کو چھوڑ دو تبھی بین المذاہب ڈائیلاگ کامیاب ہوتے ہیں اور جب اس کی طرف آؤ گے تو نفرتیں ختم ہو جائیں گی۔ بہر حال آنحضرتﷺ نے انہیں کہا کہ بے چین ہونے کی ضرورت نہیں۔ مسجد نبوی میں تم بیٹھے ہو، یہیں تم عبادت کر لو۔ سب ایک خدا کو ماننے والے ہو تو یہاں ہی عبادت کر لو۔ اس طرح نجران کے عیسائیوں کو بھی آپ نے اپنی مسجد میں عبادت کی اجازت دی۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میئر صاحب نے ذکر کیا کہ آج کے ہی دن کئی دھائیاں پہلے چرچ کا بھی افتتاح ہوا تھا، آج وہی دن پیر کا دن ہے جب مسجد کا بھی افتتاح ہو رہا ہے۔ یہ حسن اتفاق ہمیں اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ ہم لوگ ایک ہو کر رہیں۔ایک مذاہب کے ماننے والے کسی دوسرے مذہب کی توہین نہ کریں اور آپس میں محبت اور پیار سے رہیں۔ پہلے میئر کا بھی انھوں نے ذکر کیا، ان کے ذریعہ سے میں ان کا بھی شکر یہ ادا کرتا ہوں۔ انھوں نے بھی خاص تعاون کیا، ان کا میں پہلے بھی شکر یہ ادا کر چکا ہوں کہ انھوں نے ہمیں یہاں مسجد بنانے کی اجازت دی اور اسی طرح پیس سٹریٹ ، نام کا انھوں نے ذکر کیا ہے۔ اس کا پہلے بھی میں ذکر کر چکا ہوں۔ پاکستان کے احمدیوں کے متعلق جذبات کا اظہار کیا۔ ہم ان کے بڑے ممنون ہیں کہ وہ لوگ جن کی مذہبی آزادی چھینی جارہی ہے ، جن کو مذ ہبی تعلیمات پر عمل کرنے کی اجازت نہیں، ان کو اس ملک میں اور اس شہر میں بسا رہے ہیں۔ جگہ دے رہے ہیں، اس سے یہ اظہار ہوتا ہے کہ ان کے دل واقعی کھلے ہیں اور یہ مذہبی آزادی پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ملک کے قانون کی عزت و احترام کرنا،ہم تو ہیں ہی ہر ملک کے قانون کی عزت و احترام کرنے والے اور محبت اور پیار پھیلانے والے لوگ ہیں۔ ہم حضرت محمدﷺ کے اس ارشاد پر عمل کرنے والے ہیں کہ ملک کی محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ ملک کی عزت، ملک کی خدمت کرنا اور انسانیت کی عزت قائم کرنا ہمارا کام ہے۔ پس اس لحاظ سے ہماری بھی یہ دعا ہے کہ محبت کی فضاء جس کا اظہار میئر صاحب نے کیا ہمیشہ قائم رہے اور اس چھوٹے سے شہر میں ہم محبت اور پیار سے رہیں۔ پھر اس شہر کی integration کی نمائندہ حلیمہ صاحبہ تشریف لائیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمان ہیں۔ قومیتوں کی انٹیگریشن کا اظہار کیا ہے۔ یہی چیز ہے جو معاشرہ میں امن اور پیار قائم کر سکتی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا کہ ہمیں کیسے ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے اور ملک کی محبت کا بھی یہی تقاضا ہے۔ ہر ایک کے اپنے خیالات ہوتے ہیں، میئر صاحب نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا، انٹیگریشن کی نمائندہ نے بھی اظہار کیا۔ ہر ایک کے اپنے اپنے اصول ہیں ، قاعدے ہیں، روایات ہیں ان پر عمل کرتے ہیں، لیکن محبت اورملک کی خدمت کرنے میں ہم سب ایک ہیں۔ میرے نزدیک میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ انٹیگریشن اور ملک سے محبت کا مطلب یہ ہے کہ ملک کی خدمت کی جائے۔ اس کی ترقی کیلئے کوشش کی جائے۔ اس ملک میں امن اور بھائی چارہ کی فضاء قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر دشمن کوئی حملہ کرتا ہے تو اسکے دفاع کیلئے سب سے پہلے آگے آیا جائے۔ پس احمدی تو اس دفاع کیلئے سب سے آگے کھڑے ہیں اور یہی انٹیگریشن ہے۔ انٹیگریشن یہ نہیں کہ ضرور کلبوں میں جایا جائے یا شراب پی جائے یا کوئی ایسا کام کیا جائے۔ یہ تو ہر کسی کی اپنی اپنی روایات ہیں۔ ٹھیک ہے کسی کو بر انہیں لگتا تو وہ کرے۔ لیکن ہماری جو تعلیمات ہیں اگر ہم اس پر عمل نہیں کرینگے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنی دینی تعلیم سے دور ہو رہے ہونگے۔ یہ دینی تعلیم ہمارے لیے بہت ضروری ہے اور یہ دینی تعلیم ہی ہمیں اس طرف لے کر جاتی ہے کہ تم نے ملک سے محبت بھی کرنی ہے اور ملک کے عوام کیلئے بھر پور محنت کرنی ہے اور انہیں عزت و احترام دینا ہے۔ ہر قسم کے جھگڑے کو ختم کرنا ہے۔ قرآن کریم میں آیا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں انصاف سے دور نہ کرے۔ انصاف کے قریب ترین رہو۔ یہی تقویٰ ہے۔ ہم تو اس تعلیم پر عمل کرنے والے ہیں۔ جہاں بھی ہم جاتے ہیں محبت اور پیار کا ہی پیغام دیتے ہیں۔ صرف یہ نعرہ نہیں۔ آپ افریقہ میں چلے جائیں، ترقی پذیر ممالک میں چلے جائیں۔ وہاں ہم نے بہت سارے پروجیکٹس شروع کیے ہوئے ہیں۔ صحت کے ، تعلیم کے ، ماڈل ولیجز کے ، پانی کی سپلائی کے بلا تفریق مذہب و قوم ہم ہر ایک کی وہاں خدمت کر رہے ہیںبلکہ ہمارے دنیا میں مختلف پروجیکٹس سے فائدہ اٹھانے والے عموما میں اکثر کہا کرتاہوں ستر سے اسی فیصد لوگ جو ہیں وہ غیر مسلم ہیں۔ پس ہم ہر جگہ جا کر یہ کوشش کرتے ہیں کہ ملک کے عوام کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی جائے اور یہی وہ چیز ہے جس سے انسانیت کی قدریں قائم ہوتی ہیں۔ جس سے ہمارا پیدا کرنے والا خدا ہم سے خوش ہوتا ہے اور پھر اس کے نتیجہ میں ہمیں نوازتا ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ضمناً میں یہ بھی ذکر کر دوں، انٹیگریشن کی نمائندہ صاحبہ نے ذکر کیا کہ عورتیں یہاں نظر نہیں آرہیں۔ مجھے تو یہاں بیٹھی کافی عورتیں نظر آرہی ہیں اور ان کی مراد احمدی عورتوں سے ہے تو وہ قریب ہال میں بیٹھی ہوئی ہیں، وہ اپنے آپ کو وہاں زیادہ comfortable محسوس کرتی ہیں۔ آپ خود جا کر ان سے پوچھ لیں کہ آیا وہ آزادی سے بیٹھ کر comfortable محسوس کر رہی ہیں یا یہاں مر دوں میں بیٹھ کر تو بہر حال ہر ایک کی اپنی اپنی روایات اور تعلیمات ہوتی ہیں۔ اگر ہم ان پر چل رہے ہیں تو اس پر کوئی اعتراض کی بات نہیں۔ ہاں آزادی ہماری عورتوں کو ہے۔ ہماری عور تیں پڑھی لکھی ہیں۔ ہماری عور تیں ڈاکٹر ہیں، انجینئر ہیں، وکیل ہیں، ٹیچر ز ہیں اور ہر جگہ کام کرنے والی ہیں۔ وہ اپنے اجتماع خود آر گنائز کرتی ہیں اور independently کرتی ہیں اور بعض دفعہ مردوں سے زیادہ اچھے آر گنائز کرتی ہیں۔ اس لیے جہاں تک عورت کی آزادی کا خیال ہے تو وہ ہمارے اندر کھلی ہے۔ اسلام میں جہاں تک گھر یلو عورت کا ذکر ہے تو وہاں یہی فرمایا کہ اپنی عورتوں سے اپنی بیویوں سے حسن سلوک کرو۔ تو یہ حسن سلوک اور عزت و احترام ہے جو ہم ہر عورت کا کرتے ہیں۔ یہ نہیں ہے کہ ہم نے ان کو حقیر سمجھ کر اپنے آپ سے دور رکھا ہوا ہے۔ بلکہ ان کی آزادی وہ سمجھتی ہیں کہ بہتر ہے اور اکثر جگہ سے مجھے تو یہی رپورٹ آتی ہے کہ ہم مذہب کے لحاظ سے عمل کرنے والی ہیں اس لیے ہم سمجھتی ہیں کہ ہم comfortable ہیں۔ جہاں تک کسی پیشے کا تعلق ہے، دنیا میں چلنے پھرنے کا تعلق ہے ، کام کرنے کا تعلق ہے ، بچوں کی تربیت کا تعلق ہے تو وہ بہت ضروری ہے۔ بلکہ اسلام تو یہ کہتا ہے، آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جس کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کو اچھی تعلیم دے اور پروان چڑھائے تو وہ جنتی ہو گا۔ جنت میں جانے والا ہو گا۔ عورتوں کی تعلیم پر تو اتنا زور ہے۔ اسی لیے احمدی معاشرہ میں آپ جائزہ لے لیں کہ عورتوں کا literacy rate مردوں سے زیادہ ہے۔ اعلیٰ کوالیفائڈ عور تیں زیادہ ہیں اور مرد کم ہیں۔ یہی اصل چیز ہے جو اگلی نسل کی تربیت کے لیے بھی ضروری ہے اور مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ چیز قائم رہے گی۔ یہ مسجد اس شہر میں امن، پیار اور محبت کا ایک سمبل بن کر رہے گی۔ ہم اس شہر کے لوگوں کی جس حد تک خدمت ہو سکے گی کرینگے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آخر میں فرمایا: یہاں کے احمدیوں کو بھی میں کہتا ہوں کہ اب ان کی پہلے سے بڑھ کر ذمہ داری ہو گئی ہے کہ اس شہر کی خدمت کریں اور اس مسجد کا حق ادا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ یہاں کے لوگوں کا بھی حق ادا کریں۔ آپس میں پیار و محبت سے رہیں۔ اللہ تعالٰی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصراہ لعزیز کا یہ خطاب 7بجکر 12 منٹ تک جاری رہا۔ بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔ دعا کے بعد تمام مہمانوں کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا۔
بعد ازاں پروگرام کے مطابق آٹھ بجے یہاں سے واپس بیت السبوح کیلئے روانگی ہوئی اور قریباً 45 منٹ کے سفر کے بعد آٹھ بجکر 45 منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بیت السبوح میں تشریف آوری ہوئی۔ نو بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لاکر نماز مغر وعشاء جمع کر کے پڑھائی۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

مہمانان کے ایمان افروز تاثرات

آج کی اس تقریب میں شامل ہونے والے بہت سے مہمان اپنے جذبات اور تاثرات کا اظہار کئے بغیر نہ رہ سکے۔ یہاں بعض مہمانوں کے تاثرات پیش کئے جاتے ہیں۔
ایک خاتون مہمان ہائیکے ہوف مان صاحبہ (Heike Hofmann) جو صوبائی پارلیمنٹ Hessen کی vice presidentہیں نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا:پہلی بار مجھے خلیفۃ المسیح کو اس طرح سے ملنے کا موقع ملا۔ آپ بہت ہی متاثر کن شخصیت ہیں۔ آپ نے نہایت ہی پر حکمت اور واضح طور پر پیغام ہمارے سامنے رکھا۔ مجھے یہ بات بھی نہایت اچھی لگی کہ خلیفۃ المسیح نے دوسرے ایڈریسز کے بارہ میں بھی ذکر فرمایا۔ آپ کا بات کرنے کا انداز بھی بہت پر سکون اور پیار والا تھا۔
ایک مہمان ڈومنگ شٹاؤلر صاحب (Dominik Stadler) جو شہر Babenhausen کے میئر ہیں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:میں نے پہلی مرتبہ خلیفہ المسیح کو دیکھا اور مجھے یہ بات تسلیم کرنی ہو گی کہ بہت ہی متاثر کن اور بارعب شخصیت ہیں۔ آپ نے بہت ہی خوبصورت باتیں بیان کیں خاص طور پر پانی کی جو مثال بیان کی کہ جس طرح زراعت کیلئے پانی کی اہمیت ہوتی ہے اسی طرح ایمان کی بھی اہمیت ہوتی ہے۔Baben hausen کی جماعت احمد یہ بھی نہایت اچھی ہے اور لوکل امام سے میں پہلے ہی متاثر تھا لیکن خلیفۃ المسیح کو دیکھ کر کئی گناہ زیادہ متاثر ہو گیا۔
ایک مہمان گابری ایل سمو لیک صاحب (Gabriel Smolek) نے کہا کہ : خلیفہ کے بارہ میں کچھ بیان کرنا نہایت ہی مشکل امر ہے کیونکہ میں نے ان جیسی شخصیت کو اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا۔ ایڈریسز بہت اچھے اور دلچسپ تھے جن میں بہت گہرے موضوعات کا ذکر ہوا۔ حضور کے الفاظ نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے سب کے برابر حقوق کا ذکر کیا اور مرد اور عورتوں کے الگ اٹھنے بیٹھنے کے بارہ میں نہایت پر حکمت وضاحت بیان فرمائی۔
کلائودیہ صاحبہ (Claudia) شہر Erzhausen کی میئر ہیں اور وہ اپنے خیالات کے اظہار میں کہتی ہیں: یہ ایک بہت ہی غیر معمولی موقع تھا کہ his holiness سے میں ملی۔ حضور کے خطاب نے ہر اس بات کی تصدیق کی جو میں نے قرآن میں پڑھی تھی۔ ان کی شخصیت اور ان کے الفاظ بالکل وہ چیزیں ظاہر کر رہے تھے جو مجھے قرآن میں پڑھنے کو ملیں۔ احمدی بے شک جہاں سے بھی ان کا تعلق ہو، ہمیشہ قانون کا احترام کرتے ہیں۔
شہر Pfungstadt کے head of police ہیرلڈ ہیلڈمان (Herald Heldmann) صاحب اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: خلیفۃ المسیح ایک بہت ہی تجربہ کار شخصیت ہیں۔ ان کے تعارفی کلمات بہت ہی دلکش تھے ۔ انہوں نے جو پانی اور زراعت کی مشابہت کی بات بیان کی اور اس کا پھر ایمان سے موازنہ کیا بہت اعلیٰ بات تھی۔ ان کا پورا خطاب ہی امن کا ایک پیغام تھا۔ ایک بات جو میرے دل کو چھونے والی تھی وہ حضور کا عورتوں کے بارہ میں بات کرنا تھا۔ مجھے ان باتوں کا کچھ علم نہ تھا۔ میں تو یہ سمجھتا تھا کہ عورتوں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے لیکن خلیفۃ المسیح نے اس معاملہ کو بہت ہی واضح کر دیا۔ ہم عیسائی اکثر سمجھتے ہیں کہ عورتوں پر اسلام میں ظلم کئے جاتے ہیں لیکن اس طرح سے بالکل بھی نہیں جیسا کہ خلیفہ نے وضاحت فرمادی۔
ما کسی میلیان شیمل، صاحب (Maximilian Schimmel) جو کہ Pfungstadt کی CDU پارٹی کے chairman ہیں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: یہ بہت ہی تعریف کے لائق ہے کہ خلیفہ المسیح نے پہلے سے کوئی تیار اور تحریر شدہ تقریر ایسے ہی پیش نہیں کی بلکہ آپ نے اپنے سے پہلے مقررین سے بھی اپنے خطاب کے دوران مخاطب ہوئے۔ آپ کو دیکھ کر یہ معلوم ہوا کہ آپ کو حقیقت میں ہر ایک انسان کی فکر ہے۔ آپ نے ایسی باتوں کا آج ذکر کیا جو حقیقتاً اہمیت کے حامل ہیں ۔ مجھے اس بات نے بھی بہت متاثر کیا کہ حضور نے اس بارہ میں بات کی کہ عورتوں کا اسلام میں کیا مقام ہے اور جو تنقید ایک مقرر خاتون نے کی اس کارد فرمایا۔
خلیفہ نے کچھ ایسی باتوں کا ذکر کیا جو مجھے یقیناً سوچنے پر مجبور کریں گی بلکہ کچھ اس طرح کی باتیں بھی تھیں جن سے مجھے زندگی کا مقصد معلوم ہوا۔ جو بات مجھے آپ کے خطاب میں سب سے اچھی لگی وہ یہ تھی جو آپ نے زراعت کی مثال پیش کی۔
اندریاس فیٹسل صاحب(Andreas Fitzel) نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا: حضور کو دیکھنا ایک نہایت ہی غیر معمولی عمل تھا۔ حضور کی شخصیت بہت ہی متاثر کن تھی اور آپ میں ایک مزاح کی حس بھی پائی جاتی ہے۔ حضور کے الفاظ کا اثر بہت اچھا تھا اور آپکی موجودگی کا ایک احساس تھا۔ جو باتیں آپ کے خطاب میں بہت ہی اچھی تھیں وہ یہ تھیں کہ آپ نے ایسے نکات بتائے جن کے ذریعہ امن پیدا کیا جاسکتا ہے اور انسانوں کی جدائیاں دور کی جاسکتی ہیں۔
کیر ستین اور ڈیٹر یا نوخہ(Kirstin & Dieter Janocha) اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: دوسرے مسلمان گروہوں کے بر عکس یہ اسلامی جماعت تشدد پسند نہیں ہے اور integrate کرتی ہے اور ان کا مذہب انسانیت کو ایک دوسرے کے قریب لانے والا ہے اور انسانیت میں بھائی چارے کی تعلیم دے رہا ہے۔ حضور کی شخصیت بہت ہی متاثر کن تھی۔ یہ بات تو آپ کی آنکھوں سے ہی واضح ہو رہی تھی، جب آپ تشریف فرما تھے۔ آپ کا خطاب بہت ہی جامع تھا۔ ہمیں تو خاص طور پر وہ والا حصہ اچھالگا جس میں حضور نے اکٹھے مل کر کام کرنے کی طرف توجہ دالائی۔ جو نہی حضور ہال میں داخل ہوئے تو اتنی خاموشی چھا گئی تھی۔ یہ بہت ہی متاثر کن نظارہ تھا۔
شہر Pfungstadt کے میئر پیٹرک کوخ (Patrick Koch) صاحب نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا : مجھے آج بھی حضور کو دیکھ کر وہی محسوس ہوا جو مسجد کے سنگ بنیاد کے دن محسوس ہو ا تھا۔ حضور سے ملاقات ایک خاص ملاقات ہوتی ہے کیونکہ آپ ایک عام شخصیت نہیں بلکہ بہت ہی خاص ہیں۔
ملاقات کے دوران زراعت کے موضوع پر بھی ہماری گفتگو ہوئی۔ اسکے علاوہ سابق میئر صاحب کا بھی ذکر ہوا جو آج بیمار ہونے کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکے تھے۔ اس پر حضور نے ان کیلئے بہت سی دعائیں بھی دیں۔
گریگری کنوپ صاحب (Gregory Knop) جو شہر کے کونسل میں کام کرتے ہیں، انہوں نے کہا: مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آج میں نے حضور کو دیکھا کیونکہ اس سے قبل میں نے انہیں صرف youtube یا online پردیکھا ہوا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ بہت پر حکمت، ذہین اور پر سکون شخصیت ہیں۔ مجھے عورتوں اور مردوں کو علیحدہ علیحدہ بیٹھنے کے بارہ میں ان کا نقطہ نظر بھی سمجھ آگیا۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ مسلمان عور تیں علیحدہ خوش رہتی ہیں۔
رائیز و ببر صاحب (Reiner Weber) اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: آج پہلی بار حضور کو دیکھا لیکن آپ کی تحریریں دیکھ چکا ہوں اور ان کا مطالعہ ہے۔ جماعت کے عقائد ان باتوں سے کافی ملتے ہیں جو میرا اپنا یقین ہے۔ his holiness کی شخصیت سے بہت سکون اور امن ظاہر ہوتا ہے۔ اس طرح سے آپ کا ماحول بھی پر امن لگتا ہے۔ آپ کا وجو دلائی لاما یا پوپ جیسا محسوس ہوتا ہے۔
حلیمہ کو تالے صاحبہ (Halima Gutale) انٹیگریشن کے شعبہ میں کونسل میں کام کرتی ہیں۔ وہ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں:میں جماعت کو کئی سالوں سے جانتی ہوں۔ مجھے حضور کا خطاب بہت ہی اچھا لگا اور خاص طور پر مجھے یہ حیران کن لگا کہ حضور مجھ سے بھی مخاطب ہوئے۔ حضور کی یادداشت نہایت اچھی معلوم ہوتی ہے۔ آپ کے بارہ میں ہر حال میں کہا جا سکتا ہے کہ آپ بہت ذہین شخصیت ہیں۔ آپ نے بغیر کسی غصہ کے میری تنقید کا جواب بہت ہی پر سکون انداز میں دیا۔ میرے لئے ضروری تھا کہ اس بات کو واضح کیا جائے کہ مرد اور عورتیں کیوں مسجد میں اکٹھے ہو کر نہیں بیٹھتے۔ حضور نے اسکا بہت ہی عمدہ انداز میں جواب دیا۔ حضور کو خطاب کرنے میں بہت اعلیٰ مہارت حاصل ہے۔ حضور کی شخصیت نہایت ہمدردانہ محسوس ہوتی ہے۔ آپ انصاف پسند اور پیار والے لگتے ہیں۔
ریناٹے ناگل صاحبہ (Renate Nagel) اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں:مجھے اس پروگرام میں شامل ہو کر بہت خوشی ہوئی۔ بہت سی باتوں نے میرے دل کو چھوا۔ میں خود بھی بہت ہی مذہبی انسان ہوں۔ حضور کے احترام سے میں نے آج اپنا سر ڈھانک لیا تھا۔ آج میں نے یہاں سے قرآن کریم بھی ساتھ لے لیا ہے اور اب میں اس کا مطالعہ کروں گی اور بائیبل سے موازنہ کروں گی۔
حضور کی یہ بات بالکل درست ہے کہ خدا کا وجود ایک ہستی کے طور پر موجود ہے۔ آپ کے الفاظ بہت تسلی دینے والے تھے اور آپ کی آواز بھی بہت پیاری تھی۔ جو باتیں حضور نے عورتوں کے بارہ میں بیان کیں وہ بالکل درست ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ مسلمان خواتین کتنی پڑھی لکھی ہیں۔ مرد اور عورتوں کو الگ بٹھایا جانا مجھے پسند آیا۔ میں عورتوں کی طرف جاکر ان سے بھی ملی ہوں۔
زوزا نے کولب صاحبہ (Susanne Kolb) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:مجھے جماعت کے ساتھ کام کرنے کا اکثر موقع ملتارہتا ہے۔ حضور کو اتنے قریب سے دیکھ کر بہت ہی خوشی ہوئی۔ حضور کا چہرہ بہت ہی ہمدردانہ اور امن والا لگتا ہے۔ مجھے بہت اچھا لگا کہ حضور نے دوسرے مقررین کے حوالہ سے بھی بات کی۔ مرد اور عورتوں کو علیحدہ بٹھانے کے موضوع پر لوگوں کے بہت سے تحفظات ہوتے ہیں لیکن حضور نے اس کو بہت ہی اچھے انداز میں بیان کیا۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی بہت اچھی لگی کہ حضور نے کہا کہ ہمیں ان باتوں پر غور کرنا چاہئے جو ہم میں مشترک ہیں نہ کہ ان کے بارہ میں جو مختلف ہوں۔
لے آرو من صاحبہ (Lea Roman) اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ حضور کا انداز بہت ہی پر سکون تھا۔ آپ کا خطاب بہت اچھا تھا جس کے ذریعہ سے ماحول میں بھی سکون پیدا کیا گیا۔ صرف ایک مقدس شخصیت ہی اس قسم کا ماحول پیدا کر سکتی ہے۔

…٭…٭…٭…